محمدرسول اللہﷺ بقلم :شیخ عطیۃ اللّٰہ رحمہ اللّٰہ
محمدرسول اللہ ﷺ کا شجرہ نسب اس طرح ہے؛ آپ ﷺبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قصیٰ ...
آپ ﷺقریشی ،اسماعیلی اور ابراہیمی تھے۔
آپ ﷺ کا تعلق عرب کے مشہور شہر مکہ سے تھا جو کہ جزیرہ نما عرب میں واقع ہے(اس کا اکثر حصہ آج اس ریاست کی حدود میں واقع ہے جسے سعودی عرب کہا جاتا ہے)۔
بہت سے جغرافیہ دانوں ،ماہر ارضیات اور علم نجوم کے ماہرین کےمطابق مکہ دنیا کا مرکز ہے یا دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مکہ تقریبا کرہ ارض کے مرکز میں واقع ہے۔یہ ایک پہاڑی اور بنجر صحرائی علاقہ ہے جو دور قدیم سے عرب نسل کے انسانوں کا مسکن ہے۔
پیغمبروں کے سردار سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے عرب موجود تھے اور دور قدیم کی شاندار اور مضبوط تہذیب رکھنے والے عجیب وغریب ان کے بڑے بڑے قبائل یہاں آباد تھے۔
مؤرخین کے مطابق تمام قدیم عرب قبائل یا ان میں سے بیشتر اب معدوم ہو چکے ہیں اور ان کا وجود ختم ہو چکا ہے اور موجودہ عرب دوسرے قبائل ہیں جنہوں نے عربی زبان قدیم قبائل سے سیکھی اور زیادہ تر عالی منصب پیغمبر اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں جو اسحاق علیہ السلام کے بھائی اور ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔
مشرق وسطیٰ کہلانے والے اس علاقے، کرہ ارض کے مرکز اور پیغمبروں اور مقدس پیغامات کے گہوارے میں (صحیح لفظوں میں جزیرہ نما ئےعرب میں) ان لوگوں نے فطر ت کے قریب اور شہری زندگی کی پیچیدگیوں سے دور سادہ زندگی بسر کی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی فطرت اور ذہنیت میں میانہ روی کی بنا پر ان کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اور انہیں اپنی حیرت انگیز خصوصیات مثلاً، ایمانداری، صاف گوئی، وفاداری، فیاضی، حوصلہ، عزت نفس، ظلم وذلت کے استبداد، انسان دوستی، مردانہ وار خصوصیات، وعدوں کی پاسداری، عزم و ارادے کی مضبوطی، عظیم ولولے، فصاحت، ہوشیاری، فنون سے رغبت، حافظے کی تیزی اور پختگی کی بنا پر امتیازی وصف سے نوازا گیا حالانکہ یہ لکھنے کے فن سے نابلد تھے۔ یہ (اللہ تعالیٰ ) کی بہت بڑی حکمت تھی کہ زمین کے اس خطے کوتمام آسمانی پیغمبروں اور صحیفوں کے لیے چن لیا گیا تھا۔
محمدﷺ تمام مسلمان مؤرخین (جو آپ ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں) اور غیر مسلم مؤرخین (یہودی، عیسائی اور دیگر) کے نزدیک ایک عظیم انسان تھے۔ آپ ﷺ پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے پانچ سو اکہتر برس بعد پیدا ہوئے اور یتیم بچے کی طرح پرورش پائی کیونکہ آپ ﷺ کے والد تب ہی وفات پا گئے تھے جب آپ ﷺ ابھی اپنی والدہ کے رحم میں تھے۔ بچپن میں ہی چھ برس کی عمر میں، آپ ﷺ کی والدہ بھی وفات پاگئیں۔ اسی طرح اپنے دادا کی وفات کے بعدآپ ﷺ نے یتیم بچے کی حیثیت سے اپنے چچا کی زیر نگرانی پرورش پائی حتیٰ کے آپ ﷺ جوانی کی دہلیز پر پہنچ گئے۔
چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد؛ یعنی جب آپ ﷺ ایک مکمل آدمی بن گئے، زندگی اور اس کے تجربات سے واقف ہو چکے، شادی کرلی اور اپنے بچوں کی پرورش کرلی؛ معاشرے اور لوگوں سے آپ ﷺ اچھی طرح واقف ہو چکے اور معاشرہ اور لوگ آپﷺ سے متعارف ہو چکے تھے اور لوگوں کے درمیان آپ کا ایک مقام بن چکا تھا۔ ایک ایسا مقام جو تمام مورخین کے مطابق ایمانداری، اعتبار، ہوشیاری، پختہ ذہانت، خوش گفتاری، بہترین اطوار اوراعلیٰ اخلاقیات کے گرد گھوم رہا ہو۔ آپﷺ ایسی تمام خوبیوں سے سیر تھے جن کو پانے کے لئے انسان ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں مثلاً؛ فیاضی، ظلم و جبر اور ذلت کا انکار، ضرورت مندوں کا خیال رکھنا، کمزوروں سے ہمدردی کرنا، لوگوں کی مدد اور خدمت کرنا اور ان خامیوں، برائیوں اور قابل اعتراض خصلتوں سے پاک رہنا؛ جنہیں تمام ہوشیار لوگ قابل نفرت گردانتے ہیں۔ ان سب کے باوجود آپ ﷺ بھی باقی سب کی طرح (اپنے وقت کے بیشتر لوگوں کی طرح) ناخواندہ اور پڑھنے لکھنے سے قاصر تھے۔۔۔۔
اس عمر تک پہنچنے کے بعدآپ ﷺ نے اعلان کیا کہ آسمان سے آپ ﷺ پر وحی نازل ہو ئی ہے اور اللہ تعالی ٰ نے ایک فرشتے کو آپ ﷺ کی طرف بھیجا ہے جو آپ ﷺ کو دین کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دنیا والوں کے لیے پیغمبر کے طور پر چن لیا ہے اور آپ ﷺ رسولوں اور پیغمبروں پر مہر ہیں جن کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا۔
پہلے پہل آپ ﷺ نے اپنی تبلیغ کا اعلان خفیہ طور پراپنے قابل اعتماد دوستوں، جاننے والوں اور رشتہ داروں کے سامنے کیا۔ مقامی آبادی کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک گروہ نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا جس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے پیغام کی اعلانیہ تشہیر شروع کر دی۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت کے خاتمے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ ﷺ کی مخالفت کی، جھوٹا ہونے کا الزام لگایا اور ہر طرح کے الزامات سے آپ ﷺ پر بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے آپ ﷺ کو (نعوذ باللہ) جادو گر، جھوٹا اور پاگل کہا۔ انھوں نے آپ ﷺ پر فصیح شاعر ہونے کی تہمت لگائی جو اپنے کلام سے لوگوں پر جادو کر دیتا ہو۔ اسی طرح انھوں نے بہت سی دوسری متنازعہ باتیں بھی آپ ﷺ سے منسوب کیں۔
ان لوگوں نے آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کیا، آپ ﷺ کی ساکھ اور احترام کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ جسمانی اذیت بھی دی۔ آپ ﷺ نے صبر کے ساتھ اللہ کے نازل کردہ پیغام کو پھیلانے کے لیے ان الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اگر آپ ﷺ نے یہ سب اتنے صبرو تحمل سے برداشت نہ کیا ہوتا اور انہی لوگوں میں سے اپنے حمایت کار نہ نکالے ہوتے تو یہ دعوت کبھی نہ پھیلتی۔
