• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن حزم ظاہری اندلسی رحمہ اللہ کا فتویٰ عقیدہ تناسخ کے حاملین پر
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اصحاب التناسخ پر کفر کا فتوی لگایا ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا تمام اہل اسلام کے نزدیک کفر ہے اور انہوں نے اس مسئلہ کو عقیدہ توحید کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
’’ارواح نہ تو فنا ہوتی ہیں اور نہ ہی دوسرے جسموں (برزخی) کی طرف منتقل ہوتی ہیں لیکن وہ باقی رہتی ہیں، زندہ رہتی ہیں آرام و آسائش اور اذیت و تکلیف کو برداشت کرنے میں حساس و عاقل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر اچھے اعمال اور جنت و جہنم کے بدلے کے لئے ان کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ سوائے انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کرام کی ارواح کے، کہ وہ اب بھی رزق اور نعمتوں سے سرشار ہیں اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ روحیں ان جسموں سے جدا ہونے کے بعد دوسرے جسموں میں منتقل کر دی جاتی ہیں (یا باالفاظ دیگر ان ارواح کو برزخی اجسام دیئے جاتے ہیں) تو یقینا یہ کفر ہے اور اس پر یہ دلیل ہے‘‘۔………………

آگے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی معراج کے سلسلہ والی مشہور حدیث جو انہوں نے ابوذر غفاریؓ سے روایت کی ہے، بیان کی ہے، اور آخر میں ایک اور حدیث ذکر کر کے فرماتے ہیں:

’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ارواح اپنے جسموں سے مفارقت کے بعد حساس ہوتی ہیں۔ جانتی اور پہچانتی ہیں اور جو شخص یہ دعوی کرے کہ روحیں دوسرے جسموں میں منتقل ہو جاتی ہیں تو یہ قول اصحاب التناسخ کا ہے اور تمام اہل اسلام کی نگاہ میں (ایسا عقیدہ رکھنا) کفر ہے‘‘۔ (المحلی بالآثار جلد اول ص۴۴، ۴۵طبع دارالفکر بیروت)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
موت سے روح اور جسم کے درمیان جدائی واقع ہو جاتی ہے

موت کے وقت ملک الموت روح کو بدن سے قبض کر لیتے ہیں یعنی نکال لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ
آپ کہیئے کہ موت کا وہ فرشتہ (ملک الموت) جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہاری روحوں کو قبض کرے گا پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (السجدۃ:۱۱)

وَ ھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتّٰی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ثُمَّ رُدُّوْآ اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰــھُمُ الْحَقِّ اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَ ھُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ (الانعام:۶۱،۶۲)
اور وہ اپنے بندوں پر حاوی ہے اورتم پر اپنے محافظ (فرشتے) بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ پھر یہ سب اللہ کی طرف جو ان کا حقیقی آقا ہے واپس لائے جائیں گے خبردار رہو کہ فیصلہ (کا اختیار) اسی کو ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔

نیز ملاحظہ فرمائیں: سورۃ الزمر آیت نمبر۴۲۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اذا خرجت روح المؤمن تلقاھا ملکان یصعد انھا
جس وقت مومن کی روح (بدن) سے نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ:۷۲۲۱، مشکاۃ المصابیح:۱۶۲۸)

سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب (ان کے شوہر) سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں (موت کے وقت) پتھرا گئیں تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کی آنکھیں بند کیں اور فرمایا:
ان الروح اذا قبض تبعہ البصر (مسلم:۲۱۳۰) مشکاۃ کتاب الجنائز باب ما یقال عند من حضرۃ الموت:۱۶۱۹)
’’جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کی بینائی بھی روح کے ساتھ چلی جاتی ہے‘‘۔

دیگر احادیث میں روح کے قبض کئے جانے کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے اور یہ احادیث مشکاۃ المصابیح کے اسی مذکورہ باب میں موجود ہیں۔ اسی طرح کفار کی روح کے قبض کئے جانے کا بیان قرآن کریم میں بھی کئی مقامات پر موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
موت کا مطلب

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انسان پر موت آتی ہے تو اس کی روح کو فرشتے قبض کر لیتے ہیں یعنی روح کو بدن سے نکال لیتے ہیں۔ گویا روح اور بدن میں جدائی کا نام موت ہے۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مَاتَ: موت (ضد حیات) بمعنی کسی جاندار سے روح یا قوت کا زائل ہو جانا۔ (م۔ل) جسم سے روح کا جدا ہو نا۔ (مترادفات القرآن مع فروق اللغویۃ ص۷۷۶طبع مکتبۃ السلام لاہور)۔

