• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مچھر ہی کی مثال کیوں؟ ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
[إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ (26) الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27) ]

ہاں! اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتے کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر چیز کی تمثیلیں دیں، اس کی مثال بیان کریں۔


قرآن میں مختلف مثالیں:
آپ دیکھئے کہ جب قرآن پاک میں مختلف چیزوں کی مثال دی گئی۔ نبی ﷺ حق کو بیان کرنے کےلیے معمولی چیزوں کی مثال بیان کرتے تو منکرین حق شوشہ بازی کرتے اور کہتے کہ یہ اگر اللہ کی کتاب ہے تو اس میں مچھر کی بات کیوں ہے؟اس میں مکھی کی بات کیوں ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تخلیق بھی میری اپنی ہے۔ مچھر کی مثال سے مجھے شرم نہیں آتی۔کیوں؟ اس لیے کہ تمہیں بظاہر مچھر بہت حقیر نظر آتا ہے لیکن وہ حقیر نہیں ہے۔

مچھر کی زندگی:
یہ اپنی زندگی کا آغاز پانی کے نیچے کرتا ہے، انڈوں سے لاروا بنتا ہے ۔ اس دوران اپنا رنگ بھی تبدیل کرلیتا ہے یعنی وہ فلاج ہوجاتا ہے۔ اپنے دشمنوں سے بچنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ پیوپا بننے کے بعد سطح آب پر آ جاتا ہے۔اس دوران قدرت نے اسے پانی سے بچانے کا خاص انتظام کیا ہوتا ہےجوکہ ایک خول ہوتا ہے۔ اس دوران اگر پانی کا ایک معمولی سا قطرہ بھی اندر چلا جائے تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔قدرت نے مچھر کو حرارت محسوس کرنے کی بے پناہ صلاحیت دے رکھی ہے۔انسانوں کو جو خون ہے یہ مچھروں کو ایسے بالکل ایکسرے کی طرح نظر آتا ہے۔ ہماری تو دو آنکھیں ہیں، مچھر کی سو آنکھیں ہیں۔اس کے اندر خون چوسنے کی حیرت انگیز صلاحیت اور ٹیکنیک ہوتی ہے۔صرف اس کی مادہ خون چوستی ہے کیونکہ اس کی مادہ کو انڈے دینے کےلیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔اور نر مچھر کاٹتا نہیں، کیونکہ اسے ضرورت نہیں۔مچھر کے کاٹنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟ اس کے ڈنگ ایک شیت کی طرح ایک چیز کے اندر ہوتا ہے۔ جہاں سے خون چوسنا ہوتا ہے ، وہاں اپنے منہ سے ایک مادہ خارج کرتا ہے۔ جیسے ہم ، جب ہم انجیکشن لگاتے ہیں تو پہلے ایک ذرا سی دوا لگاتے ہیں۔ اس سے جسم کا حصہ سن ہوجاتا ہے ۔ تو اس سے انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ مچھر آکر کچھ کرنے لگا ہے۔پھر یہ اپنے دانتوں سے ہلکا سا کٹ لگاتی ہے، آری کی طرح۔ اور پھر اس کے بعد ڈنگ کو اندر داخل کرکے ، جیسے ڈاکٹر خون کا نمونہ حاصل کرنے کےلیے سرنج جسم میں ڈالتے ہیں ، بالکل اسی طرح مادہ اپنا ڈنگ جسم کے اندر داخل کرتی ہے اور خون کو چوس لیتی ہے۔ وہ کام جو آپ کے بڑے بڑے ڈاکٹر کرتے ہیں ، یہ حقیر سا مچھر کرتا ہے۔یہ معمولی چیز نہیں۔ ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مچھر حقیر چیز ہے۔

مچھر کی ہی مثال کیوںِِ؟:
اس کی مثال کیوں دی گئی؟اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: [إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ]بے شک اللہ تعالیٰ نہیں شرماتے کہ وہ کسی مچھر کی مثال بیان کریں یا اس کے اوپر کی کسی چیز کی۔

