- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
الف) خلافتِ راشدہ: اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیابت رسولﷺ میں بندگانِ خدا کی اصلاح ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، نفاذ شریعت واعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کے سوا ذاتی سطح پر ہرگز بھی کچھ مطلوب نہ ہو۔ یعنی اتباعِ نفس و مرغوباتِ نفسانیہ کا ہرگز بھی کوئی گذر نہیں ہوتا یہاں تک کہ رخصتوں ، مباحات و توسع کے بجائے عزیمت ، تقویٰ و احتیاط کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رویے کی وضاحت خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کی دو مثالوں سے ہوجاتی ہے:
1. باوجود اس کے کہ اسلام میں خلیفہ کےلئے متوسط درجے کا معیارِ زندگی اختیار کرنا جائز ہے تاہم خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا۔
2. باوجود اس کے، کہ خلیفہ کےلئے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے لیکن خلفائے راشدین نے کبھی اس کا اہتمام نہ فرمایا، حالانکہ تین خلفا شہید تک ہوئے ۔
نیابت رسولﷺ میں اختیارِ عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفۂ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کےلئے استعمال کرنے کی ادنیٰ درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت راشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے ۔
1. باوجود اس کے کہ اسلام میں خلیفہ کےلئے متوسط درجے کا معیارِ زندگی اختیار کرنا جائز ہے تاہم خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا۔
2. باوجود اس کے، کہ خلیفہ کےلئے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے لیکن خلفائے راشدین نے کبھی اس کا اہتمام نہ فرمایا، حالانکہ تین خلفا شہید تک ہوئے ۔
نیابت رسولﷺ میں اختیارِ عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفۂ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کےلئے استعمال کرنے کی ادنیٰ درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت راشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے ۔