فیس بک پر ایک بھائی نے سوال کیا ہے کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ. ...
بھائی جان ایک فتوی پوچھنا ہے. وہ یہ کہ ایک حافظ صاحب ہیں ان کی بچپن میں ختنہ نہیں ہوا تھا . کیونکہ انکو یہ پریشانی لاحق تھی کہ انکے اکثر بھائیوں کی جب ختنہ ہوتا تھا تو خون بند ہوتا نہیں تھا بہت دوا کراتے تھے. .. اس کو دیکھتے ہوئے انکے ابا نے انکا ختنہ نہیں کرایا. ..
تو کیا .؟ حافظ صاحب امامت کرا سکتےہیں. ..؟
جزاک اللہ خیرا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب :
اسلام میں بچوں کا ختنہ کروانے کا تاکیدی حکم ہے ،حضوراکرمﷺ نے اس کا حکم دیا اور اسے فطرت میں سے قرار دیا اوراسےاسلام کا شعار بھی قرار دیا جاسکتا ہے ، اس لئے اس کی بہت اہمیت ہے ؛
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ الْخِتَانُ، وَالاِسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ"
"پانچ کام "فطرت ہیں ختنہ کرنا، زیر ناف بال اتارنا، ناخن تراشنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا اور مونچھیں کا ٹنا۔"[صحیح البخاری اللباس باب قص الشارب حدیث 5889۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب خصال الفطرۃ حدیث 257 واللفظ لہ]
اہل علم کے اس کے متعلق جو مختلف اقوال منقول ہیں ان میں درست ترین قول ختنہ کے واجب ہونے کا ہے ،
امام ابن قیمؒ نے " تحفۃ المودود " میں اس کے واجب ہونے کی پندرہ وجوہ بیان کی ہیں ،
ان میں پندرھویں وجہ یہ بتائی ہے کہ :
الْوَجْه الْخَامِس عشر : أَنه شعار عباد الصَّلِيب وَعباد النَّار الَّذين تميزوا بِهِ عَن الحنفاء والختان شعار الحنفاء فِي الأَصْل وَلِهَذَا أول من اختتن إِمَام الحنفاء وَصَارَ للختان شعار الحنيفية وَهُوَ مِمَّا توارثه بَنو إِسْمَاعِيل وَبَنُو إِسْرَائِيل عَن إِبْرَاهِيم الْخَلِيل صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَا يجوز مُوَافقَة عباد الصَّلِيب القلف فِي شعار كفرهم وتثليثهم
ختنہ اہل توحید اور اہل صلیب کے درمیان امتیازی علامت و شعار ہے ، اسی لیئے سب سے پہلے امام الحنفاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کیا ،
اور ان کے بعد یہ ملت حنیفیہ (ملت ابراہیم ) کیلئے شعار ٹھہرا ،سیدنا اسماعیل سے لے کر خاتم الانبیاء پیارے محمد تک تمام انبیاء و موحدین میں یہ عمل متوارث ہے ،اس وجہ سے صلیب کے پجاریوں کی موافقت کسی صورت جائز نہیں۔(تحفۃ المودود لابن قیمؒ )
اور مشہور محقق و محدث علامہ ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں :
قال الشيخ محمّد ناصر الدّين الألباني رحمه اللّه في تمام المنّة - ص 69 :
"وأما حكم الختان فالراجح عندنا وجوبه وهو مذهب الجمهوركمالك والشافعي وأحمد واختاره ابن القيم وساق في التدليل على ذلك خمسة عشر وجها وهي وإن كانت مفرداتها لا تنهض على ذلك فلا شك أن مجموعها ينهض به ولا يتسع المجال لسوقها جميعا ههنا فأكتفي منها بوجهين :
الأول : قوله تعالى : ( ثم أوحينا إليك أن اتبع ملة إبراهيم حنيفا ) والختان من ملته كما في حديث أبي هريرة المذكور في الكتاب وهذا الوجه أحسن الحجج كما قال البيهقى ونقله الحافظ ( 10 / 281 ) .
الثاني : أن الختان من أظهر الشعائر التي يفرق بها بين المسلم والنصراني حتى إن المسلمين لا يكادون يعدون الأقلف منهم . ومن شاء الاطلاع على بقية الوجوه المشار إليها فليراجع كتاب " التحفة " ( ص 53 - 60 ) .
اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ :
" راجح قول کے مطابق ختنہ شرعاً واجب ہے ، امام مالکؒ ،امام شافعیؒ ، امام احمدؒ کا یہی مذھب ہے ،
امام ابن قیمؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور وجوب کی پندرہ وجوہ بیان فرمائی ہیں ،جو مل کر وجوب کا فائدہ دیتی ہیں ،
ان میں اہم ترین یہ وجہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم دیا ہے ،
اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ختنہ ملت ابراہیم کاحصہ ہے ، اسلئے اسے واجب ہی ماننا پڑے گا ،
اور پھر یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ :
ختنہ ایک مسلم اور نصرانی کے درمیان فرق کرتا ہے ،اور امت میں یہ ایسا شعار ہے کہ غیر مختون کوئی امت میں شمار نہیں کرتا ، انتہیٰ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کی اسی اہمیت کےپیش نظر کئی ائمہ نے غیر مختون کی امامت کو ناجائز کہا ہے ،
ابن قیم ؒ لکھتے ہیں :
اختلف الفقهاء فقال الشعبي وربيعة والأوزاعي ويحيى بن سعيد الأنصاري ومالك والشافعي وأحمد هو واجب وشدد فيه مالك حتى قال من لم يختتن لم تجز إمامته ولم تقبل شهادته (تحفۃ المودود )
یعنی امام مالکؒ کا قول ہے کہ غیر مختون کی امامت جائز نہیں ،
اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «الْأَقْلَفُ لَا تَجُوزُ شَهَادَتُهُ» غیر مختون کی شہادت جائز نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے ان حافظ صاحب کو چاہیئے کہ فوراً کسی ماہر معالج ، یا ہاسپٹل سے رجوع کرکے اپنا ختنہ کروائیں
ورنہ امامت تو بعد کی بات ان کے متعلق دیگر کئی مسائل سامنے آئیں گے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم