- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,409
- پوائنٹ
- 562
چنانچہ بابا خشونت سنگھ ننانوے پر آؤٹ ہو گیا، خواہش کے باوجود سنچری نہ کر سکا۔۔۔ علی حسنین کا کہنا ہے کہ جب وہ اگلے روز خشونت سنگھ کے گھر پہنچا تو سردار جی زبردست موڈ میں تھے، سکھوں کے لطیفے سنا رہے تھے، لاہور کی باتیں کر رہے تھے اور درمیان میں ہندوستان اور دنیا بھر سے سالگرہ مبارک کے فون جو چلے آتے تھے انہیں اٹینڈ کر رہے تھے۔۔۔ وزیراعظم، صدر، گورنر، ادیب، صحافی سب ان کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے اور سردار جی کہہ رہے تھے کہ جی تو چاہتا ہے کہ سنچری کر جاؤں، نہ کر سکا تو بھی میں نے زندگی کی اننگ کھیلتے ہوئے بہت انجائے کیا ہے۔
خشونت سنگھ کو صرف کالموں میں سمونا، دریا نہیں، سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اسے بند نہیں کیا جا سکتا اس لئے اس کی حیات کی محض چند جھلکیاں جو مجھے یاد آ رہی ہیں۔
کسی نے پوچھا کہ سردار جی آپ یہ فرمائیں کہ لاہور اور دلّی میں کیا فرق ہے۔۔۔ خشونت نے سر ہلا کر کہا ''بھئی جب میں لاہور گیا تو مجھے کنیئرڈ کالج میں مہمان خصوصی کے طور پرمدعو کیا گیا۔ تقریر کے دوران میں نے ہال میں براجمان سینکڑوں لڑکیوں میں سے کسی ایک ایسی لڑکی کو تلاش کرنا چاہا جو شکل کی اچھی نہ ہو۔۔۔ ایک بھی نہ تھی۔۔۔ پچھلے ہفتے میں یہاں دلّی کے ایک گرلز کالج میں بلایا گیا تو تقریر کرتے ہوئے میں نے ہال میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں میں سے کسی ایک ایسی لڑکی کو تلاش کیا جس کی شکل اچھی ہو۔۔۔ ایک بھی نہ تھی۔۔۔ یہ فرق ہے لاہور اور دلّی میں''۔
خشونت سنگھ 1915ء میں اس جہلم دریا کی قربت میں واقع قصبے ہڈالی میں پیدا ہوا جسے میں نے آج پہلی مرتبہ ایک سیسنا ہوائی جہاز میں پرواز کرتے دیکھا۔۔۔ وہ اپنے قصبے کے بارے میں لکھتا ہے کہ اگرچہ سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، دوستیاں بھی بہت تھیں لیکن ان کے درمیان عقیدے اور ثقافت کے فاصلے تھے۔ مسلمان عام طور پر زمین کے جھگڑوں اور باہمی عداوتوں کا شکار رہتے تھے، قتل و غارت سے بھی گریز نہ کرتے تھے لیکن خوشاب کے یہ مرد نہایت دراز قامت اور خوش شباہت ہوتے تھے۔۔۔ خشونت کا باپ ایک بہت بڑا ٹھیکیدار تھا، برصغیر کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتا تھا۔ خشونت نے کچھ عرصہ لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کی جہاں وہ منظور قادر کی شرافت اور ذہانت کا معتقد ہوا۔۔۔ ہائی کورٹ کے عین سامنے جہاں اب بھی عینک ساز ای پلومر کی دکان ہے وہاں اس کا پُرتعیش فلیٹ تھا۔