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ موت کی وجہ سے جسم اور روح میں جدائی ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہتا ہے اور قیامت کے دن تمام انسان زندہ ہو کر زمین سے پودوں کی طرح اُگ پڑیں گے اور روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ قیامت سے پہلے روح کو جسم کی طرف نہیں لوٹایا جاتا سوائے دفن کے وقت، کہ اس وقت سوال و جواب کے لئے روح کو جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کا ذکر آتا ہے اور یہ ایک استثنائی صورت ہے۔ البتہ روح کے لوٹائے جانے کے باوجود بھی میت بدستور میت ہی رہتی ہے کیونکہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں ہی دی گئی ہیں۔نیز یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
دو زندگیاں اور دو موتیں

اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْـِــیــــیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرۃ:۲۸)
’’تم اللہ (کے ایک معبود ہونے) کا کیسے انکار کرتے ہو کہ تم مردہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر (قیامت کے دن) وہ تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے‘‘۔

دوسرے مقام پر اِرشاد فرمایا:
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَـِــیّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ
’’پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے‘‘۔(المؤمنون:۱۵۔۱۶)

قَالُوْا رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَ اَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ (سورۃ المومن آیۃ:۱۱)
کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو نے واقعی ہمیں دو مرتبہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟

ثابت ہوا کہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں ہی عنایت کی گئی ہیں۔

اب میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اور دوسری زندگی اسے قیامت کے دن حاصل ہو گی۔ اب میت جس حالت میں ہے یہ حالت موت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ
’’پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور میت ہو جاؤ گے یعنی مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے‘‘۔ (المؤمنون:۱۵،۱۶)

واضح رہے کہ قبر میں روح کے لوٹنے سے زندگی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ دنیا میں جب نیند کی وجہ سے انسان پر عارضی موت طاری ہوجاتی ہے اور جاگنے کی صورت میں اس کی طرف روح لوٹائی جاتی ہے جیسا کہ سورۃ الزمر اور سورۃ الانعام میں مذکور ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
روح کے جسم میں باربار لوٹائے جانے سے یعنی اعادہ روح سے نئی زندگی ثابت نہیں ہوتی؟

ڈاکٹر موصوف کا خیال ہے کہ اگر سوال و جواب کے وقت روح قبر میں لوٹائی جائے تو اس سے تیسری زندگی ثابت ہو جائے گی لیکن یہ موصوف کی خام خیالی ہے اس لئے کہ مجرد روح کے لوٹائے جانے سے نئی زندگی ثابت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی تو ختم ہو چکی ہے اور قیامت کی زندگی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ اسی طرح دنیا میں انسان جب سو جاتا ہے تو اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور جاگنے پر روح کا اعادہ ہوتا ہے اور روح اس کی طرف لوٹا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان جاگ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (الزمر:۴۲)
اللہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی مرا نہیں اس کی روح نیند میں (قبض کر لیتا ہے) پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مدت مقرر تک کے لئے (واپس) بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ حالت نیند میں بھی اللہ تعالیٰ روحیں قبض کر لیتا ہے۔ اور پھر جب انسان جاگتا ہے تو اس کی روح کو اس کی طرف بھیج دیتا ہے اور یہ اعادہ روح روزانہ ہی ہوتا رہتا ہے لیکن اُمت مسلمہ میں سے کسی ایک عالم نے بھی روح کے بار بار اعادہ کے باوجود بھی اس سے کئی زندگیاں مراد نہیں لیں۔ یا اس اعادہ سے اس نے کوئی نئی زندگی ثابت نہیں کی۔ اس حقیقت سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ روح کے اعادہ سے کوئی نئی زندگی ثابت نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں نیند کو بھی موت قرار دیا گیا ہے گو یہ عارضی موت ہوتی ہے کہ جس میں انسان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔ البتہ جاگنے پر اس کی روح دوبارہ اس کے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیﷺ ایک سفر میں سو گئے اور آپ ﷺاور صحابہ کرام کی نماز فجر قضاء ہو گئی۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان اللّٰہ قبض ارواحکم حین شاء و ردھا علیکم حین شاء (بخاری:۵۹۵۔ ۷۴۷۱، سنن نسائی، ابوداؤد:۴۳۹، مسند احمد:۵/۳۰۷، السنن الکبری للبیہقی:۱/۴۴، ۲/۲۱۶) مصنف ابن ابی شیبۃ (۲/۶۶) عن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری روحوں کو قبض کر لیا اور جب چاہا انہیں تمہاری طرف لوٹا دیا۔

