• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ کے متعلق ابو عمر بھائی کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب

فواداحمد

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2015
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5

ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ

عن الحارث عن علي قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ابو بكر وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين لا تخبرهما يا علي ما داما حيين


علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے جنتیوں کے كهول کے سردار ہوں گے، اور فرمایا اے علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا


دین کوئی ایسی بات نہیں جو نبی علیہ السلام نے چھپائی ہو یا اس کو ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہو لیکن اس کے باوجود

اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں

روایت میں «كہول» کا لفظ ہے جو جمع ہے «كہل» کی- «كہل» سے مراد وہ مرد ہوتے ہیں جن کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک- تاریخ کے مطابق حسن کی پیدائش ٣ ہجری اور وفات ٥٠ ہجری میں ہوئی اور حسین کی پیدائش ٤ ہجری اور شہادت ٦١ ہجری میں ہوئی -

حسین رضی الله عنہ کی شہادت کے وقت ٥٧ سال عمر تھی اور حسن رضی الله عنہ کی ٤٧ سال تھی لہذا دونوں اس کھول کی تعریف پر پورا اترتے ہیں- لہذا ابو بکر ہوں یا عمر یا حسن یا حسین سب کھول بن کر اس دنیا سے گئے –

حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ کی سند

ایک دوسری روایت ہے

أَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ


اس روایت کو ترمذی نے بھی عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل کیا ہے اور وہ کہتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ


یہ حدیث حسن غریب ہے اس طرق سے اس کو ہم نہیں جانتے سوائے اسرئیل کی سند سے

سند میں إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ بن أبى إسحاق السبيعى الهمدانى ہے

مسند احمد میں یہ إِسْرَائِيلُ، عَنِ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل ہوئی ہے

الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں

وَرَوَى: عَبَّاسٌ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: كَانَ القَطَّانُ لاَ يُحَدِّثُ عَنْ إِسْرَائِيْلَ، وَلاَ عَنْ شَرِيْكٍ.


عبّاس کہتے ہیں کہ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ کہتے ہیں کہ یحیی القَطَّانُ اسرائیل اور شریک سے روایت نہیں کرتے تھے


احمد کہتے ہیں یہ مناکیر روایت کرتے ہیں

إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ صحیحین کے راوی ہیں لیکن ان کی ظاہر ہے بعض مناکیر نقل نہیں کی گئیں- سند میں المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو بھی ہے جو روایت کرتا تھا کہ معاویہ نے سنت کو بدلا اور علی صدیق اکبر ہیں لہذا ایسے مفرط شیعوں کی روایت کس طرح قابل قبول ہے؟

روایت کی ایک تاویل کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے وہ لوگ جو جوانی میں ہلاک ہوئے ان کے سردار حسنین ہوں گے

لیکن حدیث کے الفاظ اس مفروضے کے خلاف ہیں کیونکہ اس میں ہے کہ اہل جنت کے جوانوں کے سردار حسنین ہوں گے

یہ مفروضہ اس لئے گھڑا گیا کیونکہ دیگر صحیح روایات کے مطابق جنت میں سب ہی جوان ہوں گے جن میں انبیاء و رسل

بھی شامل ہیں اس حساب سے زیر بحث روایت حسنین کو انبیاء و رسل کا سردار بھی بنا دیتی ہے جو اہل جنت میں سے ہیں

أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنہ کی سند

یہ روایت ایک اور سند سے بھی ترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ


اس کی سند میں عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي ہیں جن کے لئے میزان میں الذھبی لکھتے ہیں كوفي، تابعي مشهور ہیں

وقال أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين، قال: ابن أبي نعم ضعيف، كذا

نقل ابن القطان، وهذا لم يتابعه عليه أحد.


