ایک سوال اور ہے:کیا مسند حمیدی بھی آپ کے خیال میں محرف ہے۔ اس میں یہ روایت ابو عوانہ سے قدرے مختلف ہے اور اس میں وہ والی منطق بھی نہیں چل سکتی کیونکہ یہاں پر نہ باب ہے اورنہ صرف حرف واو کا مسئلہ ہے، بلکہ واو لگانے کے بعد: ولا يرفع ولا بين السجدتين۔ کا مسئلہ بھی کھڑا ہوتا ہے۔ خیر یہ روایت ملاحظہ فرما رکر اپنی رائے سے نوازیں:
حدثنا الحميدي قال ثنا الزهري قال أخبرني سالم بن عبد الله عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين۔
شکریہ۔
جی اس میں بھی تحریف کی گئی ہے ، وضاحت ملاحظہ کرلیں :
رفع الدین کے خلاف پہلی کاوش۔ مسند حمیدی میں تحریف
مسند حمیدی جو مولانا حبیب الرحمن الاعظمی کی تصحیح کیساتھ چھپی ہے اس میں رفع الدین کی ایک روایت کو جو دیوبندی مخطوطہ میں تحریف کا شکار ہو گئی تھی جوں کا توں نقل کر دیا گیا ہے اور اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ مخطوطہ ظاہریہ میں یہ روایت دوسری روایات ہی کی طرح نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ الاعظمی صاحب کی کتاب کا عکس اور ان کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں:
15296 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
15297 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مولانا اعظمی کی تحقیق اور مولانا محمد طاسین صاحب کا ردّ
الاعظمی صاحب اس محرف روایت کے تحت لکھتے ہیں:
''امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل روایت نقل کی ہے جو یونس عن الزہری کی سند کے ساتھ ہے اور سفیان کی روایت بھی امام زہری سے ہے اسے امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اور امام ابوداو'د نے امام احمد کی سند سے اپنی سنن میں روایت کیا ہے لیکن مصنف نے امام احمد عن سفیان کی روایت کی مخالفت کی ہے۔ پس مسند امام احمد میں یہ الفاظ ہیں:
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں کاندھوں کے برابر کر لیتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے''۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ کہا: ''اور جب رکوع سے سر اُٹھاتے اور وہ اکثر کہتے ''اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد'' (بھی رفع یدین کرتے) اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہ کرتے (ج:۲ ص:۸)
یہ روایت جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اثبات رفع یدین کی دلیل ہے اور دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین کی نفی ہے۔ اور امام حمیدی کی روایت میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع یدین کی نفی ہے اور دونوں سجدوں کے درمیان سب کے نزیک نفی ہے اور محدثین میں سے کسی نے بھی امام حمیدی کی اس روایت پر اعتراض نہیں کیا۔ (حاشیہ مسند حمیدی ص:۲۷۷،۲۷۸جلد۲)۔
الاعظمی صاحب نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتنی معصومیت کے ساتھ امام حمیدی کی روایت کو رفع الیدین کی نفی کی دلیل بنا دیا ہے اور پھر فرما رہے ہیں کہ کسی محدث نے اس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اسے کہتے ہیں: ماروں گھٹنا پوٹے آنکھ''۔ جب یہ روایت محدثین کے دور میں موجود ہی نہ تھی تو اعتراض کس بات پر کیا جاتا۔ الاعظمی صاحب کے اس کھلے جھوٹ کا جواب دیتے ہوئے مولانا محمد طاسین صاحب (جو مولانا محمد یوسف بنوری صاحب کے داماد اور ادارہ مجلس علمی کے رئیس تھے) اسی روایت پر تنبیہ کا عنوان قائم کر کے اپنے قلم سے لکھتے ہیں (جس کا عکس آپ نے مسند حمیدی کے حاشیہ پر ملاحظہ کیا ہے)