ایک روایت میں یہ بھی الفاظ ہیں:
انکم کنتم امواتا فرد اللّٰہ الیکم ارواحکم
(مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۶۴، ۱۴/۱۶۲عن ابی جحیفہ و قال الھیثمی: رواہ ابو یعلی و الطبرانی فی الکبیر و رجالہ ثقات، مجمع الزوائد:۱/۳۲۲، و صححہ الالبانی إرواء الغلیل ۱/۲۹۳)
’’بے شک تم مردہ تھے پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف تمہاری روحوں کو لوٹا دیا‘‘۔

سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
ولکن ارواحنا کانت بید اللّٰہ عزوجل فارسلھا انی شاء (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی من نام عن صلاۃ او نسیھا:۴۳۸)
اور لیکن ہماری روحیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تھیں اور اس نے جب چاہا انہیں (واپس) بھیج دیا۔

سیدنا ذومخبر رضی اللہ عنہ کی ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے سکون کے ساتھ نماز پڑھ لی تو ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ کیا ہم قصور وار بھی ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
لا قبض اللّٰہ عز و جل ارواحنا و قدردھا الینا و قد صلینا (مسند احمد ۴/۹۱، و قال الہیثمی: رواہ احمد و الطبرانی فی الاوسط و رجال احمد ثقات مجمع الزوائد۱/۳۲۰)
نہیں (بلکہ) اللہ عز و جل نے ہماری روحوں کو قبض کر لیا تھا اور تحقیق اس نے انہیں ہماری طرف لوٹا دیا اور ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ (لہذا ہم قصور وار نہیں ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
روح کے اخراج کے بعد انسان میت قرار پاتا ہے

اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ
پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے۔ (المؤمنون:۱۵۔۱۶)۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ دنیاوی زندگی کے ختم ہوتے ہی انسان میت قرار پاتا ہے اور قیامت کے دن تک وہ میت ہی رہے گا اور قیامت کے دن اسے دوسری زندگی عطاء کی جائے گی۔ اور یہ میت دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔

اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ان رسول اللّٰہ ﷺ قبَّل عثمان بن مظعون و ھو میت (رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔ مشکاۃ المصابیح:۱۶۲۳۔ و قال الاستاذ زبیر علیزئی: حسن۔ رواہ الترمذی:۹۸۹۔ و قال ’’حسن صحیح‘‘۔ ابوداؤد:۳۱۶۳، و ابن ماجہ:۱۴۵۶))

رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی میت کا بوسہ لیا۔
اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
ان ابا بکر قبَّل النبی ﷺ وھو میت (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ۔ مشکوۃ ایضاً:۱۶۲۴و قال الاستاذ حافظ زبیر علی زئی اسنادہ حسن)
بے شک ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی میت کا بوسہ لیا

اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
اِنَّکَ مَــِــیّتٌ وَ اِنَّھُمْ مَــِــیّتُوْنَ (الزمر:۳۰)
اے نبی (ﷺ) بے شک تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح البخاری میں کتاب الجنائز قائم کر کے اس میں میت کے الفاظ کے ساتھ اٹھارہ ابواب قائم کئے ہیں جس میں انہوں نے میت کے احکامات بیان کئے ہیں اور لفظ میت کی اچھی طرح وضاحت اور تشریح بیان کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
صحیح بخاری میں کتاب الجنائز کے میت والے ابواب

میت دراصل جسدعنصری، لاش، مردہ اور نعش کو کہتے ہیں۔ اور امام بخاری نے کتاب الجنائز میں اٹھارہ ابواب میں میت کے نام سے عنوانات قائم کئے ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:

(۱) جب میت کفن میں لپیٹ دی جائے تو اس کے پاس جانا۔

(۲) آدمی اپنی طرف سے موت کی خبر میت کے وارثوں کو سنا سکتا ہے۔

(۳) میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل اور وضو کرانا۔

(۴) میت کو طاق بار نہلانا مستحب ہے۔

(۵) غسل میت کے داہنی طرف سے شروع کیا جائے۔

(۶) میت کا غسل وضو کے مقامات سے شروع کرنا۔

(۷) میت پر کپڑا کس طرح لپیٹنا چاہیئے؟۔

(۸) میت کو خوشبو لگانا۔

(۹) نبی ﷺ کا قول: ’’میت پر اس کے بعض گھر والوں کے رونے کے سبب سے عذاب ہوتا ہے‘‘۔

(۱۰) میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے۔

(۱۱) میت کا کہنا جب کہ وہ ابھی جناہ پر ہوتا ہے کہ مجھے آگے لے چلو۔

(۱۲) میت لوٹ کر واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔

(۱۳) کیا میت کو کسی ضرورت کی وجہ سے قبر سے دوبارہ نکال سکتے ہیں؟

(۱۴) میت پر لوگوں کی تعریف کرنا۔

(۱۵) میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جانا۔

(۱۶) جنازہ پر میت کا کلام کرنا۔

(۱۷) اموات (مردوں) کو برا بھلا کہنے کی ممانعت۔

(۱۸) برے موتی (مردوں) کی برائی بیان کرنا درست ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
امام بخاری رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ وہ بھی میت جسد عنصری ہی کو مانتے ہیں۔ میت کی جمع موتیٰ اور اموات ہے۔ قرآن کریم میں بھی میت مردہ اور جسد عنصری ہی کو کہا گیا ہے مثلاً:
کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (الاعراف:۵۷)
اسی طرح ہم مردوں کو (قیامت کے دن ان کی قبروں سے) نکالیں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ

پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے۔ (المؤمنون:۱۵۔۱۶)۔

اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
تم مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ ان بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں۔ (النمل:۸۰)۔

وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَائٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۰۔۲۱)
جن ہستیوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے خالق (پیدا کرنے والے) نہیں ہیں بلکہ وہ خود مخلوق (پیدا کئے گئے) ہیں۔ وہ مردہ ہیں نہ کہ زندہ ہیں، اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مومن کی روح جنت میں اور کافر و منافق کی روح جہنم میں ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (النحل:۳۲)
فرشتے ان لوگوں کی روحیں جو پاک (صالح) ہوتے ہیں جب قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم پر سلام ہو تم جنت میں ان اعمال کے بدلے داخل ہو جاؤ جو تم کیا کرتے تھے۔

نیز مزید وضاحت کیلئے ملاحظہ فرمائیں: سورۃ الفجر:۲۷تا ۳۰، آل عمران ۱۶۹تا۱۷۱، یٰس:۲۶

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
انما نسمۃ المؤمن طیر تعلق فی شجرۃ الجنۃ حتی یرجعہ اللّٰہ فی جسدہ یوم یبعثہ (مسند احمد ۳/۴۵۵، ۴۶۰، مسند حمیدی ۲/۳۸۵، نسائی ۱/۲۲۵، موطا امام مالک، سنن ابن ماجہ ص:۳۱۶، ، موارد الظمآن ص:۱۸۷، مشکاۃ المصابیح ۱/۵۱۶، وقال الالبانی و سندہ صحیح و قال الاستاذ حافظ زبیر علی زئی: حسن)
مومن کی روح جنت میں اُڑتی ہوئی جنت کے درخت پر ہوتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم کی طرف لوٹائے گا۔

جس طرح مومن کی روح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے اور جس کی اوپر وضاحت کر دی گئی ہے جبکہ کافر و منافق کی روح کو جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا (نوح۲۵)
اپنے گناہوں کے سبب وہ غرق ہوئے اور پھر جہنم میں داخل ہو گئے۔

قوم نوح پانی میں غرق کر دی گئی تھی ان کے جسم (میت) پانی میں تھے اور ان کی روحوں کو جہنم میں داخل کر دیا گیا۔

سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں کی مثال گذشتہ صفحات میں گذر چکی ہے۔

نیز ملاحظہ فرمائیں: سورۃ النحل:۲۸، الانعام:۹۳، الانفال:۵۰، محمد:۲۷، التحریم:۱۰)۔۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو صبح و شام اس کا ٹھکانہ اس پر پیش کیا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت سے ہوتا ہے تو اس پر جنت پیش کی جاتی ہے اور اگر وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے تو اس پر جہنم پیش کی جاتی ہے اور اس سے کہا جاتا ہے:
ھذا مقعدک الذی تبعث الیہ یوم القیامۃ (بخاری:۱۳۷۹و مسلم ۷۲۱۲واللفظ لہ)
’’یہ تیرا ٹھکانہ ہے جس میں تجھے قیامت کے دن یہاں سے اٹھا کر داخل کیا جائے گا‘‘۔

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
ھذا مقعدک حتی تبعث الیہ (بخاری کتاب الرقاق:۶۵۱۵)
’’یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ تجھے (قیامت کے دن) اس کی طرف اٹھایا جائے گا ‘‘۔

