• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کا کردار (حقائق آمیز ڈاکومنٹری)

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
واشنگٹن سے زیادہ کابل اہم ہے‘ طالبان کی اقتدار میں واپسی ہمارے مفاد میں نہیں : حنا ربانی کھر
واشنگٹن سے زیادہ کابل اہم ہے‘ طالبان کی اقتدار میں واپسی ہمارے مفاد میں نہیں : حنا ربانی کھر | NAWAIWAQT

اسلام آباد (آئی این پی) وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے واشنگٹن سے زیادہ کابل اہم ہے۔ عرب ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہمسائے ہونے کی وجہ سے پاکستان کی تقدیر افغانستان سے جڑی ہوئی ہے افغانستان میں جو بھی ہوتا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ 53 ہزار افراد روزانہ پاکستان افغان سرحد سے سفر کرتے ہیں افغانستان میں طالبان کی واپسی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ افغان قبائل کو اپنے مفاد کا علم ہے ہم ان کو نہیں بتا سکتے کہ ان کا مفاد کیا ہے ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا بھارت سے تعلقات بہت بہتر ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضاءپیدا ہو گئی ہے۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
شمالی وزیرستان میں مجوزہ آپریشن کا امریکی خیرمقدم
‭BBC Urdu‬ - ‮پاکستان‬ - ‮شمالی وزیرستان میں مجوزہ آپریشن کا امریکی خیرمقدم‬

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ پاکستان افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جہاں القاعدہ سے جڑے حقانی نیٹ ورک کے شدت پسندوں نے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے افغانستان میں امریکی فوج کے سینئر کمانڈر جنرل جان ایلن سے اپنے حالیہ رابطوں میں اس مجوزہ فوجی آپریشن پر بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ واشنٹگن اس سے پہلے یہ امید چھوڑ چکا تھا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں کوئی فوجی کارروائی کرے گا۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فوجی کارروائی کب شروع ہوگی لیکن انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا جلد ہی ہوگا لیکن اس کا ہدف حقانی نیٹ ورک کے بجائے پاکستانی طالبان ہوں گے۔

‘جنرل کیانی نے یہ اشارہ ضرور دیا کہ انہوں نے وزیرستان میں جانے کے منصوبے بنائے ہیں۔۔۔۔ہماری سمجھ کے مطابق امید ہے کہ وہ مستقبل قریب میں یہ اقدام کریں گے، میں نہیں بتاسکتا کہ کب، لیکن ہمیں جو اشارہ ملا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جلد ہی یہ آپریشن کرنے کے لیے تیار ہیں۔’

امریکہ کو پاکستان سے یہ پرانی شکایت ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں افغان طالبان اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی نہیں کررہا جو پاکستانی علاقے سے افغانستان میں امریکہ اور اسکی اتحادی فوجوں پر حملے کرتے ہیں۔

کئی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ان شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرتا ہے جن کے ساتھ اسکے مضبوط تاریخی تعلقات ہیں اور افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد وہ اسکے لیے فائدہ مند اتحادی ثابت ہوسکتے ہیں۔

اے پی کے مطابق پاکستان کی مجوزہ فوجی کارروائی کا مرکزی ہدف حقانی نیٹ ورک نہ ہونے کے باوجود لیون پنیٹا نے جنرل کیانی کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔

’انہوں (پاکستانی فوج) نے اس بارے میں طویل عرصے تک بات کی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میری یہ امید ہی ختم ہوگئی تھی کہ وہ اس بارے میں کچھ کریں گے لیکن اب یہ لگتا ہے کہ وہ اب یہ قدم اٹھانے جا رہے ہیں‘۔

امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پاکستانی فوج کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بڑی حد تک بہتر ہوئے ہیں جو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے اور پاکستان کی طرف سے نیٹو کی رسد کے راستے بند کرنے کے بعد سے خراب ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جنرل ایلن اور جنرل کیانی کے درمیان حقانی نیٹ ورک کے متعلق خدشات پر بھی بات ہوئی ہے جو افغانستان میں حملے کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی سرحد کے آر پار آتے جاتے ہیں۔

ادھر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف فوج کی نہیں بلکہ پاکستانی عوام بھی اس کا حصہ ہیں۔

پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر ایبٹ آباد کے علاقے کاکول میں واقع فوجی اکیڈمی میں سالانہ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑائی صرف پاکستانی فوج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے اور ضروری ہے کہ قوم اس کے لیے یکسو ہو کیونکہ فوج کی کامیابی عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں اس چیز کا احساس ہے کہ کسی فوج کے لیے سب سے مشکل کام اپنے ہی عوام کے خلاف لڑنا ہے لیکن یہ آخری حربہ ہوتا ہے۔


انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ریاست اپنے اندر متوازی نظامِ حکومت یا عسکری قوت برداشت نہیں کر سکتی۔

جنرل کیانی نے کہا پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور مذہبی عدم برداشت، سیاسی اتھل پتھل اور انارکی ملک کے لیے بڑے خطرات ہیں۔

ان کے مطابق اس وقت انتہاپسندی اور دہشتگردی سے ملک کو اصل خطرہ لاحق ہے۔ ’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان مسائل کے لیے ذمہ دار نہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے‘۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
پاکستان ڈٹ جائے امريکا مدد کو تيار ہے،ہاورڈ برمن
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=64189

لانس اينجلس…ايوان نمائندگان کي خارجہ امور کميٹي کے رکن ہاورڈ برمن کا کہنا ہے .کامرہ جيسے حملے کرکے دہشت گرد پاکستاني فوج کو ناکام بنا نا چاہتے ہيں، دہشتگرد پاکستان جيسے اہم ملک کو غير مستحکم کرنا چاہتے ہيں.لاس اينجلس ميں جيونيوز سے گفتگو کرتے ہوئے ايوان نمائندگان کے خارجہ امور کميٹي کے رکن ہاورڈ برمن نے کہاکہ ہميں دہشتگردوں کے خلاف حکومتي اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہيے جو حکومت اور فوج کو ناکام بنانا چاہتے ہيں. انھوں نے کہاکہ امريکا پاکستان کي مدد کيلئے تيار ہے،پاکستان کو بھي اس قسم کے حملوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہيے.
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
’ہمیں معلوم ہے ہاتھ کھینچ لیا گیا ہے‘
‭BBC Urdu‬ - ‮پاکستان‬ - ‮’ہمیں معلوم ہے ہاتھ کھینچ لیا گیا ہے‘‬

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس ان کے بارے میں کوائف جمع کررہی ہے اور ان سے اپنے گھروں کی واپسی کے بارے میں بھی رائے معلوم کر رہی ہے۔
پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مقامی پولیس نے ان کے کیمپوں کا دورہ کیا اور اس طرح کے سوالات پوچھے ہیں۔

مظفرآباد کے نواحی علاقے چہلہ بانڈی میں دریائے نیلم کے کنارے واقع کشمیری پناہ گزینوں کی کئی خمیہ بستیاں ہیں۔

ان ہی میں سے ایک بستی کے سیکریڑی راجہ فیاض نے کہا کچھ دن پہلے مظفرآباد کے صدر تھانے سے دو پولیس اہلکار اور (پولیس کی) سپیشل برانچ کا ایک اہلکار ان کے پاس آیا اور انہیں ایک فارم دیا جس پر فارم پُر کرنے والے کا نام، کوڈ نام، ولدیت اور وادی میں ان کا پتہ پوچھا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ وادی کشمیر میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں یا نہیں اور اس جواب کی وجوہات بھی بتائی جائیں۔
فیاض کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی البتہ یہ کہا کہ وہ ایسا حکامِ بالا کے کہنے پر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنے والے محمکہ بحالیات نے انہیں پولیس کو کسی قسم کی کوئی تفصیل فراہم کرنے سے منع کیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے تفصیلات کے لیے دو تین مرتبہ ٹیفلیون بھی کیا لیکن ہم نے یہ معلومات دینے سے انکار کردیا۔

اسی بستی کے ساتھ واقع ایک اور بستی کے صدر راجہ اظہار خان نے کہا کہ انہوں نے یہ سارا معاملہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کے سامنے بھی رکھا۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے ان کی بات کو مذاق میں ٹال دیا اور انہیں اس معاملے پر مزید بات کرنے سے روک دیا۔

کئی کشمیری پناہ گزین اس پیش رفت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

