• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ائمہ کے مابین اختلافات کے اسباب

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
ائمہ کے مابین اختلافات کے اسباب​
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ،نے اپنی کتاب‘‘رفع الملام عن الائمۃ الاعلام’’میں ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کی بنا پر ہمارے ائمہ کرام نے فقہی امور میں اختلاف کیا۔جس کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔
اگر کسی امام کا قول صحیح حدیث کے خلاف ہو تو اس کی درج ذیل وجوہات میں سےکوئی وجہ ہو سکتی ہے۔
1:امام تک حدیث کا نہ پہنچنا
رسول اللہ ﷺجب کوئی بات فرماتے یا کوئی عمل کرتے تو اس محفل میں موجود صحابہ کرام اس بات کو یاد رکھتے اور یہاں تک ممکن ہوتا اس بات کو دوسروں تک پہنچاتے اور بعض اوقات ایک مجلس میں موجود صحابہ کرامکو جن باتوں کا علم ہوتا دوسری مجلس والے ان سے محروم رہتے۔لہٰذا کوئی عالم بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے تمام احادیثِ رسول کا احاطہ کر لیا ہے اور جب کسی عالم کو حدیث نہ ملے تو وہ اس پر کیسے عمل کر سکتا ہے؟شرعاً بھی وہ اس حدیث پر عمل کرنے کا مکلّف نہیں۔اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
1:
حضرت قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ (ایک شخص کی) دادی نے حضرت ابوبکر صدیق کے پاس جا کر اپنی میراث طلب کی تو حضرت ابوبکر نے اس سے فرمایا اللہ کی کتاب (قرآن) میں تیرے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی سنت رسول میں مجھے تیرا کوئی حصہ معلوم ہے۔ اس وقت تو چلی جابعد میں میں لوگوں سے پوچھوں گا (کیا ان کو اس سلسلہ میں کوئی حدیث رسول معلوم ہے) پس انھوں نے لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ نے دادی کو چھٹا حصہ دلایا تھا حضرت ابوبکر نے ان سے پوچھا کیا اس وقت تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ تو محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور ویسا ہی بیان دیا جیسا کہ مغیرہ بن شعبہ دے چکے تھے۔ پس حضرت ابوبکر نے اس عورت کے لیے وہی حکم نافذ فرما دیا (یعنی اس کو چھٹا حصہ دلایا)(سنن ابی داؤد،جامع ترمذی)
2:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺکا فرمان معلوم نہ تھا کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اجازت مانگے اور اس کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ابو سعید خدری اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر دی۔
(صحیح بخاری،مسلم)
حالانکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا علمی مقام دیگر صحابہ سے بہت بلند ہے۔
3:سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام جارہے تھےراستہ میں انہیں معلوم ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے۔آپ نے صحابہ کرامسے مشورہ کیا،کسی کو بھی حدیثِ رسول معلوم نہ تھی یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اورانہوں نے حدیث رسولﷺبیان کی کہ
‘‘جب کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تووہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو اور جب تمہیں پتہ چل جائے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیل چکا ہےتو وہاں مت جاؤ(صحیح بخاری:۵۷۲۹)
صحابہ کراماس امت کے سب سے بڑے عالم،فقیہ اورصاحبِ تقوی تھے وہ بھی بعض دینی احکام و مسائل سے آگاہ نہ تھے اس طرح ہر امام کو تمام صحیح احادیث معلوم نہ تھیں کیونکہ کتبِ حدیث اس وقت لکھی گئیں جب ان آئمہ کا دور ختم ہو چکا تھا اور مجتہد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ رسول اللہﷺکے تمام اقوال و اعمال کا علم رکھتا ہو۔اس کے لئے اکثر دینی احکام و مسائل سے آگاہ ہونا کافی ہے۔
2:
حدیث کی صحت
رسول اللہﷺکی احادیث مبارکہ مختلف علاقوں اور شہروں میں پھیل گئیں ان میں بکثرت احادیث ایسی بھی تھیں جو بعض علماء تک ضعیف سند کے ساتھ پہنچیں اور انہوں نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم نہ کیا کیونکہ اس کی سند میں ان کے نزدیک کوئی راوی مجہول الحال ہوتا ہے یا اسے وہ روایت منقطع سند سے پہنچی ہے۔جبکہ دیگر علماء کو وہی روایت اسناد صحیح مرفوعہ کے ساتھ پہنچیں ان کو اس مجہول راوی کا پتہ ہوتا ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے یا اس حدیث کے ایسے شواہد و متابعات پائے جاتے ہوں جن سے وہ روایت صحیح بن جاتی ہے یہ وہ اہم وجہ ہے جس کی بنا پر ایک عالم کسی حدیث صحیح کو قبول نہیں کرتا کیونکہ اسے وہ حدیث ضعیف سند سے پہنچتی ہے۔

سند میں موجود راویوں کے حالات پر اختلاف:
بعض اوقات حدیث کے کسی راوی کوایک امام ثقہ قرار دیتا ہے اور دوسرا ضعیف قرار دیتا ہے۔حدیث کو ثقہ قرار دینے والا یہ سمجھتا ہے کہ حدیث کے ضعیف ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ درست نہیں،بعض اوقات حدیث کے راوی کا بڑھاپے میں حافظہ خراب ہو جاتا ہے یا اسکی کتب جل جاتی ہیں۔بعض محدثین یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس نے یہ حدیث کس دور میں بیان کی اور وہ کتب کے جل جانے سے پہلے کی بیان کردہ روایات کو ثقہ قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین اس علم کے نہ ہونے کی بنا پر اسے ضعیف سمجھتے ہیں۔
4:
راوی کا بھول جانا
بعض اوقات خود راوی کو حدیث یا د نہیں رہتی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں جنبی ہو جائے،پانی دستیاب نہ ہو تو وہ نماز کیسے ادا کرے۔فرمایا جب تک پانی نہ ملے نمازادا نہ کرے۔یہ سن کر سیدنا عماررضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ اونٹوں کے ریوڈ میں مقیم تھے اور ہم جنبی ہوگئے۔میں مٹی میں ایسے لوٹا جیسے چوپایا لوٹتا ہے(پھر نماز ادا کر لی)مگر آپ نے نماز ادا نہ کی اور یہ ماجرا بارگاہِ نبوت میں عرض کیا ،رسول اللہﷺنے یہ سن کر فرمایا:‘‘تمہارے لیے یہی کافی تھا،پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان دونوں سے اپنے منہ اورہتھیلیوں پر مسح کیا یہ سن کر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا‘‘اے عمار اللہ سے ڈرو’’عمار نے کہااگرآپ فرمائیں تو میں یہ حدیث بیان نہ کیا کروں،سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا،میرا مطلب یہ نہیں۔جب تم نے اس کی ذمہ داری اپنی ذات پر ڈالی ہے تو ہم بھی اسے تم پر ڈالتے ہیں(بخاری:۳۴۵،مسلم:۳۶۷)
گویا سیدنا عماررضی اللہ عنہ کے یاد دلانے پربھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وہ واقعہ یاد نہ آیالیکن آپ نے عمار کو جھوٹا قرار نہیں دیا بلکہ اس حدیث کو بیان کرنے کی اجازت دی۔
5:
کسی حدیث سے غلط مفہوم لینے کا خوف:
بعض اوقات آئمہ دیکھتے ہیں کہ لوگ کس حدیث کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں،وہ لوگوں کی اصلاح کے لیے اس مباح کام سے روک دیتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نےعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے نہانے کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو میں کیا کروں،عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو۔ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ عماررضی اللہ عنہ کی روایت کا کیاجواب ہے کہ جب رسول اللہﷺنے فرمایا کہ تیرے لیے(مٹی سے تیمم)کافی ہے تو فرمانے لگے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے کافی نہ سمجھا۔ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے آپ اس آیت(المائدہ:۶) کا کیا کریں گے۔عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں۔وہ کہنے لگےکہ اگر ہم لوگوں کو اس معاملے میں اجازت دے دیں تو جس کو پانی ٹھنڈا لگے گا وہ تیمّم کر لے گا’’(بخاری:۳۴۶)
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکے عہد میں ابوبکرصدیق کے دورخلافت میں اور عمرفاروق کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔عمرفاروق نے فرمایا کہ لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی جس کے لیے انہیں سہولت دی گئی تھی پس چاہیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ نے اسے ان پر جاری کر دیا(یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت تین واقع ہونے کا حکم دے دیا)(مسلم:۱۴۷۲)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
غریب الاستعمال الفاظ
بعض اوقات ایک عالم غلطی میں اس لیے مبتلا ہوتا ہے کہ وہ ان میں استعمال ہونے والے الفاظ کا صحیح مفہوم سمجھ نہیں پاتا مثلاً
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی‘‘وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(سورۃ البقرہ:۱۸۷)‘‘اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کے صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح طور پر نمایاں ہوجائے’’تو میں نے دو دھاگے لیے ایک سیاہ اور ایک سفید،میں نے دو نوں دھاگے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے اور ان کو دیکھتا رہا،جب سفید دھاگہ نظر آنے لگا توکھانا بند کردیا،صبح میں نے نبی کریمﷺسے یہ ماجرا عرض کیا۔تمہارا تکیہ تو بڑا وسیع ہے(جو پوری کائنات پر محیط ہے) یاد رکھو سفید دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اور سیاہ دھاگے سے مراد رات کا اندھیرا ہے(یعنی جب دن کی سفیدی رات کے اندھیرے سے ممتاز ہوجائےیعنی فجر صادق تو کھانا پینا بند کردو)
(بخاری:۴۵۰۹،مسلم:۱۰۹۰)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہﷺنے بیع الحصاۃ اور بیع الغرر سے منع فرمایا(مسلم:۱۵۱۳)
بیع الحصاۃ اوربیع الغرر اوراس طرح کے دیگر نا درالاستعمال الفاظ کی تشریح میں علماءکرام کا اختلاف ہوجاتا ہے
