• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گے۔۔۔؟؟؟

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
رفع یدین اور عدم رفع میں غلو و تشدد !
میں الحمد للہ چودہ پندرہ سال کی عمر سے ان لوگوں میں ھوں جو رفع یدین کرتے بھی ھیں اور 30 سال سے ان کی امامت بغیر رفع یدین سے کر رھا ھوں مگر آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا ، اگرچہ یہ ان کا ملک ھے اور مہمان کو اخلاقاً اپنے میزبان کی فقہ کا اکرام کرنا چاھئے !
اگر بات رفع یدین کی ھے تو امام شافعی رفع یدین اور دیگر مسائل میں سلفی حضرات کی موافقت فرماتے ھیں لہذا اس کے لئے نئی فقہ کی ضرورت نہیں تھی ،، یہ ضرورت کیوں محسوس کی گئ یہ اگر موقع ملا تو اپنے موقعے پر بیان کرونگا ! خیر مجھے رفع یدین یا عدم دونوں پر کوئی اعتراض نہیں ھے ، اور نہ ھی عدم اور رفع کے قائلین اسلاف کو کبھی تھا اور نہ ھی برصغیر کے علاوہ دنیا میں کہیں کسی اور جگہ کسی کو بھی ھے ،، یہ صرف پاک ھند ھی وہ مبارک اور پاک طینت و صاف نیت خطہ ھے کہ جہاں ان مستحبات کے بنیاد پر مساجد تقسیم کی گئ ھیں ،، باقی دنیا میں لوگ ایک ھی مسجد میں رفع یدین کرتے بھی ھیں اور نہیں بھی کرتے،، امام رفع یدین کرتا ھے تو بہت سارے مقتدی نہیں کرتے اور امام نہیں کرتا تو بہت سارے مقتدی کرتے ھیں،،مگر مساجد سے اٹھا کر باھر پھینکنے کا رواج صرف اپنے یہاں ھی ھے ،،
یہ میرا اصل پؤائنٹ تھا کہ مساجد کی علیحدگی کس حدیث سے ثابت ھے ؟ جتنی احادیث تصور شاہ صاحب نے اسکین کر کے لگائی ھیں ،ان میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ ابوبکر صدیقؓ رفع یدین نہیں کرتے تھے تو ابن عمرؓ نے ساتھ کے محلے میں اپنی مسجد بنا کر لوگوں کو رفع یدین کرنے کی سہولت فراھم کر دی تھی ! مجھے تو یہ ان احادیث میں نظر نہیں آیا کہ مدینے اتنی مساجد آمین بالجھر اور رفع یدین کرنے والوں کی تھیں اور اتنی مساجد آمین بالسر کرنے اور رفع یدین نہ کرنے والوں کی تھیں،، اگر کسی اور کو کہیں کسی حدیث یا تاریخ کی کسی کتاب میں نظر آئے تو ضرور شیئر کریں ،، یہ علامے اور شیوخ جو چھینکتے بھی دلیل کے ساتھ ھیں ،، مساجد الگ کرنے کی کیا دلیل دیتے ھیں ،، سوائے اس کے کہ فتنہ رفع کرنے کے لئے ضروری ھے،، پہلے عورتوں کا مسجد میں جانا فتنہ تھا اب پچھلی نصف صدی سے مردوں کا ایک مسجد میں اکٹھا ھونا بھی فتنہ ھے ،، سبحانک ھذا بہتانۤ عظیم ،، بجائے اس کے کہ ھم اپنے سینوں کا گند نکال باھر کرتے ،، کلمے سے اپنے سینوں کی صفائی ستھرائی کرتے اور ان کو وسیع کرتے ھم نے نبی کی امت کو مستحبات پر بانٹ کر پارہ پارہ کر دیا اور دنیا بھر میں جنگ ھنسائی کا سامان پیدا کر دیا ،، جو کلمہ ان کے سینے روشن نہیں کر سکا پتہ نہیں وہ ان کی قبریں کیسے روشن کرے گا جنہوں نے اللہ کی مساجد کو ویارن کر دیا ،، جو کلمہ ان کے دلوں میں وسعت پیدا نہیں کر سکا پتہ نہیں ان کی قبروں کو کیسے وسیع کرے گا ،جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟
