@اسحاق سلفی بھائ جان میں نے ایک اسکین اپلوڈ کیا ہے اسکا جواب دے دیں
جزاک اللہ خیر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی ؛
یہ روایت جو آپ نے امام ابو نْعَیم ؒ ( أحمد بن عبد الله الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)
کی کتاب ’’ معرفۃ الصحابہ ‘‘ سے نقل کی ہے ،اسے ابو نعیم سے بہت پہلے۔۔امام احمد بن حنبلؒ
نے ’’ مسند ‘‘میں دو جگہ نقل فرمایا ہے۔جو درج ذیل ہے :
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :
حدثنا عبد الصمد بن حسان، قال: أخبرنا عمارة يعني ابن زاذان، عن ثابت، عن أنس قال: استأذن ملك المطر أن يأتي النبي صلى الله عليه وسلم، فأذن له، فقال لأم سلمة: " احفظي علينا الباب، لا يدخل أحد "، فجاء الحسين بن علي، فوثب حتى دخل، فجعل يصعد على منكب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له الملك: أتحبه؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن أمتك تقتله، وإن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه، قال: فضرب بيده فأراه ترابا أحمر، فأخذت أم سلمة ذلك التراب فصرته في طرف ثوبها، قال: " فكنا نسمع يقتل بكربلاء " (مسند احمد 13794 )
یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ایک دن بارش کے فرشتے نے نبی اکرم سے حاضری اجازت طلب کی۔۔آپ ﷺ نے اسے آنے کی اجازت دی ۔اور آپ ﷺ نے سیدہ ام سلمہ ؓ کو فرمایا کہ آپ دروازے کی نگرانی کریں ،کوئی اندر نہ آئے۔
اتنے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (جو ابھی چھوٹے بچے تھے ) دوڑتے ہوئے آئے اور نبی مکرم ﷺ کے مبارک کندھے
پر چڑھ گئے ۔یہ صورت حال دیکھ کر اس فرشتہ نے کہا کہ کیا آپ اس سے بہت محبت کرتے ہیں ؟
پیغمبر کریم ﷺ نے فرمایا :ہاں (میں اس سے محبت کرتا ہوں )
یہ سن کر اس فرشتے نے کہا : آپ کی امت اس کو قتل کردے گی ۔اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ،جہاں انکو قتل کیا جائے گا ۔تو ملک المطر نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا،اور سرخ رنگ کی مٹی آپ کو دکھائی۔(یعنی وہ سرخ مٹی والا علاقہ ہوگا )
تو سیدہ ام سلمہ ؓ نے وہ مٹی اپنے کپڑے میں محفوظ کرلی ،اور سیدنا انس فرماتے ہیں کہ :ہم لوگوں سے سنتے ہیں کہ سیدنا حسین ؓ کربلاء میں قتل کئے گئے ۔‘‘
مسند احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ :
( إسناده ضعيف، تفرد به عمارة بن زاذان عن ثابت، وقد قال الإمام أحمد: يروي عن ثابت عن أنس أحاديث مناكير.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (2813) ، وأبو نعيم في "دلائل النبوة" (492) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" أيضاً 6/469 من طريق عبد الصمد بن حسان، بهذا الإسناد. وانظر (13539) .
یعنی اسکی سند ضعیف ہے ،اس کو روایت کرنے میں ’’ عمارة بن زاذان ‘‘ منفرد ہیں ،اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :
کہ ’’ عمارة بن زاذان ‘‘ ثابت کے واسطہ سے جناب انس سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی قلت اور اپنی بیماری کے سبب مختصراً لکھا ہے ، وگرنہ اس روایت کی تخریج پر تفصیلی مواد موجود ہے
میرے لئے صحت و شفاء کی دعاء ضرور کردیں ،
والسلام علیکم