محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
دیوبند فرقے کی تبلیغی جماعت کے روحِ رواں کا تحفظِ شیعیت !!!
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔
مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔
یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ
یعنی حاجی اماد اللہ مہاجر مکی فرمارہے ہیں کہ ابن عربی نے مسئلہ توحید جس میں کسی نبی کو بھی اجتہاد کرنے کا اختیار نہیں ہے اجتہاد کرکے امت موحدین پر بہت بڑا احسان کیا ہے-{ اول جس شخص نے اس مسئلہ "عقیدہ وحدۃ الوجود" مین خوض فرمایا وہ شیخ محی الدین ابن عربی ہیں، ان کا اجتہاد اس مسئلہ میں اور اثبات مسئلہ کا براہین واضحہ سے جمیع موحدان کی گردن پر روز قیامت موجود احسان ہے}
(شمائم امدادیہ،ص:33)
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔
مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔
یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ
حالانکہ اس آیت کا ترجمہ ہے کہ" وہی اللہ ہے جس کے سواء کوئی معبود نہیں تمام بہترین نام اسی کے ہیں" یعنی عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے مگر اسکے صفاتی نام بہت ہیں اسلئے اسے اس کے صفاتی نام سے بھی چاہو پکار سکتے ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے برخلاف حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے اس کے نئی تفسیر کی کہ کائنات میں جو بھی چيز ہے وہ اللہ کے اسماء و صفات کا مظہر ہے یعنی اللہ بذات خود ان تمام مخلوقات میں ظاہر ہوا ہے کیونکہ مظہر کے معنی ہیں ظاہر ہونے کی جگہ اس اعتبار سے چاند، سورج، ستارے، انسان، حیوان، شجر اور حجر جو کچھ بھی کائنات میں ہے ان سب میں اللہ کی اسماء و صفات کا کسی نہ کسی شکل میں ظہور ہوا ہے اسے لیے جس کسی کی بھی عبادت کی جائے وہ دراصل اللہ ہی کی عبادت ہوگی-{ حضرت پر توحید بہت زیادہ غلبہ تھا وحدۃ الوجود کو حضرت کے سامنے ایسا معلوم ہوتا کہ مشاہدہ عینی ہے ایک مرتبہ سورہ طہ شنتے رہے اس آیت پر پہنچ کر" اللہ لاالہ الا ھو لہ الاسماء الحسنی' حضرت پر اس کا غلبہ ہوگیا بطور تفسیر کے فرمایا کہ پہلے جملہ پر سوال وارد ہوا کہ جب سوا اللہ کے کوئی نہیں تو یہ حوادث کیا ہیں جواب میں ارشاد ہوا "لہ الاسماء الحسنی" یعنی سب اسی کی اسماء و صفات کے مظاہر ہیں}
(الافاضات الیومیہ الافادات القومیہ یعنی ملفوظات حکیم الامت مافوظ 366، ج1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی بھی فنا فی اللہ کے قائل تھے اور اسکی تصدیق انکے اپنے قلم سے درج شدہ اس حکایت سے بھی ہوتی ہے لکھتے ہیں کہ:{ کسی جلسہ میں بعض لوگوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کو مجبور کرنا چاہا کہ آپ وعظ کریں جبکہ واعظ کرنا ان دنوں حضرت نے موقوف کر رکھا تھا، حضرت والا کو نہایت ہی درجہ تنگی واقع ہوئی کیونکہ نہ انکار فرماسکتے تھے اور نہ اقرار کرسکتے تھے یہ حال دیکھ کر مولانہ ظہور الاسلام صاحب فتح پوری کا دل پانی پانی ہوگیا انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بس بھائی بس اب انھیں کچھ نہ کہو اپنے حال پر چھوڑ دو مولوی شاھ سلیمان پھلواری بھی آئے ہوئے تھے انھوں نے عجیب جواب دیا کہا اگر ایسی حالت میں اس شحض سے واعظ کہلوایا تو بس منبر پر بیٹھتے ہی اسکے منہ سے جو پہلا لفظ نکلے گا وہ "ان الحق" ہوگا ایسی حالت میں اسرار کرنا مناسب نہیں}-
(اشرف السوانح، ج1، ص:217)
