• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آبروئے جماعت اہل حدیث شیخ عبد المعید حفظہ اللہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
{آبروئے جماعت اہل حدیث شیخ عبد المعید حفظہ اللہ}

تحریر : ابو ادیب آصف تنویر تیمی
متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
انسان اس دنیا میں ہزاروں اپنے جیسے انسانوں سے ملتا ہے،مگر ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کردار وگفتار سے دوسروں کو متاثر کرپاتے ہیں.​
انہیں باکردار اور باکمال شخصیات میں سے ہمارے محسن شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ(علیگڑہ) ہیں.کم وبیش میں نے ان کے ساتھ چارسالہ زندگی گزاری ہے.اس دوران ان کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا.ان سے پڑھا بھی،ان کے ساتھ گھوما بھی،کھایا بھی،اور لکھنا بھی سیکھا .​
کوئی ضروری نہیں کہ مجھے ان کی ذات اور عمل سے پورا اتفاق ہو،مگر ان حقائق کا اعتراف ضروری ہے جو انمول اور قابل تعریف ہیں.​
اللہ نے شیخ محترم کو گونا گوں صفات سے متصف کیا ہے.آپ کی سب سے بڑی خوبی دین پسندی اور عبادت الہی ہے.آپ جب اہل حدیث کمپلیکس میں سکونت پزیر تھے تو پابندی سے فجر کی نماز پڑہاتے اور مختصر درس دیا کرتے تھے،اور جمعہ کا خطبہ تو شاید و باید ہی چھوٹتا ہو.جب آپ دلی میں ہوتے ہیں تو مدرسہ ریاض العلوم(پرانی دلی)کی مسجد کو جمعہ کے خطبہ کے لیے ترجیح دیتے ہیں.کبھی آپ نے اپنے درس یا تقریر وتحریر کو بیچنے کی کوشش نہیں کی جو کیا صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے.​
آپ کی زندگی دکھاوا اور نمائش سے یکسر پاک ہے،اور یہ چیز آپ کی تقریر وتحریر میں نمایا رہتی ہے.کبھی آپ نے اپنی بات منوانے کے لیے تکلف وتصنع کا سہارا نہ لیا،جو کہنا ہوا برملا کہہ دیا.آپ کے ساتھ رہنے والا اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا،آپ نے اپنے شاگردوں کو کبھی پرایا خیال نہ کیا،جیسے اپنے بیٹوں سعید وعرفان وغیرہ سے محبت کرتے ویسے ہی ہم سب سے کرتے، کبھی فرق نہ کرتے،ساتھ کھاتے اور کھلاتے.صبح جب چہل قدمی کرنی ہوتی تو ابوالفضل پارٹ 1(نئی دلی) سے پارٹ 2 تک یا جب جامع مسجد(پرانی دلی)ہوتے تو کبھی کبھی صدر بازار تک نکل جاتے اور پورے راستہ کسی علمی موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی.​
شیخ کی خوراک بہت سادہ ہے،کھانے کا خاص خیال نہیں رکھتے ، وقت پر جو موجود رہا کھا لیا نہ شکوہ نہ شکایت.​
شیخ کی سب سے بڑی خوبی علمی وقلمی میدان میں ان کی جانفشانی اور جہد مسلسل ہے،بقول شیخ کے کہ انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں بہت زیادہ نہ لکھا مگر اس کے بعد جو انہوں نے قلم اٹھایا تو آج تک ان کو بلا قلم وکاغذ کے نہیں دیکھا گیا.چاہے آپ سفر میں ہوں یا حضر میں آپ کے پاس آپ کے لکھنے کا پیڈ ضرور ہوتا ہے.اور جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو لکھتے ہی رہتے ہیں،مطالعہ اس قدر وسیع اور حافظہ اس قدر قوی ہے کہ بہت کچھ دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.عربی،اردو تو آپ کے گھر کی لونڈی ہے جیسے چاہا استعمال کرڈالا.انگریزی اور فارسی میں اچھا درک ہے.ویسے تو آپ کا قلم ہر سمت میں اٹھتا رہا ہے مگر ادیان وفرق اور مسالک ومناہج اور حالات حاضرہ کے جیسے آپ امام ہوں.آپ نے مسلک حق(مسلک اہل حدیث)کا دفاع اپنی جان کی بازی لگاکے کیا ہے.جب بھی جماعت کے خلاف کوئی فتنہ اٹھا آپ نے اس کا جواب دیا اور ایسا مدلل اور مسکت جواب دیا کہ مخالف کو میدان چھوڑ کا بھاگنے کے سوا کچھ نہ سوجھا.اس کی وجہ سے کئی بار آپ اپنے اور بیگانے کے عتاب کے شکار ہوئے.ملک بدر ہوئے،تنخواہ پر پابندی لگی.مگر اس عزم وحوصلہ کے پہاڑ انسان نے سب کچھ انگیز(!) کرتے ہوئے سلفیت اور اہل حدیثیت کو شرمندہ نہ ہونے دیا.آپ کی تحریر کا اسلوب موضوع کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے.اگر کوئی علمی موضوع درپیش ہوتا ہے تو پھر آپ کا اسلوب خالص علمی ہوتا ہے.اور اگر کبھی کسی معاند حق سے سابقہ ہوا تو پھر سمجھو اس کی شامت آگئی.اس پراس قدرتابڑ توڑ حملہ کرتے ہیں کہ وہ بیچارہ جاں بلب ہوجاتا ہے.اس کے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ببر شیر سے کیسے مقابلہ کریں.لیکن اس سب کے باوجود شیخ کی تحریریں سوقیانہ غیر مہذب نہیں ہوتیں. بس سارا کھیل الفاظ وجملے اور تعبیر کا ہوتا ہے.پڑہنے والا دنگ رہتا ہے کہ آخر شیخ کے پاس یہ سارے جملے اور الفاظ آتے کہاں سے ہیں اور ایسے برمحل اور موزوں کہ کوئی دوسرا جملہ وہاں پر وہ معنی دینے سے قاصر رہتا ہے .