15298 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مولانا طاسین دیوبندی کی اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ اعظمی صاحب نے اس مقام پر تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے اور دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی ہے اور اس اعتراف کے باوجود کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی اصل روایت نقل کی ہے جب بات یہ ہے تو اس کے مطلب اس کا سوا کیا ہو سکتا ہے کہ یہ نقلی روایت ہے کیونکہ اصل کا الٹ نقل ہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حدیث دشمنی میں دیوبندی علماء ایک ہی طرح کا دُھن رکھتے ہیں۔
تشابھت قلوبھم۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی تحقیق
حافظ صاحب اس روایت کی تحقیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مسند الحمیدی اور حدیث رفع الیدین
مسند الحمیدی کو اس کے معلق حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی ہندوستانی نے نسخہ دیوبندیہ (ہندوستانیہ) سے شائع کیا ہے۔ اس کی تائید میں نسخہ سعیدیہ اور نسخہ عثمانیہ سے مدد لی۔
(مقدمہ مسند الحمیدی ص۲،۳)
نسخہ سعیدیہ کی تاریخ نوشت۱۳۱۱ھ۔ نسخہ دیوبندیہ کی تاریخ نوشت۱۳۲۴ھ۔
نسخہ عثمانیہ کی تاریخ نوشت۱۱۵۹ھ سے پہلے (ایضاً)۔
اعظمی ہندوستانی دیوبندی نے نسخہ دیوبندیہ کو اصل بنایا۔ (ایضاً ص:۳)
مسند الحمیدی کا ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جسے نسخہ ظاہریہ کہتے ہیں۔ (مقدمہ ص۴،۲۵) یہ نسخہ شام میں ہے اور اس کی تصاویر مکہ مکرمہ وغیرہ میں ہیں۔ نسخہ ظاہریہ کی تاریخ نوشت ۶۸۹ھ (مقدمہ مسند الحمیدی ص۱۹)۔
نسخہ دیوبندیہ اصلیہ میں بے شمار غلطیاں ہیں، مثلاً ملاحظہ ہو مسند الحمیدی ج۱ ص۱، ۲، ۳، ۴،۵، ۶، ۷،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ کئی مقامات پر تحریف بھی ہوئی ہے۔ مثلاً:
ج۱ ص۱۵ حاشیہ ۷ نیز ملاحظہ ہو ۱/۷۱۔ کئی مقامات پر اس نے (یعنی معلق نے) نسخہ ظاہریہ کو ترجیح دے کر نسخہ دیوبندیہ کی تصحیح کی ہے۔ مثلاً۲/۲۷۵،۲۵۸،۲۸۷،۳۰۲۔ وغیرھم۔
بعض مقامات پر خود اعظمی دیوبندی نے اعتراف کیا ہے کہ یہاں اصل میں تحریف ہے دیکھئے مسند الحمیدی بہ تحقیق الاعظمی ج۱ص۱۵ حاشیہ عربی وغیرہ۔
15299 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
نسخہ ظاہریہ میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع ولا یرفع بین السجدتین(۱)
اس عبارت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ نسخہ دیوبندیہ میں ''فلا یرفع'' کا اضافہ خود ساختہ ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں مصنف ابن ابی شیبہ کو کراچی میں جب بمبئی کے طبع شدہ نسخہ کا عکس لے کر شائع کیا گیا تو اس میں بھی متعصب دیوبندی ناشر نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی روایت کے آخر میں تحت السرۃ کے خود ساختہ الفاظ بڑھا دیئے۔ تشابھت قلوبھم۔
اس روایت کی سند میں جلدی اور عجلت کی وجہ سے حدثنا سفیان کے الفاظ بھی چھوڑ دیئے گئے تھے اور جس کا احساس مولف کو بھی بہت بعد میں ہوا کیونکہ غلطیوں کا جو چارٹ کتاب کے آخر میں ہے اس میں بھی اس غلطی کا ازالہ نہیں کیا گیا ہے۔
اور اسی روایت کے بعد امام الحمیدی کا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے اس عمل کا ذکر کرنا کہ ''وہ رفع الیدین کے تارک کو اس وقت تک کنکریوں سے مارتے تھے جب تک وہ رفع الیدین نہ کرنے لگتا''۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام الحمیدی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی اثبات رفع الیدین کی حدیث اور پھر ان کا عمل ذکر کر کے گویا اس مسئلے پر مہر ثبت کرنا چاہتے ہیں اور اسی بنا پر امام الحمیدی خود بھی رفع الیدین پر عمل پیرا تھے۔