ابن معین، ابن القطان ان کو ضعیف کہتے ہیں

عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي صحیحین کے راوی ہیں لیکن یہ مخصوص روایت صحیح میں نہیں دوم ان سے سنے والے يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ہیں جو کوفہ کے کٹر شیعہ ہیں

أبي هُرَيْرَة رضی الله عنہ کی سند

نسائی نے یہ روایت کتاب خصائص علی میں أبي هُرَيْرَة کی سند سے نقل کی ہے

أخبرنَا مُحَمَّد بن مَنْصُور قَالَ حَدثنَا الزبيرِي مُحَمَّد بن عبد الله قَالَ حَدثنَا أَبُو جَعْفَر واسْمه مُحَمَّد بن مَرْوَان قَالَ حَدثنِي أَبُو حَازِم عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ أَبْطَأَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَنَّا يَوْم صدر النَّهَار فَلَمَّا كَانَ العشى قَالَ لَهُ قائلنا يَا رَسُول الله قد شقّ علينا لم نرك الْيَوْم قَالَ إِن ملكا من السَّمَاء لم يكن رَآنِي فَأَسْتَأْذِن الله فِي زيارتي فَأَخْبرنِي أَو بشرني أَن فَاطِمَة ابْنَتي سيدة نسَاء أمتِي وَإِن حسنا وَحسَيْنا سيدا شباب أهل الْجنَّة


محمد بن مروان الذهلى ، أبو جعفر الكوفى مجھول ہے جس کا کسی نے ذکر نہیں کیا

ابن عمر رضی الله عنہ کی سند

ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا”


حسن و حسین اہل جنت کے سردار ہیں اور ان کے باپ ان سے بہتر ہیں


ضعفاء العقيلي کے مطابق

قال أَبُو داود : سمعت يحيى بْن مَعِين: وسئل عن المعلى ابن عَبْد الرحمن – فقال: أحسن أحواله عندي أنه قيل لَهُ عند موته: ألا تستغفر اللَّهِ. فقال: ألا أرجو أن يغفر لي وقد وضعت فِي فضل علي بْن أَبي طالب سبعين حديثا

ابو داود کہتے ہیں میں نے يحيى بْن مَعِين سے سنا اور ان سے المعلى ابن عَبْد الرحمن کے حوالے سے سوال کیا انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا حال احسن ہے ان کی موت کے وقت ان سے کہا گیا کہ آپ الله سے توبہ کریں پس کہا بے شک میں امید رکھتا ہوں کہ میری مغفرت ہو گی اور میں نے علی بن ابی طالب کی فضیلت میں ٧٠ حدیث گھڑیں


البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور امام حاکم مستدرک میں اس کو اسی سند سے نقل کرتے ہیں

چونکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں لہذا یہ روایت امام ترمذی کے حساب سے حسن ہے – اس کو منقبت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کا متن جلیل القدر اصحاب رسول کو بھی حسن و حسین کی سرداری قبول کروا رہا ہے حالانکہ خود ان اصحاب رسول نے اپنی زندگی میں حسین کی بغاوت کو قبول نہیں کیا

ابن عمر رضی الله عنہ کا موقف خروج حسین پرامام بخاری بیان کرتے ہیں کہ

باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ

نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے


عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کے لئے کتنی سخت ہے مسلم بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»


نافع کہتے ہیں عبد الله ابن عمر عبد الله بن نِ مُطِيعٍ کے پاس گئے جب حرہ میں ہوا جو ہوا یزید بن معاویہ کے دور میں اس نے کہا ابی عبد الرحمان اور ان کے سرداروں کے لئے ہٹاؤ عبد الله ابن عمر نے کہا میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا تم کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو رسول الله سے سنی کہ جو اطاعت میں سے ایک ہاتھ نکلا اس کی الله سے ایسے ملاقات ہو گی کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جو مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کو موت مرا


جو اصحاب رسول زندگی میں حسین کو سردار نہیں مان رہے وہ ان کو اہل جنت کا سردار کہیں نہایت عجیب بات ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایت مشکوک ہے

واضح رہے کہ بحث اس پر ہے ہی نہیں کہ حسنین اہل بہشت میں سے ہیں یا نہیں- بحث اس مسئلہ پر ہے کہ کیا جنت میں بھی اس دنیا کی طرح کا کوئی نظام ہے جس میں سردار یا غیر سردار کی تقسیم ہو گی