ان مستحبات کے معاملے میں یعنی جن میں اختلاف ھونے یا نہ ھونے کا نہیں بلکہ ھر دو صورتوں میں استحباب کا ھے ،حلال اور حرام کی سطح کی شدت اور مناظرہ بازی قطعاً دین کی خدمت نہیں بلکہ اولاً منکرین حدیث کے ھاتھ مضبوط کرنا اور ثانیاً ملحدیں کی تعداد میں اضافہ کرنا ھے اور یہ دونوں کام نہایت سرعت کے ساتھ ھو رھے ھیں ! آخر یہ کیسا دین سکھانے کا مشن تھا کہ جس میں آدھا گھنٹہ خرچ کر کے نبی ﷺ ایک طریقے سے نماز پڑھنا بھی نہیں سکھا سکے ،، آپ 23 سال کسی مولوی صاحب کے پاس بچا بٹھائے رکھئے اور وہ مولوی صاحب اس کو نماز بھی نہ سکھا سکیں تو پھر اس مولوی صاحب کے پاس وقت کا ضیاع ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ھے ! جس سوال ملحدین و منکرین حدیث بار بار اٹھاتے ھیں اور ھم سوائے ان کو بلاک کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے ،، پھر جس عبادت کو آسمانوں پر فرض کیا گیا ،، سب سے پہلے فرض کیا گیا ،، جس کو ھم دن میں پانچ بار 1425 سال سے کرتے چلے آرھے ھیں ،، جس کا حکم قرآن میں درجنوں بار دیا گیا ،ھر نبی کو رابطے کے بعد پہلا حکم نماز کا دیا گیا ،، اگر اس میں تعلیم کا نتیجہ یہ ھے کہ امت ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیسے عمل پذیر ھوتا تھا ،، تو دین کے باقی معاملات میں کیسے اعتبار کیا جا سکتا ھے کہ ھم نے بڑے تیر مار لئے ھونگے ؟
لوگ جمہوریت کو علامہ اقبال کے اس قول سے بدنام کرتے ھیں کہ " جہاں بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے " اور جہاں امرود کی ریڑھی پر بیٹھے اور ملک کے چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے ،یعنی دونوں کا عقل و شعور اور آئی کیو برابر ھے ! مگر نہایت افسوس کی بات ھے کہ معاملہ دین میں بھی یہی ھے ،، صدیاں گزریں ھمارے محدثین نے یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ نبی ﷺ کے ساتھ 23 سال شب و روز چلنے پھرنے والے اور مشورے دینے والے کہ جن سے نبی ھر معاملے میں مشورہ طلب کیا کرتے تھے، اور نبی ﷺ کے وصال سے ڈیڑھ سال پہلے اسلام قبول کرنے والا محدثین کے نزدیک برابر تھے ،، الصحابہ کلھم عدول تو تھے ،، مگر انہیں کلھم سواءً بنا دیا گیا ،، اس کے بعد پھر وھی ھونا تھا جو ھو رھا ھے، جب نامہ نگار کو صرف خبر سے مطلب ھو سورس کی اھمیت کوئی نہ ھو تو پھر بریکنگ نیوز تو بنتی رھیں گی مگر اضطراب اپنی جگہ رھے گا !