راجہ اظہار خان کے بھی اس بارے میں تحفظات ہیں۔

’ہم گونگے بہرے نہیں ہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں ( پاکستان) نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ وہ لوگ جنہیں ہم رات کے بارہ بجے بھی پکارتے تھے تو ان کے بڑے افسر آجاتے تھے، آج تین ماہ سے ہم درخواست کر رہے ہیں لیکن چھوٹے سے چھوٹے درجے کا افسر بھی نہیں ملتا۔ ہم سمجھتے ہیں انہوں (حکومت پاکستان) نے ہماری آزادی کی تحریک سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔‘

راجہ اظہار خان نے کہا کہ وادی میں ہماری زمینیں، مکان اور جائیداد سب ختم ہوچکی ہیں اور ایسے حالات میں ہم کیسے واپس جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’ہم آزادی کی خاطر آئے ہیں، ہم واپس جا کر لوگوں کو کیا جواب دیں گے، میرے تین عزیز شہید ہوئے ہیں، میں ان کے خاندان والوں کو کیا جواب دوں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر انہیں زبردستی واپس بھیجا گیا تو وہ وہاں جا کر احتجاج کریں گے اور لوگوں کو بتائیں گے اب وہ دوبارہ دوکھہ نہ کھائیں۔‘

کچھ ایسے بھی پناہ گزین ہیں جو موجودہ صورت حال میں واپس جانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں۔

راجہ فیاض نے کہا ’جس مقصد ( کشمیر کی آزادی) کے لیے ہم آئے ہیں اگر وہ حل نہیں ہوتا تو ہمیں عزت، وقار اور کسی معاہدے کے تحت واپس بھیج دیں تاکہ کل ہمیں وہاں کوئی طعنے نہ دے اور ہماری کسی غلطی پر یہ نہ کہا جائے کہ یہ غدار ہیں یہ پار (مظفرآباد) گئے تھے۔‘

کئی پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے بےتاب ہیں۔

’ہم تحریک آزادی کشمیر کے لیے آئے تھے، اب وہ تحریک ختم کردی گئی ہے، ابھی ہمیں ویسے ہی بند کر رکھا ہے، ہماری ان سے گزارش ہے کہ یہ ہمیں چھوڑ دیں، ہمارے راستے چھوڑ دیں، ہم واپس جانا چاہتے۔‘

مظفرآباد میں پولیس کے سربراہ سردار گلفراز نے کہا کہ لوگوں کے کوائف وغیرہ اکھٹے کرنا پولیس کی معمول کی کارروائی ہے۔

لیکن اس معاملے سے واقف ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سروے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ایسے کتنے کشمیری پناہ گزین ہیں جو اپنےگھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب اس سروے کو روک دیا گیا ہے تاہم انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تیس ہزار سے زیادہ پناہ گزین آباد ہیں جو سنہ انیس سو اٹھاسی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز کے بعد لائن آف کنٹرول عبور کر کے اس جانب آگئے تھے۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
قیامت تک سرپٹخ کر بھی امریکہ کا پاکستان کے بغیر اسامہ تک پہنچنا ناممکن تھا
http://ahwaal.com/index.php?option=com_content&view=article&id=21064:2012-08-23-04-11-32&catid=40:ahamkhabrain&Itemid=46&lang=ur

