• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں علم کا شہر ہوں علی اُس کا دروازہ ہیں". کی تحقیق

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
أراد أنه صحيح عن أبي مُعَاوِيَةَ إذ قد رواه غير واحد عنه۔ (6)

️یعنی یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ صحیح ہے سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ابو معاویہ کی احادیث میں سے صحیح ہے کیونکہ اسے ایک سے زیادہ لوگوں نے روایت کیا ہے

️تدلیس کے الزام کو رد کرنے کا تیسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ وہ روایت ہے جس پر محدثین کی ایک بڑی جماعت کا اختلاف ہوا ہے اور اس کے ایک ایک طریق پر گہری نظر رکھی گئی ہے لیکن محدثین کی اتنی بڑی جماعت میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ یہاں تک کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو مستدرک للحاکم کی ایک ایک روایت پر سخت نقد کرتے ہیں انہوں نے مستدرک میں اس روایت کے تین طرق میں سے کسی ایک پر بھی تدلیس کی جرح نہیں کی۔
خطیب نے جو توجیہ بیان کی وہ قاسم والی روایت ہی پر ھے جو ثابت نہیں۔ اور اس روایت کے من گھڑت منکر ضعیف ہونے پر متقدمین ائمه کا اتفاق ہے۔ خود ابن معین نے اس روایت کے متن پر جرح کی۔ اور لااصل له کہا۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
جب یحیی بن معین سے بار بار اس روایت کے بارے میں اور ابو الصلت کے بارے میں پوچھا جانے لگا تو آپ کیا کہا ملاحظہ ہو؛

