حدیث زیر مطالعہ کے معنی کے تعیین اور رفع تعارض کے لئے تاویل
اب جبکہ حدیث زیر بحث لائق استدلال ثابت ہوچکی ہے تو ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس حدیث کے معانی اور اس کی اصل مراد کو سلف و صالحین، ائمہ و فقہائے حدیث نیز محقق علماء و شارحین کے اقوال کی روشنی میں سمجھا جائے، چنانچہ
ملا علی قاری حنفیؒ (۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں:
’’صحیح روایت میں
’’فلاشيئ له‘‘ ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ روایت
’’فلاشيئ عليه‘‘ پر محمول ہے اور میں نے اس مسئلہ کو ایک مستقل رسالہ میں بیان کیا ہے۔‘‘(۶۴ )
لیکن امام بغویؒ (۶۱۵ھ) فرماتے ہیں:
’’اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے تو بھی اس بات کا احتمال ہے کہ اس سے مراد اجر میں کمی ہو، کیونکہ اگرمسجد میں نماز پڑھی جاتی ہے تو اکثر لوگ وہیں سے واپس لوٹ جاتے ہیں، اور میت کی تدفین میں شریک نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف جس کی نماز قبروں کے پاس صحراء میں ہوتی ہے تو لوگ اسکی تدفین میں بھی شریک ہوتے ہیں اور اس طرح ان کیلئے دو قیراط کا اجر مکمل ہوجاتا ہے۔‘‘(۶۵ )
امام ابن قیم جوزیؒ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں:
’’ اس بات کا احتمال بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث اگر ثابت ہو تو اس کا معنی یہ لیا جائے کہ اس سے متأولاً اجر میں کمی کا اثبات ہوتا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ جو لوگ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں، ان میں سے بیشتر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور تدفین میں شریک نہیں ہوتے۔ جو شخص جنازہ کے لئے سعی کرے، پھر قبروں کے پاس اس کی نمازِ جنازہ پڑھے اور اس کی تدفین میں شریک ہو، اس کے لئے دو قیراط کا اجر ہے۔ اسی طرح جتنے زیادہ قدم چل کر جایا جائے اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے۔ لہٰذا جو شخص مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھے، اس کے اجر میں مزید کمی ہوئی، بمقابلہ اس شخص کے جو کہ مسجد سے باہر نماز جنازہ پڑھے۔
ایک جماعت نے حدیث کے الفاظ
’’فلاشيئ له‘‘کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد
’’فلاشيئ عليه‘‘ ہی ہے تاکہ دونوں الفاظ کے معانی میں وحدانیت و یکسانیت پیدا ہوجائے اور یہ دونوں الفاظ باہم متناقض بھی نہیں ہیں جیساکہ ارشادِ باری ہے:
’’ وَاِنْ أسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘ (۶۶ ) اور اس میں
’’فلها‘‘ سے مراد
’’فعليها‘‘ ہے۔‘‘(۶۷ )
امام خطابیؒ بھی فرماتے ہیں کہ :
’’یہ ممکن ہے کہ
’لہ‘ میں ’لام‘ بمعنی
’علی‘ (یعنی ’علیہ‘) ہو جیسا کہ اس ارشادِ باری تعالیٰ میں
’’ وَاِنْ أسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘ سے مراد ہے۔‘‘(۶۸ )
شارح ترمذی علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوریؒ (۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں:
’’جہاں تک امام ابوداودؒ کی مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو میں بھی اس کا جواب چند پہلو سے دیتا ہوں جس طرح کہ امام نوویؒ نے ’ صحیح مسلم‘کی شرح میں اس کا جواب متعدد وجوہ سے دیا ہے اور ان میں سے
اوّل یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں مولی التوأمہ کا تفرد ہے، اور وہ خود ضعیف ہے۔
دوم یہ کہ ’سنن ابوداود‘ کے مشہور، محقق اور مسموع نسخوں میں اس حدیث کے یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ’’جس نے مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھی، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘‘، لہٰذا اس حدیث سے ان کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
سوم یہ کہ اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ ’’اس کے لئے کچھ نہیں ہے‘‘ تو بھی اس کی یہ تاویل واجب ہوگی کہ ’اس پر‘ (علیہ) یا ’اس کے لئے‘ (لہ) کوئی گناہ نہیں ہے تاکہ دونوں روایتوں کے مابین جمع و تطبیق قائم ہوسکے۔ مزید فرماتے ہیں کہ ’لہ‘ ،’علیہ‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ اس ارشادِ باری تعالیٰ سے واضح ہے: ’’ وَاِنْ أسَأتُمْ فَلَهَا ‘‘ اور