اوپر کی چیز کیا؟:
مچھر کے اوپر اس کے پر ہوتے ہیں جو اس سے بھی ہلکے ہوتے ہیں۔ مچھر کے پر کے اوپر ایک مائیکرو سکوپک پیرا سائیٹ ہوتا ہے۔ ایک جاندار[فَمَا فَوْقَهَا ]جو مچھر سے بھی حقیر چیز ہے جو تمہیں اپنی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتی۔اللہ تعالیٰ کو تو تمہارے اعمال کی اور غلط کاموں کی مثال دینے کےلیے ایسے چیزوں کو سامنے لانے میں کچھ مشکل نہیں۔

ایمان والوں کا طرز عمل:​
ہاں! [فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ ]تو وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں [فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ] وہ جانتے ہیں کہ وہ حق ہے، ان کے رب کی طرف سے ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی کوئی بات چھوٹی نہیں لگتی۔اس لیے وہ فوراً مان لیتے ہیں۔

منکرین حق کا رویہ:
[وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ ] لیکن جن لوگوں کو انکار کرنا ہوتا ہے [فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً ] وہ کہتےہیں: اللہ تعالیٰ یہ مثال کیوں بیان کررہے ہیں؟کیا ارادہ ہے؟ [يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً ]ایسی مثالوں سے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو بھٹکا بھی دیتے ہیں، کیونکہ وہ تکبر کا شکار ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو معمولی سمجھتے ہیں، اس کی تخلیق کو معمولی چیز سمجھتے ہیں۔[ وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً ] لیکن جو لوگ اللہ کو بڑا مانتے ہیں، اس کی بات پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان بالغیب رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسی مثالوں سے بہت سے لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے۔[ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ (26) ] اور نہیں وہ گمراہ کرتا مگر فاسقوں کو۔ کون ہیں یہ فاسق؟ [الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ ]جو اللہ کے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں[مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ ]اس کو مضبوط کرنے کے بعد، اللہ کے عہد کو مضبوط باندھنے کے بعد اس کو توڑ دیتے ہیں،[وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27) ] اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ، اسے کاٹتے ہیں۔اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔

متکبر اور خودغرض انسان ہی نقصان اٹھانے والے ہیں:​
یہ کس کی نفیسات ہے؟ جو اللہ کا عہد توڑے، بندوں کا خیال نہ رکھے؟ یہ متکبر انسان، جو خود غرض ہوتا ہے، جو صرف اپنے لیے جیتا ہے، جو صرف اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہے، اس کائنات میں پھیلی ہوئی بڑی نشانیاں نظر نہیں آتیں۔ اسے اللہ کی کتاب میں کوئی بڑی بات نظر نہیں آتی۔وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا، رجوع نہیں کرتا، اس سے سبق نہیں لیتا، انسانوں کو حقیر چیز سمجھتا ہے۔انسانوں کےحقوق ادا نہیں کرنا چاہتا ۔ ایک طرف وہ اللہ کے حقوق سے بے نیاز ہے، دوسری طرف وہ بندوں کےحقوق سے بےنیاز ہے۔وہ اللہ کے سامنے بھی نہیں جھکتا، وہ بندوں کے ساتھ بھی نہیں جڑتا، وہ بندوں کا بھی خیال نہیں رکھتا، ان کی خیر خواہی نہیں کرتا۔حالانکہ ہمیں ہمارا دین کیا سکھاتا ہے؟ [[FONT="Al_Mushaf"]الدین النصیحۃ[/FONT]] کہ دین سراسر خیرخواہی ہے۔ ایسے لوگوں کا دین کیا دین ہے جو نہ اللہ کی قدر پہچانتے ہوں اور نہ بندوں کی؟ اور نہ ہی بندوں کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرتے ہوں۔

ہدایت پانے کےلیے ضروری چیز:
جو لوگ ان نفسیات کا شکار ہوں، تو اللہ کی کتاب ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتی۔ تو گویا اس سے ہدایت پانے کےلیے انسان کے اندر کی عاجزی ضروری ہے۔اس کا جھکنا ضروری ہے۔ لیکن ایسے لوگ زمین میں فساد پیدا کرکے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنی اس چند دن کی دنیا کی زندگی میں اپنے رعب، اپنے غلبے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پرجس طرح دنیا میں بڑے بنے ہوئے ہیں، وہ آخرت میں بھی اسی طرح بڑےبنے ہوں گے۔نہیں! [أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)] یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔

آڈیو لنک
 
Top