امریکی صحافی رچرڈ منیٹر نے اپنی نئی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ پاکستان کے طاقتور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی)سے تعلق رکھنے والے ایک کرنل نے القاعدہ کے مقتول سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کیلئے امریکی سی آئی اے کو اہم معلومات فراہم کی تھیں۔کتاب کا عنوان ''عقب سے قیادت: متذبذب صدر اور مشیر، جنھوں نے اس کے بارے میں فیصلہ کیا'' (Leading from Behind: The Reluctant President and the Advisers Who Decide for Him)ہے۔ اس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے ایبٹ آباد آپریشن میں امریکی سی آئی اے کے بیان سے کہیں بڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ ''انٹر سروسز انٹیلی جنس کے کرنل رینک کے آفیسر نے اگست 2010 میں اسلام آباد میں واقع سی آئی اے کے اسٹیشن میں جا کر اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے اہم معلومات فراہم کی تھیں''۔اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کے اعتراف سے کہیں بڑھ کر پاکستان نے بن لادن کے خلاف آپریشن میں کردار ادا کیا تھا لیکن اس سے قبل یہ بات بیان نہیں کی گئی اور سی آئی اے ہی نے انکشاف کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے کرنل اسلام آباد میں سی آئی اے کے دفتر سے رابطہ کر کے بن لادن سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی اور اس کے بعد اس حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوئی تھی۔کتاب کے مطابق ''کیا یہ اس بات کا خفیہ اشارہ تھا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بہ ذات خود بن لادن کے خفیہ ٹھکانے کی نشاندہی کر رہے تھے یا درحقیقت کرنل ایک محب وطن تھے اور وہ ان کے اپنے دعوے کے مطابق انتہا پسندوں سے نفرت کرتے تھے۔ محرک خواہ کچھ ہی ہو ،کرنل کے دورے کے بعد سی آئی اے نے ایک ماہ کے اندر ہی اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا سراغ لگا لیا تھا''۔کتاب کے مصنف دو موقر امریکی اخبارات وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ کے ماضی میں رپورٹر رہے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ''پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ممکنہ طور پر امریکا کی جانب سے دسمبر 2010 میں ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں بریف کر دیا گیا تھا اور اس کے لیے ان کی خاموش رضامندی حاصل کی گئی تھی''۔ کتاب میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ''14مارچ 2011 کو وائٹ ہاوس میں ایک اجلاس کے دوران امریکی صدر براک اوباما نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو القاعدہ کے لیڈر کے خلاف کارروائی کے لیے منصوبہ بندی سے متعلق اندھیرے میں رکھا جائے''۔منیٹر نے وائٹ ہاوس سے تعلق رکھنے والے ایک عہدے دار کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو کسی سبکی سے بچانے کے لیے یہ کہانی بھی تراشی گئی تھی کہ اسامہ بن لادن تو بغیر پائیلٹ جاسوس طیارے کے میزائل حملے میں مارے گئے اور ان کی لاش لینے کے لیے امریکی کمانڈوز نے کارروائی کی ہے لیکن جب ایبٹ آباد میں امریکی سیل ٹیم کا ایک ہیلی کاپٹر اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ میں گر کر تباہ ہو گیا تو اس ''کور کہانی'' کو ترک کر دیا گیا۔امریکی مصنف کے بہ قول اگرچہ اس کہانی کی تصدیق تو نہیں ہوئی لیکن اس کی اپنی ایک اہمیت ہے اور وہ یہ کہ پاکستانی فوج کے تربیتی ادارے ملٹری اکادمی کاکول سے صرف آٹھ سو قدم کے فاصلے پر واقع اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ کی موجودگی کے باوجود اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے پر اصرار نہیں کیا۔اس کتاب میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ اسامہ کے کمپاونڈ کا رقبہ دراصل پاکستان ملٹری اکادمی کے رقبے ہی کا حصہ اور اس کی ملکیت تھا اور اس کو وہاں سے کاٹ کر یہ اونچی دیواروں والی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔یاد رہے کہ امریکی وزیر دفاع لیون پینیٹا نے کچھ عرصہ قبل یہ دعوی کیا تھا کہ پاکستان میں حکام میں سے کسی نہ کسی کو تو ضرور اسامہ بن لادن کے ٹھکانے اور ان کی ملک میں موجودگی کا علم تھا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹرز نے ایبٹ آباد میں اس کمپانڈ کے اوپر پروازیں کی تھیں جہاں اسامہ بن لادن مقیم تھا۔مسٹر لیون پینیٹا نے کہا کہ ''میں ذاتی طور پر ہمیشہ یہ بات محسوس کرتا ہوں کہ کسی نہ کسی کو اس بات کا ضرور علم ہو گا کہ اس کمپانڈ میں کیا ہوتا رہا ہے۔ اس کو نظر انداز نہ کریں، اس کی دیواریں اٹھارہ فٹ اونچی تھیں اور یہ علاقے میں سب سے بڑا کمپانڈ تھا۔اس لیے کسی نہ کسی نے تو سوال کیا ہو گا کہ وہاں کیا ہوتا رہا ہے؟''لیکن امریکی وزیر دفاع نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ ان کے پاس اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ پاکستان القاعدہ کے لیڈر کے ٹھکانے کے بارے میں جانتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے اپنی تشویش کے پیش نظر پاکستانی حکام کو اسامہ بن لادن کے خلاف چھاپہ مار کارروائی کے بارے میں پیشگی آگاہ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ ممکنہ طور پر اسامہ بن لادن کو بتاسکتے تھے۔ لیون پینیٹا نے اس انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ایک پاکستانی ڈاکٹر نے امریکا کو اسامہ بن لادن کے بارے میں پیشگی معلومات فراہم کی تھیں جس کی وجہ سے نیوی سیل ٹیم القاعدہ کے لیڈر کی ہلاکت کے لیے چھاپہ مار حملے میں کامیاب رہی تھی۔ ان کے بہ قول ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد کے محفوظ ٹھکانے میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کے لیے سی آئی اے کے ویکسی نیشن پروگرام پر عمل درآمد کیا تھا اور اسامہ بن لادن کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے تھے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اس ڈاکٹر کو بعد میں گرفتارکرلیا تھا اور اس پر غداری کے الزام میں اب مقدمہ چلایا گیا اور اسے عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کی شب خون کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔تب پاکستان کی جانب سے امریکا کی اس یک طرفہ کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ القاعدہ کے سربراہ کے خلاف امریکا کی پاکستانی علاقے میں دیدہ دلیری سے کارروائی سے قبل ہی دونوں ممالک کے درمیان لاہور میں اسی سال جنوری میں امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دوپاکستانیوں کے اندوہناک قتل کے واقعہ پر کشیدگی پائی جاتی تھی۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
ڈرون حملے:دونوں کے لیے قابل قبول حل کی تلاش
‭BBC Urdu‬ - ‮پاکستان‬ - ‮ڈرون حملے:دونوں کے لیے قابل قبول حل کی تلاش‬

