حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,101
- ری ایکشن اسکور
- 1,462
- پوائنٹ
- 344
بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے ،لیکن احناف کے ہاں بلند آواز سے آمین کہنا ممنوع ہے، دوسرے لفظوں میں حنفی علما نے اس سنت کو بھی تقلید جامد کی نظر کر دیا ہے،حیرانی کی بات یہ ہے کہ تقلید کے سبب انھوں نے اس معاملے اپنے راسخ علما کی آرا کی کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد بلند آواز سے آمین کہنے کو متعدد علماے احناف نے تسلیم کیا ہے،اور اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ آمین صرف بلند آواز سے ہی کہنا چاہیے،چناں چہ اس بارے میں علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں وہرقم طراز ہیں:
یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں:
مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:(والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل)’ یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
(التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105)
اسی طرح حنفی حضرات نے خفض والی حدیث سے سکوت مراد لیا ہے یعنی آمین بالکل خاموشی سے کہی جائے گی، حالاں کہ اس کا معنی سکوت بالکل بھی نہیں ہے، اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک حنفی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی ( رد المختار ) کی جلد : 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔ کمال بن ہمام بلغ رتبۃ الاجتہاد ،یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں:’’احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح’’
( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
رشید احمد گنگوہی صاحب کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں ہے انھوں نے بھی آمین بالجہر کے بارے قلم کشائی کی ہے ،چناں چہ وہ فتاوی رشیدیہ آمین بالجہر کے بارے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:و لو کان الی فی ہذا شیئی لوفقت بان روایۃ الخفض یراد بہا عدم القرع العنیف و روایۃ الجہر بمعنی قولہا فی زیر الصوت و ذیلہ
( ترجمہ ) اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے ( فتح القدیر، ج: 117/1 )
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا، لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے " فتح سر المنان " لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔:احناف بھی آمین بالجہر کے معترف ہیں (فتاوی رشیدیہ:۲۸۰،فتاوی شامی:۱/۱۳۴)
امام ابن امیر الحاج حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی رائے دی ہے:مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور آمین بالجہر کے بارے امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا فیصلہ کیا۔ (فتح سر المنان:۴۲۲)
یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں:
مندرجہ بالا حوال جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علمائے احناف نے بھی آمین بالجہر کو تسلیم کیا ،لیکن تقلید سے لگاؤ کی وجہ سے آج کے احناف اس کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، اللہ حق بات کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،آمین یار ب العالمین!و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ
( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