دلّی میں کناٹ پیلس کی بیشتر عمارتیں اس کے والد نے تعمیر کروائی تھیں۔ اس نے ایک سفارت کار کے طور پر دنیا بھر میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ اس کا قلم کسی بھی پابندی کو نہ مانتا تھا۔۔۔ اس کی تحریر پڑھتے ہوئے باعفت بیبیوں کے چھکے چھوٹ جاتے تھے اور شرفاء ''رام رام'' یا ''لاحول ولا'' بڑبڑانے لگتے تھے لیکن اسے پڑھتے ضرور تھے۔۔۔ سکاچ وہسکی کے ساتھ اس کی خاندانی وابستگی تھی جو دادی صاحبہ سے لے کر والدہ کے آخری دموں تک چلی آتی تھی۔ اگرچہ کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ اس نے کبھی سردار جی کو ''ٹُن'' حالت میں دیکھا ہو کہ وہ توازن پر یقین رکھتا تھا۔ نوّے برس کی عمر تک ٹینس کھیلتا رہا۔ گھر میں ایک تختی پر لکھا تھا ''مہمان حضرات سے درخواست ہے کہ وہ دس بجے تک رخصت ہو جائیں'' تاکہ سردار صاحب اپنے بستر پر دراز ہو جائیں۔ شنید ہے کہ ایک ہندوستانی وزیراعظم ان کے ہاں ڈنر پر تشریف لائے اور بیٹھے ہی رہے، اور تب ان کی اہلیہ نے کہا ''مسٹر وزیراعظم۔۔۔ آپ شاید یہ تختی نہیں پڑھ سکے'' چنانچہ وزیراعظم نے معذرت کی اور رخصت ہو گئے۔
اندرا گاندھی کے ساتھ نہایت قریبی خاندانی تعلقات کے باوجود جب اس نے دربار صاحب امرتسر پر کرنیل سنگھ بھنڈرانوالا پر فوج کشی کی تو خشونت نے احتجاج کے طو رپر اپنے تمام سرکاری اعزازات واپس کر دیئے۔۔۔ اندرا کے قتل کے بعد پورے ہندوستان اور خاص طور پر دلّی میں جس طور سکھوں کا بہیمانہ قتل عام ہوا اس کی تصویر کشی ''دلّی'' ناول میں کمال کی ہے۔۔۔ وہ نہ صرف غالب کا پرستار تھا بلکہ میر او رداغ کے شعر بھی اسے ازبر تھے۔
ایک روزاس کی پوتی نے اس کے ساتھ لاڈ کرتے ہوئے پوچھا ''دادا، کیا آپ ایک ڈرٹی اولڈ مین ہیں!''خشونت کو دھچکا سا لگا کہ میری پوتی کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ پوچھنے پر پوتی نے کہا ''دادا، آپ کی ایک کہانی میرے نصاب میں شامل۔۔۔ آج استانی اسے پڑھاتے ہوئے کہنے لگیں، بچو یہ جو خشونت سنگھ ہے ناں یہ ایک ڈرٹی اولڈ مین ہے۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ میں آپ کی پوتی ہوں'' اگلے روز سردار صاحب پوتی کے سکول پہنچ گئے اور اس استانی سے کہنے لگے ''بی بی۔۔۔ میں نے آپ کے ساتھ کون سا ڈرٹی کام کیا ہے جو آپ مجھے ڈرٹی اولڈ مین کے خطاب سے نوازتی ہیں''۔
اور ہاں خشونت سنگھ کی شادی کے مہمانوں میں قائداعظمؒ بھی شامل تھے۔۔۔ وہ ان کے والد کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔۔۔ اس کی آپ بیتی میں میری پسندیدہ امرتا شیر گِل کا بھی تفصیلی تذکرہ ہے۔۔۔ جس کی ماں ایک ہنگیرین خاتون تھیں اور باپ ایک سکھ سردار سردار شیر گِل نام کا شیر گِل علامہ اقبال کے بہت عزیز دوستوں میں سے تھا۔ بلکہ علامہ اپنے پیرس کے قیام کے دوران اسی کے شاندار گھر میں ٹھہرے اور وہیں پر شیرگِل نے حضرت علامہ کی وہ یادگار تصویر اپنے کیمرے میں محفوظ کی جس میں وہ ایک فلسفیانہ سوچ میں متغرق ہیں اور ان دنوں یہی تصویر اس عنوان کے ساتھ شائع ہوتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال پاکستان کے قیام کا خواب دیکھتے ہوئے۔۔۔ جبکہ دراصل وہ اس لمحے زکام سے نڈھال تھے اور ایک صوفے پر آرام کر رہے تھے تو شیر گِل نے یہ تاریخی تصویر کھینچی۔۔۔ یہ حوالہ علامہ اقبال کی مجلس اقبال کی شائع کردہ ایک حیات اقبال میں درج ہے۔
