• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں علم کا شہر ہوں علی اُس کا دروازہ ہیں". کی تحقیق

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ا
ثالثا یہ کہنا کے فلاں نے حدیث گھڑ لی ہوگی یا فلاں نے فلاں کام کر دیا ہوگا اصول حدیث سے کورے لوگ ایسی جہالت سے بھرپور باتیں کرتے ہیں، حدیث پر جرح مفروضوں کی بنیاد پر نہیں دلائل کی بنیاد پر ہوتی ہے، کیونکہ یحیی بن معین تو خود اس روایت کو صحیح مان رہے ہیں اس کو روایت کرنے والے ابو الصلت کے دفاع میں خود ہی اس کی متابعت بھی دکھا رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
⭕عباس بن محمد الدوری کہتے ہیں : میں نے حضرت یحیی بن معین سے ابوصلت ہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس نے ابومعاویہ کے واسطے سے اعمش سے یہ روایت نہیں کی ’’ انا مدینۃ العلم ‘‘ تو انہوں نے کہا : اس کو محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ، مامون ہیں ۔(1)
بن معین نے اس حدیث کو کہیں بھی صحیح نہیں کہا۔ بلکه منکر اور من گھڑت ضرور کہا ہے۔
ملاحظه ھو:
أخبرنا البرقاني قال: قرئ على محمد بن عبد الله بن خميرويه، وأنا أسمع: أخبركم يحيى بن أحمد بن زياد، قال: وسألته، يعني يحيى بن معين، عن حديث أبي معاوية الذي رواه عبد السلام الهروي عنه عن الأعمش، حديث ابن عباس، فأنكره جدا
[تاریخ بغداد للخطیب: جزء12/صفحة315]
۔
حديث أبي معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس (أنا مدينة الحكمة وعلى بابها) كم من خلق قد افتضحوا فيه، ثم قال لي أبو زرعة: أتينا شيخا ببغداد يقال له عمر بن إسماعيل بن مجالد، فأخرج إلينا كراسة لأبيه فيها أحاديث جياد، عن مجالد، وبيان، والناس، فكنا نكتب إلى العصر، وقرأ علينا، فلما أردنا أن نقوم قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش بهذا الحديث فقلت له: ولا كل هذا بمرة. فأتيت يحيى بن معين، فذكرت ذلك له فقال: قل له يا عدو الله متى كتبت أنت هذا عن أبي معاوية، إنما كتبت أنت عن أبي معاوية ببغداد، متى روى هذا الحديث ببغدادسؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي ت الهاشمي ؟ ۔ (10)

️ابو زرعہ کہتے ہیں ہم بغداد میں ایک شیخ سے ملے جس کا نام عمر بن اسماعیل بن مجالد تھا انہوں نے ہمیں اپنے والد کی ایک کتاب دکھائ جس میں وہ احادیث تھیں جو انہوں نے مجالد، بیان اور دیگر لوگوں سے سنی تھیں۔ ہم وہ حدیثیں لکھتے اور پڑھتے تھے پس جب ہم نے جانے کا ارادہ کیا تو اس نے وہ حدیث(باب الحکمة) ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے بیان کی تو میں نے اس سے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پس میں یحیی بن معین کے پاس آیا اور انہیں اس بارے میں بتایا۔ تو انہوں نے کہا اس سے کہو کہ اے الله کے دشمن تم نے یہ ابو معاویہ سے بغداد میں کب سنی؟ انہوں نے کب یہ حدیث بغداد میں بیان کی؟

یہاں یحیی بن معین کا ابو معاویہ سے بغداد میں اس کا رویت ہونا یہ سن کر حیران ہونا اس بات کا ثبوت ہے کے یہ روایت موضوع ہے کیوں کے ابو الصلت کی متابعت والی روایت(1) جو مستدرک میں ہے اس میں محمد بن احمد بن تمیمی اور حسین بن فھم بغداد سے ہیں ممکن ہے ان میں سے کسی نے یہ روایت ابو الصلت سے سن کر گھڑی ہو۔

الجواب:
⭕ہم یہ کہتے ہیں کے یہ اعتراض کرنے والا جاہلوں کا سردار ہے اور اصول حدیث سے بالکل ہی نابلد ہے یا پھر لوگوں کو بیوفوغ بنانے کے لیے ایسے اعتراضات اٹھاتا ہے خیر

