• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخر عورت پر کس کا حق ہے؟

mrs.kamal

مبتدی
شمولیت
جولائی 27، 2015
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
3
السلام علیکم،

ہمارے ایک درینہ عزیز اپنے ایک ذاتی مسئلے میں بضد ہیں کہ جب تک اہلِ علم سے رائے نہیں مل جاتی وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے اپنا عمل جاری رکھیں گے ۔ ہر چند ہم اپنے تئیں جو کچھ علم میں تھا گوش گزار کر چکے ہیں مگر وہ تاحال بضد ہیں اور ان کی ضد کی وجہ سے ہمارے خیال میں ایک گناہ ہو رہا ہے جس کا انہیں احساس نہیں ہے ۔ بہرحال مسئلہ بیان کئے دیتے ہیں تاکہ آپ حضرات اس پر بحوالہ دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرما دیں۔

موصوف کی ہمشیرہ جو ایک شادی شدہ خاتون ہیں اپنے میکے سے اِس لیے اپنے شوہر کے گھر نہیں جا رہی ہیں کیونکہ اُن کے والدین ضعیف ہیں اور ضیعف والدین کی خدمت ان پر فرض ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان پر سب سے ذیادہ حق اس کی والدہ کا ہے پھر والدہ کا ہے پھر والدہ کا ہے پھر والد کا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ انسان اور اس کی سب آل اولاد سب اسکے باپ کی ہے لہذا وہ بھی اپنی ہمشیرہ کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ والدین بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر تم شوہر کے ساتھ گئیں تو ہم تمہں معاف نہیں کریں گے اور زندگی بھر تم سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔

دوسری طرف شوہر کا کہنا یہ ہے کہ شادی کے بعد عورت کا فرض اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور شوہر کے ساتھ رہنا ہے ناکہ والدین کے ساتھ رہنا ۔ اور شادی کے بعد عورت کا اپنے شوہر سے ان وجوہات کی بنیاد پر دور رہنا ناجائز ہے ۔

اس مسئلے میں آپ سے مدلل رائے چاہیے کہ
کون سا فریق حق پر ہے؟
اور اس عورت پر کس کی اطاعت واجب ہے والدین کی یا شوہر کی؟
اگر شوہر کی بات مان کر والدین کو ناراض کردے تو کیا حکم لگے گا ؟
اگر والدین کی مان کر شوہر کو ناراض کردے تو کیا حکم لگے گا؟
برائے مہربانی جواب دے دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اور اس عورت پر کس کی اطاعت واجب ہے والدین کی یا شوہر کی؟
اگر شوہر کی بات مان کر والدین کو ناراض کردے تو کیا حکم لگے گا ؟
اگر والدین کی مان کر شوہر کو ناراض کردے تو کیا حکم لگے گا؟
برائے مہربانی جواب دے دیں
السؤال : طاعة الزوج مقدمة على طاعة الوالدين والإخوة
كم هي أهمية الزوج بالنسبة لزوجته ؟ هل هو أهم من أخواتها ؟ لمن تجب طاعة الزوجة ؟ هل الزوج أهم من والدي الزوجة وأخواتها ؟.
---------------------
الجواب ::
الحمد لله

قد دل القرآن والسنة على أن للزوج حقا مؤكدا على زوجته ، فهي مأمورة بطاعته ، وحسن معاشرته ، وتقديم طاعته على طاعة أبويها وإخوانها ، بل هو جنتها ونارها ، ومن ذلك: قوله تعالى : ( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِم ) النساء/34

وقول النبي صلى الله عليه وسلم : " لا يحل للمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بإذنه ولا تأذن في بيته إلا بإذنه " رواه البخاري (4899)

قال الألباني رحمه الله معلقا على هذا الحديث : ( فإذا وجب على المرأة أن تطيع زوجها في قضاء شهوته منها ، فبالأولى أن يجب عليها طاعته فيما هو أهم من ذلك مما فيه تربية أولادهما ، وصلاح أسرتهما ، ونحو ذلك من الحقوق والواجبات ) انتهى من آداب الزفاف ص 282

وروى ابن حبان عن أبي هريرة قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا صلت المرأة خمسها و صامت شهرها و حصنت فرجها و أطاعت زوجها قيل لها : ادخلي الجنة من أي أبواب الجنة شئت " وصححه الألباني في صحيح الجامع برقم 660

وروى ابن ماجة (1853) عن عبد الله بن أبي أوفى قال : لما قدم معاذ من الشام سجد للنبي صلى الله عليه وسلم قال ما هذا يا معاذ قال أتيت الشام فوافقتهم يسجدون لأساقفتهم وبطارقتهم فوددت في نفسي أن نفعل ذلك بك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا تفعلوا فإني لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لغير الله لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها والذي نفس محمد بيده لا تؤدي المرأة حق ربها حتى تؤدي حق زوجها ولو سألها نفسها وهي على قتب لم تمنعه " والحديث صححه الألباني في صحيح ابن ماجة .

