• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(أخروهن حيث أخرهن الله) ایک بے اصل روایت۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
(أخروهن حيث أخرهن الله) ایک بے اصل روایت


فقہاء ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے ایک روایت ’’أخروهن حيث أخرهن الله ‘‘ پیش کرتے ہیں اور باقائدہ اس سے زور دار استدلال بھی کرتے ہیں مگرحقیقت ہے کہ اس کا صحیح ہونا تو درکنار ذخیرہ احادیث میں اس کا جود تک نہیں ہے ، البتہ اس طرح کی بات عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند کے ساتھ منقول ہے جس کی وضاحت آگے ہوگی ، مذکورہ حدیث کو پیش کرکے اس سے استدلال کرنے والے اس حدیث کو فرمان رسول کی حیثیت پیش کرتے ہیں ، جو بہت بڑی بھول ہے ، کیونکہ فرمان رسول کی حیثیت سے اس طرح کی احادیث کا وجود کتاب احادیث میں ہے ہی نہیں جیساکہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
حَدِيث أخروهن من حَيْثُ أخرهن الله تَعَالَى لم أَجِدهُ مَرْفُوعا[الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 171]۔

بلکہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے ایسے فقہائے احناف کو جاہل گرداناہے جو مذکورہ روایت کو نہ صرف بیان کرتے ہیں بلکہ بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ اسے مسندرزین یا دلائل النبوہ للبیھقی کی طرف منسوب کرتے ہیں:
علامہ زيلعي رحمه الله (المتوفى762): رحمہ اللہ فرماتےہیں:
قال السروجي في " الغاية " : كان شيخنا الصدر سليمان يرويه : الخمر أم الخبائث والنساء حبائل الشيطان وأخروهن من حيث أخرهن الله ويعزوه الى " مسند رزين " وقد ذكر هذا الجاهل أنه في " دلائل النبوة - للبيهقي " . وقد تتبعته فلم أجده فيه لا مرفوعا [نصب الراية 2/ 25]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذكر الزيلعي أن بعض الجهال (كذا) من فقهاء الحنفية كان يعزوه إلى " مسند رزين " و" دلائل النبوة " للبيهقي. قال: " وقد تتبعته فلم أجده فيه لا مرفوعا ولا موقوفا[سلسلة الأحاديث الضعيفة: 2/ 319]

اسی پر بس نے بلکہ بعض مہربانوں نے تو اسے بخاری و مسلم کی طرف بھی منسوب کردیا ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأفحش من هذا الخطأ أن بعضهم عزاه للصحيحين كما نبه عليه الزركشي، ونقله السخاوي وغيره عنه [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 2/ 319]۔

امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902)کہتے ہیں:
حَدِيث: أَخِّرُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّه، قال الزركشي: عزوه للصحيحين غلط، قلت: وكذا من عزاه لدلائل النبوة للبيهقي مرفوعا، ولمسند رزين [المقاصد الحسنة ص: 72]۔

امام زركشي رحمه الله (المتوفى 794)کے الفاظ ہیں:
الحَدِيث الْحَادِي وَالْعشْرُونَ اخروهن من حَيْثُ اخرهن الله رَأَيْت من عزاهُ لِلصَّحِيحَيْنِ وَهُوَ غلظ[ اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة ص:62]۔

ملا علي القاري رحمه الله (المتوفى1014)نے اس روایت کو الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص: 87 میں نقل کیا ہے۔

امام إسماعيل بن محمد العجلوني رحمه الله (المتوفى1162)نے اس روایت کو كشف الخفاء : 1/ 78 میں نقل کیا ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے سلسلة الأحاديث الضعيفة : 2/ 319رقم918 میں نقل کیا ہے۔


قارئین آپ نے دیکھ لیا کہ مذکورہ روایت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں اس کے باوجود بھی بعض لوگ نہ صرف اسے صحیح باور کراتے بلکہ اس سے استدلال بھی کررہے ہیں اوروہ بھی ایسا استدلال جو جمہور امت کے خلاف ہو یہ عجوبہ نہیں تو کیا ہے !!!
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن العجائب أن الحنفية أقاموا على هذا الحديث مسألة فقهية خالفوا فيها جماهير العلماء، فقالوا: إن المرأة إذا وقفت بجانب الرجل أو تقدمت عليه في الصلاة أفسدت عليه صلاته، وأما المرأة فصلاتها صحيحة، مع أنها هي المعتدية! بل ذهب بعضهم إلى إبطال الصلاة ولوكانت على السدة فوقه محاذية له! وقد استدلوا على ذلك بالأمر في هذا الحديث بتأخيرهن، ولا يدل على ما ذهبوا إليه البتة، وذلك من وجوه: أولا: أن الحديث موقوف فلا حجة فيه كما سبق.[سلسلة الأحاديث الضعيفة: 2/ 319]۔


مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مذکورہ روایت مرفوعا بے اصل ہے ، بعض اہل علم کا ماننا ہے کہ مذکورہ روایت مرقوفا ثابت ہے لیکن ہماری نظر میں یہ بات بھی محل نظر ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ روایت مذکورہ موقوفا بھی ثابت نہیں ، تفصیل آگے آرہی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
روایت مذکورہ موقوفا بھی ثابت نہیں


امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى 211)نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُصَلُّونَ جَمِيعًا، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ لَهَا الْخَلِيلُ تَلْبَسُ الْقَالَبَيْنِ تَطَوَّلُ بِهِمَا لِخَلِيلِهَا، فَأُلْقِيَ عَلَيْهِنَّ الْحَيْضُ، فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ: «أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّهُ» ، فَقُلْنَا لِأَبِي بَكْرٍ: مَا الْقَالَبَيْنِ؟ قَالَ: «رَفِيصَيْنِ مِنْ خَشَبٍ»[مصنف عبد الرزاق: 3/ 149]۔

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " كَانَ الرِّجَالُ، وَالنِّسَاءُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُصَلُّونَ جَمِيعًا، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا كَانَ لَهَا الْخَلِيلُ تَلْبَسُ الْقَالَبَيْنِ تَطَوَّلُ بِهِمَا لِخَلِيلِهَا، فَأَلْقَى الله عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَ، فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللهُ " قُلْنَا لِأَبِي بَكْرٍ: مَا الْقَالَبَيْنِ؟ قَالَ: «رَقِيصَتَيْنِ مِنْ خَشَبٍ»[المعجم الكبير للطبراني: 9/ 295]۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ الْأَزْدِيُّ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا زَائِدَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «كَانَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَلْبَسُ الْقَالَبَيْنِ فَتَقُومُ عَلَيْهِمَا، فَتُوَاعِدُ خَلِيلَهَا فَأُلْقِيَ عَلَيْهِنَّ الْحَيْضُ» ، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ، يَقُولُ: «أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللهُ»[المعجم الكبير للطبراني: 9/ 296]۔

مذکورہ بالا تمام سندوں میں ایک راوی ’’سليمان بن مهران الأعمش‘‘ ہیں ۔
اور یہ بہت ہی مشہور و معروف مدلس ہیں، اور ہمیں کسی بھی طریق میں ان کے سماع کی تصریح نہیں ملی ، لٰذا روایت ضعیف ہے۔


امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے انہیں مدلس ماناہے:
قال الامام ابن القيسراني رحمه الله : أخبرنا أحمد بن علي الأديب، أخبرنا الحاكم أبوعبد الله إجازة، حدثنا محمد بن صالح بن هاني، حدثنا إبراهيم بن أبي طالب، حدثنا رجاء الحافظ المروزي، حدثنا النضر بن شميل. قال: سمعت شعبة يقول: كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش، وأبي إسحاق، وقتادة[مسألة التسمية لابن القيسراني: ص: 47 واسنادہ صحیح]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ولعل الأعمش دلسه عن حبيب وأظهر اسمه مرة[علل الدارقطني: 10/ 95]۔

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463)نے کہا:
وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه اذا وقف أحال على غير ملىء يعنون على غير ثقة[التمهيد لابن عبد البر: 1/ 30]۔

صلاح الدين العلائي رحمه الله (المتوفى 761)نے کا:
وسليمان الأعمش والأربعة أئمة كبار مشهورون بالتدليس[جامع التحصيل للعلائي: ص 106]۔

امام أبو زرعة ابن العراقي رحمه الله (المتوفى 826)نے کہا:
سليمان الأعمش مشهور بالتدليس أيضاً[المدلسين لابن العراقي: ص: 55]۔

امام سبط ابن العجمي الحلبي رحمه الله (المتوفى 841)نے کہا:
سليمان بن مهران الأعمش مشهور به[التبيين لأسماء المدلسين للحلبي: ص: 31]۔

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى 911)نے کہا:
سليمان الأعمش مشهور به بالتدليس [أسماء المدلسين للسيوطي: ص: 55]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سے محدثین نے امام اعمش کو مدلس قراردیاہے۔

تنبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے کیونکہ النکت میں آپ نے امام اعمش رحمہ اللہ کو تیسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور تلخیص میں ان کے عنعنہ کی وجہ سے ایک روایت کو ضعیف بھی کہا ہے۔

دکتور عواد الخلف نے صحیحین کے مدلسین پر دو الگ الگ کتاب میں لکھی ہے ان میں دکتور رموصوف نے امام اعمش کے بارے میں یہ تحقیق پیش کی ہے وہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں ، دکتور موصوف نے یہ بھی کہا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے تو یہ ان کا سہہو ہے اور نکت میں انہوں نے درست بات لکھی ہے اوروہی معتبر ہے کیونکہ نکت کو حافظ ابن حجر نے طبقات کے بعد تصنیف کیا ہے۔

اس بارے میں مزید تفصیل آگے۔

دکتور مسفر الدمینی نے بھی مدلسین پر ایک مستقل کتاب لکھ رکھی ہے انہوں نے بھی اعمش کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے اور طبقات میں حافظ ابن حجر کی تقسیم کو غلط قرار دیا ہے۔

جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top