قرآن جو نقشہ کھینچتا ہے اس میں تو سب جنتی سرداروں کی طرح مسندوں پر ہوں گے

گروہ بندی اور سرداری تو دنیا کی سیاست کے معاملات ہیں جن میں ایک گروہ کسی سردار پر متفق ہوتا ہے اور

اس کی سربراہی میں کام کرتا ہے جبکہ جنت تو کسی بھی سیاست سے پاک ہو گی اوراس طرح کی گروہ بندی یا سرداری کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا اب

چونکہ یہ کہنا ہی صحیح نہیں لہذا یہ ایک مہمل بات بنتی ہے جو حدیث رسول نہیں ہو سکتی

ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں

ارقبوا محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم في أھل بیتہ


محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت تلاش کرو۔


صحیح البخاری

لیکن محبت میں غلو سب کے لئے منع ہے اور اس میں احتیاط ضروری ہے
کیا جنت میں بوڑھے بھی جائیں گے؟[/QUOTE]
جب تک ہمیں معلومات ہیں،جنت میں تمام جوان ہو کر جائیں گے ،کوئی بوڑھا نہیں جاسکے گا،اس سلسلے میں حضرت سلمان فارسی کی روایت بھی ہے۔
 

فواداحمد

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2015
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5

ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ

عن الحارث عن علي قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ابو بكر وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين لا تخبرهما يا علي ما داما حيين


علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے جنتیوں کے كهول کے سردار ہوں گے، اور فرمایا اے علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا


دین کوئی ایسی بات نہیں جو نبی علیہ السلام نے چھپائی ہو یا اس کو ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہو لیکن اس کے باوجود

اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں

روایت میں «كہول» کا لفظ ہے جو جمع ہے «كہل» کی- «كہل» سے مراد وہ مرد ہوتے ہیں جن کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک- تاریخ کے مطابق حسن کی پیدائش ٣ ہجری اور وفات ٥٠ ہجری میں ہوئی اور حسین کی پیدائش ٤ ہجری اور شہادت ٦١ ہجری میں ہوئی -

حسین رضی الله عنہ کی شہادت کے وقت ٥٧ سال عمر تھی اور حسن رضی الله عنہ کی ٤٧ سال تھی لہذا دونوں اس کھول کی تعریف پر پورا اترتے ہیں- لہذا ابو بکر ہوں یا عمر یا حسن یا حسین سب کھول بن کر اس دنیا سے گئے –

حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ کی سند

ایک دوسری روایت ہے

أَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ


اس روایت کو ترمذی نے بھی عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل کیا ہے اور وہ کہتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ


یہ حدیث حسن غریب ہے اس طرق سے اس کو ہم نہیں جانتے سوائے اسرئیل کی سند سے

سند میں إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ بن أبى إسحاق السبيعى الهمدانى ہے

مسند احمد میں یہ إِسْرَائِيلُ، عَنِ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل ہوئی ہے

الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں

وَرَوَى: عَبَّاسٌ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: كَانَ القَطَّانُ لاَ يُحَدِّثُ عَنْ إِسْرَائِيْلَ، وَلاَ عَنْ شَرِيْكٍ.


عبّاس کہتے ہیں کہ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ کہتے ہیں کہ یحیی القَطَّانُ اسرائیل اور شریک سے روایت نہیں کرتے تھے


احمد کہتے ہیں یہ مناکیر روایت کرتے ہیں

إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ صحیحین کے راوی ہیں لیکن ان کی ظاہر ہے بعض مناکیر نقل نہیں کی گئیں- سند میں المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو بھی ہے جو روایت کرتا تھا کہ معاویہ نے سنت کو بدلا اور علی صدیق اکبر ہیں لہذا ایسے مفرط شیعوں کی روایت کس طرح قابل قبول ہے؟