اسی حدیث کو امام ابوعوانہ نے سفیان کے دوسرے شاگردوں سے نقل کر کے بعد میں امام حمیدی کی سند سے بھی اس حدیث کے ابتدائی الفاظ نقل کر دیئے اور پھر مثلہ کہہ کر اشارہ کر دیا کہ امام حمیدی کی حدیث کے الفاظ بھی اسی طرح ہیں۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ فلا یرفع کے الفاظ خود ساختہ اور خانہ ساز ہیں۔
نسخہ ظاہریہ تمام نسخوں سے زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے اور ایک دوسرے نسخے میں بھی یہ روایت نسخہ ظاہریہ کی طرح ہے۔ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی روایت کو امام حمیدی رحمہ اللہ نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ:
1-مسند حمیدی کے مطبوعہ نسخہ کی متنازعہ عبارت محرف اور مصحف ہے۔
2-دیگر ثقات نے اسے سفیان بن عیینہ سے رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ کے اثبات کے ساتھ روایت کیا ہے لہٰذا اگریہ عبارت مسند الحمیدی کے تمام قلمی نسخوں میں بھی موجود ہوتی تو بلاشک و شبہ تصحیف و خطاء فاحش تھی۔
3-چونکہ ابتدائی صدیوںمیں اس خودساختہ روایت کا نام و نشان تک نہیں تھا اس لئے اسے کسی نے بھی پیش نہیں کیا۔
4-جن لوگوں نے زوائد پر کتابیں لکھی ہیں مثلاً المطالب العالیہ فی زوائد المسانید الثمانیہ لابن حجر (وفیھا مسند الحمیدی) اتحاف السادۃ المہرۃ الخیرۃ للبوصیری۔
ان میں سے کسی نے بھی اس روایت کو پیش نہیں کیا اگر ہوتی تو پیش کرتے۔
5-مکتبہ ظاہریہ کے مسند حمیدی کے قدیم مخطوطے میں یہ حدیث علی الصواب (رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ کے اثبات کے ساتھ) موجود ہے۔
6-حافظ ابوعوانہ یعقوب بن اسحق الاسفرائنی نے مسند ابی عوانہ (ج۲ ص۹۱) میں اسے امام شافعی اور امام ابوداو'د کی روایت کے مثل قرار دیا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت عندالرکوع اور بعدہ کے رفع الیدین کے اثبات کے ساتھ ''کتاب الام'' میں موجود ہے۔ (ج۱ ص۱۰۳ طبع بیروت)۔
ابوداو'د (غالباً صحرانی) کی بواسطہ علی (بن عبداللہ المدینی) والی روایت ہمیں نہیں ملی مگر سنن ابی داو'د میں احمد بن حنبل والی روایت اثبات رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ کے ساتھ موجود ہے۔ (سنن ابی داو'د جلد۱ صفحہ ۱۱۱)۔
اور علی بن عبداللہ (المدینی) والی روایت اثبات رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ کے ساتھ جزء رفع الیدین للبخاری میں موجود ہے۔ (ص۱۷)۔
7-اس حدیث کے مرکزی راوی امام سفیان بن عیینہ سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع الیدین باسند صحیح ثابت ہے۔ (دیکھئے: سنن ترمذی جلد۲صفحہ۳۹۔ حدیث۲۵۶۔ بتحقیق احمد شاکر رحمہ اللہ )۔
8-امام حمیدی بھی رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (جزء رفع الیدین للبخاری) بلکہ وجوب کے قائل تھے۔ (الاستذکار لابن عبدالبر جلد۲ صفحہ۱۲۶)۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسند الحمیدی میں زہری عن سالم عن ابیہ والی روایت رفع الیدین کے اثبات کے ساتھ ہے۔ نفی کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا نسخہ دیوبندیہ کی خودساختہ اور خانہ ساز عبارت موضوع و باطل ہے اور اسے پیش کرنا انتہائی ظلم، پرلے درجے کی خیانت اور سینہ زوری ہے۔