قال عباس الدّوري: سمعت يحيي بن معين يوثّق أبا الصّلت عبد السّلام بن صالح فقلت له: إنّه حدّث عن أبي معاوية عن الأعمش: أنا مدينة العلم وعلي بابها! فقال: ما تريدون من هذا المسكين؟ أليس قد حدّث به محمّد بن جعفر الفيدي عن أبي معاوية (12)
یہ روایت امام حاکم نے الدوری کی کتاب سے نقل کرنے کا دعویٰ کیا۔ جبکه یہ الدوری کی کتاب میں نہیں بلکه ابن محرز (مجھول) کی کتاب میں ھے".،
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ہم یہ کہتے ہیں کے یہ درست ہے کے امام یحیی بن معین تحقیق سے قبل اس روایت کو موضوع سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے تحقیق کی تو انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ملاحظہ ہو:
واما حديث الأعمش فان أبا الصلت كان يرويه عن أبي معاوية عنه فأنكره أحمد بن حنبل ويحيي بن معين من حديث أبي معاوية ثم بحث يحيي عنه فوجد غير أبي الصلت قد رواه عن أبي معاوية فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق.... عن بن عباس قال قال رسول الله e الله عليه وسلم أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت بابه قال القاسم سألت يحيي بن معين عن هذا الحديث فقال هو صحيح۔
یہ کہانی بیان کرنے والا قاسم مجھول ھے۔ لہذا رجوع والی کہانی بھی مردود ھے۔ جبکه صحیح سند سے ابن معین سے اتنا ثابت ھے کہ اس روایت کو ابو الصلت کے ساتھ محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ھے".
یہاں اب معین نے ابو الصلت کا متابع الفیدی کو بتلایا۔ باقی اس روایت پر ابن معین نے منگھڑت ہونے کی ہی جرح کی۔ اور اس سبب عمر بن اسماعیل کو کذاب قرار دیا
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
لہذا یحیی بن معین نے تحقیق کر کے خود ہی اپنے پچھلے قول سے رجوع کیا اور اس حدیث کی تصحیح فرمائ۔ علم حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات جنہوں نے اس روایت پر تحقیق کی ہو گی وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابو معاویہ سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے اسے روایت کیا لہذا یہ موضوع والی جرح پیش کرنا تو انتہائ علمی خیانت ہے
امام ابن معین نے کہیں بھی اس روایت کی تصحیح نہیں کی۔
سأله القاسم بن عبد الرحمن الأنباري عن حديث أبي الصلت هذا قال: هو صحيح. رواه الخطيب (11/ 49) ومن طريقه ابن عساكر (42/ 380) والمزي (18/ 77).
قاسم بن عبد الرحمن الانباری ابو اصلت کے تلامذہ میں سے ہے۔ اور مجھول ھے۔ تو یہ قول اور اس روایت کی تصحیح ابن معین سے ثابت نہیں۔ بلکه اس کے خلاف ابن معین نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
️لہذا یحیی بن معین نے تحقیق کر کے خود ہی اپنے پچھلے قول سے رجوع کیا اور اس حدیث کی تصحیح فرمائ۔ علم حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات جنہوں نے اس روایت پر تحقیق کی ہو گی وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابو معاویہ سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے اسے روایت کیا لہذا یہ موضوع والی جرح پیش کرنا تو انتہائ علمی خیانت ہے
ابن معین سے اس روایت کی تصحیح والا قول نقل کرنا علمی خیانت کم جہالت زیادہ ہے۔
باقی رہا ابو معاویة سے کئی لوگوں نے بیان کیا؟
تو جس جس نے بیان کیا وہ تمام ضعیف مجروح ہیں۔ کوئی ایک سند پیش کرو جو ابو معاویه تک صحیح یا حسن ہو۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
چوتھی بات یہ کہنا کہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے اور روایت معنن ہے اس لیے تدلیس ہے۔ یہ انتہائ کمزور بات ہے کیونکہ امام اعمش کی مجاہد سے معنن روایات تو خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں جن کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ملاحظہ ہو:
جس اصول کو تم کمزور بات کہہ رہے ہو۔ کس دلیل سے؟؟؟ صرف اس وجه سے بخاری و مالم میں الاعمش عن مجاھد ھے؟
میں کہتا ہوں بخاری و مسلم سے کوئی ایک سند پیش کرو جس میں الاعمش عن مجاھد ھو۔ اور سماع کی صراحت کہیں موجود نہ ہو؟ یا کوئی قوی شاھد نہ ہو؟
۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
چوتھی بات یہ کہنا کہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے اور روایت معنن ہے اس لیے تدلیس ہے۔ یہ انتہائ کمزور بات ہے کیونکہ امام اعمش کی مجاہد سے معنن روایات تو خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں جن کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ملاحظہ ہو:
صحیح مسلم 992، صحیح بخاری 218 اور اس کے علاوہ اعمش، عن مجاھد والی سند کی 6 روایات صحیح بخاری میں، 2 روایات صحیح مسلم میں، 5 روایات سنن ابی داؤد میں، 7 روایات جامع ترمذی میں، 3 روایات سنن ابن ماجہ میں اور 1 روایت سنن نسائی میں موجود ہے۔ اور اکثر کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔
بخاری ومسلم میں الاعمش عن مجاھد سے سند موجود ھے، اسی لئے مذکورہ روایت بھی صحیح ھے؟ پھر بطور مثال احادیث کے نمبر دیئے آپ نے۔ آئیں دیکھتے ہیں اِن احادیث کی حقیقت۔
صحیح مسلم 992 ملاحظه کریں:
- (٤٤٢) حدثنا أبو كريب. حدثنا أبو معاوية عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عمر؛ قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا النساء من الخروج إلى المساجد بالليل" فقال ابن لعبد الله بن عمر: لا ندعهن يخرجن فيتخذنه دغلا. قال فزبره ابن عمر وقال: أقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم. وتقول: لا ندعهن!
اسکا قوی متابع موجود ہے صحیح مسلم ہی میں مجاھد ہی طریق سے۔
ملاحظه کریں:
- (٤٤٢) حدثنا محمد بن حاتم وابن رافع. قالا: حدثنا شبابة. حدثني ورقاء عن عمرو، عن مجاهد، عن ابن عمر؛ قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "ائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد" فقال ابن له،⦗٣٢٨⦘يقال له واقد: إذن يتخذنه دغلا. قال فضرب في صدره وقال: أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول: لا!
۔ دوسرا متابع:
(٤٤٢) حدثنا هارون بن عبد الله. حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ. حدثنا سعيد (يعني ابن أبي أيوب) حدثنا كعب بن علقمة عن بلال بن عبد الله بن عمر، عن أبيه؛ قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لا تنمعوا النساء حظوظهن من المساجد. إذا استأذنوكم" فقال بلال: والله! لنمنعهن. فقال له عبد الله: أقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم. وتقول أنت: لنمنعهن!
۔
صحیح البخاری 218
حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا محمد بن خازم، قال: حدثنا الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين، فقال:" إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان لا يستتر من البول، واما الآخر فكان يمشي بالنميمة، ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة، قالوا: يا رسول الله، لم فعلت هذا؟ قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا"، وقال محمد بن المثنى، وحدثنا وكيع، قال: حدثنا الاعمش، قال: سمعت مجاهدا مثله يستتر من بوله.
۔
امام بخاری نے اسی حدیث کے اخیر میں اسکی متابعت بھی درج کی اور الاعمش نے سماع کی تصریح بھی کردی۔
باقی صحیحین میں الاعمش عن مجاھد ھو ۔ اور سماع کی تصریح نہ ھو۔ یا متابع موجود نہ ہو۔ تو وہ روایت اِدھر لکھو۔ جو دو روایتیں تم نے بتائی تھیں اُن کی حقیقت واضح کردی گئی ھے
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ہم یہ کہتے ہیں کے یہ اعتراض کرنے والا جاہلوں کا سردار ہے اور اصول حدیث سے بالکل ہی نابلد ہے یا پھر لوگوں کو بیوفوغ بنانے کے لیے ایسے اعتراضات اٹھاتا ہے خیر