روایت کی ایک تاویل کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے وہ لوگ جو جوانی میں ہلاک ہوئے ان کے سردار حسنین ہوں گے

لیکن حدیث کے الفاظ اس مفروضے کے خلاف ہیں کیونکہ اس میں ہے کہ اہل جنت کے جوانوں کے سردار حسنین ہوں گے

یہ مفروضہ اس لئے گھڑا گیا کیونکہ دیگر صحیح روایات کے مطابق جنت میں سب ہی جوان ہوں گے جن میں انبیاء و رسل

بھی شامل ہیں اس حساب سے زیر بحث روایت حسنین کو انبیاء و رسل کا سردار بھی بنا دیتی ہے جو اہل جنت میں سے ہیں

أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنہ کی سند

یہ روایت ایک اور سند سے بھی ترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ


اس کی سند میں عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي ہیں جن کے لئے میزان میں الذھبی لکھتے ہیں كوفي، تابعي مشهور ہیں

وقال أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين، قال: ابن أبي نعم ضعيف، كذا

نقل ابن القطان، وهذا لم يتابعه عليه أحد.


ابن معین، ابن القطان ان کو ضعیف کہتے ہیں

عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي صحیحین کے راوی ہیں لیکن یہ مخصوص روایت صحیح میں نہیں دوم ان سے سنے والے يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ہیں جو کوفہ کے کٹر شیعہ ہیں

أبي هُرَيْرَة رضی الله عنہ کی سند

نسائی نے یہ روایت کتاب خصائص علی میں أبي هُرَيْرَة کی سند سے نقل کی ہے

أخبرنَا مُحَمَّد بن مَنْصُور قَالَ حَدثنَا الزبيرِي مُحَمَّد بن عبد الله قَالَ حَدثنَا أَبُو جَعْفَر واسْمه مُحَمَّد بن مَرْوَان قَالَ حَدثنِي أَبُو حَازِم عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ أَبْطَأَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَنَّا يَوْم صدر النَّهَار فَلَمَّا كَانَ العشى قَالَ لَهُ قائلنا يَا رَسُول الله قد شقّ علينا لم نرك الْيَوْم قَالَ إِن ملكا من السَّمَاء لم يكن رَآنِي فَأَسْتَأْذِن الله فِي زيارتي فَأَخْبرنِي أَو بشرني أَن فَاطِمَة ابْنَتي سيدة نسَاء أمتِي وَإِن حسنا وَحسَيْنا سيدا شباب أهل الْجنَّة


محمد بن مروان الذهلى ، أبو جعفر الكوفى مجھول ہے جس کا کسی نے ذکر نہیں کیا

ابن عمر رضی الله عنہ کی سند

ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا”


حسن و حسین اہل جنت کے سردار ہیں اور ان کے باپ ان سے بہتر ہیں


ضعفاء العقيلي کے مطابق

قال أَبُو داود : سمعت يحيى بْن مَعِين: وسئل عن المعلى ابن عَبْد الرحمن – فقال: أحسن أحواله عندي أنه قيل لَهُ عند موته: ألا تستغفر اللَّهِ. فقال: ألا أرجو أن يغفر لي وقد وضعت فِي فضل علي بْن أَبي طالب سبعين حديثا

ابو داود کہتے ہیں میں نے يحيى بْن مَعِين سے سنا اور ان سے المعلى ابن عَبْد الرحمن کے حوالے سے سوال کیا انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا حال احسن ہے ان کی موت کے وقت ان سے کہا گیا کہ آپ الله سے توبہ کریں پس کہا بے شک میں امید رکھتا ہوں کہ میری مغفرت ہو گی اور میں نے علی بن ابی طالب کی فضیلت میں ٧٠ حدیث گھڑیں


البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور امام حاکم مستدرک میں اس کو اسی سند سے نقل کرتے ہیں

چونکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں لہذا یہ روایت امام ترمذی کے حساب سے حسن ہے – اس کو منقبت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کا متن جلیل القدر اصحاب رسول کو بھی حسن و حسین کی سرداری قبول کروا رہا ہے حالانکہ خود ان اصحاب رسول نے اپنی زندگی میں حسین کی بغاوت کو قبول نہیں کیا

ابن عمر رضی الله عنہ کا موقف خروج حسین پرامام بخاری بیان کرتے ہیں کہ

باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ

نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے


عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کے لئے کتنی سخت ہے مسلم بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»


نافع کہتے ہیں عبد الله ابن عمر عبد الله بن نِ مُطِيعٍ کے پاس گئے جب حرہ میں ہوا جو ہوا یزید بن معاویہ کے دور میں اس نے کہا ابی عبد الرحمان اور ان کے سرداروں کے لئے ہٹاؤ عبد الله ابن عمر نے کہا میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا تم کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو رسول الله سے سنی کہ جو اطاعت میں سے ایک ہاتھ نکلا اس کی الله سے ایسے ملاقات ہو گی کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جو مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کو موت مرا


جو اصحاب رسول زندگی میں حسین کو سردار نہیں مان رہے وہ ان کو اہل جنت کا سردار کہیں نہایت عجیب بات ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایت مشکوک ہے

واضح رہے کہ بحث اس پر ہے ہی نہیں کہ حسنین اہل بہشت میں سے ہیں یا نہیں- بحث اس مسئلہ پر ہے کہ کیا جنت میں بھی اس دنیا کی طرح کا کوئی نظام ہے جس میں سردار یا غیر سردار کی تقسیم ہو گی

قرآن جو نقشہ کھینچتا ہے اس میں تو سب جنتی سرداروں کی طرح مسندوں پر ہوں گے

گروہ بندی اور سرداری تو دنیا کی سیاست کے معاملات ہیں جن میں ایک گروہ کسی سردار پر متفق ہوتا ہے اور

اس کی سربراہی میں کام کرتا ہے جبکہ جنت تو کسی بھی سیاست سے پاک ہو گی اوراس طرح کی گروہ بندی یا سرداری کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا اب

چونکہ یہ کہنا ہی صحیح نہیں لہذا یہ ایک مہمل بات بنتی ہے جو حدیث رسول نہیں ہو سکتی

ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں

ارقبوا محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم في أھل بیتہ


محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت تلاش کرو۔


صحیح البخاری

لیکن محبت میں غلو سب کے لئے منع ہے اور اس میں احتیاط ضروری ہے
کتنا کمزور استدلال کرتے ہو وہ بھی روایت متواتر کے مقابلے میں جن سے بڑے بڑے محدثین نے انکار نہیں کیا۔اسکے علاوہ جنت میں بھی سرداری کا سسٹم ہوگا کیونکہ سیدا کھول اھل الجنۃ والی روایت کے بارے میں کیا کہیں گے؟تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض وغیرہ۔۔۔۔۔پلیز سنی بنو ناصبی نہیں ہم اس طرح نہیں ہیں۔[/QUOTE]
دیکھیں حسن اور حسین پر قرآنی آیات۔ھل اتی علی الانسان--آیہ مباھلہ ابناءنا و ابناءکم--انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس۔۔وغیرہ دلالت کرتی ہیں،اگر البانی جیسے چند ناصبی اہلبیت کے فضائل کا انکار کریں تو اس سے کیا ہوگا،حالانکہ البانی سے شیخ بن باز تک یہ سلسلہ تمام علماء کے درمیان ناصبی پر مشھور ہے،اسکے علاوہ مولانا مودودی کے نظریات بھی آپکے ان دعووں کی تردید کرتے ہیں۔اور محدث امام احمد رضا خان بریلوی امام اہل سنت والجماعت کا قول تو میں نے یزید کے بارے میں بھیج دیا،اہل حدیث جیسے نواصب کے بارے میں اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:لیطفئوا نوراللہ بافواھھم ،واللہ متم نورہ و لو کرہ۔۔۔۔
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
کتنا کمزور استدلال کرتے ہو وہ بھی روایت متواتر کے مقابلے میں جن سے بڑے بڑے محدثین نے انکار نہیں کیا۔اسکے علاوہ جنت میں بھی سرداری کا سسٹم ہوگا کیونکہ سیدا کھول اھل الجنۃ والی روایت کے بارے میں کیا کہیں گے؟تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض وغیرہ۔۔۔۔۔پلیز سنی بنو ناصبی نہیں ہم اس طرح نہیں ہیں
دیکھیں حسن اور حسین پر قرآنی آیات۔ھل اتی علی الانسان--آیہ مباھلہ ابناءنا و ابناءکم--انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس۔۔وغیرہ دلالت کرتی ہیں،اگر البانی جیسے چند ناصبی اہلبیت کے فضائل کا انکار کریں تو اس سے کیا ہوگا،حالانکہ البانی سے شیخ بن باز تک یہ سلسلہ تمام علماء کے درمیان ناصبی پر مشھور ہے،اسکے علاوہ مولانا مودودی کے نظریات بھی آپکے ان دعووں کی تردید کرتے ہیں۔اور محدث امام احمد رضا خان بریلوی امام اہل سنت والجماعت کا قول تو میں نے یزید کے بارے میں بھیج دیا،اہل حدیث جیسے نواصب کے بارے میں اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:لیطفئوا نوراللہ بافواھھم ،واللہ متم نورہ و لو کرہ۔۔۔۔
آپ کی عظمت کو سلام ہے ـــــــــــــ آپ جیسے لوگ فی زمانہ اسلام کا علم بلند کیے ہوئے ہیں ـــــــــــــــ آپ ہی کی بدولت لاکھوں مسلمان عرب و غرب سے لے کر ایشیائے کوچک تک اسلام کے جھنڈے تلے آ چکے ہیں ــــــــ آپ کی کوششوں ہی سے پاکستان میں تمام مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو چکی ہے ـــــــــ آپ ہی کے جہود کا نتیجہ ہم بھری ہوئی مساجد اور خالی بازاروں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ـــــــــــ آپ کے محدث کا قول حق اور آپ کی علمیت بھی برحق ـــ
آپ نور الٰہی کو بھڑکانے اور چار دانگ عالم تک پہنچانے کا جو عظیم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ، اس پر آپ کے لیے ایک طلائی تمغہ تو بنتا ہے ـــــــ
ویسے ایک مفت مشورہ دوں ـــــــــاس عظیم علمی جہاد کے بعد اب عمل جہاد کے لیے بھی کوئی قدم مبارک اٹھا لیجیے ــــــــ سیدنا حسینؓ سبطِ رسولﷺ فداہ روحی و ابی و امی نے کربلا میں خون دیا تھا ــــــــ خانوادہ کٹوایا تھا ـــــــــ آپ بھی کشمیر، فلسطین ، افغانستان ، برما ـــــــ یا کسی اور محاذ ، جہاں مسلمانوں پہ ظلم و ستم ہو رہا ہے ــــکوئی دو چار قطرے ہی گرا آئیں
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ـــــــــــــــــــ کوئی شک؟؟ ـــــ نبیﷺ نے خود خبر دی ہے ۔
یزید ــــ جو معاویہ ؓ صحابی رسولﷺ، کاتب وحی کی اولاد ہے ـــــاس سے متعلق جب آپ یا مجھ سے پوچھا نہیں جائے گا ــــــــــــــ تو کس بات کے مناظرے اور مجادلے!!!
ہاں ، جس نے حسین ؓ کے قتل میں ایک رتی بھر حصہ ڈالا ہے ـــــــــــــ میں اس سے بیزار ہوں ، براءت کا اظہار کرتا ہوں ، اس سے ایسے ہی نفرت کرتا ہوں ، جیسے کسی بھی دشمن اسلام سے کرتا ہوں
حسینؓ کی محبت ایمان کا حصہ ہے ــــــــــــ
وما علینا الاالبلاغ
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
عقل کے مخالف تو تم لوگ ہو،اصلا آپکا پہلا نام اشاعرہ تھا ،پھر اہل حدیث بن گیا،اور معتزلہ کے مقابلے میں آپکا مذہب بن گیا،رہی بات علی ابن الحسین کی وہ آخری عمرتک ہر نماز کے بعد یزید اور بنو امیہ پر لعنت بھیجتا تھا،پتہ نہیں غیر مقلدین کے پاس وحی کا سلسلہ کب سے شروع ہوگیا،
آپ کی علم میں اضافہ کے لئے عرض ہے کہ میں اہل حدیث نہیں ہوں ، حنفی ہوں
 