آپ ﷺ نے اپنے لوگوں کی طرف سے روا رکھے گئے ظلم و تشدد کا سامنا نرمی، عظمت، عفو و درگزر اور بردباری سے کیا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ آپ ﷺ کو صدمہ پہنچاتے، آپ ﷺ کے کمزور ساتھیوں کو جسمانی اذیت دیتے، مذاق اڑاتے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرتے، بائیکاٹ کرتے اور ان کا محاصرہ کرتے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ ان کو نیکی کی دعوت دیتے اور جس پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجا اس کی وضاحت فرماتے۔ آپ ﷺ نے انھیں: ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی، جس کا کوئی ہمسر نہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں ان کے آباءواجداد کے معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا جنہیں وہ اللہ کا ہمسر ٹھہراتے یا اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے۔ آپ ﷺ نے انھیں نمازوں کی پابندی، زکوۃ کی ادائیگی، ایمانداری اور پاکیزگی، عہدو پیمان کی پابندی، قرض کی ادائیگی، امانت کی ادائیگی اور اپنی رشتہ داریوں کواستوار کرنے اور نیکی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا حکم دیا۔ ان کے نازیبا الفاظ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ﷺ نے دن رات ان کو اس پیغام کی یاد دہانی کروائی اور ان کی بہتری چاہی۔ آپ ﷺ کی پکار میں یقینا سچائی تھی لیکن انسان عام طور پر اس شے کا مخالف ہو جاتا ہے جس سے وہ بے خبر ہوتا ہے۔
آپ ﷺ نے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بھلائی، عزت، شرافت اور خوشی چاہی جبکہ انھوں نے اپنے لیے خسارے کے راستے کا انتخاب کیا۔ ان کے سرداروں اور بڑوں نے اپنی تمام طاقت اور مال کے ساتھ آپ ﷺ کے خلاف رسوا کن جنگیں لڑیں اور آپ ﷺ کو بدنام کرنے کے لیے دہشت انگیز خبریں پھیلائیں۔
حقیقتاً ! آپﷺ کے دور کے زیادہ تر لوگوں نے بہت سی ایسی وجوہات کی بنیاد پرــ جنہوں نے ان کو گھیر رکھا تھاــ جہالت اور گناہ کے پردے کی اوٹ لے رکھی تھی۔ جیسا کہ موجودہ زندگی کے ساتھ پہلے سے موجود تصورات اور انسانی وجود کے حقیقی مقصد سے بے خبری۔ نیز اپنے بزرگوں اور راہنماؤں کی تابعداری اور اطاعت، حالات کے بدل جانے کے بعد نتائج کا خوف اور اپنی موجودہ صورت حال پر اکتفاء کرنا۔ ان تمام غیر منصفانہ وجوہات کی بنیاد پر ان لوگوں نے تمام مواقع گنوا دئیے۔ اگر ان میں سے کوئی آج زندہ ہو جائے اور ہم اس سے سوال کریں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے جرم اور مایوسی کی بے مثل حالت کو ہی بیان کرے گا۔
جہاں تک ان کے سرداروں اور بڑوں کا تعلق ہے تو وہ اس بات کے خوف سے کہ اگر انھوں نے محمد ﷺ کی بات مان لی تو ان سے ان کی امارت و قیادت چھن جائے گی؛ وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے اور بے انتہا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن کیا اس چیز نے انہیں کچھ فائدہ پہنچایا؟ اب صدیوں بعد ہم ان لوگوں کو یاد کر رہے ہیں، آپ ﷺ کو یاد کر رہے ہیں اور یہ یاد کر رہے ہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا؟ ان میں سے کون فاتح اور ہمیشہ کے لیے سر خرو ہوا، اور کون شکست خوردہ لعنت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے بدنام ہوا؟