پاکستان نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف انصاف کی عالمی عدالت میں جانے کی بجائے ایسا کوئی حل نکالا جائے گا جو دونوں ملکوں کے لیے قابل قبول ہو۔

دفتر خارجہ کے ترجمان معظم خان نے جمعہ کے روز ہفتہ وار بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں کے مسئلے کے دو طرفہ حل کے لیے متعدد تجاویز زیرِ غور ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں کا معاملہ اعلیٰ امریکی قیادت تک پہنچایا گیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی اداروں کی نشاندہی پر ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ حملے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک مذاکرات اس سال ہی ہوں گے ان مذاکرات میں دفاع، توانائی اور جمہوریت سمیت گیارہ شعبوں پر بات ہو گی۔

ایک سوال پر کہ کیا پاکستان ڈرون حملوں کے خلاف بین الاقوامی انصاف کی عدالت میں جائے گا، معظم خان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ ان کے بارے میں میڈیا کو بتاسکیں۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے اس بیان پر کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بداعتمادی بہت زیادہ ہے اور ان میں طلاق ہو جانی چاہیے، معظم خان کا کہنا تھا کہ یہ حسین حقانی کی ذاتی رائے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات باہمی اعتماد پر مبنی ہیں۔

افغانستان سے پاکستانی علاقے میں دراندازی کے سوال پر دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پاکستان کے شدید خدشات ہیں اور پاکستانی قیادت نے افغان قیادت سے بات چیت کی ہے اور دونوں ممالک اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

اُنہوں نے افغان حکومت کے ایک اہلکار کے اس بیان کو بھی مسترد کردیا کہ پاکستان اور ایران کے خفیہ ادارے مل کر افغانستان کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔

بھارت کے ہوم سیکرٹری آر کے سنگھ کے بیان پر کہ پاکستان کے کچھ افراد بھارتی ریاست آسام میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے ، دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر اُن کے پاس ٹھوس شواہد اور اطلاعات ہیں تو پاکستان کو اس سے ضرور آگاہ کریں۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اللہ اکبر......... ابو بکر کا دجالی میڈیا پر ایمان لانے کا عملی مظاہرہ اوپر ملاحضہ فرمائیں ، جناب جب میں نے بھی اسی دجالی میڈیا کی خبریں اور رپورٹس پیش کی تو آپ بخار اآجانا ہے .. :)
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
اللہ اکبر......... ابو بکر کا دجالی میڈیا پر ایمان لانے کا عملی مظاہرہ اوپر ملاحضہ فرمائیں ، جناب جب میں نے بھی اسی دجالی میڈیا کی خبریں اور رپورٹس پیش کی تو آپ بخار اآجانا ہے .. :)
الحمد للہ میں دجالی میڈیا کی باتوں پر ایمان نہیں رکھتا
بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ دجالی میڈیا اپنے اور اپنے دوستوں کے بارے میں تو صحیح خبردے گا
جبکہ اپنے دشمنوں کے بارے میں تعصب آمیز اور جھوٹی خبر سے سکتا ہے
 
Top