اولا تو یہ روایت ہی الگ ہے " میں حکمت کا شہر ہوں" (11) اور جس روایت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ" میں علم کا شہر ہوں" دونوں الگ الگ روایات ہیں۔
آپ نے کہا ابن معین نے (انا مدینة الحكمة) والی روایت پر جرح کرکے عمر بن اسماعیل بن مجالد کو کذاب قرار دیا تھا۔
یہ لیں جناب (انا مدینة العلم) کے الفاظ اسی عمر بن اسماعیل بن مجالد سے۔
امام العقیلی نے کہا:
وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا ، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِهَا مِنْ بَابِهَا " ، وَلا يَصِحُّ فِي هَذَا الْمَتْنِ حَدِيثٌ
[الضعفاء الکبیر للعقیلی:رقم/1268]
۔
تو ثابت ھوا کہ
(1) یہ دونوں الگ الگ نہیں بلکه ایک ہی روایت ہے۔ (کبھی اس کو مدینة الحكمة کہہ کر روایت کیا گیا، اور کبھی مدینة العلم کہہ کر روایت کیا گیا)
(2) اور ابن معین نے اس روایت پر جرح کر رکھی ھے۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ہم یہ کہتے ہیں کے اول تو ذہبی نے خود ابو الصلت کو میزان العتدال میں صالح شیخ قرار دیا ہے(13) لیکن چلیں مان لیں کے ذہبی نے ابو الصلت کو نہ ثقہ مانا اور نہ مامون تو پھر ہم کہتے ہیں کے آخر کون سی دلیل پر ذہبی نی جرح کر دی اور کس دلیل پر موضوع کہ دیا؟ اصول حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات یہ جانتے ہیں کے جمھور کے نذدیک تعدیل مبھم کو جرح مبھم پر فوقیت حاصل ہوتی ہے لیکن یہاں پر تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہے یہاں پر جرح مبھم ہے جبکہ تعدیل مفسر ہے، کہاں امام الآئمہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام یحیی بن معین اور کہاں متاخرین میں آنے والا شمس الدین ذہبی یہ تقابل ہی کیسا ہے کیا یہ تقابل کرنا امام یحیی بن معین کی توہین نہیں؟
امام الذھبي خود ناقد مجتھد ہیں علل الحدیث کے ماہر ہیں۔ تو الذھبی نے استقراء کرکے ہی اس روایت کو من گھڑت قرار دیا۔
کون سی دلیل سے باقی ائمه جرح کرتے ہیں؟ کیا ھر ھر راوی کی تعدیل اور جرح کے لئے پڑوسی ہونا یا ملاقات کا ہونا لازم ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اک کام کرتے ہیں علم اسماء الرجال کو کچرے میں ہی پھینک دیتے ہیں۔ کیونکه اس پھٹیچر اصول کے بعد یہ علم کسی کام کا نہیں رھے گا۔
عرض ھے کہ ناقدین کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ہم عصر ہوں رواہ کے۔
لیکن یہاں تو جرح مفسر کے مقابلے میں ایک ہی ثابت شدہ اکلوتی (صالح بن محمد عن ابن معین قال : ابو اصلت صدوق) تعدیل ہے۔ جو دیانت (دینداری) کے معنوں میں ھے۔ جبکه مخالفت میں ایک جم غفیر ہے جو ابو اصلت کو کذاب منکر وغیرہ کہتے ہیں۔ اِس سے بڑھ کر مفسر جرح اور کون سی ہوگی؟
اور مزے کی بات۔ کئی ائمه تو ابو اَلصلت کے معاصر ہیں جنہوں نے جرح کی۔
امام النسائی (المتوفیٰ 215-303ھ) نے کہا
١١٢ - أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي رافضي خبيب ليس بثقة ولا مأمون
[مشیخة النسائ: صفحة63]
.
امام عبد الرحمن بن أبي حاتم . (240 هـ - 327 هـ) نے کہا
٢٥٧ - عبد السلام بن صالح الهروي أبو الصلت روى عن حماد بن زيد وعبد الوارث وجعفر بن سليمان وشريك وعباد بن العوام وعطاء بن مسلم ومعتمر وعبد السلام___
نا عبد الرحمن قال سألت أبي (المتوفیٰ 210 هـ - 264 هـ) عنه فقال لم يكن عندي بصدوق وهو ضعيف ولم يحدثنى عنه واما أبو زرعة فأمر أن يضرب على حديث ابى الصلت وقال لا احدث عنه ولا ارضاه.
ترجمه:
امام عبد الرحمن بن أبي حاتم نے اپنے والد سے اس کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: یہ ہمارے نزدیک سچا نہیں۔ یہ ضعیف ہے۔ اور میں اس سے روایت نہیں کرتا۔ اور امام ابو زرعة نے ابو الصلت الھروی کی حدیثیں پھینکنے کا حکم دیا۔ اور کہا میں اس سے روایت نہیں کرتا۔ اور نہ ہی میں اس سے راضی (مطمئن) ھوں۔
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جزء6/صفحة48]
۔
امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ 164-241ھ) نے کہا:
حديث ابن عباس -رضي الله عنهما-: "أنا مدينة العلم وعلي بابها" (١).