محمد ﷺ پر جیسے جیسے وحی تھوڑی تھوڑی کر کے نازل ہوتی رہی درجہ بدرجہ اپنی تبلیغ کا اعلان جاری رکھا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو سچے دین کی تعلیم دیتے رہے۔ ایک ایسی تعلیم جو رحم، انصاف، سخاوت، بھلائی، عقلمندی اور اصلاحی خصوصیات اپنے اندر سموئی ہوئی تھی، اس پیغام کو اچھے نفوس نے پسند کیا جو ہر نیکی کا حکم دیتا اور ہر برائی سے روکتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس دعوت کو اس وقت تک جاری رکھا جب تک آپ ﷺ اپنی قوم کے اسلام لانے سے مایوس نہیں ہوگئے۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازشیں کیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی جہاں آج آپ ﷺ کا روضہِ مبارک اور مسجد موجود ہے۔
مدینہ میں کئی عرب قبائل آباد تھے، جن کے کچھ لوگ حج کے دنوں مکہ آنے کے دوران آپ ﷺ کو دیکھنے اور سننے کے بعد آپ ﷺ کی دعوت پر ایمان لا چکے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں جو دعوت دی تھی اس پر پختہ ایمان کی وجہ سے یہ لوگ ہر طرح سے آپ ﷺ کی مدد کرنے کے لیے جوشیلے ہوگئے۔ اسی لیے انھوں نے آپ ﷺ کو اپنے شہر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دی، جہاں آپ ﷺ رہ سکیں اور وہ لوگ آپ ﷺ کی مدد کر سکیں، آپ کو پناہ دیں سکیں اور آپ ﷺ وہاں سے اپنی دعوت کو پھیلا سکیں۔
محمد ﷺ نے فی الواقع ہجر ت کی اور اپنے ساتھیوں، جو ایسا کرنے کی استطاعت رکھتے تھے ان کو بھی اس کا حکم دیا۔ لہذا مردوں، عورتوں اور بچوں نے اپنے دین کی خاطر ہجرت کی۔ ان لوگوں کے ہجرت کرنے کا کوئی ذاتی یا دنیاوی، معاشی، سیاسی یا دوسرا کوئی اور سبب نہ تھا سوائے اس دین کے جس پر وہ ایمان رکھتے تھے اور اسے اللہ کے پیغام کے طور پر جانتے تھے۔ وہ اللہ جس نے انھیں پیدا کیا اور انسان بنایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ صرف اس کی عبادت کریں، اور وہ انھیں دنیا کی آزمائشوں کے ذریعے پرکھ رہا تھا۔
ان سادہ عرب قبائل کے نہ ہی کوئی اعلیٰ سیاسی عزائم یا توسیع پسندانہ منصوبے تھے اور نہ ہی کوئی ایسی قابل ذکر تہذیب تھی جس کا دنیا کی تہذیبوں میں آج کوئی ذکر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت کے متعلق ان کے پختہ یقین اور حتمی سچائی پر ان کے عقیدے نے ان کی روحوں اور فطرت پر گہرا اثر ڈالا اور جس رد عمل کا انہوں نے اظہار کیا، بہت سے مورخین کے مطابق پہلے پیغمبروں کے چند پیروکاروں کے علاوہ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
وہ شہر جہاں آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی، جہاں مہاجرین اور انصار دونوں رہتے تھے محمد ﷺ نے اس شہر کو اپنی ریاست کا مرکز بنایا۔ یہاں آپ ﷺ نے آزادی سے حق کا پیغام پھیلایا اور اپنے پیروکاروں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات ترتیب دئیے۔ اللہ کے حکم اوراس کی وحی کی روشنی میں ان کے لیے ایسی قانون سازی اور شرعی احکام مرتب کیے جن سے وہ بتدریج مکمل ہونے لگے اور لوگوں کے نظریات، عقائد اور معاشرتی زندگی میں رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتے گئے۔