حفظ مراتب میں نبی ﷺ کے پیچھے اصحابِ بدر پہلی دو صفوں میں ھوتے تھے ،یعنی پہلی دو صفیں اصحاب بدر کی ھوتی تھیں ،ابن عمر بچوں کی صف میں بہت پیچھے ھوتے تھے اور ابوھریرہؓ تو صحابہ کے طبقات میں چودھویں نمبر پر آتے تھے ،، نہ وہ السابقون الاولون میں سے تھے ،نہ مہاجرین میں سے تھے نہ اصحاب بدر میں سے تھے اور نہ اصحاب احد میں سے تھے نہ وہ بیعت رضوان والوں میں سے تھے ،، وہ بہت پیچھے کھڑے ھوتے تھے ! نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کے سوا ھر ذمہ داری ابوبکر صدیقؓ کو منتقل ھو گئ تھی وہ صرف امام مسجد نہیں بنے تھے کہ مرضی انتظامیہ کی چلتی تھی،، وہ سربراہ مملکت تھے، چیف جسٹس تھے، مفتئ اعظم تھے ،، چیف آف آرمی اسٹاف تھے ،، انہیں مشورہ تو دیا جا سکتا تھا ،، ان کے خلاف نہ کوئی فتوی دیا جا سکتا تھا اور نہ ان کے حکم کے بغیر کوئی اجتماعی کام کیا جا سکتا تھا ،، ھمیں مولوی جس مقام پہ ملا ھے ،ھم وھی مقام خلفاء راشدین کو بھی دیتے ھیں ،، جبکہ وہ دین کی ضروریات کے کفیل تھے اور جہاں جس جگہ دین کو ضرورت محسوس ھوئی انہی کے حکم کے مطابق پوری کی گئ ،، نہ کہ ابوھریرہؓ یا ابن عمرؓ سے فتوی لے کر پوری کی گئ !
نبئ کریمﷺ کی زندگی میں ابوبکر صدیقؓ نے ساری ذمہ داری ٹیک اوور کر لی تھی ، اور نبیﷺ نے حکم دے کر انہیں کھڑا کیا تھا ،، اور آخری نماز میں جب آپ ﷺ پہنچے تو جہاں فاتحہ کی قرأت صدیق چھوڑ کر پیچھے ھٹے تھے وھیں قرأت شروع فرمائی ! رفع یدین کے معاملے میں چاروں خلفاء میں اتفاق ھے ان کی نماز میں کوئی اختلاف نہیں تھا اور چاروں خلفاء رفع یدین نہیں کرتے تھے ،، کیوں نہیں کرتے تھے یہ فیصلہ اب قیامت کو ھو گا کہ کیا وہ نبی ﷺ کی مخالفت میں ایسا کرتے تھے یا اسے سنت سمجھ کر نہیں کرتے تھے ،، دین کے سفر کا رستہ خلفاء راشدین ھیں،، باقی صحابہؓ نہیں،، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ کے بعد دائیں بائیں سے ریفرینس لینا اور اسے دین بنا لینا خود نبی کریمﷺ کے قول و منشاء کے خلاف ھے !
امام اوزاعی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے مکالمے میں جو حدیث علقمہ والاسود عن ابن مسعودؓ روایت کی گئ ھے کہ" ان رسول اللہ ﷺ کان لا یرفع یدیہ الا عند افتتاح الصلوۃ، ولا یعود لشئٍ من ذلک ، ایک صحیح روایت ھے جس پر کلام ممکن نہیں ،، پھر پھر ابن عدی ،دار قطنی، بیھیقی، کی روایت ،، اسی سند کے ساتھ نقل ھوئی ھے کہ : صلیت مع رسول اللہ ﷺ و ابی بکرؓ و عمرؓ فلم یرفعوا ایدیھم الا عند استفتاح الصلوۃ ،، عبداللہ ابن مسعود فرماتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نمازیں پڑھی ھیں ،، ان میں سے کوئی بھی سوائے افتتاح والی جگہ کے کہیں رفع یدین نہیں کرتا تھا ! پھر براء ابن عازبؓ کی روایت میں جسے امام طحاوی نے نقل کیا ھے ، اس کے الفاظ ھیں،، جب نبیﷺ نماز کا افتتاح فرماتے تو اپنے ھاتھ یہانتک اٹھاتے کہ وہ کان کی نرم جگہ کے برابر پہنچ جاتے اور پھر اس کے بعد کہیں بھی نہیں اٹھاتے تھے !
