عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
ائمہ کے مابین اختلافات کے اسباب
اگر کسی امام کا قول صحیح حدیث کے خلاف ہو تو اس کی درج ذیل وجوہات میں سےکوئی وجہ ہو سکتی ہے۔
1:امام تک حدیث کا نہ پہنچنا
رسول اللہ ﷺجب کوئی بات فرماتے یا کوئی عمل کرتے تو اس محفل میں موجود صحابہ کرام اس بات کو یاد رکھتے اور یہاں تک ممکن ہوتا اس بات کو دوسروں تک پہنچاتے اور بعض اوقات ایک مجلس میں موجود صحابہ کرامکو جن باتوں کا علم ہوتا دوسری مجلس والے ان سے محروم رہتے۔لہٰذا کوئی عالم بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے تمام احادیثِ رسول کا احاطہ کر لیا ہے اور جب کسی عالم کو حدیث نہ ملے تو وہ اس پر کیسے عمل کر سکتا ہے؟شرعاً بھی وہ اس حدیث پر عمل کرنے کا مکلّف نہیں۔اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
1:
حضرت قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ (ایک شخص کی) دادی نے حضرت ابوبکر صدیق کے پاس جا کر اپنی میراث طلب کی تو حضرت ابوبکر نے اس سے فرمایا اللہ کی کتاب (قرآن) میں تیرے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی سنت رسول میں مجھے تیرا کوئی حصہ معلوم ہے۔ اس وقت تو چلی جابعد میں میں لوگوں سے پوچھوں گا (کیا ان کو اس سلسلہ میں کوئی حدیث رسول معلوم ہے) پس انھوں نے لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ نے دادی کو چھٹا حصہ دلایا تھا حضرت ابوبکر نے ان سے پوچھا کیا اس وقت تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ تو محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور ویسا ہی بیان دیا جیسا کہ مغیرہ بن شعبہ دے چکے تھے۔ پس حضرت ابوبکر نے اس عورت کے لیے وہی حکم نافذ فرما دیا (یعنی اس کو چھٹا حصہ دلایا)(سنن ابی داؤد،جامع ترمذی)
2:
(صحیح بخاری،مسلم)سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺکا فرمان معلوم نہ تھا کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اجازت مانگے اور اس کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ابو سعید خدری اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر دی۔
حالانکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا علمی مقام دیگر صحابہ سے بہت بلند ہے۔
3:سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام جارہے تھےراستہ میں انہیں معلوم ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے۔آپ نے صحابہ کرامسے مشورہ کیا،کسی کو بھی حدیثِ رسول معلوم نہ تھی یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اورانہوں نے حدیث رسولﷺبیان کی کہ
‘‘جب کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تووہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو اور جب تمہیں پتہ چل جائے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیل چکا ہےتو وہاں مت جاؤ(صحیح بخاری:۵۷۲۹)
صحابہ کراماس امت کے سب سے بڑے عالم،فقیہ اورصاحبِ تقوی تھے وہ بھی بعض دینی احکام و مسائل سے آگاہ نہ تھے اس طرح ہر امام کو تمام صحیح احادیث معلوم نہ تھیں کیونکہ کتبِ حدیث اس وقت لکھی گئیں جب ان آئمہ کا دور ختم ہو چکا تھا اور مجتہد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ رسول اللہﷺکے تمام اقوال و اعمال کا علم رکھتا ہو۔اس کے لئے اکثر دینی احکام و مسائل سے آگاہ ہونا کافی ہے۔
2:
حدیث کی صحت
رسول اللہﷺکی احادیث مبارکہ مختلف علاقوں اور شہروں میں پھیل گئیں ان میں بکثرت احادیث ایسی بھی تھیں جو بعض علماء تک ضعیف سند کے ساتھ پہنچیں اور انہوں نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم نہ کیا کیونکہ اس کی سند میں ان کے نزدیک کوئی راوی مجہول الحال ہوتا ہے یا اسے وہ روایت منقطع سند سے پہنچی ہے۔جبکہ دیگر علماء کو وہی روایت اسناد صحیح مرفوعہ کے ساتھ پہنچیں ان کو اس مجہول راوی کا پتہ ہوتا ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے یا اس حدیث کے ایسے شواہد و متابعات پائے جاتے ہوں جن سے وہ روایت صحیح بن جاتی ہے یہ وہ اہم وجہ ہے جس کی بنا پر ایک عالم کسی حدیث صحیح کو قبول نہیں کرتا کیونکہ اسے وہ حدیث ضعیف سند سے پہنچتی ہے۔