فواداحمد

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2015
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
جو سنی ہوگا وہ اہل بیت کے دشمن قبیلہ بنو امیہ پر لعنت ضرور بھیجے گا،میرے کمنٹ تو ویسے بھی جلدی جلدی ڈیلیٹ کئے جاتے ہیں،لیکن قرآن سے ظالموں اور شجرہ خبیثہ و ملعونہ کے آیات کس طرح نکالو گے،سنی اور وہابی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسکے علاوہ ملک اسحاق کی ہلاکت کی بھی سپیشل مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
 

فواداحمد

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2015
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
معاویہ کا امام علی سے بغض اور سنت نبوی میں بدعت جاری کرنا

معاویہ نے بخاطر بغض و مخالفتِ علی ابن ابی طالب روز عرفہ تلبیہ کہنے کو ممنوع قرار دے دیا۔

السنن الكبرى للبيهقي (5/113) دار الفكر :
"عن سعيد بن جبير قال كنا عند ابن عباس بعرفة فقال يا سعيد ما لي لا أسمع الناس يلبون، فقلت: يخافون معاوية، فخرج ابن عباس من فسطاطه، فقال: لبيك اللهم لبيك وإن رغم أنف معاوية، اللهم العنهم فقد تركوا السنة من بغض علي رضى الله عنه". انتهى
ترجمہ:
سعید بن جبیر کہتے ہیںکہ ہم عرفہ کے دن عرفات کے میدان میں ابن عباس کے ساتھ تھے۔ ابن عباس نے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ کیوں ان سے تلبیہ نہیں سن رہا ہوں؟ میں نے کہا معاویہ سے درتے ہیں۔ فورا ابن عباس اپنے خیمہ سے نکل کر کہنے لگے: لبیک اللھم لبیک اگرچہ میرے اس کام سے معاویہ کی ناک مٹی میں رگڑی جائے۔ خدا ان پر لعنت کرے۔ بے شک انہوں نے بغض امام علی میں سنت رسول (ص) کو چھوڑ دیا ہے۔

اس حدیث کو نسائی نے اس سند کے ساتھ نقل کرا ہے:

(3993) أنبأ أحمد بن عثمان بن حكيم الكوفي الاودي عن خالد بن مخلد قال حدثنا علي بن صالح عن ميسرة عن حبيب عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير قال كنا مع بن عباس بعرفات فقال مالي لا أسمع الناس يلبون فقلت يخافون من معاوية فخرج بن عباس من فسطاطه فقال لبيك اللهم لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي ضرب القباب بعرفة

حوالہ مذکور

لنک: http://www.yasoob.org/books/htm1/m015/17/no1733.html

اسی طرح یہ حدیث نسائی نے اپنی کتاب میں نقل کری:

خبرنا ‏ ‏أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏خالد بن مخلد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏علي بن صالح ‏ ‏عن ‏ ‏ميسرة بن حبيب ‏ ‏عن ‏ ‏المنهال بن عمرو ‏ ‏عن ‏ ‏سعيد بن جبير ‏ ‏قال ‏‏كنت مع ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏بعرفات ‏ ‏فقال ما لي لا أسمع الناس يلبون قلت يخافون من ‏ ‏معاوية ‏ ‏فخرج ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏من فسطاطه فقال ‏ ‏لبيك اللهم لبيك لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض ‏ ‏علي ‏