خشونت سنگھ نے امرتا شیر گِل کے بارے میں جو لکھا وہ یہاں درج نہیں کیا جا سکتا، توفیق ہو اور ایمان عزیز نہ ہو تو خود ہی پڑھ لیجئے گا۔
آج صبح ماڈل ٹاؤن پارک میں میرے ساتھ سیر کرنے والے دوست بھی خشونت کو یاد کرتے تھے۔۔۔ڈاکٹر انیس احمد کہنے لگے ''تارڑ صاحب کیا ہم اس کی موت پر۔۔۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔۔۔ پڑھ سکتے ہیں''۔۔۔ تو میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔۔۔ اس دنیا میں جو بھی نفس ہے اس نے اللہ کی جانب ہی لوٹنا ہے چاہے وہ یقین نہ بھی رکھتا ہو''۔ خشونت بابا تم اب جہاں بھی ہو خوش رہو کہ تم نے خلق خدا کو خوشی دی اور اگر کہیں نہیں ہو تو بھی لودھی گارڈن کے آتش کدے میں جلائے جانے کے بعد جو تمہاری راکھ ہے وہ بھی خوش رہے۔۔۔ اور یہ راکھ جہاں دفن ہو گئی اس کا کتبہ خشونت سنگھ نے سعادت حسن منٹو کی مانند پہلے سے لکھ رکھا تھا اور یہ اس کا آزاد اردو ترجمہ ہے۔
''یہاں وہ شخص دفن ہے جس نے نہ انسان کو بخشا اور نہ خدا کو۔۔۔
اس کے لئے اپنے آنسو مت ضائع کرو کہ وہ ایک اخلاق باختہ
گھاس کا ٹکڑا تھا۔
بیہودہ تحریریں لکھتا تھا جن کو وہ مزاح سمجھتا تھا۔
خدا کا شکر ادا کرو کہ وہ مر گیا ہے، وہ واہیات شخص''۔
خشونت سنگھ کی مغفرت تو کہاں ہونی ہے۔۔۔ لیکن، عجب آزاد مرد تھا
(مضمون نگار مبینہ طور پر ایک احمدی ہیں۔ روزنامہ جنگ میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق وہ احمدیوں کے سالانہ اجتماع منعقدہ ربوہ میں شرکت کرتا رہا ہے)
خشونت سنگھ کو صرف کالموں میں سمونا، دریا نہیں، سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اسے بند نہیں کیا جا سکتا اس لئے اس کی حیات کی محض چند جھلکیاں جو مجھے یاد آ رہی ہیں۔
کسی نے پوچھا کہ سردار جی آپ یہ فرمائیں کہ لاہور اور دلّی میں کیا فرق ہے۔۔۔ خشونت نے سر ہلا کر کہا ''بھئی جب میں لاہور گیا تو مجھے کنیئرڈ کالج میں مہمان خصوصی کے طور پرمدعو کیا گیا۔ تقریر کے دوران میں نے ہال میں براجمان سینکڑوں لڑکیوں میں سے کسی ایک ایسی لڑکی کو تلاش کرنا چاہا جو شکل کی اچھی نہ ہو۔۔۔ ایک بھی نہ تھی۔۔۔ پچھلے ہفتے میں یہاں دلّی کے ایک گرلز کالج میں بلایا گیا تو تقریر کرتے ہوئے میں نے ہال میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں میں سے کسی ایک ایسی لڑکی کو تلاش کیا جس کی شکل اچھی ہو۔۔۔ ایک بھی نہ تھی۔۔۔ یہ فرق ہے لاہور اور دلّی میں''۔