ہمارا سوال یہ ہے کہ جس مولوی و مفتی نے ایسے شخص کی نمازہ جنازہ پڑھنے کا فتوای دیا جو اس کے خیال میں خدا تھا تو کیا خدا کا جنازہ بھی پڑھا جاسکتا ہے، سچ ہے کہ صوفیت حماقت کا دوسرا نام ہے-{ رام پور میں ایک مجذوب رہتے تھے جو اپنے آپ کو رب العالمین کہتے تھے ان کے پاس ایک خادم رہتا تھا اور ان کا مکان ہر وقت بند رہتا تھا جب کوئی آتا تو دروازہ پر تین مرتبہ دستک دیتا، اگر دروازہ نہ کھلتا تو وہ واپس ہوجاتا اور اگر ان مجذوب کو بلانا مقصود ہوتا تو خادم آکر دروازہ کھولتا تھا اور وہ شخص دروازہ میں داخل ہوتا خادم دروازے پر اس سے جوتے اتروادیتا اور جوتے ایک طرف کو موقع سے رکھ دیتا، یہ شخص ان کی خدمت میں جاکر سلام کرتا اور عرض و معروض کرتا، ان مجھوب کا قاعدہ تھا کہ اکثر دائيں بائيں اور اوپر منہ کرکے شوں شوں فوں فوں کرتے تھے، ان کی نسبت یہ بھی مشھور تھا کہ ایک مرتبہ انھوں نے خودکشی کرنے کے لیے اپنے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا جس سے آنتیں باہر نکل آئيں اور ان کی بہن رونے لگيں بہن کو راتا دیکھ کر انھوں نے آنتیں اندر کردی اور زخم اچھا ہوگیا، میں اپنے پھو پھا کے ہمراہ ان کے ہاں جایا کرتا تھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں اور پھوپھا ان کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ان کو جوش ہوا اور انہوں نے حسب عادت شوں شوں فوں فوں شروع کی اور کہا فلاں مرتبہ رب العالمین نے رب العالمین سے ملنا چاہا تو فلاں مانع ہوا، اور کہا فلاں مرتبہ رب العالمین نے رب العالمین سے ملنا چاہا تو فلاں مانع ہوا اور فلاں مرتبہ فلاں، اور انھوں نے اپنا پیٹ کھول کر دکھایا تو سینے سے ناف تک ایک لکیر معلوم ہوتی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ انھوں نے کبھی اپنا پیٹ چاک کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی کہا کہ دیکھو آج پھر صبح سے رب العالیمن کو رب العالمین سے ملنے کا شوق ہورا ہے دیکھو کوئی مانع نہ ہو اور یہ کہ کر انھوں نے اپنے بستر کے نیچے سے تراہ کا چھرا نکالا اور گردن پر رکھ کر چلانا چاہتے تھے کہ میرے پھو پھا نے جلدی سے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھ سے چھرا لے لیا وہ بہت دین تک شوں شوں فوں فوں کرتے رہے، جب جوش فرد ہوا تو انہوں نے میرے پھوپھا سے کہا کہ اب چھرا دے دو اب مجھ پر وہ کیفیت نہیں ہے، یہ قصہ نواب یوسف علی خاں کے زمانے کا ہے اسکے بعد تو ہم لوگ رام پور سے چلے آئے، ہمارے چلے آنے کے بعد جب نواب کلب علی خان مسند ریاست رام پور پر متمکن ہوئے تو ان کے زمانے میں یہ قصہ پیش آیا کہ ان مجذوب صاحب نے ایک دن اپنے خادم سے کہا کہ رب العالمین کو رب العالمین سے ملنے کا آج پھر اشتیاق ہورہا ہے اور وہ اپنی گردن کاٹنا چاہتا ہے اگر سر تن سے جدا نہ ہو تو الگ کردینا یہ کہ کر سجدہ میں چلے گئے اور سجدہ میں جاکر اپنی گردن کاٹ لی سر تو تن سے جدا ہوگیا مگر یہ نہیں معلوم کہ خود انھوں نے جدا کیا یا حسب وصیت خادم نے جدا کیا،
اب انکی تجہیز و تکقین ہوئی مگر نماز کے متعلق علماء میں اختلاف ہوا مفتی سعد اللہ صاحب اور ان کی جماعت کہتی تھی کہ انھوں نے خود کشی کی ہے اسلیئے نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور مولوی ارشاد حسین صاحب اور رام پور کے قاضی جو بدایوں کے رہنے والے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ مغلوب و غیر مکلف تھے اس لیے ان کی نماز پڑھنی چاہیے چنانچہ مولوی ارشاد حسین کے فتوای اور نہایت ہی شان و شوکت کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ہوئی اور ان کو دفن کیا گیا- ان مجذوب کے انتقال کے بعد اب ان کا خادم اپنے آپ کو رب العالمین کہنے لگا تھا مگر علماء کی راء سے نواب صاحب نے اسکو رام پور سے نکال دیا اور اسکے بعد اس کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا اور اس کا کیا ہوا}
(ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 442، ص: 440 تا 443)-
