• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاشرتی توہمات

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
معاشرتی توہمات

ہتھیلی پر خارش:
پاکستانی معاشرے میں یہ ایک عام تصور پایا جاتا ہے کہ ہتھیلی پر اگر خارش ہو تو یہ مال و دولت کے آنے جانے کا شگون ہے اگر دائیں ہاتھ پر خارش ہو تو دولت ملتی ہے اور اگر بائیں ہاتھ پر خارش ہو تو مال ودولت کو نقصان پہنچتا ہے۔
پانی

پانی کا گلاس الٹ جانا:
پاکستانی معاشرے میں پانی کے بارے میں بھی بہت توہم پرستی پائی جاتی ہے۔ یہ ایک عام تصور ہے کہ اگر پانی کا گلاس الٹ جائے تو اس سے کوئی مصیبت آنے والی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے ماموں زاد بھائی کی شادی کی تاریخ لینے ہمارے گھر کے کچھ بزرگ گئے۔ وہاں ایک عورت ٹرے میں پانی کے گلاس رکھ کر آئی اور وہ گلاس گر گئے۔ اور اسی دن میرے ماموں زاد بھائی ایک الزام کی وجہ سے جیل میں بند کر دیئے گئے۔ میرے ماموں کے یہ الفاظ تھے کہ جب پانی کے گلاس الٹے تھے تو مجھے اسی ٹائم یقین ہوا تھا کہ آج ضرور کچھ برا ہونے والا ہے۔
پانی کے پینے سے انکار نہ کرنا:
یہ بھی عام تصور پایا جاتا ہے کہ اگر پانی پینے سے انکار کر دیا جائے تو اس میں نحوست پائی جاتی ہے۔ یعنی کوئی مصیبت آن پڑے گی۔
غروب آفتاب کے وقت پانی نہ پینا:
بزرگ لوگ غروب آفتاب کے وقت پانی پینے سے منع کرتے ہیں ان کے نزدیک اکر غروب آفتاب کے وقت پانی پیا جائے گا تو یہ ان کے لئے مصیبت لے کر آئے گا۔
آگ پر پانی ڈال کر بجھانا:
آگ پر پانی ڈال کر بجھانا منحوس تصور کیا جا ہے۔ چولہے میں پانی نہیں انڈیلا جاتا ہے۔ یہ برا شگون سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے گھرانے کے رزق میں کمی آتی ہے۔(پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا : ص 337)
آٹے میں پانی زیادہ ہو جانا:
اگر آٹے میں پانی زیادہ ہو جائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ آج ضرور کوئی مہمان آنے والا ہے۔(اغلاط العوام از مولانا محمد اشرف علی تھانوی : ص 45)
بعض علاقوں میں اسے نحوست کا عمل بھی سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا کے مطابق
سورج غروب ہوتے وقت کسی کو آٹا نہیں دیا جاتا کہ اس طرح گھر کی برکت جاتی ہے۔(پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا : ص 338)
جوتوں کے بارے میں توہمات

سفر پرجانے کی نشانی:
جوتوں سے بھی اچھا اوربرا شگون لیا جاتا ہے۔ جوتے اگر ایک دوسرے کے اوپر پڑے ہوں یا پاؤں اتارتے وقت ایک دوسرے کے پیچھے پڑ جائیں تو اسے سفر پر جانے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
جھگڑے کی علامت:
جوتوں کے رخ سے سفر کی سمت کا تعین کیا جاتا ہے اتارتے وقت اگر جوتے اس طرح آ جائیں کے دونوں کے سامنے رخ ایک دوسرے کے سامنے ہوں تو اسے برا شگون اور گھر میں جھگڑے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔(پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا : ص 338)
بدنصیبی کی علامت:
جوتے اگر الٹے پڑے ہوں تو انہیں بد نصیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے اس سے شگون لیا جاتا ہے کہ کوئی جب مصیبت آ پڑے گی یا کسی کی موت واقع ہو جائے گی۔
سفر سے متعلق توہمات

