السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کتہ ۔۔۔محترم علماء کرام سے قران و حدیث کی رو سے یہ پوچھنا ہے کہ میرے ایک اہل حدیث دوست نے اج سے 10 سال پہلے اپنی ایک ڈیوٹی کے دوران 10000 رقم رشوت لی تھی وہ بھی زبردستی دی گئ تھی تاکہ طلباء کو نمبر زیادہ دیے جائیں لیکن اب میرا دوست اس رشوت کی رقم کا ازالہ کرنا چاہتاہے اب وہ سکول تو موجود ہوگا لیکن جن طلباء سے رقم سکول انتظامیہ نے جمع کی تھی اسکو تلاش کرنا مشکل ہے اب میرا دوست یہ پوچھنا چاہتا ہے میں اس رشوت کی رقم کس طرح تقسیم کروں کہ اللہ میرے اس گناہ کو معاف کر دے ؟ کیا یہ رقم اہل حدیث کی مسجدکی تعمیر میں استعمال کی جا سکتی ہے؟ کیا اس رقم کو کسی عالم کو دیا جا سکتاہے؟ یا ہمارے ہاں دیوبندیوں کیااکثریت ہے ان میں یہ رقم تقسیم کر دی جائے ۔۔ یا کوئی اور صورت ؟مہربانی کرکے جواب جلد از جلد دے کرمشکور فرمائیں ۔۔جزاءک اللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایسے مال کے متعلق اہل علم کا کہنا ہے :
قال ابن القيم رحمه الله : " إذا عاوض غيره معاوضة محرمة وقبض العوض ، كالزانية والمغني وبائع الخمر وشاهد الزور ونحوهم ثم تاب والعوض بيده . فقالت طائفة : يرده إلى مالكه ؛ إذ هو عين ماله ولم يقبضه بإذن الشارع ولا حصل لربه في مقابلته نفع مباح .
وقالت طائفة : بل توبته بالتصدق به ولا يدفعه إلى من أخذه منه ، وهو اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية وهو أصوب القولين ... ". انتهى من "مدارج السالكين" (1/389)
وقد بسط ابن القيم الكلام على هذه المسألة في "زاد المعاد" (5/778) وقرر أن طريق التخلص من هذا المال وتمام التوبة إنما يكون : " بالتصدق به ، فإن كان محتاجا إليه فله أن يأخذ قدر حاجته ، ويتصدق بالباقي " انتهى .
ترجمہ :
علامہ شمس الدین ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى دوسرے نے اسے حرام معاوضہ ديا اور اس نے وہ معاوضہ لے بھى ليا ہو، مثلا زانيہ، اور گانے بجانے والا، اور شراب فروخت كرنے والا اور جھوٹى گواہى دينے والا، اور اس طرح كے دوسرے افراد پھر وہ توبہ كر لے اور وہ معاوضہ اس كے پاس ہو تو ايك گروہ كا قول ہے كہ:
وہ اس معاوضہ اور مال كو اس كے مالك كو واپس كردے؛ كيونكہ وہ اس كا بعنيہ مال ہے، اور اس نے وہ مال شارع كے حكم سے نہيں ليا، اور نہ ہى مال كے مالك كو اس مال كے عوض كوئى مباح اور جائز نفع حاصل ہوا ہے.
اور علماء کا ايك گروہ كہتا ہے كہ:
بلكہ اسے صدق دل كے ساتھ توبہ كر لينى چاہيے، اور ليا جانے والا مال واپس نہ كرے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور دونوں قولوں ميں زيادہ صحيح بھى يہى ہے " ... انتہى.
ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 389 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " ميں اس مسئلہ كو شرح وبسط كے ساتھ بيان كرتے ہوئے يہ فيصلہ كيا ہے كہ:
" اس مال سے چھٹكارا اور خلاصى كرنا اور توبہ كى تكميل اسطرح ہو گى كہ: وہ مال صدقہ كر ديا جائے، اور اگر وہ اس كا متاج اور ضرورتمند ہو تو وہ بقدر حاجت اس مال سے ليكر باقى مال صدقہ كر دے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 778 )
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
وقال شيخ الإسلام : " فإن تابت هذه البغي وهذا الخَمَّار ، وكانوا فقراء جاز أن يصرف إليهم من هذا المال قدر حاجتهم ، فإن كان يقدر يتجر أو يعمل صنعة كالنسج والغزل ، أعطي ما يكون له رأس مال " انتهى من "مجموع الفتاوى" (29/308)
________________
ترجمہ :
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر يہ زانيہ اور باغيہ عورت اور يہ شراب فروخت كرنے والا شخص توبہ كر لے، اور وہ فقير اور مسكين ہوں تو ان كى ضرورت كے مطابق اس مال كو انہيں دينا جائز ہے، تو اگر وہ شخص تجارت كرنے، يا كوئى بنائى اور سوت كاتنے كى مہارت ركھے تو اس اس كے ليے راس المال ديا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 308 ).