3۔
سند میں موجود راویوں کے حالات پر اختلاف:
بعض اوقات حدیث کے کسی راوی کوایک امام ثقہ قرار دیتا ہے اور دوسرا ضعیف قرار دیتا ہے۔حدیث کو ثقہ قرار دینے والا یہ سمجھتا ہے کہ حدیث کے ضعیف ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ درست نہیں،بعض اوقات حدیث کے راوی کا بڑھاپے میں حافظہ خراب ہو جاتا ہے یا اسکی کتب جل جاتی ہیں۔بعض محدثین یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس نے یہ حدیث کس دور میں بیان کی اور وہ کتب کے جل جانے سے پہلے کی بیان کردہ روایات کو ثقہ قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین اس علم کے نہ ہونے کی بنا پر اسے ضعیف سمجھتے ہیں۔
4:
راوی کا بھول جانا
بعض اوقات خود راوی کو حدیث یا د نہیں رہتی۔
گویا سیدنا عماررضی اللہ عنہ کے یاد دلانے پربھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وہ واقعہ یاد نہ آیالیکن آپ نے عمار کو جھوٹا قرار نہیں دیا بلکہ اس حدیث کو بیان کرنے کی اجازت دی۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں جنبی ہو جائے،پانی دستیاب نہ ہو تو وہ نماز کیسے ادا کرے۔فرمایا جب تک پانی نہ ملے نمازادا نہ کرے۔یہ سن کر سیدنا عماررضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ اونٹوں کے ریوڈ میں مقیم تھے اور ہم جنبی ہوگئے۔میں مٹی میں ایسے لوٹا جیسے چوپایا لوٹتا ہے(پھر نماز ادا کر لی)مگر آپ نے نماز ادا نہ کی اور یہ ماجرا بارگاہِ نبوت میں عرض کیا ،رسول اللہﷺنے یہ سن کر فرمایا:‘‘تمہارے لیے یہی کافی تھا،پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان دونوں سے اپنے منہ اورہتھیلیوں پر مسح کیا یہ سن کر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا‘‘اے عمار اللہ سے ڈرو’’عمار نے کہااگرآپ فرمائیں تو میں یہ حدیث بیان نہ کیا کروں،سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا،میرا مطلب یہ نہیں۔جب تم نے اس کی ذمہ داری اپنی ذات پر ڈالی ہے تو ہم بھی اسے تم پر ڈالتے ہیں(بخاری:۳۴۵،مسلم:۳۶۷)
5:
کسی حدیث سے غلط مفہوم لینے کا خوف:
بعض اوقات آئمہ دیکھتے ہیں کہ لوگ کس حدیث کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں،وہ لوگوں کی اصلاح کے لیے اس مباح کام سے روک دیتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نےعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے نہانے کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو میں کیا کروں،عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو۔ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ عماررضی اللہ عنہ کی روایت کا کیاجواب ہے کہ جب رسول اللہﷺنے فرمایا کہ تیرے لیے(مٹی سے تیمم)کافی ہے تو فرمانے لگے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے کافی نہ سمجھا۔ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے آپ اس آیت(المائدہ:۶) کا کیا کریں گے۔عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں۔وہ کہنے لگےکہ اگر ہم لوگوں کو اس معاملے میں اجازت دے دیں تو جس کو پانی ٹھنڈا لگے گا وہ تیمّم کر لے گا’’(بخاری:۳۴۶)
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکے عہد میں ابوبکرصدیق کے دورخلافت میں اور عمرفاروق کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔عمرفاروق نے فرمایا کہ لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی جس کے لیے انہیں سہولت دی گئی تھی پس چاہیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ نے اسے ان پر جاری کر دیا(یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت تین واقع ہونے کا حکم دے دیا)(مسلم:۱۴۷۲)