خشونت سنگھ 1915ء میں اس جہلم دریا کی قربت میں واقع قصبے ہڈالی میں پیدا ہوا جسے میں نے آج پہلی مرتبہ ایک سیسنا ہوائی جہاز میں پرواز کرتے دیکھا۔۔۔ وہ اپنے قصبے کے بارے میں لکھتا ہے کہ اگرچہ سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، دوستیاں بھی بہت تھیں لیکن ان کے درمیان عقیدے اور ثقافت کے فاصلے تھے۔ مسلمان عام طور پر زمین کے جھگڑوں اور باہمی عداوتوں کا شکار رہتے تھے، قتل و غارت سے بھی گریز نہ کرتے تھے لیکن خوشاب کے یہ مرد نہایت دراز قامت اور خوش شباہت ہوتے تھے۔۔۔ خشونت کا باپ ایک بہت بڑا ٹھیکیدار تھا، برصغیر کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتا تھا۔ خشونت نے کچھ عرصہ لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کی جہاں وہ منظور قادر کی شرافت اور ذہانت کا معتقد ہوا۔۔۔ ہائی کورٹ کے عین سامنے جہاں اب بھی عینک ساز ای پلومر کی دکان ہے وہاں اس کا پُرتعیش فلیٹ تھا۔
دلّی میں کناٹ پیلس کی بیشتر عمارتیں اس کے والد نے تعمیر کروائی تھیں۔ اس نے ایک سفارت کار کے طور پر دنیا بھر میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ اس کا قلم کسی بھی پابندی کو نہ مانتا تھا۔۔۔ اس کی تحریر پڑھتے ہوئے باعفت بیبیوں کے چھکے چھوٹ جاتے تھے اور شرفاء ''رام رام'' یا ''لاحول ولا'' بڑبڑانے لگتے تھے لیکن اسے پڑھتے ضرور تھے۔۔۔ سکاچ وہسکی کے ساتھ اس کی خاندانی وابستگی تھی جو دادی صاحبہ سے لے کر والدہ کے آخری دموں تک چلی آتی تھی۔ اگرچہ کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ اس نے کبھی سردار جی کو ''ٹُن'' حالت میں دیکھا ہو کہ وہ توازن پر یقین رکھتا تھا۔ نوّے برس کی عمر تک ٹینس کھیلتا رہا۔ گھر میں ایک تختی پر لکھا تھا ''مہمان حضرات سے درخواست ہے کہ وہ دس بجے تک رخصت ہو جائیں'' تاکہ سردار صاحب اپنے بستر پر دراز ہو جائیں۔ شنید ہے کہ ایک ہندوستانی وزیراعظم ان کے ہاں ڈنر پر تشریف لائے اور بیٹھے ہی رہے، اور تب ان کی اہلیہ نے کہا ''مسٹر وزیراعظم۔۔۔ آپ شاید یہ تختی نہیں پڑھ سکے'' چنانچہ وزیراعظم نے معذرت کی اور رخصت ہو گئے۔
اندرا گاندھی کے ساتھ نہایت قریبی خاندانی تعلقات کے باوجود جب اس نے دربار صاحب امرتسر پر کرنیل سنگھ بھنڈرانوالا پر فوج کشی کی تو خشونت نے احتجاج کے طو رپر اپنے تمام سرکاری اعزازات واپس کر دیئے۔۔۔ اندرا کے قتل کے بعد پورے ہندوستان اور خاص طور پر دلّی میں جس طور سکھوں کا بہیمانہ قتل عام ہوا اس کی تصویر کشی ''دلّی'' ناول میں کمال کی ہے۔۔۔ وہ نہ صرف غالب کا پرستار تھا بلکہ میر او رداغ کے شعر بھی اسے ازبر تھے۔
ایک روزاس کی پوتی نے اس کے ساتھ لاڈ کرتے ہوئے پوچھا ''دادا، کیا آپ ایک ڈرٹی اولڈ مین ہیں!''خشونت کو دھچکا سا لگا کہ میری پوتی کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ پوچھنے پر پوتی نے کہا ''دادا، آپ کی ایک کہانی میرے نصاب میں شامل۔۔۔ آج استانی اسے پڑھاتے ہوئے کہنے لگیں، بچو یہ جو خشونت سنگھ ہے ناں یہ ایک ڈرٹی اولڈ مین ہے۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ میں آپ کی پوتی ہوں'' اگلے روز سردار صاحب پوتی کے سکول پہنچ گئے اور اس استانی سے کہنے لگے ''بی بی۔۔۔ میں نے آپ کے ساتھ کون سا ڈرٹی کام کیا ہے جو آپ مجھے ڈرٹی اولڈ مین کے خطاب سے نوازتی ہیں''۔
