حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
پاکستان بننے سے پہلے میرے ایک عزیز دہلی میں رہائش پذیر تھے آج کل کراچی میں رہتے ہیں۔ جب اکتوبر 1947ءمیں سارے پنجاب میں فسادات ہورہے تھے اور دہلی شہر بھی ان کی زد میں آچکا تھا تو وہ بھی اپنے گھر سے نکل کر' پرانے قلعہ دہلی میں رہے پھر وہاں سے بڑی مشکل سے ریلوے سٹیشن تک پہنچے اور لاہور جانے کیلئے دوسرے فساد زدہ لوگوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ان کے پاس صرف ایک بیگ تھا جس میں چند کپڑے تھے ان کے علاوہ ایک چھوٹے سائز کا قرآن مجید تھا جس کو انہوں نے اپنے سینے سے باندھ رکھا تھا۔
گاڑی آہستہ آہستہ چلتی بلکہ رینگتی ہوئی تین دن میں امرتسر پہنچی۔ راستے میں کئی جگہ ہندو اور سکھ بلوائیوں نے حملے کیے اور مسلمانوں کے مال وجان کو نقصان پہنچایا مگر گاڑی کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتی رہی لیکن امرتسر کے اسٹیشن پر رات کے وقت پہنچ کر ایسی رکی کہ دن کے نو بج گئے ڈرائیور اورگارڈ کا کہیں پتہ نہ تھا آخر ہندو اور سکھ فوج اور مسلح بلوائیوں کے گروہ اسٹیشن پہنچ گئے۔
انہوں نے پہلے تو تمام مسلمانوں کو گاڑی سے پلیٹ فارم پر اتار لیا۔ پھر رائفلوں' مشین گنوں اور برین گنوں سے مسلمانوں پر فائر کھول دیا۔ کیا قیامت کا سماں تھا۔ چاروں طرف مسلح ہندو اور سکھ اور درمیان میں نہتے مسلمان مرد' عورتیں اور بچے جو اپنا کوئی دفاع نہیں کرسکتے تھے سوائے اس کے کہ جس سے ہوسکا وہ زمین پر لیٹ گیا تاکہ گولیوں کی سیدھی بوچھاڑ سے بچ سکے۔ اس وقت اس کے سوا دفاع کا کوئی اور طریقہ ممکن ہی نہیں تھا لیکن میرے وہ عزیز کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر میں بھی لیٹ گیا تو قرآن مجید کی جو میرے سینے سے بندھا ہوا ہے بے حرمتی ہوگی اور پھر میں خدا کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا کہ میں نے اپنی جان کو کچھ عرصے تک بچانے کیلئے قرآن مجید کو زمین بوس کردیا اور جیتے جی قرآن کو سرنگوں ہونے دیا۔
یہ خیال آتے ہی میں نے دل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ چاہے میری جان کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو جب تک جان میں جان ہے میں قرآن مجید کو زمین پر نہیں لگنے دونگا یہ ارادہ کرکے میں گاڑی کے ساتھ پشت لگا کرکھڑا ہوگیا دو گھنٹے تک لگاتار گولیاں چلتی رہیں اور میرے دائیں بائیں اور اوپر سے گزرتی رہیں۔
ریل گاڑی کے اس ڈبے کے شیشے چکنا چور ہوگئے جس کے ساتھ میں کھڑا تھا لیکن نہ تو میرا قدم ڈگمگایا اور نہ ہی مجھے کوئی خراش آئی۔ جب فائرنگ بند ہوئی تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ میں ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اس کے علاوہ اس ڈبے کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو گولیوں سے چھلنی نہ ہوچکا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی ماہر نشانہ باز نے اپنے معمول کو لکڑی کی دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے اس کے گرد چاقو کا حصار کھینچ دیا ہو قرآن مجید کا یہ معجزہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔
افسوس! آج ہم اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں ورنہ رب تعالیٰ تو ہر دم ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔
(پروفیسر عبدالسلام فاروقی)
گاڑی آہستہ آہستہ چلتی بلکہ رینگتی ہوئی تین دن میں امرتسر پہنچی۔ راستے میں کئی جگہ ہندو اور سکھ بلوائیوں نے حملے کیے اور مسلمانوں کے مال وجان کو نقصان پہنچایا مگر گاڑی کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتی رہی لیکن امرتسر کے اسٹیشن پر رات کے وقت پہنچ کر ایسی رکی کہ دن کے نو بج گئے ڈرائیور اورگارڈ کا کہیں پتہ نہ تھا آخر ہندو اور سکھ فوج اور مسلح بلوائیوں کے گروہ اسٹیشن پہنچ گئے۔
انہوں نے پہلے تو تمام مسلمانوں کو گاڑی سے پلیٹ فارم پر اتار لیا۔ پھر رائفلوں' مشین گنوں اور برین گنوں سے مسلمانوں پر فائر کھول دیا۔ کیا قیامت کا سماں تھا۔ چاروں طرف مسلح ہندو اور سکھ اور درمیان میں نہتے مسلمان مرد' عورتیں اور بچے جو اپنا کوئی دفاع نہیں کرسکتے تھے سوائے اس کے کہ جس سے ہوسکا وہ زمین پر لیٹ گیا تاکہ گولیوں کی سیدھی بوچھاڑ سے بچ سکے۔ اس وقت اس کے سوا دفاع کا کوئی اور طریقہ ممکن ہی نہیں تھا لیکن میرے وہ عزیز کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر میں بھی لیٹ گیا تو قرآن مجید کی جو میرے سینے سے بندھا ہوا ہے بے حرمتی ہوگی اور پھر میں خدا کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا کہ میں نے اپنی جان کو کچھ عرصے تک بچانے کیلئے قرآن مجید کو زمین بوس کردیا اور جیتے جی قرآن کو سرنگوں ہونے دیا۔
یہ خیال آتے ہی میں نے دل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ چاہے میری جان کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو جب تک جان میں جان ہے میں قرآن مجید کو زمین پر نہیں لگنے دونگا یہ ارادہ کرکے میں گاڑی کے ساتھ پشت لگا کرکھڑا ہوگیا دو گھنٹے تک لگاتار گولیاں چلتی رہیں اور میرے دائیں بائیں اور اوپر سے گزرتی رہیں۔
ریل گاڑی کے اس ڈبے کے شیشے چکنا چور ہوگئے جس کے ساتھ میں کھڑا تھا لیکن نہ تو میرا قدم ڈگمگایا اور نہ ہی مجھے کوئی خراش آئی۔ جب فائرنگ بند ہوئی تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ میں ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اس کے علاوہ اس ڈبے کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو گولیوں سے چھلنی نہ ہوچکا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی ماہر نشانہ باز نے اپنے معمول کو لکڑی کی دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے اس کے گرد چاقو کا حصار کھینچ دیا ہو قرآن مجید کا یہ معجزہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔
افسوس! آج ہم اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں ورنہ رب تعالیٰ تو ہر دم ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔
(پروفیسر عبدالسلام فاروقی)