• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سریا کس کس گردن میں ہے!

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھارتی دورے میں صدر زرداری اپنے ساتھ لے گئے۔ آصفہ اور بختاور بھی تھیں تو فریال تالپور کیوں نہ تھی۔ منت اس کی بھی پوری ہوئی ہے۔ لاہور میں صدر زرداری بولے جیسے وہ گڑھی خدا بخش میں بولتے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بریفنگ دے رہی تھیں۔ ساتھ میں نوید قمر تھے۔ وہ ڈاکٹر صاحبہ کے مددگار تھے یا نگران۔ ایک مظلوم خاتون اور اس کے گھر والوں نے احتجاج کیا۔ دونوں وزیروں نے سمجھا کہ یہ احتجاج ان کے خلاف ہے۔ وہ پولیس کے ہاتھوں انہیں ذلیل ہوتے دیکھتے رہے۔ صرف یہ کہا کہ یہ ہمارے خلاف حکومت پنجاب کی سازش ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو یہ وہم رہتا ہے کہ ان کے کام میں مداخلت ہو رہی ہے۔ کراچی میں کائرہ صاحب اور نرگس سیٹھی نے زیادتی کی کہ اعوان صاحبہ رونے لگ گئیں اور استعفیٰ پیش کر دیا۔ وزیراعظم گیلانی کو غصہ بہت آیا۔ وہ نرگس سیٹھی کے لئے کچھ بھی برداشت نہیں کرتے مگر وہ ہروقت احساس کمتری اور احساس جرم میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسا آدمی ڈرپوک اور کمزور ہوتا ہے۔ سے کہا گیا کہ اس موقع پر ڈاکٹر فردوس کو نکالا گیا تو وہ تحریک انصاف جائن کر لے گی اور کراچی میں اس کے جلسے میں جاوید ہاشمی کے ساتھ خطاب کرے گی۔
اب لاہور میں راجہ ریاض نے ڈاکٹر صاحبہ کی سیاسی چھابڑی کو جپھی ماری ہے اور ان کی اپنی سیاسی ریڑھی گر پڑی ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے ساتھ صدر زرداری کی جو سیاست ہو رہی ہے۔ راجہ ریاض کو سچ مچ قربان کیا جانے والا ہے۔ سابق اپوزیشن لیڈر کو کس کے لئے قربان کیا گیا ہے۔ اس کی قربانی کا وقت نکل گیا ہے۔ اس نے خود اپنی ٹیم کے خلاف گول کر دیا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے آصف ہاشمی کو بتا دیا تھا کہ راجہ ریاض بھی میرا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔
صدر زرداری نے شریف برادران کے والد محترم کے جنازے کے لئے کوئی بات کی جو آگے کرنے والی نہ تھی۔ مگر راجہ صاحب نے سمجھا کہ اس طرح صدر خوش ہو جائیں گے۔ شاید وہ اندر سے خوش ہوتے ہوں مگر جب یہ محسوس کرایا گیا کہ ایک بزرگ اور مرحوم آدمی کے لئے یہ بات غیر سیاسی اور غیر ضروری تھی۔ ”بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف کے جنازے میں لوگ نہ تھے تو انہیں داتا دربار لے جایا گیا۔ بڑے میاں صاحب بڑے آدمی تھے۔ جنازے میں کم یا زیادہ آدمی ہونا کوئی بات نہیں ہوتی۔ ان کا پہلا جنازہ حرم شریف ہی پڑھا گیا دوسرا جاتی عمرہ میں اور تیسرا داتا صاحب کہ وہ داتا باقاعدگی کے ساتھ جاتے تھے۔ تھانیدار کی گائے مر گئی تو سارا گاﺅں اس کی تعزیت کے لئے امڈ آیا۔ تھانیدار صاحب کا تبادلہ ہوا تو ایک آدمی انہیں الوداع کہنے نہ آیا۔ دو تہائی اکثریت سے جتوانے کے بعد جب نواز شریف کی حکومت گئی تو لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ نواز شریف کے غیراعلانیہ ترجمان مشاہداللہ خان نے صدر زرداری کے سسر کے جنازے کی بات کر دی جن کے جنازے میں لوگوں کو شریک ہی نہ ہونے دیا گیا تھا۔ بھٹو صرف زرداری صاحب کا سسر نہ تھا وہ ایک بڑا لیڈر تھا۔ اس کی پھانسی کو اب شریف فیملی بھی عدالتی قتل کہتی ہے۔ ان کی قبر پر میلہ لگتا ہے جہاں لوگ عام دنوں میں بھی جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ان کی برسی ہوتی ہے تو ہزاروں لوگ ہوتے ہیں تو وہ کیا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی مشاہداللہ خان جا کے خود دیکھیں۔ ان کے لیڈر کے لیڈر، جنرل ضیاءکے جنازے میں لاکھوں لوگ تھے۔ ان کی قبر بھی اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد کے پہلو میں ہے۔ وہاں ویرانی سی ویرانی ہے اور حیرانی نہیں ہے۔ نواز شریف نے وزیراعظم بن کر کہا تھا کہ میں جنرل ضیاءکے مشن کو آگے بڑھاﺅں گا۔ مگر اب وہ بھی ان کی برسی پر نہیں جاتے۔ اعجازالحق نالائق نکلا۔ اس کا جانشین نہ بن سکا۔ نواز شریف کا وزیر بن گیا اور جنرل مشرف کا بھی وزیر بن گیا۔ جس کا مشن جنرل ضیا سے ملتا جلتا ہے مگر وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے بھی امریکہ کی غلامی کی مگر اس بیش بہا خدمت کا صلہ جنرل ضیا کو امریکہ کی طرف سے موت کی صورت میں ملا اور جنرل مشرف عیش کر رہا ہے۔ شاید ابھی اس سے امریکہ نے کوئی اور کام لینا ہے۔ نواز شریف بھی امریکہ سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے لئے تو نواز شریف نے جنرل مشرف کے خلاف خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کی حکومت جنرل مشرف نے امریکہ کی حمایت سے توڑی تھی۔ مشرف کے وزیروں کو عمران خان نے خوش آمدید کہا تو نواز شریف کو اعتراض ہوا مگر اب خود مشرف کے سب سے محبوب وزیر امیر مقام کو اس نے خود قبول کر لیا ہے۔ سمیرا ملک کے بعد ماروی میمن کے آنے پر اس کا بہت شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ جو ایک طرح سے جنرل مشرف کا شکریہ ہے کہ وہ جنرل مشرف کی بڑی چہیتی تھی۔
سب سے خوبصورت اور شائستہ ردعمل مریم نواز کا ہے کہ میرے دادا کی نماز جنازہ خانہ کعبہ میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ مریم نے تب اپنے والد کو یہ مشورہ دیا ہوتا کہ بڑے میاں صاحب کو دیار حجاز میں دفن کر دیا جاتا تو یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ انہیں کوچہ محبوب میں موت آئے۔ میاں صاحب کی یہ دعا تو قبول ہوئی مگر پھر اس دعا کو سیاسی رنگ کس نے دیا۔
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
شریف برادران ہر صورت میں اپنے عظیم والد کے جسد خاکی کے ساتھ آتے انہیں نہ آنے دیا گیا۔ ہم نے نو سال تک جنرل مشرف کی آمریت میں ہم وطنی کو ہتھیار بنا کے دکھ سہے۔ میں بڑے میاں صاحب کے جنازے میں موجود تھا۔ لوگوں کے والہانہ پن کا میں گواہ ہوں۔ بعد میں چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی بھی قبر پر گئے اور فاتحہ خوانی کی تھی۔ صدر زرداری کو یہ بات زیب نہ دیتی تھی مگر راجہ ریاض نے نمک مرچ لگا کے اسے پیش کیا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ راجہ صاحب کو حق نہ تھا کہ وہ یہ بات کرتے۔ یہ میرا حق ہے مگر وہ بھی یہ بتائیں کہ بار بار ان کے حق پر ڈاکہ کیوں ڈالا جاتا ہے۔ آصف ہاشمی کہتا ہے کہ میں نے اسے وزیر بنوایا ہے تو پھر وزیراعظم گیلانی کو بھی کچھ سمجھائیں۔ اس کا سارا خاندان وزارت عظمیٰ سے جو فائدہ اٹھا رہا ہے وہ خود بھی اتنا نہیں اٹھا سکا۔ اس ملک میں وزیراعظم کا بیٹا وزیراعظم سے زیادہ ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ کا بیٹا بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔
صدر زرداری نے شریفوں کی گردن سے سریا نکالنے کی بات بھی کی ہے۔ اس کے بعد جو بات شہباز شریف نے کی لگتا ہے کہ اس نے اپنا سریا صدر زرداری پر دے مارا ہے۔ ”چھڑنگ“ کی آواز دور دور تک سنی گئی ہے۔ سریا جب سریا سے ٹکراتا ہے تو آواز آتی ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم گیلانی اور رحمن ملک کے گِٹوں میں سریا ہے۔
ڈاکٹراجمل نیازی۔نوائے وقت
 
Top