چہارم یہ کہ یہ حدیث اس شخص کے اجر میں کمی پر محمول ہوگی جو مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھ کر لوٹ جائے اور قبرستان تک میت کے ساتھ نہ جائے ، کیونکہ جو اجر اس سے چھوٹا وہ قبرستان تک میت کے ساتھ جانے اور تدفین کے وقت اس کی موجودگی کا ہے۔‘‘(۶۹ )
شارحِ سنن ابی داود علامہ ابوطیب شمس الحق محدث عظیم آبادیؒ (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں کہ
’’یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھیں اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان دونوں خلفاء کے جنازوں کی نمازوں میں عام مہاجرین اور انصار (صحابہؓ)نے شرکت کی تھی۔ پس صحابہؒ کا اس فعل پر ترکِ نکارت اس کے جواز کی دلیل ہوئی۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس حدیث کا یہ معنی لیا جائے کہ اس سے متاوّلاً اجر میں کمی کا اثبات ہوتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ جولوگ مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھتے ہیں، ان میں سے بیشتر نماز کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور تدفین میں شریک نہیں ہوتے۔ جو شخص جنازہ کے لئے سعی کرے، اس پرنمازِ جنازہ پڑھے، قبرستان جائے اور تدفین میں شریک ہو تو اس کے لئے دو قیراط کا اجر ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جس نے نمازِجنازہ پڑھی اس کے لئے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کی تدفین میں بھی شریک ہو اس کے لئے دو قیراط کا اجر ہے‘‘ اور قیراط اُحد پہاڑ کے مثل ہے۔ اس کے علاوہ جتنے زیادہ قدم چل کر جایا جائے، اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے، لہٰذا جو شخص مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھے، اس کے اجر میں مزید کمی ہوئی بمقابلہ اس شخص کے جو میدان میں نمازِ جنازہ پڑھے۔ اور حدیث کے الفاظ
’’فلاشيئ عليه‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اس میں نماز پڑھنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے حدیث کے الفاظ
’’فلاشيئ له‘‘ سے مراد یہ بتائی ہے کہ مسجد میں نمازِجنازہ ادا کرنے والے نمازی کے لئے کوئی اضافی فضیلت نہیں ہے، بلکہ (جہاں تک نمازِ جنازہ پڑھنے کا ثواب کا تعلق ہے تو) خواہ مسجد میں ہو یا کسی اور جگہ اس کا اجر برابر ہے۔ اس سے دونوں حدیثوں کے مابین تعارض اور اختلاف دور ہوجاتا ہے۔‘‘(۷۰)
امام شوکانی ؒ (۱۲۵۰ھ) فرماتے ہیں:
’’مسجد میں نمازِ جنازہ کی کراہت پراس حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جس کی تخریج امام ابوداود نے حضرت ابوہریرہؓ سے کی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’من صلی علی جنازه في المسجد فلاشيء له‘‘ اور امام ابن ماجہؒ نے ان الفاظ کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے:
’’فليس له شيئ‘‘ لیکن اس حدیث کی سند میں صالح مولی التوأمہ ہے جس پر متعدد ائمہ نے کلام کیا ہے۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ :
جمہور نے اس کا جواب متعدد وجوہ سے دیا ہے (پھر وہ تمام وجوہ بیان کرتے ہیں جو اوپر حاشیہ نمبر۶۹ سے متعلق ’تحفۃ الاحوذی‘ کے منقولہ اقتباس میں گزر چکے ہیں)‘‘(۷۱ )
علامہ سید سابق فرماتے ہیں:
’’بعض ائمہ نے امام ابوداود ؒکی روایت کے الفاظ: ’’جس نے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی اس کے لئے کچھ نہیں ہے۔‘‘ سے مراد یہ بتائی ہے کہ اس پر کوئی عذاب نہیں ہے۔‘‘(۷۲)
علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ امام ابن قیم الجوزیہؒ کی مذکورہ بالا تحسین حدیث سے مطمئن نظر نہیں آتے، چنانچہ دبے لفظوں میں حدیث عائشہؓ اور حدیث ابوہریرہؓ کے مابین موافقت و تاویل نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہاں اوپر جس موافقت کی طرف اشارہ کیا گیاہے اس کے لئے اگر (امام ابن قیمؒ کی طرف سے) یہ کہا گیا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا کہ حدیث عائشہؓ کی غایت مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے پر دلالت کرنا ہے اور صالح کی حدیث اس کی نفی نہیں کرتی کیونکہ یہ حدیث نمازِجنازہ پر اجر کی مطلق نفی نہیں کرتی بلکہ یہ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے خصوصی اجر کی نفی کرتی ہے۔‘‘(۷۳ )