{ حضرت موسی کو اس بات کا علم تھا کہ ان کی قوم نے بچھڑے کی نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کی ہے اس لیے کہ عارف ہر شے میں حق کو دیکھتا ہے بلکہ اس کو ہر شئے کا عین دیکھتا ہے}
( فصوص الحکم اردو فص ہارونیہ ص: 384}
{ ابو الحسین نوری ایک مشھور صوفی ہیں ان کے متعلق معروف ہے کہ جب کسی کتے کو بھونکتے ہوئے سنتے تو کہتے تھے کہ "لبیک و سعیدیک" یعنی میں حاضر ہوں اور سعادت نصیب ہوں یہ الفاظ اگرچہ مبہم ہیں مگر صوفیاء کی اصطلاح میں جل شانہ کے الفاظ سے کسی طرح کم بھی نہیں ہیں}
لغت کے اعبار سے لبیک و سعدیک کے معنی ہوتے ہیں کہ تیری اطاعت پر مساعدہ اور مدد کرتا ہوں یہ الفاظ حج کے تلبیہ میں بھی مستعمل ہیں اور دونوں الفاظ مبالغہ کے ہیں جس کے معنی ہونگے کہ میں ہر وقت و ہر بار حاضر ہوں اور تیری اطاعت اور فرمانبرداری پر کمر بستہ ہوں اور اسکے لیے مساعد و مددگار ہون اس صوفی نے یہ الفاظ اس لیے کہے کہ وہ کتے کو اپنا الہ اور معبود سمجھتا اور مانتا تھا اور تبلیغی جماعت کے اکابرین کے اس عقیدہ کی مزید تصدیق کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی ہی کی کتاب سے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائيے لکھتے ہیں کہ:(دین تصوف از محمد یحیی گوندلوی، ص:86)
{ میرے والد کے اندر چشيت بہت غالب تھی حالانکہ وہ کسی چشتی سے مستنفید نہیں ہوئے تھے اور اسی بناپر ان کی یہ کیفیت تھی کہ جس جگہ سنتے تھے کہ فلاں شئے خوبصورت ہے تو سفر کرکے اسے دیکھنے ضرور جاتے تھے (یعنی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہر خوبصورت شئے میں اللہ تعالی خود ظہور فرماتا ہے) چنانچہ ایک مرتبہ انہیں معلوم ہوا کہ جے پور ایک تصویر بہت حسین پس اسے دیکھنے کے لیے جے پور روانہ ہوگئے، اسی طرح ان کو معلوم ہوا کہ لکھنو سے بہت دور مقام پر کسی کے ہاں ہانسی حصار سے کوئی اونٹنی آئی ہے جو بہت خوبصورت ہے یہ سن کر اس اونٹنی کو دیکھنے روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر اس اونٹنی کو دیکھا اور اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسکے سر کو جھکایا اور بوسہ دے کر فرمایا کہ " کہاں ظہور فرمایا ہے" اسی طرح لکھنو کے اطراف میں ایک مقام پر ایک عالم رہتے تھے وہ ایک لڑکے پر عاشق تھے اور اسکو بہت محبت سے پڑھاتے تھے جب والد صاحب کو اس کے حسن کا قصہ معلوم ہوا تو حسب عادت اس کو دیکھنے چل دیئے جس وقت والد صاحب وہاں پہنچے تو اس وقت لڑکا سہ دری کی کوٹھڑی کے اندر تھا اور وہ عالم ایک چارپائی سے کمر لگائے ہوئے اس کوٹھڑی کی طرف پشت کئے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، والد صاحب اسباب رکھ کر ان عالم سے مصافحہ کرنے گئے جب یہ سہ دری پر پہنچے تو وہ لڑکا ان کو دیکھ کر کوٹھڑی سے نکلا، والد صاحب نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ ان کی نظر اس لڑکے پر پڑگئی جس سے مصاحفہ تو رہ گيا اور والد صاحب اس لڑکے کو دیکھنے میں مستغرق ہوگئے}
(ارواح ثلاثہ ص:234-235)
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔
مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔
یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ
{ جو عارف کامل ہوتا ہے وہ ہر شے کو جلوہ گاہ حق جانتا ہے، انھیں جلووں کا سبب ہے کہ نادانوں نے باوجود اسم خاص کے مثلا پتھر، درخت، حیوان، انسان، آگ، ستارے اور فرشتے کو الہ و معبود مانا، الہویت کیا ہے عابد کا تخیل ہے کہ فلاں کے لیے مرتبہ معبودیت ہے}
( فصوص الحکم اردو فص ہارونیہ، ص:389)
