خطاب تو بے شک اہل کتاب سے ہے لیکن اسکا نشانہ ہم مسلمان بھی ہیں
اے اہل كتاب اپنے دین میں غلو نہ كرو۔ اور اللہ كی طرف حق كے سوا كوئی بات منسوب نہ كرو۔ النساء: ١٧١
مطلب یہ ہے كہ جس شخص كو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہے اس سے اس كو اونچا اور بالا نہ سمجھو۔ یہ خطاب اگرچہ یہود و نصاریٰ سے ہے لیكن اس كے ساتھ ہی پوری اُمت محمدیہ سے بھی ہے۔ اس كی وجہ یہ خدشہ ہے كہ یہ اُمت بھی كہیں رسول اللہ ﷺ كے ساتھ وہی سلوك نہ كر لے جو نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ كے ساتھ اور یہودیوں نے عزیركے ساتھ كیا تھا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ كا ارشاد ہے ترجمہ:“كیا ایمان لانے والوں كے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا كہ اُن كے دِل اللہ كے ذكر كے لئے اور اس نازل كردہ حق كے آگے جھكیں اور وہ اُن لوگوں كی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے كتاب دی گئی تو اُن كے دل سخت ہوگئے اور آج اُن میں سے اكثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟”۔ الحديد
اسی لئے رسول اكرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ:“میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ كرو جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم كے بارے میں مبالغہ سے كام لیا۔صحيح بخاري حديث نمبر (3445، 6830)، واصله عند صحيح مسلم حديث نمبر (1691).
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اُمت محمدیہ میں سے جو شخص یہود و نصاریٰ سے مشابہت اختیار كرے گا، اور دین میں افراط یا تفریط سے كام لے گا وہ ان ہی جیسا ہو گیا”۔منهاج السنة النوية في نقص كلام الشيعة والقدرية (1/ 28) ومجموع الفتاويٰ (3/ 370، 3940)