ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
کیا اللہ نے دنیا میں شر (برائی) کو تخلیق کیا ؟
شر کے خالق کا مسئلہ
انسانی اعمال کے بارے میں یہ بات تو واضح ہے کہ وہ اچھے ہوں یا برے ، ان کی ذمہ داری خود انسان ہی پر آتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اعمال شر کا خالق، یعنی ان کا اصل منبع کون ہے؟ کیا ان کا منبع پروردگار عالم ہی کی ذات اقدس ہے؟ کیا خود اللہ تعالیٰ انسان کی دنیا میں شر تخلیق کرتا ہے؟ یا اس نے انسان میں شر کا وہ مادہ پیدا کر رکھا ہے، جس سے ہمیشہ شر ہی جنم لیتا ہے؟ یا حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے؟
قرآن مجید نے یہ بات بھی اچھی طرح واضح کر دی ہے کہ خدا خالق شر نہیں، نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ، بلکہ یہ بات تو اس کی شان ہی کے خلاف ہے کہ وہ خالق شر ہو۔
قرآن مجید نے خدا کا تعارف ہی یہ کرایا ہے کہ وہ صرف اچھی صفات کا حامل ہے، اس میں کوئی بری صفت نہیں پائی جاتی اور وہ لوگوں کو بھی اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ خیر ہی کے داعی بنیں۔ سورۂ اعراف میں فرمایا:
’’اللہ کے لیے تو صرف اچھی ہی صفتیں ہیں تو انھی سے اس کو پکارو۔‘‘ (۷: ۱۸۰)
اور سورۂ آل عمران میں فرمایا:
’’اور چاہیے کہ تم میں ایک ایسا گروہ ہو جو خیر (نیکی) کی طرف بلائے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (۳: ۱۰۴)
ان آیات میں قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سب صفات اچھی ہیں۔ اس سے صرف اچھائی او رخیر ہی کا صدور ہوتا ہے۔ چنانچہ، اس کے ساتھ کسی شر کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس سے بہت بلند و برتر ہے کہ وہ انسانوں میں، براہ راست یا بالواسطہ، شر تخلیق کرے۔ اس کے اپنے سب کام بھی خیر کے کام ہیں اور وہ انسانوں کو بھی خیر ہی کے کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ خدا کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے انسان میں شر یا مادۂ شر تخلیق کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اس اعلیٰ صفتوں والے پروردگار کے شایان شان ہی نہیں۔
لیکن اس بات کو مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اگر خدا خالق شر نہیں ہے اور اس نے انسان میں شر کا مادہ بھی پیدا نہیں کیا تو پھر اس دنیا میں شر کیسے وجود میں آتا ہے؟ قرآن مجید نے اس عقدے کو بھی وا کیا ہے۔
وجود شر کے اسباب
اس دنیا میں شر کے وجود میں آنے کے اسباب کیا ہیں، یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کے بارے میں خدا کی اس اسکیم کا مطالعہ کریں، جس کی بنا پر اس نے انسان کو کچھ صلاحیتیں دیں اور ایک خاص مقصد کے تحت اس دنیا میں بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں، ان کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں ہوا ہے:
’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (ایک صاحب اقتدار مخلوق) بنانے والا ہوں، انھوں نے کہا: تو زمین میں ایسی مخلوق بنائے گا جو اس میں (ارادہ و اختیار کی آزادی رکھنے کی وجہ سے) فساد مچائے اور خوں ریزی کرے اور ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں۔ اس نے کہا: میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ اور اختیار کی آزادی دی اور اس آزادی کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے اسے جذبات و خواہشات کی ایک دنیا بھی عطا کی۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
’’لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبا دی گئیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سروسامان ہیں۔‘‘(آل عمران ۳: ۱۴)
اسی بات کو ایک دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا:
’’واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی (انسان کو لبھانے والی) زینت بنایا ہے۔‘‘ (الکہف ۱۸: ۷)
جس خاص مقصد کے تحت انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا، اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’بڑی ہی عظیم اور بافیض ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں اس کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمھارا امتحان کرے کہ تم میں سے کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے، اور وہ غالب بھی ہے او رمغفرت فرمانے والا بھی۔‘‘ (الملک ۶۷: ۱۔۲)