آپ ﷺ اپنی آبائی قوم (قریش) کے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے آپ ﷺ کو اپنے آبائی وطن کو چھوڑ دینے پر مجبور کیا، ایسی جنگوں میں داخل ہوئے جن میں آپ ﷺ نے اپنی چھوٹی اور محدود لشکر کے ساتھ ان پر فتح پائی۔آپ ﷺ اور قریش کے درمیان پہلی جنگ، جنگ بدر تھی جس کو مسلمانوں کی زندگیوں میں اہم مقام حاصل ہے اور یہ جنگ تاریخ اسلام کا ایک اہم جز ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور ان کے درمیان یکے بعد دیگرے کئی جنگیں ہوئیں، کیونکہ ان (کفار) نے آپ ﷺ کو، آپ ﷺ کی تبلیغ کو، آپ ﷺ کے پیروکاروں کو اور آپ ﷺ کی قائم کردہ اسلامی ریاست کو ختم کرنے کی بھر پور کوششیں کیں یہاں تک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی مدد فرمائی اور آپ ﷺ نے دشمن کو شکست دے کر ان کے دارالحکومت (مکہ ) کو فتح کر لیا جو ان کا آبائی وطن تھا جس سے انھوں نے آپ ﷺ کو نکال دیا تھا، یعنی مکہ جو کہ دنیا کا مرکز ہے۔
آخر کار آپ ﷺ کی اپنی قوم کے ان لوگوں کے ساتھ جنگوں کا اختتام ہوا، جو عربوں میں نسب کے لحاظ سے اعلی اور محترم مقام کے حامل تھے کیونکہ یہ مکہ کے رہائشی اور کعبہ کے متولی تھے، جو کہ اللہ کا قدیم اور مقدس گھر تھا جسے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے تعمیر کیا تھا۔
اس پس منظر میں تقریباً پورا جزیرہ نمائے عرب دینِ محمد ﷺ کے دائرے میں داخل ہو گیا، وہ تمام لوگ آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کی پیروی کی؛ دوسرے لفظوں میں تمام عرب، کیونکہ اس دور میں جزیرہ نمائے عرب کی حدود سے باہر عرب آباد نہیں تھے۔
پھر محمد ﷺ نے دوسری ریاستوں کے بادشاہوں کوخطوط بھجوانا شروع کیے جن میں انھیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پرایمان لانے کا کہا گیا، جو کہ آپ ﷺ پر نازل کیے گئے تھے۔
آپ ﷺ نے بازنطینی، رومی سلطنت کے بادشاہ، فارس کے بادشاہ اور دوسرے بادشاہوں کو خطوط بھجوائے۔
اسی اثنا میں نبی ﷺ وفات پا گئے اور آپ ﷺ ذاتی طور پر ان بڑی سلطنتوں کے ساتھ آخر تک مکمل برتاؤ کرنے تک زندہ نہ رہ سکے۔
اسلامی شریعت کی بنیادیں اور اصول جن کے ساتھ آپ ﷺ کو بھیجا گیا، ان کی روشنی میں خلافت سنبھالنے، یعنی آپ ﷺ کے بعدانتظامی امورچلانے کے لیے حاضرین نے آپ ﷺ کے دوست اور نائب سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ آپ ﷺ کے رفقاء میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے اور سب سے زیادہ قریبی ساتھی، عزیزومحبوب، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تمام ضروری خصوصیات اور خوبیوں کے مالک تھے۔
چنانچہ آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی بنیادیں قائم رہیں؛ جب بھی کسی خلیفہ کی وفات ہوتی تو دوسرا انتخاب کے ذریعے ان کی جگہ لے لیتا، یہاں تک کہ مسلمانوں کے درمیان جھگڑوں اور خانہ جنگیوں کا آغاز ہو گیا، جو کئی برس تک جاری رہنے کے بعد صلح اور امن سے اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے بعد ایک خلیفہ نے حالات کے پیش نظراجتہاد کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اس وقت سے اسلامی تاریخ میں موروثی بادشاہت کا آغاز ہوااور اسلامی تاریخ میں یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔
تاریخ کا پہیہ چلتا رہے گا جب تک کہ دنیا کے اختتام کا وقت نہ آن پہنچے، اسی لیے مسلمانوں کی تاریخ میں بھی مختلف ادوار آتے رہے، کچھ ان کے حق میں اچھے تھے اور کچھ اتنے اچھے نہ تھے۔ ان (بادشاہوں) میں سے کچھ نے دین اسلام اور نبی ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور کچھ نے دین کو نظر انداز کیا اور صرف دین کا نام اور اصل مقصد کے بغیرچند نعروں کو استعمال کیا۔۔۔۔
امت مسلمہ اپنی تاریخ میں سیاسی، فوجی، معاشی، ثقافتی، سماجی، نظریاتی، سائنسی اوردیگر مراحل میں کئی طاقتور اورکمزور ادوار سے گزری ہے۔
تاریخ میں ایک وقت وہ بھی تھا جب امت مسلمہ نے دنیا پر حکومت کی اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ دنیا نے انصاف، رحم دلی اور سخاوت کا مزہ چکھا۔ یہ وہ تین صفات ہیں جن کے متعلق غیر جانبدار تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ صفات سوائے اسلامی دورِ حکومت کے، کبھی دنیا میں اکٹھی نہیں پائی گئیں۔
خلفاء میں سے نیکوکار لوگوں نے محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اسلام کو پھیلایا اور لوگوں کو اس کی دعوت دی، اور دنیا کے بہت سے ممالک کو دین اسلام کے ذریعے فتح کیا۔ تاریخ میں ان کی فتوحات اور توسیعات منفرد ہیں۔ وہ فتوحات کسی معاشی سبب، سیاسی مفادات کی غرض سے، نفسیاتی خواہش کی تسکین یا کسی بدلے کے لیے نہ تھیں۔ بلکہ یہ دین حق کو اور اس اچھائی کو پھیلانے کے لیے تھیں جو نبی ﷺ لائے تھے۔ کمزوروں اور مظلوموں کو ہر ایسی طاقت سے، جو ان سے انتخاب کا حق چھین لیتی تھی، آزادی دلوا کر یہ اختیار مکمل طور پر انھی کو سپرد کردیا کہ وہ چاہیں تو اس کو اپنالیں اور چاہیں تواس کو چھوڑ دیں۔
بالآخر بہت سی وجوہات کی بنیاد پر مسلم مملکت کمزور پڑ گئی اور زوال کا شکار کئی وجوہات کی وجہ سے ہوئی جن میں سے بعض یہ ہیں: غرور، خود غرضی، بڑے بول، حصولِ شہرت، اپنے لئے بڑے بڑے القابات اور ناموں پرفخرکرنا، خواہشات نفس اور ہوس کے احساسات میں کھو جانا۔ اس کے علاوہ ان میں وہ خامیاں آچکی تھی جو قوموں کے زوال کا باعث بنتی ہیں۔
تاہم امت مسلمہ ان تمام کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود، جن سے وہ متاثر ہوئی تھی، مجموعی طو پر یہ عزم وحوصلے کے ساتھ ان اصولوں، بنیادوں اور عملی ڈھانچے کے ساتھ مضبوطی سے چمٹی رہی جو نبی ﷺ لائے تھے۔ تاہم آج اپنے درمیان سے نئی تبدیلیوں کے ابھرنے اور سختیوں، جارحیت، ظلم وتشدد کا مزہ چکھنے کے بعد، جو کہ خاص طور پر یورپیوں نے روا رکھا، تو مسلمان اپنی حالت زار اور اپنے ارد گرد موجود دنیا سے واقف ہوئے اور یہ جان لیا کہ انھوں نے بہت سی چیزوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور وہ اقوام کے مابین ترقی کی راہ میں پیچھے رہ گئے ہیں، تو اس احساس نے انھیں ہلا کر رکھا دیا، کہ سالوں کی پڑی یہ گرد اور بے قراری اب دور ہو گئی ہے اور یہ ایک بار پھر(انسانیت کی) راہبری کرتے نظرآ رہے ہیں۔ یہ شعور و آگاہی ایک نشاط ثانیہ کی گواہی دے رہی ہے۔