ابن زبیر نے ایک شخص کو رکوع کے بعد ھاتھ اٹھاتے دیکھا تو اسے روک دیا کہ " یہ کام نبی ﷺ نے پہلے کیا تھا پھر ترک کر دیا تھا " ھذا امرٓ فعلہ رسول اللہ ﷺ ثم ترک ! اس موضوع صفحے کے صفحے کالے کیئے جا سکتے ھیں مگر اس بنیاد پر مساجد کی علیحدگی کبھی بھی سنت فعل قرار نہیں دی جا سکتی ،،
اصلاً یہ ھماری جینیاتی کمزوری ھے ،جو خدا الگ نہیں بنا سکے انہوں نے مساجد الگ بنا کر اپنے آباء و اجداد کی روحوں کو خوش کر دیا ھے کہ اگرچہ ھم مسلمان بن گئے ھیں مگر اتنے بھی نہیں بنے کہ الگ الگ دیوتاؤں کو پوجنے کی لت مر گئ ھو ،، وہ کمی ھم نے الگ الگ مساجد سے پوری کر لی ھے ،، جسے نسوار نہ ملے تو تھوم رکھ کر گزارہ کر لیتا ھے !
میں نے جس دن سے خلفاء کو سنت کا معیار اور پیمانہ مان کرنبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق داڑھوں سے پکڑ لیا ھے ،، الحمد للہ اندر باھر سکون ھی سکون ھے ! کبھی ایک لحظہ بھی تذبذب میں نہیں گزرا ،، چاھے باقی سارے صحابہؓ ایک طرف ھوں !


لنک


اس شخص کی پروفائل پر میں نے دیکھا کہ خضر حیات اور سرفراز فیضی بھائی بھی اس کی فرینڈز لسٹ میں شامل ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ وہ دونوں اس پر کیا تبصرہ کریں گے۔۔۔؟؟؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ہمیں مچھر چھاننے کا شوق ہے اور بڑے بڑے اونٹ نگلنے پر کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑتے !
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
ہمیں مچھر چھاننے کا شوق ہے اور بڑے بڑے اونٹ نگلنے پر کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑتے !
جناب اتنا جامع تبصرە کرنے پر شکریہ قبول فرمائیں.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عجیب قسم کی تحریر ہے ۔ کوئی واضح نظریہ تو مل نہیں رہا ۔ بات کہاں سے شروع کی اور کہاں جاکر ختم کی ۔
خیر تحریر سے اتنا واضح ہوتا ہے کہ رفع الیدین کے بارے میں ان صاحب کے موقف ہے کہ ’’ کرنا نہ کرنا ‘‘ دونوں ہی ٹھیک ہیں ۔
یہ ان کا کوئی نیا موقف نہیں ، اس سے پہلے بھی کئی لوگوں نے ایسا موقف اپنایا ہے ۔ لیکن بلا کسی دلیل ۔
کیونکہ رفع الیدین ایسی سنت نہیں جس کے بارے میں حضور سے ’’ فعل اور ترک ‘‘ دونوں مروی ہوں کہ ہم کہہ سکیں کے ’’ کرنا نہ کرنا ‘‘ دونوں ٹھیک ہیں ۔
اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔
لیکن اس کے اندر بنیادی دو ہی قول ہیں : جو کرتے ہیں ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا ہی ثابت ہے ۔
اور جو نہیں کرتے ان کے نزدیک حضور کی یہی سنت ہے ۔
’’ کر لو نہ کر لو ‘‘ والے لوگ نظریہ ’’ تقارب ادیان و مسالک ‘‘ کے متأثرین میں سے ہیں ۔ جن کے پاس دلیل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔
یہ احکامات دین ہیں ، نصوص شریعت کا مسئلہ ہے ، کسی گاؤں کی بیٹھک یا چوہدری کے ڈیرے پر لگنے والی پنچائیت نہیں کہ ’’ صلح ‘‘ کی خاطر جو مرضی فیصلہ کردیا جائے ۔
ہاں البتہ :
ایسے مختلف فیہ مسائل میں یہ طرز فکر ہونا چاہیے کہ آپ جس بات کو قرآن وسنت کی روشنی میں حق سمجھتے ہیں اس کو بالکل نہ چھوڑیں ، لیکن فریق مخالف کے خلاف محاذ جنگ قائم نہ کریں ۔ اس کے خلاف سخت سے سخت فتوی لگانے کی فکر میں نہ رہیں ۔ جو رفع الیدین نہیں کرتا اس کی نماز آپ کے نزدیک خلاف سنت ہے ۔ یہ ایک سیدھی سادھی بات ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر نصوص کو تروڑ مروڑ کر اس کی نماز کے بطلان یا اس طرح کے فیصلے یہ بالکل مناسب نہیں ہیں ۔
اختلاف حل کرنا اور ہے جبکہ اختلاف کو دبانا اور چیز ہے ۔ ایک تیسری چیز ہے اختلاف کو برداشت کرنا ۔
میرے خیال میں اختلاف کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اگر حل نہ ہوسکے تو اس کو دبانے کی بجائے برداشت کرنا چاہیے ۔
میرے نزدیک اس طرح کے معاملات میں دو لفظی بات یہ ہے کہ :
’’ جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں اس کو ہرگز نہ چھوڑیں ، لیکن جو آپ کا مخالف ہے اس کو بھی برداشت کریں ۔‘‘
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
ہاں البتہ :
ایسے مختلف فیہ مسائل میں یہ طرز فکر ہونا چاہیے کہ آپ جس بات کو قرآن وسنت کی روشنی میں حق سمجھتے ہیں اس کو بالکل نہ چھوڑیں ، لیکن فریق مخالف کے خلاف محاذ جنگ قائم نہ کریں ۔ اس کے خلاف سخت سے سخت فتوی لگانے کی فکر میں نہ رہیں ۔ جو رفع الیدین نہیں کرتا اس کی نماز آپ کے نزدیک خلاف سنت ہے ۔ یہ ایک سیدھی سادھی بات ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر نصوص کو تروڑ مروڑ کر اس کی نماز کے بطلان یا اس طرح کے فیصلے یہ بالکل مناسب نہیں ہیں ۔
اختلاف حل کرنا اور ہے جبکہ اختلاف کو دبانا اور چیز ہے ۔ ایک تیسری چیز ہے اختلاف کو برداشت کرنا ۔
میرے خیال میں اختلاف کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اگر حل نہ ہوسکے تو اس کو دبانے کی بجائے برداشت کرنا چاہیے ۔
میرے نزدیک اس طرح کے معاملات میں دو لفظی بات یہ ہے کہ :
'' جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں اس کو ہرگز نہ چھوڑیں ، لیکن جو آپ کا مخالف ہے اس کو بھی برداشت کریں ۔''
جزاک اللہ خیرا بھائی بہت ہی مناسب بات کی ہے آپ نے۔۔۔۔۔

عجیب قسم کی تحریر ہے ۔ کوئی واضح نظریہ تو مل نہیں رہا ۔ بات کہاں سے شروع کی اور کہاں جاکر ختم کی ۔
خیر تحریر سے اتنا واضح ہوتا ہے کہ رفع الیدین کے بارے میں ان صاحب کے موقف ہے کہ '' کرنا نہ کرنا '' دونوں ہی ٹھیک ہیں ۔
یہ ان کا کوئی نیا موقف نہیں ، اس سے پہلے بھی کئی لوگوں نے ایسا موقف اپنایا ہے ۔ لیکن بلا کسی دلیل ۔
کیونکہ رفع الیدین ایسی سنت نہیں جس کے بارے میں حضور سے '' فعل اور ترک '' دونوں مروی ہوں کہ ہم کہہ سکیں کے '' کرنا نہ کرنا '' دونوں ٹھیک ہیں ۔
اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔
لیکن اس کے اندر بنیادی دو ہی قول ہیں : جو کرتے ہیں ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا ہی ثابت ہے ۔
اور جو نہیں کرتے ان کے نزدیک حضور کی یہی سنت ہے ۔
'' کر لو نہ کر لو '' والے لوگ نظریہ '' تقارب ادیان و مسالک '' کے متأثرین میں سے ہیں ۔ جن کے پاس دلیل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔
یہ احکامات دین ہیں ، نصوص شریعت کا مسئلہ ہے ، کسی گاؤں کی بیٹھک یا چوہدری کے ڈیرے پر لگنے والی پنچائیت نہیں کہ '' صلح '' کی خاطر جو مرضی فیصلہ کردیا جائے ۔
بھائی جان اس بندے کی تحریروں سے لگتا ہے کہ یہ "مماتی دیوبندی" ہے اور اکثر "دیوبندیوں" کے حق پر ہونے کے باوجود "فرقیوں" میں بٹ جانے کا نوحہ اور ماتم کرتا ہوا بھی پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

میری رائے
یہ تحریر اس نے بظاہر '' تقارب ادیان و مسالک '' والے انداز سے ہی شروع کی ہے لیکن انتہائی خوبصورتی سے اپنا زہریلا مطمع نظر (تقلید و حنفیت کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہُ جیسے راویان حدیث کو 4th, 5th بلکہ 14th class صحابی باور کروانا، لوگوں کی نظر میں محدثین رحمہم اللہ اجمعین کی محنت کو بے وقعت کرنا بلکہ محدثین کرام ہی کو فرقہ پرستی کا باعث باور کروانا، اہل حدیثوں کو ایک جدید فرقہ (بلفظِ فقہ) باور کروانا وغیرہ وغیرہ) لوگوں کے ذہن میں انجیکٹ کررہا ہے۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں
۔
اگر بات رفع یدین کی ھے تو امام شافعی رفع یدین اور دیگر مسائل میں سلفی حضرات کی موافقت فرماتے ھیں لہذا اس کے لئے نئی فقہ کی ضرورت نہیں تھی ،، یہ ضرورت کیوں محسوس کی گئ یہ اگر موقع ملا تو اپنے موقعے پر بیان کرونگا !
لوگ جمہوریت کو علامہ اقبال کے اس قول سے بدنام کرتے ھیں کہ " جہاں بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے " اور جہاں امرود کی ریڑھی پر بیٹھے اور ملک کے چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے ،یعنی دونوں کا عقل و شعور اور آئی کیو برابر ھے ! مگر نہایت افسوس کی بات ھے کہ معاملہ دین میں بھی یہی ھے ،، صدیاں گزریں ھمارے محدثین نے یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ نبی ﷺ کے ساتھ 23 سال شب و روز چلنے پھرنے والے اور مشورے دینے والے کہ جن سے نبی ھر معاملے میں مشورہ طلب کیا کرتے تھے، اور نبی ﷺ کے وصال سے ڈیڑھ سال پہلے اسلام قبول کرنے والا محدثین کے نزدیک برابر تھے ،، الصحابہ کلھم عدول تو تھے ،، مگر انہیں کلھم سواءً بنا دیا گیا ،، اس کے بعد پھر وھی ھونا تھا جو ھو رھا ھے، جب نامہ نگار کو صرف خبر سے مطلب ھو سورس کی اھمیت کوئی نہ ھو تو پھر بریکنگ نیوز تو بنتی رھیں گی مگر اضطراب اپنی جگہ رھے گا !
