غزوۂ بدر کے موقع پر جب قریشِ مکہ کے ستر بڑے سردار قیدی بن کر دربارِ نبوی میں پیش کئے گئے حسبِ عادت مجلسِ شوریٰ طلب کی اور پھر معاملہ زیرِ بحث آیا۔چناچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں ان کی رائے دریافت کی۔
چناچہ اس معاملے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ رائے دی کہ چونکہ یہ ہمار ے قرابت دار ہیں چناچہ ان کو ''فدیہ ''لے کر چھوڑدیا جائے اور اس رقم کو جہاد اور دوسرے دینی امور میں استعمال کیاجائے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اللہ ان کی اولاد کو اسلام کی نعمت سے نوازے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بالکل اس کے برعکس رائے دی ۔انہوں نے کہا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے بلکہ ہم میں سے ہر ایک ان میں سے اپنے قریبی رشتہ دار کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔
رسول اللہ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا۔ لیکن اللہ رب العزت کو کچھ اور ہی مقصود تھا ۔دوسرے دن رسول اللہ صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے پایا تو اس کی وجہ پوچھی؟ تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا :
''مجھ پر مسلمانوں کے لئے عذاب اس درخت سے بھی قریب دکھا یا گیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیا ت نازل فرمائیں۔
{مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} (الانفال:۶۷تا۶۸)
'' نبی کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ ان کو قیدی بناتے جب تک کہ وہ زمین میں خوب خون ریزی نہ کر لیتے ۔اے مسلمانوں کیا تم دنیا کا ساز و سامان چاہتے ہو ؟جبکہ اللہ تعالیٰ آخرت چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے کمال حکمت والا ہے اور اگر ایک حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے گزر نہ چکا ہوتا۔یقیناً جو تم نے لیاتم کو اس کی وجہ سے پہنچتابڑا عذاب''۔ (دیکھئے صحیح مسلم ،کتاب الجہاد ،باب اباحۃ الغنائم )
اس واقعہ اور اس طرح کے اور دوسرے واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ معاملات جن میں بروقت وہی نازل نہیں ہوتی تھی اس میں الله کے پاک نبی بھی اپنے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے مشوره طلب کرتے تھے - اور اکثر اوقات قرانی حکم کسی صحابی رسول کے فہم کے مطابق اترتا تھا -جیسا کہ اوپر دیے گئے واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ وحی الہی حضرت عمر رضی الله عنہ کہ فہم کے مطابق نازل ہوئی -
غزوہ بدر میں فریقین کے مقتو لین :
(غزوہ بدر ) میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے ، لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا۔
ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد ، سردار اوربڑے بڑے سر بر آوردہ حضرات تھے۔
الرحیق المختوم : غزوۂ بدر کبریٰ - اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ
صفی الرحمن مبارکپوری اپنی کتاب میں یہ فرمارہے ہیں کہ جنگ بدر میں کفار قریش کا خوب خون بہا یا گیا اور ان کے ستر آدمی مارے گئے
اور جس آیت کو پیش کرکے یہ کہا جارہا ہے یہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور ساتھ ہی حضرت عمر کی شان رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر سے بھی بڑھادی گئی نعوذباللہ اس روایت سے ایسا لگ رہا ہے سوائے حضرت عمر کے سب مسلمانوں پر عذاب آجاتا بشمول نبی کریم ﷺاور ابوبکر کے نعوذباللہ من ذلک
ویسے تو اس روایت کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے لیکن اگر قرآن مجید کی مذکورہ آیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں اللہ نے کافروں کا خون بہائے بغیر ان کو قید کرنے کی معانت فرمائی ہے جبکہ جنگ بدر میں پہلے ہی ان کفار کا خون بہاتے ہوئے اسلامی لشکر نے 70 کفار قریش کو جہنم وصل کردیا تھا پھر اس آیت کا اطلاق کس بناء پر جنگ بدر کے قیدیوں کے لئے کیا جارہا ہے ؟؟؟
اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ رسول اللہﷺ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر کی رائے کے برخلاف انھیں فدیہ لیکر رہا کرنے کا حکم دیا لیکن اللہ نے حضرت عمر کی رائے کے مطابق قرآن کو نازل کیا اگر یہ بات من و عن مان لی جائے تو قرآن کی کئی آیت کے خلاف ہوگی جیسے کہ سورہ محمد کی آیت 33 کہ جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو
یہ اور اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیت قرآنی میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پیروی کرنے کو اللہ کے حکم کی پیروی کرنا کہا ہے اور جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے رہا کرنے کا حکم رسول اللہﷺ نے دیا تھا تو یہ حکم اللہ ہی کا تھا
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ جنگ بدر طرز کی لڑائی جس میں 70 کافروں کی گردنیں اڑائی گئی کے بارے ارشاد فرماتا ہے
فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
سورہ محمد : 4
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ
جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
یہ اللہ حکم جنگ بدر جیسی جنگ کے لئے ہے جس میں کافروں کی گردنیں اڑانے اور ان کو خوب قتل کرنے کے بعد جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرنے کے بعد یا تو انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا پھر ان پر احسان رکھ کر چھوڑ دیا جائے اور ایسی حکم کی پاسداری رسول اللہﷺ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمائی یعنی کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا گیا اور جن لوگوں کے پاس مال و اسباب نہیں تھا انھیں فرمایا کہ مدینہ کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاؤ یہی تمہارا فدیہ ہے یعنی ان پر احسان کیا گیا ۔
لیکن برا ہو صحابہ پرستی کی بیماری کا کہ اس بیماری میں یہ نظر نہیں آتا کہ ایسی روایت سے کس درجہ کی تنقيص نبی کی جارہی ہےنعوذباللہ جبکہ ان صحابہ پرستوں کو جب یہ حدیث صحیح پیش کی جاتی ہے کہ
جاء النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أُناسٌ من قريشٍ فقالوا يا محمدُ إنا جيرانُك وحلفاؤكَ وإنَّ من عبيدِنا قد أتَوك ليس بهم رغبةٌ في الدِّينِ ولا رغبةٌ في الفقهِ إنما فَرُّوا من ضياعِنا وأموالِنا فاردُدْهم إلينا فقال لأبي بكرٍ ما تقولُ فقال صدقوا إنهم لَجيرانُكَ وحلفاؤُك فتغيَّرَ وجهُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثم قال لعمرَ ما تقولُ قال صدقوا إنهم لَجيرانُكَ وحلفاؤُك فتغيَّر وجهُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثم قال يا معشرَ قريشٍ واللهِ لَيبعثنَّ اللهُ عليكم رجلًا منكم امتحن اللهُ قلبَه للإيمانِ فيضربُكم على الدِّينِ أو يضربُ بعضَكم قال أبو بكرٍ أنا هو يا رسولَ اللهِ قال لا قال عمرُ أنا هو يا رسولَ اللهِ قال لا ولكن ذلك الذي يَخصِفُ النَّعلِ وقد كان أعطى عليًّا نعلًا يَخصِفُها
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 5/643
تو کہا جاتا ہے کہ کیونکہ اس حدیث میں ابوبکر و عمر کی تنقيص کا پہلو نکلتا ہے اور حضرت علی کی شان ان دونوں سے بڑھائی جارہی ہے اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے لیکن وہ احا دیث جن سے رسول اللہﷺ اور ابو بکر کی تنقيص کا پہلو نکلتا ہے نعوذباللہ اور عمر کی شان رسول اللہﷺ سے بڑھائی جارہی ہو ایسے صحابہ پرست سر آنکھوں پر رکھتے ہیں
اب ان کے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ھدایت عطاء کرے آمین
آف دی ٹاپک ایک بات پوچھنی تھی کہ جنگ بدر میں حضرت عمر نے کتنے کفار کو قتل کیا ؟؟؟؟