آپ کی کئی مشہور تصنیفات ہیں،ان میں سے بعض تو آپ کے اپنے مشہور نام سے شائع ہیں اور بعض قلمی ناموں سے ہیں.ویسے دیکھا جائے تو شیخ ہر مہینہ ایک کتاب کی تصنیف کرتے ہیں جو ان کے ماہنامہ"الاحسان"میں شائع ہوتا ہے.اس ساٹھ صفحات کے تقریبا سارے مضامین شیخ کے ہی ہوتے ہیں کبھی اگر دل میں آیا تو کسی کا کوئی اچھا مضمون رہا تو شائع کردیا ورنہ میگزین اپنا ، مضامیں اپنے،چھپائی کا پیسہ بھی اپنے جیب سے.​
شیخ علم وعمل کے زندہ شاہکار ہیں ان کی زندگی سراپا جہاد ہے،آج کی تاریخ میں بھی سلمان ندوی کی بیہودہ تحریر کاجس نے تیاپانچہ کررکھا ہے وہ شیخ ہی کا قلم ہے.اس کی ساری قابلیت جواب دے چکی ہے.اب تھک کر اس نے مرزائیت کا راستہ اختیار کیا ہے. اور یہاں بھی شیخ نے اس کو ننگا کردیا. لوگوں کے سامنے اس کی حقیقت آشکارہ ہوگئی،اس کا سارا پھکڑ پن دھول بن کر ہوا ہوگیا.​
شیخ کی شخصیت اس قدر ہمہ جہت اور عظیم ہے کہ ان کی مساعی جمیلہ پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ، شیخ کو عصر حاضرکا علامہ،عظیم مفکر،صاحب طرز ادیب اور بلند پایہ خطیب مانتا ہوں۔​
ہندوستان کے موجودہ سلفی علماء کرام میں شیخ کا ایک اہم مقام ہے.ہر کوئی ان کے علم وفن کا معترف ہے.اللہ نے ان کو کچھ ایسی خوبیوں سے نوازا ہے جس سے بہت سارے لوگ محروم ہیں.خاص طور سے میدان صحافت میں آپ کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا.آپ کا علم مثل سمندر معلوم ہوتا ہے.نادر افکار وخیالات آپ کی پہچان ہے.قوت حافظہ سے اللہ نے مالا مال کیا ہے.آپ کے بحوث ومقالات کے اپنے پرائے سب منتظر ہوتے ہیں.بہت پہلے میں نے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی سوانح میں پڑھا تھا کہ جب ان کا "الہلال" اور "البلاغ" شائع ہوتا تھا تو کثرت طباعت کے باوجود نسخوں کی کمی ہوجاتی تھی.لوگ پیشگی طور پر پیسہ ارسال کرکے اپنا آرڈر بک کرادیتے تھے.اور ہر وقت "پوسٹ مین" کے منتظر رہا کرتے تھے۔​
کم وبیش کچھ ایسی ہی کیفیت شیخ کے جملہ مضامین ومقالات کی ہے.لوگ آپ کے مضامین کو ایسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں جیسے کوئی گم شدہ علم وحکمت کی گٹھڑی ہو.اس سے شیخ کی علمی شخصیت کا پتہ چلتا ہے.اور یہ تو کچھ نہیں ہے ہمیں ان کی کمی اس وقت محسوس ہوگی اور ان کی ذریں تحریروں کا اس وقت اندازہ ہوگا جب شیخ کی ذات ہم سے دور بہت دور ہوگی(اللہ ان کو تادیر باقی رکھے).آج جس طرح ہم امام ذہبی، ابن تیمیہ،ابن القیم،ابن رجب،ابن کثیر،ابن حجر،شوکانی،صنعانی، ابن باز،البانی،ابن عثیمین،بکرابوزید،عبد الرحمن المعلمی،صدیق حسن خان،رحیم آبادی،سیالکوٹی،امرتسری،ندوی(رئیس،مختار)،ازہری(مقتدی) رحمہم اللہ کی تحریروں کو تلاشتے ہیں اسی طرح کل ہم دنیا کے علمی ذخائر سے "عبد المعید" کی علمی وراثت کے محتاج ہوں گے.خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج شیخ کے خوشہ چیں ہیں،ان سے علمی فائدہ اٹھاتے اور ان سے کسب فیض کرتے ہیں.​
اللہ ان کی عمر اور قلم میں برکت عطا فرمائے اور ان سے اپنے دین کا کام لیتا رہے.(آمین)​
[آپ کا اسلامی بھائی:ابوادیب تیمی]
عرض ناقل :
آصف تنویر صاحب جامعہ اسلامیہ مین ان ہندوستانی طلباء میں سے جو علم و ادب دوستی میں سرحدوں کی تقسیم کے قائل نہیں اس لیے پاکستانی علماء و طلبہ سے کافی تعلق اور دلچسپی رکھتے ہیں ۔ چنانچہ ان کی تحریریں گاہے بگاہے واٹس اپ ، فیس بک کے ذریعے ہم تک بھی پہنچتی رہتی ہیں ۔
بالا تحریر دو حصوں میں تھی جس کو بتصرف یسیر ایک ہی مضمون کی شکل دے دی گئی ہے ۔ اور ساتھ ساتھ شاید موبائل پر لکھنے کی وجہ سے املاء کی غلطیاں بہت زیادہ تھیں ان کو بھی درست کردیا گیا ہے ۔
حافظ خضرحیات ۔
 
Top