اور ہاں خشونت سنگھ کی شادی کے مہمانوں میں قائداعظمؒ بھی شامل تھے۔۔۔ وہ ان کے والد کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔۔۔ اس کی آپ بیتی میں میری پسندیدہ امرتا شیر گِل کا بھی تفصیلی تذکرہ ہے۔۔۔ جس کی ماں ایک ہنگیرین خاتون تھیں اور باپ ایک سکھ سردار سردار شیر گِل نام کا شیر گِل علامہ اقبال کے بہت عزیز دوستوں میں سے تھا۔ بلکہ علامہ اپنے پیرس کے قیام کے دوران اسی کے شاندار گھر میں ٹھہرے اور وہیں پر شیرگِل نے حضرت علامہ کی وہ یادگار تصویر اپنے کیمرے میں محفوظ کی جس میں وہ ایک فلسفیانہ سوچ میں متغرق ہیں اور ان دنوں یہی تصویر اس عنوان کے ساتھ شائع ہوتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال پاکستان کے قیام کا خواب دیکھتے ہوئے۔۔۔ جبکہ دراصل وہ اس لمحے زکام سے نڈھال تھے اور ایک صوفے پر آرام کر رہے تھے تو شیر گِل نے یہ تاریخی تصویر کھینچی۔۔۔ یہ حوالہ علامہ اقبال کی مجلس اقبال کی شائع کردہ ایک حیات اقبال میں درج ہے۔
خشونت سنگھ نے امرتا شیر گِل کے بارے میں جو لکھا وہ یہاں درج نہیں کیا جا سکتا، توفیق ہو اور ایمان عزیز نہ ہو تو خود ہی پڑھ لیجئے گا۔
آج صبح ماڈل ٹاؤن پارک میں میرے ساتھ سیر کرنے والے دوست بھی خشونت کو یاد کرتے تھے۔۔۔ڈاکٹر انیس احمد کہنے لگے ''تارڑ صاحب کیا ہم اس کی موت پر۔۔۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔۔۔ پڑھ سکتے ہیں''۔۔۔ تو میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔۔۔ اس دنیا میں جو بھی نفس ہے اس نے اللہ کی جانب ہی لوٹنا ہے چاہے وہ یقین نہ بھی رکھتا ہو''۔ خشونت بابا تم اب جہاں بھی ہو خوش رہو کہ تم نے خلق خدا کو خوشی دی اور اگر کہیں نہیں ہو تو بھی لودھی گارڈن کے آتش کدے میں جلائے جانے کے بعد جو تمہاری راکھ ہے وہ بھی خوش رہے۔۔۔ اور یہ راکھ جہاں دفن ہو گئی اس کا کتبہ خشونت سنگھ نے سعادت حسن منٹو کی مانند پہلے سے لکھ رکھا تھا اور یہ اس کا آزاد اردو ترجمہ ہے۔
''یہاں وہ شخص دفن ہے جس نے نہ انسان کو بخشا اور نہ خدا کو۔۔۔
اس کے لئے اپنے آنسو مت ضائع کرو کہ وہ ایک اخلاق باختہ
گھاس کا ٹکڑا تھا۔
بیہودہ تحریریں لکھتا تھا جن کو وہ مزاح سمجھتا تھا۔
خدا کا شکر ادا کرو کہ وہ مر گیا ہے، وہ واہیات شخص''۔
خشونت سنگھ کی مغفرت تو کہاں ہونی ہے۔۔۔ لیکن، عجب آزاد مرد تھا
(مضمون نگار مبینہ طور پر ایک احمدی ہیں۔ روزنامہ جنگ میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق وہ احمدیوں کے سالانہ اجتماع منعقدہ ربوہ میں شرکت کرتا رہا ہے)