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عقیدہ حلول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:{ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور ظہور وحلول میں کیا فرق ہے، فرمایا جیسے صورت کا عکس کہ آئینہ میں اس کا ظہور ہے نہ کہ حلول، باطل انسانی یعنی انسان کا سایہ کہ انسان کا ایک ظہور ہے انسان اس میں حلول کیے ہوئے نہین، صوفیہ کی ایسی مثالوں سے نادانوں کو شبہ حلول ہوجاتا ہے اس لیے مولانا اس سے تبریہ فرماتے ہیں کہ وہ اس سے بھی بالا تر ہے}
( الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ یعنی ملفوظات عکیم الامت ملفوظ 286۔ ج 1)
{ کسی سید ملتانی سے توحید کی مثال پوچھی کہنے لگے جس ایک مٹکے ک وریت سے بھر کر اس میں پانی ڈال دیا جاتے ہے اور وہ پانی اس ریت کے ہر ہر ذرے میں سرایت کرجائے اسی طرح ذات وحدہ لا شریک کائنات کے ہر ذرے میں سرایت کیے ہوئے ہے}
( انفاس العارفین، ص:372)
یعنی شبیر صاحب فرمارہے ہیں کہ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر اب تک جس کسی نےبھی کسی کی تعریف کی درحقیقت اللہ ہی کی تعریف کی جس طرح آفتاب کی پوجا کرنے والے آفتاب کی پوجا اس لیے کرتے تھے کہ ان کو آفتاب سے فیض حاصل ہوتا تھا لیکن آفتاب کی پوجا یا تعریف در اصل آفتاب کی تعریف نہیں بلکہ اللہ کی پوجا اور اس کی تعریف تھی اور اس سلسلہ میں جو شعر انھوں نے نقل کیا ہے اسکا ترجمہ اس طرح ہے کہ{ یعنی سب تعریفیں عمدہ سے عمدہ اول سے آخر تک جوہوئی ہیں اور جو ہونگی خدا ہی کے لائق ہیں، کیونکہ ہر نعمت اور ہر چيز کا پیدا کرنے والا اور عطاء کرنے والے وہی ہے خواہ بلا واسطہ عطاء فرمائے یا بواسطہ جیسے دھوپ کی وجہ سے اگر کسی کو حرارت یا نور پہنچے تو آفتاب کا فیض ہے-}
شعر:
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے بڑی کوتاہی کی بات ہے جس کو اہل فہم خوب سمجھتے ہیں-
( تفسیر القرآن مطبع شاہ فہد پرنٹنگ پریس سعودیہ عریبیہ)
اور اسکے بعد جو جملہ انھوں نے لکھا ہے وہ اس ضمن میں فیصلہ کن ہے فرماتے ہیں کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ" تعریف تیرے ہی لائق ہے اور جو کوئی کسی کے در پر جاتا ہے وہ در حقیقیت اللہ ہی کے در پر جاتا ہے"
اس جملہ کا آسان مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی تعریف جو ہونی چاہیے صرف اللہ تعالی ہی کی ہونی چاہیے لیکن شبیر احمد صاحب عثمانی فرماتے ہیں کہ یہ ترجمہ غلط ہے بلکہ اس آیت کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے کہ" ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کو سزاوار ہے"
اور مزید فرماتے ہیں کہ اہل علم اسے خوب سمجھتے ہیں اور واقعی اہل علم نے اسے بخوبی سمجھ لیا تب ہی یہ ترجمہ و تفسیر جو ان دیوبندیوں نے سعودی حکومت کو دھوکا دیکر چھپوائی تھی اس کو سعودی حکومت سے ہی ضبط کروایا اور پابندی عائد کرائی تاکہ اس ترجمہ و تفسیر کے شر سے بقیہ عوام الناس محفوظ رہ سکیں اور اب موجودہ ترجمہ و تفسیر جو سعودی حکومت کی جانب شایع ہوا ہے وہ مولانا محمد جونا گڑھی کے ترجمہ اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کی تفسیر پر مشتمل ہے، اس میں سورہ فاتحہ کی اس آیت کی جو تفسیر درج کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ:"جوبھی تعریف ہوتی ہے وہ در حقیقیت اللہ ہی کی تعریف ہوتی ہے"
{ ھل اتک حدیث الغاشیہ، وجوہ یومئذ خاشیہ، عاملہۃ ناصبہ،تصلی نارا حامیہ}
(سورہ الغاشیہ آیت 1 تا 4)
"تم کو چھپالنے والی قیامت کی خبر نہیں ملی جس دن بہت سے چہروں پر ذلت ہوگی اور محنتیں کرنے والے محنتین کر کر کے تھکے ہوئے ہونگے مگر پھر بھی وہ جہنم میں جائيں گے"
تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
بلغوا عنی ولوایتہ(صحیح بخاری)
"ایک بات بھی میری طرف سے پہنچے تو اسے آگے پہنچادو "۔