7:
حدیث کے الفاظ کے مفہوم میں اختلاف
بعض اوقات ایک عالم حدیث پر اس لیے عمل نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ حدیث زیر بحث مسئلہ پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ مجمل ہے اس کا مفہوم واضح نہیں یا یہ لفظ کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس موقع پر ایسا کوئی قرینہ نہیں جس سے پتہ چلے کہ یہاں کون سے معنی مراد ہیں یا ایک امام ایک معنی اور دوسراکوئی اورسمجھتا ہے۔
8:
دو متعارض احادیث میں تطبیق
بعض اوقات ایک عالم ایک حدیث کو قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے اس کے پاس ایک ایسی(قرآن وسنت)کی دلیل ہے جس کی بنا پر اس مسئلہ پر اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ دو مختلف اقوال کے تعارض کو دور کرنا اور بعض کو بعض پر ترجیح دینا آسان کام نہیں مثلاً ایک عام دلیل کسی خاص دلیل کے خلاف ہو،یا مطلق اور مقید کے مابین اختلاف پایا جاتا ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ النَّبِيُّ يَوْمَ الْأَحْزَابِ : " لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ "، فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ(صحیح بخاری:۴۱۱۹،صحیح مسلم:۱۷۷۰)
‘‘نبی کریمﷺنےجنگ خندق کے بعد فرمایا تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے،اب نماز کا وقت راستے میں ہو گیا تو بعض نے کہا کہ جب تک ہم بنو قریظہ پہنچ نہ لیں عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعضوں نے کہا کہ ہم نماز پڑھ لیتے ہیں کیونکہ آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں۔رسول اللہﷺسے امر کا ذکر کیا گیا۔آپ نے کسی پر خفگی نہیں کی’’
گویا بعض صحابہ کرامنے یہ سمجھا کہ رسول اللہﷺکے الفاظ عام ہیں جن کا منشا یہ ہے کہ نماز بنو قریظہ ہاں جا کر ہی ادا کرنی چاہیے،
اگرچہ ایسا کرنے میں نماز کا وقت ہی کیوں نہ چلا جائے اور بعض نے ان الفاظ کا یہ مطلب سمجھا کہ وہاں جلد پہنچ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔بعض اوقات احادیث میں تعارض ہوتا ہے اس تعارض کو ایک فقیہ جس طریقہ سے حل کرتا ہے دوسرا فقیہ اس سے اتفاق نہیں کرتا وہ اس کو دوسرے طریقے سے حل کرتا ہے۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا اختلاف ملاحظہ فرمائیں:
نبی کریمﷺکے حکم سے بدر کے روز قریش کے سرداروں کی لاشوں کو بدر کے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں،آپ کنویں پر کھڑے ہو گئے پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کانام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔اے فلاں بن فلاں!کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ایسے جسموں سے کیا باتیں کر رہیں ہیں جن میں روح ہی نہیں؟نبی کریم ﷺنے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اسے ان سے زیادہ نہیں سن رہے،ایک روایت میں ہے تم لوگ اس سے زیادہ سننے والے نہیں،لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے’’(بخاری:۱۳۷۱،مسلم)
جب یہ بات سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہاکو بتائی گئی تو انہوں نے اس بات کو قرآنی آیات کے مخالف سمجھا اور قرآن مجید کی دو آیات تلاوت فرمائیں:
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى(سورۃ النمل:۸۰)‘‘تم مردوں کو(بات)نہیں سنا سکتے’’
وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ(سورۃ الفاطر:۲۲)‘‘تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے’’
اور فرمایا :
کہ رسول اللہﷺنے فرمایا تھاکہ بے شک یہ جان چکے ہیں کہ جو کچھ میں انہیں کہتا تھا وہ حق ہے(مسلم:۹۳۲)
اسی طرح جب ام المومنین حضرت عائشہ کو رسول اللہﷺکا یہ فرمان سنایا گیا کہ میت کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ آپﷺنے ایسا کبھی نہیں کہا بلکہ آپ نے یو ں فرمایا کہ بے شک کافر کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے اور فرمایا کہ تمہارے لئےقرآن مجید کافی ہے:
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى(سورۃ فاطر:۱۸)‘‘ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا’’
ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن کی مغفرت فرمائے انہوں نے جھوٹ نہیں بولا البتہ وہ بات بھول گئے یا انہوں نے سمجھنے میں غلطی کی۔(مسلم:۹۳۲)
ان دونوں روایات پر غور فرمائیں،سیدنا عائشہنےقول رسول کو تسلیم نہیں کیاحالانکہ انہیں بیان کرنے والاصحابی رسول ہے۔بلکہ انہوں نے شریعت کی کلیات ہی(یعنی کتاب وسنت) کی طرف لوٹایا۔ایسے ہی بعض اوقات ایک عالم ایسی حدیث کو جو اس کے نزدیک غیر واضح اور قابلِ تاویل ہے وہ اسے شریعت کی واضح،محکم اورناقابلِ تاویل آیات و حدیث کی طرف لوٹاتا ہے اسے حدیث کا منکر کہنا ظلم ہے!!