اولا تو یہ روایت ہی الگ ہے " میں حکمت کا شہر ہوں" (11) اور جس روایت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ" میں علم کا شہر ہوں" دونوں الگ الگ روایات ہیں۔

️دوسرا یہ روایت دوسری سند سے آئی ہے جس میں عمر بن اسماعیل بن مجالد ضعیف ہے۔ جبکہ اس روایت سے ہم نے استدلال ہی نہیں کیا تو اس روایت کی جراح وہ بھی اس سند سے ہمیں پیش کرنا جہالت ہے۔
حاکم والی جو محمد بن جعفر الفیدی کی روایت ہے۔ اسکو ابن المغازلی نے انہی الفاظ سے نقل کیا
ملاحظه ھو:
١٢٨ - أخبرنا أبو طالب محمد بن أحمد بن عثمان البغدادي -قدم علينا واسطا- أخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن لؤلؤ إذنا، حدثني عبد الرحمن بن محمد بن المغيرة، حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا محمد بن جعفر الكوفي عن محمد بن الطفيل عن أبي معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((أنا مدينة الحكمة وعلي بابها، فمن أراد الحكمة فليأت الباب))
[مناقب علی لابن المغازلی:صفحة144]
.
مزے کی بات یہ ھے کہ تم نے خود میرا دعویٰ ثابت کردیا کہ ابن معین نے روایت پر جرح کر رکھی ھے۔ اور ابن المغازلی نے ابن معین کے بتائے ھوئے متابع (الفیدی) سے وھی کتن بیان کر رکھا ھے جس پر ابن معین نے من گھڑت ہونے کی جرح کی ہے۔
جس طرح امام حاکم اور ابن المغازلی کی سند میں اضطراب ھے بعینه اسی طرح دونوں کے متن میں بھی اختلاف ھوگیا ھے۔ اور ابن معین کی جرح بھی آگئی اس پر۔ لہذا یہ متابع بھی گیا کھڈے میں۔
۔۔
دوسری بات یہ کہ جاہلوں کا سردار آپ نے مجھے کہہ دیا۔ لیکن خود آپ کو الف پر زبر پڑھنا نہیں آرہا
انا مدینة العلم
انا مدينة الحكمة
ان الفاظ کو تمام رواہ نے ابو معاویة عن الاعمش عن مجاھد عن اب عباس ہی سے روایت کیا ہے۔ اور یہ الفاظ ایکدوسرے کے موافق بھی ہیں۔ اگر آپ کو عربی سمجھ نہیں آتی تو خالی ڈبے میں پتھ ڈال کر ڈگڈگی نہ بجائیں۔
انا مدینة العلم = میں علم کا شہر ہوں
انا مدینة الحكمة = میں حکمت کا شہر ہوں
عرض یہ ھے کہ یہ دو احادیث کیسے؟ جبکه اسناد کا مدار ایک ہی ہے اور الفاظ باہم مترادف ہیں؟؟؟
کیا علم اور حکمت میں کوئی تضاد ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا حکمت سے علم ، اور علم سے حکمت مراد نہیں؟؟؟؟؟
۔
تنبیہہ : ھم اس کو ایک ہی حدیث مانتے ہیں۔ لیکن آپ نے اِن کو دو الگ الگ حدیثیں کہا ھے۔ اس حساب سے اس حدیث کی سند اور متن دونوں مضطرب بھی قرار پاگئے۔ اور ابن معین کی جرح کی زد میں بھی آگئے۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
عباس بن محمد الدوری کہتے ہیں : میں نے حضرت یحیی بن معین سے ابوصلت ہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس نے ابومعاویہ کے واسطے سے اعمش سے یہ روایت نہیں کی ’’ انا مدینۃ العلم ‘‘ تو انہوں نے کہا : اس کو محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ، مامون ہیں
امام حاکم نے جو الدوری کا قول نقل کیا وہ الدوری کی کتاب میں موجود نہیں۔
 
Top