ومعنى القتب : رحل صغير يوضع على البعير .

وروى أحمد (19025) والحاكم عن الحصين بن محصن : أن عمة له أتت النبي صلى الله عليه وسلم في حاجة ففرغت من حاجتها فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم أذات زوج أنت ؟ قالت نعم قال : كيف أنت له ؟ قالت ما آلوه ( أي لا أقصّر في حقه ) إلا ما عجزت عنه . قال : " فانظري أين أنت منه فإنما هو جنتك ونارك " أي هو سبب دخولك الجنّة إن قمت بحقّه ، وسبب دخولك النار عن قصّرت في ذلك .

والحديث جود إسناده المنذري في الترغيب والترهيب وصححه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب برقم 1933

إذا تعارضت طاعة الزوج مع طاعة الأبوين ، قدمت طاعة الزوج ، قال الإمام أحمد رحمه الله في امرأة لها زوج وأم مريضة : طاعة زوجها أوجب عليها من أمها إلا أن يأذن لها . شرح منتهى الإرادات 3/47

وفي الإنصاف (8/362) : ( لا يلزمها طاعة أبويها في فراق زوجها , ولا زيارةٍ ونحوها . بل طاعة زوجها أحق ).

وقد ورد في ذلك حديث عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهو ما رواه الحاكم عن عائشة رضي الله عنها قالت : سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الناس أعظم حقا على المرأة ؟ قال : زوجها . قلت : فأي الناس أعظم حقا على الرجل ؟ قال : أمه .

غير أنه حديث ضعيف ضعفه الألباني في " ضعيف الترغيب والترهيب" (1212) وأنكر على المنذري تحسينه .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ ::
سوال :: خاوند كى اطاعت والدين اور بھائيوں كى اطاعت پر مقدم ہے
خاوند كى اطاعت كو كتنى اہميت حاصل ہے ، كيا خاوند كى اطاعت عورت كے بہنوں اطاعت سے زيادہ اہم ہے ؟
بيوى كى اطاعت كس پر واجب ہوتى ہے، اور كيا خاوند كى اطاعت ميرے والدين اور بہنوں كى اطاعت سے زيادہ اہم ہے ؟

جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ:

كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ خاوند كو اپنى بيوى پر بہت زيادہ حق حاصل ہے، اور بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنے اور خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا گيا ہے، بيوى كو اپنے والدين اور بہن بھائيوں سے بھى اپنے خاوند كو مقدم ركھنے كا حكم ہے، بلكہ خاوند تو بيوى كى جنت اور جہنم ہے، ان دلائل ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى شامل ہے:

{ مرد عورتوں پر نگران و حكمران ہيں، اس ليے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }النساء ( 34 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں ( نفلى ) روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو ( آنے كى ) اجازت نہ دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا رقمطراز ہيں:
" جب عورت پر قضائے شہوت ميں اپنى خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے كہ وہ خاوند كى شہوت پورى كرے تو پھر بالاولى يہ واجب ہے كہ اس سے بھى اہم چيز يعنى خاوند كى اولاد كى تربيت ميں خاوند كى اطاعت كرے، اور اپنے گھر كى اصلاح ميں خاوند كى بات مانے، اور اسطرح دوسرے حقوق اور واجبات ميں بھى خاوند كى اطاعت كرے " انتہى
ماخوذ از: آداب الزفاف ( 282 ).

ابن حبان نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرتى ہو تو اسے كہا جائيگا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 660 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابى اوفى سے بيان كيا ہے كہ جب معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سجدہ كيا چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

معاذ يہ كيا ؟ تو انہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو انہيں ديكھا كہ وہ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں آيا كہ ہميں تو ايسا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ كرنا چاہيے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غير اللہ كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے عورت اس وقت تك اپنے پروردگار كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پر بھى ہو تو اسے انكار نہيں كرنا چاہيے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.


مسند احمد اور مستدرك حاكم ميں حصين بن محصن ؓ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كسى ضرورت كے تحت گئى جب اپنے كام اور ضرورت سے فارغ ہوئيں تو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا:
كيا تمہارا خاوند ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس كے ليے كيسى ہو ؟
تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كمى و كوتاہى نہيں كرتى، مگر يہ كہ ميں اس سے عاجز آ جاؤں اور نہ كر سكوں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو، كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 19025 ) امام منذرى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ميں اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے جيد كہا ہے.

اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: بيوى اگر خاوند كا حق ادا كرتى ہے تو خاوند بيوى كے جنت ميں داخل ہونے كا سبب ہوگا اور اگر خاوند كے حقوق ميں كوتاہى كريگى تو خاوند اس كے ليے آگ ميں جانے كا سبب ہوگا.

جب خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت سے معارض ہو تو اس صورت ميں خاوند كى اطاعت مقدم ہوگى، امام احمد رحمہ اللہ نے ايسى عورت جس كى والدہ بيمار تھى كے متعلق كہا:
اس پر ماں كى بجائے اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اسے اجازت ديتا ہے تو پھر نہيں "
ديكھيں: منتہى الارادات ( 3/ 47 ).


اور الانصاف ميں مذكور ہے كہ:
" خاوند سے طلاق لینے کے حکم ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت لازم نہيں، اور نہ ہى ملاقات وغيرہ، بلكہ خاوند كى اطاعت زيادہ حق ركھتى ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 362 ).

اس سلسلہ ميں مستدرك حاكم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك حديث بھى مروى ہے:

سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا:
عورت كے ليے لوگوں ميں حق كے اعتبار سے كون زيادہ حقدار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" اس كى والدہ "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ( 1212 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے اور امام منذرى رحمہ اللہ نے بھى.

واللہ اعلم.
الاسلام سوال و جواب
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

ویسے تو "اسحاق سلفی صاحب" نے قران و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کردی کہ ایک شادی شدہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے - الله ان کو جزاے خیر عطا کرے (آمین)

یہاں صرف اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ ایک مومن کو چاہیے کہ مخلتف حالات میں وہ حقوق و فرائض کے معاملے توازن رکھنے کی کوشش کرے- یہی ایک مسلمان کے ایمان کی خوبصورتی ہے -

ایک صحابی رسول نے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے سوال کیا کہ الله پر ایمان لانے کے بعد کون سا عمل الله کی نظر میں سب سے بہتر ہے؟؟

آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا : فرض نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا-

صحابی رسول نے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟؟-

آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا : آدمی کا اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرنا-

صحابی رسول نے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے پھر سوال کیا کہ اے الله کے نبی اس عمل کے بعد کون سا عمل اللہ کے نزدیک سب سے بہتر ہے؟؟

آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا : الله کی راہ میں جہاد (قتال ) کرنا-

(متفق علیہ)

اب ظاہر ہے کہ مذکورہ تینوں اعمال کی اپنی اپنی جگہ اہمیت اور ثواب ہے - لیکن کسی ایک عمل کو دوسرے پر ترجیح دینا یا ایک عمل کو نظر انداز کرکے دوسرے عمل پر مداوت کرنا نہ تو دانشمندی ہے اور نہ ایک مسلمان کے لئے جائز ہے- کوئی کہے کہ میں نماز تو وقت پر پڑھوں گا کہ اس کا ثواب بہت ہے لیکن والدین کی خدمت نہیں کروں گا تو کیا اس کی یہ بات قابل قبول ہوگی ؟؟ یا کوئی کہے کہ میں والدین کی خدمات کروں گا- لیکن بوقت حکم جہاد صاف انکار کردے کہ میں دشمن سے نہیں لڑ سکتا کہ والدین کی خدمت ضروری ہے تو کیا اس کا یہ عذر مانا جائے گا؟؟

غالباً امام ابن قیم رح کا قول ہے کہ ایک مومن کے ایمان کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ فرائض و واجبات کو اپنے وقت و حالات کی ضرورت کے پیش نظر سرانجام دے-

یعنی کہ جو حالات بھی ہوں اس میں کسی عمل کے ظاہری ثواب کو پیش نظر رکھنے کے بجاے اس کے ضروری ہونے کو پیش نظر رکھ کر عمل کیا جائے- ایک مسلمان یہ بات جانے کہ الله ہم سے اس وقت و حالات میں کون سا عمل کرنے کا تقاضا کر رہا ہے- ویسے بھی الله ہماری ضرورتوں اور مجبوریوں سے اچھی طرح واقف ہے- کسی عمل پر ثواب دینا الله کا کام ہے - اگر انسان کی نیت خالص الله کی رضا ہو اوروہ کسی نیک عمل کرنے سے عاجز ہو تب بھی الله رب العزت اپنے کرم سے اس کے نامہ اعمال میں ثواب لکھ دیتا ہے -

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)
 
Top