پانی چھڑکنا:
سفر پر جاتے ہوئے مسافر کے گھر سے باہر نکلتے ہی اس کے پیچھے پانی چھڑکنا ایک عام سی بات ہے۔ بعض لوگوں میں یہ رسم عام تھی کہ مسافر کے پیچھے بھوسہ چھڑکا جائے تو اس کا سفر خیریت سے گزرے گا۔ لیکن بھوسے کی رسم اب کم دیکھنے میں آتی ہے البتہ پانی نہ صرف دیہات میں بلکہ اچھے خاصے شہری لوگ بھی چھڑکتے ہیں۔
مسافر کے پیچھے سے پکارنا منحوس ہے۔
سیاہ رنگ
پاکستان میں سیاہ رنگوں کے بارے میں توہم پرستی رائج ہے۔ رنگوں کو زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ جیسا کہ سیاہ رنگ کو پہننا منحوس سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگ سرخ لباس کو برا سمجھتے ہیں۔
سیاہ برتن:
اسی طرح اکثر گھروں میں سیاہ برتن خاص طور پر دیگچی رکھنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ اور دو آدمیوں كى بيچ میں اگر کوئی سیاہ برتن یا کالی دیگچی پڑی ہوئی ہو تو اسے بھی منحوس خیال کیا جاتا ہے۔
سیاہ رنگ کے جانور:
سیاہ رنگ کے جانوروں کو بھی منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سیاہ رنگ کا کتا یا خرگوش پالنے کو بھی منحو س خیال کیا جاتا ہے۔
شادی سے متعلق توہمات

جس طرح زندگی کے دوسرے اہم امور میں شگون و بدشگون کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی توہمات پائی جاتی ہیں۔ شادی کی تاریخ کے لئے خاص دنوں کا اور خاص مہینوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ منگل ، بدھ کا دن، اور صفر اور محرم میں شادی کرنا منحوس خيال كيا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی توہمات رائج ہیں جن کی کچھ مثالیں یہ ہیں:
ہاتھ میں لوہے کی چھڑی پکڑ کر نکاح کروانا:
دولہے کے نکاح کےوقت اسے ہاتھ میں لوہے کی چھڑی پکڑا دی جاتی ہے اور اس سے یہ شگون لیا جاتا ہے کہ اس لوہے کی چھڑی کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی آفات وبلیات سے محفوظ رہے گی۔
دلہن کا چھت پر جانا:
شادی کے قریب وقت میں دلہن کو چھت پر بالکل نہیں جانے دیا جاتا اس کے پیچھے یہ توہم پایا جاتا ہے کہ چھت پر جانے سے دلہن کو آفات اور بلاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دلہن کے سر پر قرآن گزارنا:
رخصتی کے وقت دلہن کےسر پر قرآن رکھا جاتا ہے اور دلہن سے ایک طرح کا عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اس قرآن کی قسم کھا کر کہے کہ وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرے گی اور شوہر کی فرمانبرداری کرے گی۔ اور قرآن کےسائے تلے بیٹی کو رخصت کرنے کا ایک یہ بھی تصور پایا جاتا ہے کہ اس سے اس کی آنے والی زندگی خوشگوار گزرے گی۔
چاول پھینکنا:
دلہن کی رخصتی کے وقت دلہن کے ایک برتن میں چاول دیے جاتے ہیں جو وہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے اپنے پیچھے پھینکتی ہے اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ دلہن اپنے ماں باپ کارزق انہی کے گھر چھوڑے جا رہی ہے۔ اور ساتھ کچھ نہیں لے کر جا رہی۔ اللہ تعالی کے دیئے گئے رزق کی بے حرمتی کی یہ ایک واضح مثال ہے۔
دروازے میں تیل ڈالنا:
جب دلہن اپنے سسرال پہنچتی ہے تو دولہا اور دلہن گھر میں داخل ہونے سے پہلے روک لیا جاتا ہے ۔ پہلے تیل کو سر پر سے وارا جاتا ہے اور پھر وہ تیل دروازے کے دونوں کونوں میں ڈالا جاتا ہے۔
اس سے یہ شگون لیا جاتا ہے کہ دلہن کے قدم خیر وبر کت کا سبب بنیں۔
چمچہ یا ہنڈیا ںچاٹنا:
يہ بھی تصور پایا جاتا ہے کہ اگر کنواری لڑکی چمچہ یا ہنڈیاں چاٹ لے تو اس کی شادی پر ضرور بارش ہو گی یا اولے پڑیں گے۔
ماں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر جانے اور اپنا اپنا گھر بسانے تک متعدد اسے ٹونے ٹوٹکے ہوتے ہیں جن کا تعلق ازدواجی زندگی سے ہے۔ مثلا نظر بد سے محفوظ رہنے یا صاحب اولاد ہونے کے وغیرہ وغیرہ۔
بچوں کے بارے میں توہمات