یعنی اس میں داخل کیا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے: ’’میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے‘‘۔ چونکہ روح جنت یا جہنم میں ہوتی ہے اور جسد قبر میں ہوتا ہے اور میت پر صرف اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے کیونکہ میت ابھی جنت یا جہنم میں داخل نہیں ہوئی اور قیامت کے دن جب اس کی روح اس کی طرف لوٹائی جائے گی تو یہ انسان زندہ ہو کر زمین سے نکل آئے گا ۔ان دونوں احادیث سے بھی اور قرآن و حدیث کی دیگر تصریحات سے یہ بات ثابت ہے۔

کافر و منافق کی میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے اور بعض گناہ گار مسلمان بھی اپنے گناہوں کی پاداش میں عذاب پاتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ دو قبروں پر گذرے تھے جنہیں ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا۔ (بخاری و مسلم) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المیت یعذب فی قبرہ بمانیح علیہ (مسلم کتاب الجنائز باب المیت یعذب ببکاء اھلہ علیہ:۲۱۴۳)
’’میت کو اس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے اس پر نوحہ کئے جانے کی بنا پر‘‘۔

یہ حدیث اپنے مدعا پر بالکل واضح ہے کہ میت کو عذاب ہوتا ہے اور میت چونکہ قبر میں ہوتی ہے اس لئے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے اور اسی کو عذاب قبر کہتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ وضاحت اور صراحت اس مسئلہ کی ممکن نہیں ہے۔ لیکن جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ دوسری روایت میں یہ حدیث تاکیدی الفاظ کے ساتھ مروی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
ان المیت لیعذب فی قبرہ ببکائِ اھلہ (بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل:۳۹۷۸، مسلم :۲۱۵۴)
’’بے شک البتہ میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس کے اہل کے (اس پر) رونے کے سبب سے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مرنے کے بعد انسان میت ہو جاتا ہے اور میت کو اللہ تعالیٰ ہر صورت اور ہر حالت میں آخر کار زمین ہی میں لوٹا دیتا ہے کیونکہ اس کا مقام قبر ہی ہے جو زمین میں ہے۔ اور میت کو اس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے جیسا کہ ان احادیث سے اور دوسری بے شمار احادیث سے یہ مضمون بالکل واضح ہوتا ہے۔

اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث میں ہے کہ دو بوڑھی یہودی عورتوں نے ان سے کہا:
ان اھل القبور یعذبون فی قبورھم (بے شک قبر والے) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
صدقتا انھم یعذبون عذابا تسمعہ البھائم کلھا۔ انہوں نے سچ کہا ہے۔ انہیں قبروں میں عذاب ہوتا ہے کہ جسے تمام چوپائے سنتے ہیں۔ (بخاری:۶۳۶۶، مسلم:۱۳۲۱)۔

ایک روایت میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عذاب قبر کے متعلق آپ سے ان الفاظ میں سوال کیا:
ایعذب الناس فی قبورھم؟ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ (بخاری:۱۰۴۹، مسلم:۲۰۹۲)۔ یہ احادیث دوٹوک الفاظ میں وضاحت کرتی ہیں کہ میت کو قبر ہی میں عذاب ہوتا ہے۔

ایک حدیث میں اس مضمون کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور مرد اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ میت نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہوتی تو اپنے گھر والوں سے کہتی ہے ہائے بربادی مجھے کہاں لئے جا رہے ہو۔ اس میت کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر وہ سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت وھو علی الجنازۃ، مسند احمد:۳/۴۱،۵۸)۔

تفصیلی حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں: الموسوعۃ الحدیثیہ (۱۷/۴۶۶)

یہ حدیث صحیح بخاری میں تین مقامات پر کتاب الجنائز میں موجود ہے۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’جب نیک آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: ’’مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو‘‘۔ اور جب برے آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’ہائے بربادی و افسوس مجھے تم کہاں لے جارہے ہو‘‘۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ، صحیح ابن حبان ۷۶۴، مسند احمد ۲/۲۹۲، ۵۰۰)۔

اوربیہقی کی روایت میں مومن اور کافر کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ (السنن الکبری ج۴ص۲۱)

اس حدیث سے بھی واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ عذاب میت کو ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ میت گفتگو کرتی ہے اور عذاب کو دیکھ کر چیختی چلاتی ہے جسے انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ چونکہ انسان و جنات کو عذاب سنانا مصلحت کے خلاف ہے اور ان سے اس عذاب کو پردہ غیب میں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا یہ مکلف مخلوق اس عذاب کو نہیں سن سکتی۔
 
Top