حواکہ: سنن الکبری از نسائی، مناسك الحج، باب التلبية بعرفة


اسی طرح بیھقی نے اس سند کے ساتھ نقل کرا ہے:

9230 - أخبرنا أبو الحسن محمد بن الحسين العلوي أنبأ عبد الله بن محمد بن الحسن بن الشرقي ثنا علي بن سعيد النسوي ثنا خالد بن مخلد ثنا علي بن صالح عن ميسرة بن حبيب النهدي عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير قال : كنا عند بن عباس بعرفة فقال يا سعيد ما لي لا أسمع الناس يلبون فقلت يخافون معاوية فخرج بن عباس من فسطاطه فقال لبيك اللهم لبيك وإن رغم أنف معاوية اللهم العنهم فقد تركوا السنة من بغض علي رضي الله عنه

حوالہ مذکور

http://islamport.com/d/1/mtn/1/52/18...+%DA%E1%ED+%22
حاکم نے بھی اسے اپنی مستدرک میں نقل کرا ھے:

1706 - أخبرنا إسحاق بن محمد بن خالد الهاشمي بالكوفة ثنا أحمد بن حازم بن أبي عزرة الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني
و أخبرني أبو سعيد عبد الرحمن بن أحمد المؤذن ثنا محمد بن إسحاق الإمام ثنا علي بن مسلم ثنا خالد بن مخلد ثنا علي بن مسهر عن ميسرة بن حبيب عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير قال : كنا مع ابن عباس بعرفة فقال لي : يا سعيد مالي لا أسمع الناس يلبون فقلت : يخافون من معاوية قال : فخرج ابن عباس من فسطاطه فقال : لبيك اللهم لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي رضي الله عنه
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه


حوالہ: مستدرک علی صحیحین، جلد 1، صفحہ 636.

لنک: http://www.islamport.com/d/1/mtn/1/20/353.html

اس حدیث کو حاکم نے بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے.

اسکے علاوہ البانی نے نسائی والی حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے.

صحیح روایت: علی سے بغض رکھنے والا منافق ہے
صحیح مسلم( آنلائن لنک)قال ‏ ‏علي ‏ ‏والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلي ‏ ‏أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ‏ترجمہ: علی ( ابن ابی طالب ) نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جو ایک بیچ سے زندگی پیدا کرتا ہے کہ رسول اللہ ص نے مجھے سے وعدہ فرمایا کہ اے علی نہیں کرے گا تجھ سے کوئی محبت سوائے مومن کے، اور نہیں رکھے گا کوئی تجھ سےکوئی بغض سوائے منافق کے۔

امام احمد نے فضائل میں بیان کیا ہے کہ:
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم انصار کے منافقین کو فقط انکے علی [علیہ السلام ] سے بغض رکھنے کی وجہ پہچان لیتے تھے

متن
حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قثنا اسود بن عامر قثنا إسرائيل عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي سعيد الخدري قال : إنما كنا نعرف منافقي الأنصار ببغضهم عليا
حوالہ : فضائل الصحابة جزء 2 ص 579

ابن تیمیہ: صحابہ و تابعین کی ایک کثیر تعداد علی ابن ابی طالب سے بغض رکھتی اور انہیں گالیاں دیتی تھی
ابن تیمیہ نے لکھا ہےکہ :

صحابہ اور تابعین میں سے کثیر افراد علی [ع] سے بغض رکھتے تھے اور علی [ع] کو گالیاں دیتے تھے اور ان سے جنگ کرتے تھے۔

متن

الرابع: أن الله قد اخبر انه سيجعل للذين آمنوا و عملوا الصالحات ودا و هذا وعد منه صادق و معلوم أن الله قد جعل للصحابة مودة في قلب كل مسلم لا سيما الخلفاء رضي الله عنهم لا سيما أبو بكر و عمر فان عأمةالصحابة و التابعين كانوا يودونهما و كانوا خير القرون و لم يكن كذلك عليفان كثيرا من الصحابة و التابعين كانوا يبغضونه و يسبونه و يقاتلونه
 
Top