جتنی رسمیں دنیا میں آنے کے وقت سے مرتے دم تک کی جاتیں ہیں ان میں سے اکثر بلکہ تمام رسمیں اسی قسم سے ہیں جو بڑے بڑے سمجھ دار اور عقل مند لوگوں میں طوفان عام کی طرح پھیل رہی ہیں جن کی نسبت لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس میں گناہ کی کونسی بات ہے۔
اور بد شگونیوں کے عملوں سے گزرتا ہے۔
بچے کے پیٹ پر چمڑا رکھنا:
پاکستان میں یہ ایک عام تصور ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے بہت سے خطرات درپیش ہوسکتے ہیں آفات و بلیات جیسے بچہ کے پیدا ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور جنات سے بچانے کے لئے مختلف عمل کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بچے کے پیٹ پر چمڑا رکھا جاتا ہے۔
فتاوی برائے خواتین میں ہے:
’’ اگر بچوں کے پیٹ پر چمڑے یا کپڑے کا ٹکڑا رکھنے کا وہی مقصد وہی ہوتا ہے جو تعویذات کا ہوتا ہے یعنی اس سے نفع حاصل کرنے یا نقصان سے بچنا تو یہ حرام ہے بلکہ بعض اوقات شرک ہے۔ ہاں اگر ایسا کسی صحیح مقصد کے تحت کیا جائے مثلا بچے کی ناف کو متورم ہونے سے بچانا یا پیٹھ کو مضبوطی سے باندھنا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(فتاوی برائے خواتین از شیخ محمد بن عبد العزیز : ص 46)
بچے کے پاس چھری رکھنا:
بچے کو نحوست سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے پاس چھری یا تالا رکھ دیا جاتا ہے۔
شیخ محمد بن عبد العزیز اپنی تصیف فتاوی برائے خواتین میں رقمطراز ہیں:
’’ بعض لوگ اپنے بچوں کو جنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کے پاس چھری رکھ دیتے ہیں۔ یہ عمل منکر ہے۔ چونکہ شرعا اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ نیز ان کے لئے دعا کرے کہ اللہ تعالی انہیں پر برائی سے محفوظ فرمائے۔ بچوں کے پاس چھری یا لوھے اور لکڑی وغیرہ کی کوئی اور چیز اس اعتقاد سے رکھنا کہ یہ انہیں جنوں سے محفوظ رکھے گی تو ایسا کرنا منکر اور ناجائز ہے۔‘‘(فتاوی برائے خواتین از شیخ عبد العزیز : ص 46)
پیدائش کے دن:
بچوں کے پیدائش کے دنوں کے مطابق ان کی آنے والی زندگی کاشگون لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ جو بچے منگل یا بدھ کے دن پیدا ہوتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بچے کوئی نیک بخت والے نہیں ھوں گے یا یہ مال باپ کو مصیبت میں ڈال دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ
بچہ باپ کے گھر ہونا چاہیے:
یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جہانتک ہو سکے پہلا بچہ باپ ہی کے گھر ہونا چاہیے جس سےبعض وقت قریب زمانہ تولد میں بھیجنے کی پابندی میں تمیز نہیں رہتی کہ یہ سفر کے قابل ہے یا نہیں۔ جس سے بعض اوقات کوئی بیماری ہو جاتی ہے حمل کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ مزاج میں ایسا تغیر او رتکان پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کو اور بچے کو مدت تک بھگتنا پڑتا ہے۔ اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس کے خلاف کرنے سے کوئی نحوست ہو گی۔(اشرفی بہشتی زیور از مولانا محمد اشرف علی تھانوی : ص 602)
بچے کے گلے میں ادرک کا ٹکڑا باندھنا:
اسی طرح بچے کو بد نظر اور دیگر آفات سے بچانے کے لئے اس کے گلے میں ادرک کا ٹکڑا باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے۔
 
Top