یعنی یہ بتا دیا کہ اس دنیا میں انسانوں کی موت و حیات کا سلسلہ اس لیے جاری کیا گیا ہے، تاکہ انھیں جانچا جائے کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرنے والا بنتا ہے اور کون برے عمل کرتا ہے، پھر آزمایش کے اس گھر کے بارے میں بھی جس میں انسان کو پیدا کیا گیا ہے، یہ حقیقت واضح فرما دی کہ اس میں موجود ساز و سامان، درحقیقت، ایک متاع قلیل ہے۔ ارشاد باری ہے:
’’کہہ دو، اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے۔‘‘ (النساء ۴: ۷۷)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار سے نوازا، متاع قلیل کی اس دنیا میں خیر و شر کی آزمایش میں ڈالا اور پھر اس میں کامیاب ٹھہرنے والوں کے لیے اچھا انجام اور ناکام ہونے والوں کے لیے برا انجام مقدر کیا۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے دو مقامات درج ذیل ہیں:
’’ہم نے اس کو (نیکی اور بدی کی) راہ سجھا دی ہے، وہ چاہے شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ ہم نے کفر کرنے والوں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ہاں، وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے، جس میں چشمۂ کافور کی آمیزش ہو گی۔‘‘ (الدہر ۷۶: ۳۔ ۵)
’’اور کہہ دو یہی حق ہے تمھارے رب کی جانب سے تو جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی دیواریں ان کو اپنے گھیرے میں لے لیں گی۔‘‘ (الکہف ۱۸: ۲۹۔۳۰)
ان سب آیات سے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی وہ اسکیم سامنے آ جاتی ہے، جس کی بنا پر وہ خیر و شر کی اس آزمایش میں ڈالا گیا ہے۔ اس آزمایش کے لیے بنیادی چیز جو انسان کو دی گئی ہے وہ ارادہ و اختیار کی آزادی ہے۔ اس آزادی کے بعدانسان پوری طرح با اختیار ہے کہ وہ اپنی عقل کی روشنی میں چلے یا اس سے رو گردانی کرے۔ ہزاروں پردوں میں چھپے ہوئے حق کو اپنی بصیرت سے پہچان لے یا آنکھوں کے سامنے موجود حق کا پوری ڈھٹائی سے انکار کر دے۔ مہربان پروردگار کے احکام بجا لائے یا اس کی نافرمانی کو اپنا شیوہ بنا لے۔ خدا نے انسان کے لیے یہ بالکل ممکن بنا دیا کہ وہ چاہے تو اپنی فطرت ہی سے انکار کر دے، اور حق، عدل، ایثار، وفا، محبت اور ہمدردی جیسے اعلیٰ اصولوں اور اعلیٰ اقدار کو ناگوار قرار دے دے، جس کائنات کے اندر وہ کھاتا پیتا اور جیتا بستا ہے، چاہے تو اس کو وہم و خیال قرار دے اور اپنی سب ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جائے۔ بہر حال، اچھی یا بری، جو راہ بھی وہ اختیار کرے گا، اس کا انجام اسی کے مطابق ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، اسے ایک صالح فطرت سے نوازا، اس میں بے شمار خواہشات پیدا کردیں، دنیا کو اس کی مرغوبات سے بھر دیا، پھر اس سب کے ساتھ دنیا کو محدود بنایا۔ نتیجۃً، اس ساری صورت حال سے، انسان ایک بہت بڑی آزمایش میں پڑ گیا۔ اس دنیا میں کوئی شخص بھی اپنی تمام خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ وہ اگر اپنی فطرت پر قائم رہتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو محدود کرے اور جذبات کو لگام دے۔ اگر وہ اپنے جذبات او رخواہشات کو بے لگام چھوڑتا ہے تو پھر وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی عقل و فطرت کو کچلتا ہے۔
بہرحال، انسان نے اس دنیا میں اس آزادی کو استعمال کیا اور خوب کیا۔ کبھی فطرت کے مطابق اور کبھی اس کے خلاف، کبھی عقل و دانش کی راہ میں اور کبھی اس سے ہٹ کر، کبھی پروردگار عالم کی اطاعت میں اور کبھی اس کی نافرمانی میں۔ پس جب جب انسان نے عقل و فطرت کے مطابق اپنے اختیار کو استعمال کیا، خیر وجود میں آیا اور جب جب وہ اس راہ سے ہٹا اور اپنے اختیار کو عقل و فطرت کے خلاف استعمال کیا، شر وجود میں آیا۔
اس ساری بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی دنیا میں شر صرف اس کے ارادہ و اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