• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عورتوں کا عید گاہ جانا مکروہ ہے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ ان سب دلائل کا تفصیلی جواب دیں یہ سوال مجھ سے ایک بہن نے کیا ہے جو پاکستان کی ہیں اور نئ اہل حدیث ہوئ ہیں یہ سوال انہیں کا ہے مجھے جواب دیں جزاک اللہ خیر

12016437_163991397274427_2053130738_n.jpg
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,480
پوائنٹ
964
كيا عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے يا كہ اپنے گھر ميں رہنا افضل ہے ؟

مجھے علم ہے كہ عورت كے ليے گھر ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، ليكن ميرا سوال نماز عيد كے متعلق ہے كہ آيا عورت كے ليے نماز عيد گھر ميں افضل ہے يا كہ نماز عيد كے ليے عيد گاہ جانا ؟
جواب

عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.
بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے وہ كہتى ہيں:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں نكلنے كا حكم ديا، نوجوان شادى كے قابل اور حيض والى اور كنوارى عورتيں نكليں، اور حيض والى عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كى دعاء ميں شريك ہوں، ميں نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى بہن اسے اپنى اوڑھنى دے دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).

العواتق: عاتق كى جمع ہے، جو بالغ لڑكى يا قريب البلوغ يا شادى كے قابل لڑكى كو كہتے ہيں.
ذوات الخدور: كنوارى لڑكياں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس ميں عورتوں كا نماز عيد كے ليے نكلنے كا استحباب ہے، چاہے وہ چاہے وہ نوجوان ہوں يا نہ، يا پھر شكل و صورت والى ہوں يا نہ. اھـ
اور شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث اور اس كے معنى ميں جو دوسرى احاديث ہيں عيدين ميں عورتوں كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كى مشروعيت كى متقاضى ہيں، بغير كسى فرق كے كہ وہ كنوارى ہو يا شادى شدہ، يا جوان ہو يا بوڑھى، حائضہ ہو يا دوسرى، جبكہ وہ عدت والى نہ ہو اور اس كے نكلنے ميں عورت يا كسى دوسرے كے ليے فتنہ نہ ہو، يا پھر اسے كوئى عذر ہو. اھـ
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا عورت كے ليے نماز عيد كے ليے جانا افضل ہے يا كہ گھر ميں رہنا؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" عورت كا نماز عيد كے ليے جانا افضل اور بہتر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو نماز عيد كے ليے جانے كا حكم ديا ہے، حتى كہ قريب البلوغ اور كنوارى عورتوں كو بھى ـ يعنى ان عورتوں كو بھى نكلنے كا حكم ديا ہے جو عادتا باہر نہيں نكلتيں ـ چنانچہ حائضہ عورت بھى عورتوں كے ساتھ عيد گاہ جائيگى، ليكن وہ نماز والى جگہ ميں داخل نہيں ہو گى؛ كيونكہ عيد گاہ مسجد ہے، اور مسجد ميں حائضہ عورت كے ليے ٹھرنا جائز نہيں، ليكن وہ وہاں سے گزر سكتى ہے، يا پھر وہاں سے كوئى چيز پكڑ سكتى ہے، ليكن وہاں ٹھرے گى نہيں.
تو اس بنا پر ہم يہ كہيں گے كہ: عورتوں كو نماز عيد كے ليے نكلنے اور مردوں كے ساتھ اس نماز ميں شريك ہونے كا حكم ہے، اس ميں شركت كا حكم ہے جس سے خير اور ذكر اور دعاء حاصل ہوتى ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 16 / 210 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" ليكن عورتوں كو بے پرد اور بناؤ سنگھار كر كے نكلنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور نہ ہى وہ خوشبو اور عطر استعمال كر كے نكليں، كيونكہ اس طرح وہ سنت پر عمل اور فتنہ سے اجتناب دونوں كو جمع كرسكتى ہيں.
اور آج كل جو كچھ عورتوں سے بے پردگى اور خوشبو كا استعمال ہو رہا ہے وہ ان كى جہالت اور ان كے ذمہ داران اولياء كى كوتاہى كى بنا پر ہے، اور يہ عمومى شرعى حكم كو نہيں روك سكتا، جو كہ عورتوں كو نماز عيد كے ليے نكلنے كا ہے" اھـ
واللہ اعلم .
ـــــــــــــــــــــ
یہ بات ذہن میں رکھیں عید نماز کے لیے عورتوں کا عیدگاہ میں جانا بہتر ہے ، افضل ہے ، لیکن واجب یا ضروری نہیں ، اس لیے اگر کوئی عورت مسجد نہیں جاتی یا اس کے گھر والے اس کو کسی معقول عذر کی بنا پر نہیں جانے دیتے ، تو کوئی حرج نہیں ۔
اسی طرح نیکی کے اس کام کی آڑ میں فتنہ و فساد کا خدشہ تو پھر بھی اس پر پابندی لگانے میں کوئی حرج نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,480
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اہل علم سے گزارش ہے کہ ان سب دلائل کا تفصیلی جواب دیں یہ سوال مجھ سے ایک بہن نے کیا ہے جو پاکستان کی ہیں اور نئ اہل حدیث ہوئ ہیں یہ سوال انہیں کا ہے مجھے جواب دیں جزاک اللہ خیر
14017 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلی دلیل کے حوالے سے گزارش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کو مطلقا منع کرنے کی بات نہیں کی ، بلکہ اس کی وجہ ساتھ بیان کی ہے ، پہلے گزارش کی جاچکی ہے کہ اگر کوئی معقول وجہ ہو تو بتقاضائے مصلحت روکا جاسکتا ہے ۔
اسی طرح دیگر آثار صحابہ و تابعین ( اگر پایہ صحت کو پہنچتے ہیں ) واضح فرمان نبوی ( جو کہ اوپر گزر چکا ) کے اگر خلاف ہیں تو حجت نہیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,732
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابھی کچھ عرصہ قبل ان پر تحریر کیا گیا تھا، شیخ اسحاق سلفی بھائی نے تفصیلی جائزہ لیا تھا، فورم پر تلاش کریں!
دوم کہ اگر امیج کی عبارات کو یونیکوڈ میں تحریر کرکے پیش کیا جائے ، تو اسے تلاش کرنے اور اس کا جواب لکھنے میں آسانی اور سہولت رہتی ہے!
 
Last edited:
Top