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘اس مسئلہ کی اصل سلف صالحین کے ہاں موجود ہے۔چنانچہ سیدنا عائشہ حدیث(ان المیت لیعذب ببکاء اھلہ)یقیناً مردے کو اپنے گھر والوں کے رونے کے سبب سے عذاب ہوتا ہے،کورد کیا تو وہ اسی اصل کی بنیاد پر،کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا،
نیز سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہانے شبِ اسراءکو نبی کریم ﷺ کے اللہ کے دیدار کرنے سے متعلق حدیث کو رد کیا،اس آیت کی بنیاد پرکہ
‘‘لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ(سورۃ الانعام:۱۰۳)
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں’’(مسلم:۱۰۳)
نیزسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمادونوں نے سیدنا ابوہریرہ کی اس خبر کورد کیا جس میں ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
9:
حدیث مخالف کو منسوخ سمجھنا
بعض اوقات ایک عالم ایک حدیث پر عمل نہیں کرتا کیونکہ اس کے خیال میں ایک دوسری حدیث ہے اور زیرِ بحث روایت ضعیف یا منسوخ ہےیا اس میں تاویل کی گنجائش ہے،حالانکہ زیر بحث حدیث جسے وہ عالم ضعیف سمجھتا ہے سند اور متن کے اعتبار سے بلحاظ صحت و ثقاہت ثابت ہے،یا وہ حدیث جس کو وہ ناسخ جانتا ہے وہ حقیقت میں منسوخ ہےیا اس میں تاویل کرنے میں غلطی لگی ہو اوراس نے اس کے وہ معانی بیان کئے ہیں جن کی اس کے الفاظ میں سرے سے گنجائش ہی نہیں،یا وہ عالم سمجھتا ہے کہ اس مسئلے میں اللہ کی کتاب اوررسول کی سنت کچھ اور کہتی ہے
جیسے ابو اسحاق رحمہ اللہ نے فرمایا:
‘‘میں بڑی مسجد میں اسودبن یزید کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ہمارے ساتھ امام شعبی رحمہ اللہ بھی تھےامام شعبی نےفاطمہ بنت قیس کی روایت بیان کی کہ ان کو ان کے خاوند نے تین طلاقیں دیں۔انہوں نے ان کے اہل و عیال سے نفقہ کا مطالبہ کیا ان کے انکار پر وہ رسول اللہﷺکے پاس گئی تو آپﷺنے فرمایا کہ تمہارے لیے(تین طلاقوں کے بعد خاوند کے ذمے)نہ تو نان نفقہ ہے اور نہ رہائش ہے’’اسودرحمہ اللہ نے کنکری پکڑ کر امام شعبی کو ماری اور فرمایا تم یہ حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ہم ایک عورت کے کہنے پر اللہ کی کتاب اوراپنے نبی ﷺکی سنت نہیں چھوڑ سکتےمعلوم نہیں اس عورت کو واقع یاد رہا یا نہیں اس لیے سیدنا عمرﷺنے (تین طلاقوں) والی عورت کو عدت کے دوران رہائش اور خرچہ دلوایا
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اس آیت سے استدلال کیا۔
لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَ لَا يَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ(سورۃ الطلاق:۱)
‘‘عورتوں کو اپنے گھر سے مت نکالو نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ واضح بے حیائی کی مرتکب ہوں’’(مسلم:۱۴۸۰)
 
Top