حفظ مراتب میں نبی ﷺ کے پیچھے اصحابِ بدر پہلی دو صفوں میں ھوتے تھے ،یعنی پہلی دو صفیں اصحاب بدر کی ھوتی تھیں ،ابن عمر بچوں کی صف میں بہت پیچھے ھوتے تھے اور ابوھریرہؓ تو صحابہ کے طبقات میں چودھویں نمبر پر آتے تھے ،، نہ وہ السابقون الاولون میں سے تھے ،نہ مہاجرین میں سے تھے نہ اصحاب بدر میں سے تھے اور نہ اصحاب احد میں سے تھے نہ وہ بیعت رضوان والوں میں سے تھے ،، وہ بہت پیچھے کھڑے ھوتے تھے ! نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کے سوا ھر ذمہ داری ابوبکر صدیقؓ کو منتقل ھو گئ تھی وہ صرف امام مسجد نہیں بنے تھے کہ مرضی انتظامیہ کی چلتی تھی،، وہ سربراہ مملکت تھے، چیف جسٹس تھے، مفتئ اعظم تھے ،، چیف آف آرمی اسٹاف تھے ،، انہیں مشورہ تو دیا جا سکتا تھا ،، ان کے خلاف نہ کوئی فتوی دیا جا سکتا تھا اور نہ ان کے حکم کے بغیر کوئی اجتماعی کام کیا جا سکتا تھا ،، ھمیں مولوی جس مقام پہ ملا ھے ،ھم وھی مقام خلفاء راشدین کو بھی دیتے ھیں ،، جبکہ وہ دین کی ضروریات کے کفیل تھے اور جہاں جس جگہ دین کو ضرورت محسوس ھوئی انہی کے حکم کے مطابق پوری کی گئ ،، نہ کہ ابوھریرہؓ یا ابن عمرؓ سے فتوی لے کر پوری کی گئ !
رفع یدین کے معاملے میں چاروں خلفاء میں اتفاق ھے ان کی نماز میں کوئی اختلاف نہیں تھا اور چاروں خلفاء رفع یدین نہیں کرتے تھے ،، کیوں نہیں کرتے تھے یہ فیصلہ اب قیامت کو ھو گا کہ کیا وہ نبی ﷺ کی مخالفت میں ایسا کرتے تھے یا اسے سنت سمجھ کر نہیں کرتے تھے ،، دین کے سفر کا رستہ خلفاء راشدین ھیں،، باقی صحابہؓ نہیں،، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ کے بعد دائیں بائیں سے ریفرینس لینا اور اسے دین بنا لینا خود نبی کریمﷺ کے قول و منشاء کے خلاف ھے !
میں نے جس دن سے خلفاء کو سنت کا معیار اور پیمانہ مان کرنبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق داڑھوں سے پکڑ لیا ھے ،، الحمد للہ اندر باھر سکون ھی سکون ھے ! کبھی ایک لحظہ بھی تذبذب میں نہیں گزرا ،، چاھے باقی سارے صحابہؓ ایک طرف ھوں !
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
موصوف کی تازہ بونگی۔۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں۔
@خضر حیات
@انور شاہ راشدی

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہی بات سب سے پرکشش ھے، کہ انہوں نے فقہ میں قرآن سے ابتدا کی ھے ،، اور حدیث کو صرف اتنا ھی لیا ھے جتنی اس کی ضرورت تھی ،ٹھیک اس سنار کی طرح جو زیور بناتے وقت ٹانکے کے لئے صرف اتنا پیتل استعمال کرتا ھے جتنا ضروری ھو ،، سارے سونے کو تانبے میں تبدیل نہیں کر دیتا ،، جو لوگ کہتے ھیں ،، امام ابوحنیفہ کو پانچ حدیثیں یاد تھیں ،، میں انہیں کہتا ھوں ،

شاید دین کو ضرورت ھی صرف اتنی حدیثوں کی تھی ،،باقی سنت سے ھی کام چل جاتا ھے !
 
Top