- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 305
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب (سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کا لقب فاروق اور علانیہ ہجرت )
قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے چھپ کر عبادت کرنے کے بجائے علانیہ عبادت کرنے پر زور دیا اور اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ ان کی اسی جرأت و بہادری کی وجہ سے انھیں فاروق کے لقب سے نوازا گیا تھا۔(ابونعیم، دلائل النبوہ،ص:١٤٢)
حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جنھوں نے علانیہ ہجرت کی اور مشرکین مکہ کے سامنے مکہ سے مدینہ ہجرت کے لیے رخت سفر باندھا۔ ہجرت کرنے سے پہلے کمان کندھے پر لٹکائی، تیر ہاتھ میں لیے اور تلوار تھام کر کعبہ میں گئے۔
رؤسائے قریش مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے کعبہ کا طواف کیا ، مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر قریشیوں کی تمام مجالس کے ہاں الگ الگ جاکر انھیں دعوتِ مبارزت دی کہ آج جو بھی اپنی ماں سے جدا ہونا چاہتا ہے، اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے وہ اس وادی کے پرے مجھ سے مل لے۔
لیکن کوئی ان کے سامنے نہ آیا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کچھ کمزور مسلمان بھی ہو لیے۔ یوں مشرکین کو للکارتے ہوئے سفر ہجرت کا آغاز کیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ کی ہجرت کا حال بیان کرنے والے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ہیں۔(الہندی، کنزالعمال:٣٥٧٩٦وابن الأثیر، أسد الغابہ:324/3)
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت : حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ قبول اسلام کے بعد ہمیشہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب رہے۔حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اکثر یہ فرماتے ہوئے سنا:(( ذَھَبْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ )) (صحیح البخاری :٣٦٨٥)''میں، ابو بکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر(فلاں جگہ) داخل ہوئے۔ میں ، ابو بکر اور عمر(فلاں مقام سے) نکلے ۔''
ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے: ((کُنْتُ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ))''میں،ابو بکر اور عمر تھے۔ میں، ابوبکر اور عمر نے ایسے کیا۔ میں، ابو بکر اور عمر چلے۔''
ان جذبات کا اظہار حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت سے پہلے ان سے گفتگو کے دوران میں کیا تھا اور ساتھ ہی کہا:مجھے اُمید ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ان دونوں برگزیدہ ہستیوں (حضرت محمد اور حضرت ابوبکر) کا ساتھ نصیب فرمائے گا۔(صحیح البخاری:٣٦٧٧)
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب (سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کا لقب فاروق اور علانیہ ہجرت )
قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے چھپ کر عبادت کرنے کے بجائے علانیہ عبادت کرنے پر زور دیا اور اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ ان کی اسی جرأت و بہادری کی وجہ سے انھیں فاروق کے لقب سے نوازا گیا تھا۔(ابونعیم، دلائل النبوہ،ص:١٤٢)
حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جنھوں نے علانیہ ہجرت کی اور مشرکین مکہ کے سامنے مکہ سے مدینہ ہجرت کے لیے رخت سفر باندھا۔ ہجرت کرنے سے پہلے کمان کندھے پر لٹکائی، تیر ہاتھ میں لیے اور تلوار تھام کر کعبہ میں گئے۔
رؤسائے قریش مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے کعبہ کا طواف کیا ، مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر قریشیوں کی تمام مجالس کے ہاں الگ الگ جاکر انھیں دعوتِ مبارزت دی کہ آج جو بھی اپنی ماں سے جدا ہونا چاہتا ہے، اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے وہ اس وادی کے پرے مجھ سے مل لے۔
لیکن کوئی ان کے سامنے نہ آیا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کچھ کمزور مسلمان بھی ہو لیے۔ یوں مشرکین کو للکارتے ہوئے سفر ہجرت کا آغاز کیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ کی ہجرت کا حال بیان کرنے والے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ہیں۔(الہندی، کنزالعمال:٣٥٧٩٦وابن الأثیر، أسد الغابہ:324/3)
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت : حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ قبول اسلام کے بعد ہمیشہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب رہے۔حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اکثر یہ فرماتے ہوئے سنا:(( ذَھَبْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ )) (صحیح البخاری :٣٦٨٥)''میں، ابو بکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر(فلاں جگہ) داخل ہوئے۔ میں ، ابو بکر اور عمر(فلاں مقام سے) نکلے ۔''
ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے: ((کُنْتُ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ))''میں،ابو بکر اور عمر تھے۔ میں، ابوبکر اور عمر نے ایسے کیا۔ میں، ابو بکر اور عمر چلے۔''
ان جذبات کا اظہار حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت سے پہلے ان سے گفتگو کے دوران میں کیا تھا اور ساتھ ہی کہا:مجھے اُمید ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ان دونوں برگزیدہ ہستیوں (حضرت محمد اور حضرت ابوبکر) کا ساتھ نصیب فرمائے گا۔(صحیح البخاری:٣٦٧٧)