سئل الإمام أحمد عن أبي الصلت فقال: روى أحاديث مناكير، قيل له: روى حديث مجاهد عن علي: "أنا مدينة العلم، وعلي بابها" قال: ما سمعنا بهذا قيل له: هذا الذي تنكر عليه؟
قال: غير هذا، أما هذا فما سمعنا به، وروى عن عبد الرزاق واحدا لا نعرفها، ولم نسمعها.
قيل. لأبي عبد الله: قد كان عند عبد الرزاق من هذه الأحاديث الرديئة؟
قال: لم أسمع منها شيئا (٢).
وقال مرة: قبح الله أبا الصلت، ذاك ذكر عن عبد الرزاق حديثا ليس له أصل (٣)
(٢) "علل المروذي" (٣٠٨)، "تهذيب التهذيب" ٣/ ٤٥٠.
(٣) "الموضوعات" لابن الجوزي ١/ ٣٥٤، "المنتخب من العلل للخلال" (١٢٠)، "تاريخ بغداد" ١١/ ٤٨، "تهذيب الكمال" ١٨/ ٧٧، "تهذيب التهذيب" ٤/ ٢٦٨، "الجرح والتعديل" ٦/ ٩٩]
۔
یہ تمام ائمه ابو الصلت کے معاصر ہیں۔ اور متفق ہیں ابو اصلت کے کذاب ہونے پر۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اور یہ کہنا کے ابو الصلت پر بخاری نے جرح کردی اور دار قطنی نے رافضی خبیث کہ دیا، کیا ان لوگوں نے خود بھی ابو الصلت کو دیکھا ہے؟ کیا ایک شخص جس پر جرح کر رہا ہے اس کا ادراک ہی نہیں کر پایا اس کی جرح اس شخص کے مقابلے میں مؤثر ہو سکتی ہے کے جس نے خود اس شخص کے ساتھ وقت گزارا ہو؟
یہ کوئی اصول نہیں کہ جو معاصر ہو یا لقاع ثابت ھو یا مجلس میں آتاجاتا ہو۔ صرف اُسی کی گواہی (جرح وتعدیل) قبول کی جائے گی۔
ایسے کئی ائمه ہیں جنہوں نے اپنے شیوخ کو ثقة سمجھ کر روایت کیا لیکن باقی ائمه نقاد نے متروك منکر وغیرہ کہا:
مثال:
امام شافعی رحمه الله نے ابراھیم بن محمد سمعان، إبراهيم بن أبي يحيى، سعيد بن سلام بن سعيد، يوسف بن خالد بن عمير وغیرہ سے روایت لی۔ لیکن باقی ائمه نقاد نے ان کو متروک وضاع قرار دیا".
۔
بلکه دور نہ جائیں۔ امام شعبه جو امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔ جن کے بارے میں مشہور ہے وہ صرف ثقة ہی سے روایت لیتے تھے۔ انہوں نے کئی مجروح رواہ سے روایتیں لیں۔ علی بن زید بن جدعان معروف ضعیف راوی کی شعبة تعریف کرتے تھے".
اس طرح کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں
تو یہ لازمی نہیں کہ جو ساتھ ہو صرف اُسی کا قول فیصل ہوگا۔ بلکه باقی ائمه نقاد کی گواہیاں بھی دیکھی جائیں گی۔
اور پھر اس روایت میں تو ابن معین منفرد ہیں باقی چار ائمه بھی معاصر ہیں جنہوں نے ابو اصلت پر جرح کی۔
اور خود ابن معین نے صدوق کہا۔ اور بار بار کہا کہ میں اس کو جھوٹ سے نہیں جانتا"۔ اسکا معنی یہی ھے کہ ابن معین نے یہاں دیانت میں (صالح بن محمد عن ابن معین) صدوق کہا ھے۔ یعنی یہ جھوٹا نہیں۔
البتہ یہ راوی پھر بھی جھوٹا ہی ہے۔ ملاحظه ھو:
امام ابن ماجه نے کہا:
حدثنا سهل بن ابي سهل ، ومحمد بن إسماعيل ، قالا: حدثنا عبد السلام بن صالح ابو الصلت الهروي ، حدثنا علي بن موسى الرضا ، عن ابيه ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن علي بن الحسين ، عن ابيه ، عن علي بن ابي طالب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإيمان معرفة بالقلب، وقول باللسان، وعمل بالاركان". قال ابو الصلت: لو قرئ هذا الإسناد على مجنون لبرا.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے“۔ ابوالصلت کہتا ہے: یہ سند ایسی ہے کہ اگر دیوانے پر پڑھ دی جائے تو وہ اچھا ہو جائے".
[السنن ابن ماجه:65]
.
اِس کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ سند ہی کافی ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں ایسی سند موجود نہیں جو اس کذاب نے ایجاد کی۔ اسی لئے ائمه نے اسکو کذاب قرار دیا۔
ابو الصلت نے یہ سند گھڑنے کے بعد جو کچھ کہا۔ وہ بھی اس پر دلیل ہے کہ یہ گھڑنتل ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اور ابن معین سے اس روایت پر جرح نقل کرنے والے ابو منصور یحیی بن احمد الشیباني (المتوفیٰ298ھ) آپ کے اخیر تلامذہ میں سے ہیں:
أخبرنا البرقاني قال: قرئ على محمد بن عبد الله بن خميرويه، وأنا أسمع: أخبركم يحيى بن أحمد بن زياد، قال: وسألته، يعني يحيى بن معين، عن حديث أبي معاوية الذي رواه عبد السلام الهروي عنه عن الأعمش، حديث ابن عباس، فأنكره جدا
[تاریخ بغداد للخطیب: جزء12/صفحة315]
ثابت ہوا کہ اخیر میں ابن معین نے بھی وہی بات کی جو دیگر محدثین کے نزدیک حتمی تھی۔
 
Top