• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ھ"ابن ابی شیبہ، طبرانی نے کبیر میں ، بیہقی، عبد ابن حمید اور امام بغوی نے سیدنا عبدللہ ابن عبّاس رضی اللہ عنہ سے روایت کی: بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلّم رمضان شریف میں ٢٠ رکعت پڑھتے تھے وتر کے علاوہ اور بیہقی نے یہ زیادہ فرمایا کہ بغیر جماعت تراویح پڑھتے تھے"ھ

انور شاہ کاشمیری دیوبندی کا موقف

و اما عشرون رکعہ فھوا عنہ علیہ السلام بسند ضعیف و علیٰ ضعفہ اتفاق
اور جو بیس رکعت ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے ضعیف سند کے ساتھ (مروی) ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے
(العرف الشذی ١٦٦/١)ھ

عبدالشکور لکھنوی کا موقف

"اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی ..."ھ
(علم الفقہ ص ١٩٨)

علامہ ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ کا موقف

بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔ انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ ابن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث علاوہ بریں یہ ( بیس کی روایت ) صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔
(فتح القدیر شرح ہدایہ ( جلد:1ص:205 )ہ

شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ کا موقف

ولم یثبت روایۃ عشرین منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو المتعارف الان الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو حدیث صحیح جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اورجو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں)ہ
(فتح سرالمنان)ہ


علامہ عینی رحمہ اللہ عمدہ القاری ( جلد:3 ص:597 ) میں فرماتے ہیں




فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورۃ عدد الصلوۃ التی صلھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ

ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں


علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں


ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ہمارے علما اس معاملے میں وسعت کے قائل ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ سنت صرف اور صرف ١١ کو سمجھنے کے باوجود حرمین میں ٢٠ پڑھی جاتی ہےاور رمضان کے آخری عشرے میں٣٣ رکعات پڑھی جاتی ہیں...آخری عشرے میں عشا کے بعد ٢٠ رکعات بغیر وتر کے اور پھر آدھی رات کے بعد یعنی ١ بجے پھر ١٠ پڑھی جاتی ہیں ٣ وتر کے ساتھ یعنی ٹوٹل ٣٣ ..اسکا مشاہدہ لوگ ٹی وی پر بھی کرسکتے ہیں

الحمدللہ میرا اب بھی دعوی ہے کے حرمین کے علاوہ سعودی عرب کی تقریبا ساری مساجد میں ١١ پڑھی جاتی ہیں، اور الحمدللہ میرے سعودی عربیہ میں قیام کے دوران آج تک کوئی ٢٠ رکعت والی مسجد نہیں آئ اور یہ محظ اتفاق بھی ہوسکتا ہے...اس میں بھی شک نہیں کہ کہیں کہیں ٢٠ بھی پڑھی جاتی ہوںگی اور میں نے اسکا انکار بلکل نہیں کیا کیوں کہ جب وسعت کے قائل ہونے کی بنیاد پہ حرم میں ٢٠ اور ٣٠ پڑھی جاتی ہیں تو دوسری سعودی مساجد میں بھی یہ ممکن ہے ...اس لئے یہاں خوامخواہ کے چیلنج کی کوئی گنجائش نہیں


تمھیں ٢٠ پڑھنے سے کسی نے نہیں روکا اور ہاں حرم میں آخری ١٠ دنوں میں ٣٠ بھی پڑھی جاتی ہیں تو ٣٠ پڑھنا مت بھولنا چونکہ تم جو حرم میں ہوگا اسکو صحیح مانتے ہو شاید...مگر اگر ٢٠ کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کہوگے تو اہل حدیث علما خاموش نہیں رہینگے حتیٰ کے امام کعبہ بھی تمہاری مخالفت کرینگے...سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم ٨ رکعت تراویح اور ٣ وتر ہے...ذہن میں بٹھالو.....ہمیں آٹھ سے زیادہ پڑھنے میں کوئی اعتراض نہیں اور نا ہی کم پڑھنے میں

مسجد الحرام ہو یا مسجد النبوی شریف ان مساجد کے امام الحمدللہ ہمارے مسلک کے ہیں اور الحمدللہ ساری دنیا کے مسلمان ہماری امامت میں حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور ھم ہی الحمدللہ حقیقی اہل سنت والجماعت ہیں، کیوں کے اہل سنہ نے کسی بھی دور میں تقلید کو تسلیم نہیں کیا جو اہل سنہ کے منہج سے ہٹے انہوں نے تلقید شخصی کے پھندے کو گلے میں ڈال دیا اور فرقہ واریت شروع کردی...دیوبندی، بریلوی، نقشبندی، قادری وغیرہ...ہ

اور الحمدللہ ھم حدیث میں موجود وسعت کے بھی قائل ہیں ١١ کو سنت سمجھتے ہووے...اسی لئے حرم میں ٢٠ اور پھر آخری عشرے میں ٣٠ کا اہتمام کرتے ہیں.

اور ہاں حرم کے امام رفع الیدین، اونچی آمین، سینے پر ہاتھ، عورتوں کے مسجد میں آنے کے قائل ہیں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں مثلا ایک رکعت وتر، تین رکعت وتر ایک تشہد کے ساتھ وغیرہ وغیرہ ...اور ہاں کبھی حرم کی اقامت سنی ہے؟؟؟؟ اب سن لینا...اور انشاءللہ ان تمام مسائل پر تحقیق کرنا...اللہ کی توفیق سے ہر مسلہ صحیح حدیث سے ثابت ملیگا
 

ضرب کلیم

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
6
بیس رکعات تراویح کی پہلی دلیل ملاحظہ فرمائیں
:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَبِثَلاَ ثَۃٍ۔
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ایک رات تشریف لائے اور لوگوں کو چار (فرض) ، بیس رکعات (تراویح) اور تین وتر پڑھائے ۔
(تاریخ جرجان للسھمی ص 142)​
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کمال ہے ایسی بات پر بحث ہورہی ہے جس کے بارے میں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ

قال عمرُ : نعمَ البدعةُ هذهِ،
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2010
یہ اچھی بدعت ہے

جبکہ سلفی عقیدے کے مطابق

" ہر بدعت گمراہی ہے اچھی بدعت ہو یا بدعت سیئہ ان میں کوئی فرق نہیں "
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بیس رکعات تراویح کی پہلی دلیل ملاحظہ فرمائیں
:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَبِثَلاَ ثَۃٍ۔
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ایک رات تشریف لائے اور لوگوں کو چار (فرض) ، بیس رکعات (تراویح) اور تین وتر پڑھائے ۔
(تاریخ جرجان للسھمی ص 142)​

http://forum.mohaddis.com/threads/بیس-٢٠-رکعات-تراویح-سے-متعلق-تمام-روایات-کا-جائزہ۔.7750/#post-51731
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
کمال ہے ایسی بات پر بحث ہورہی ہے جس کے بارے میں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ
قال عمرُ : نعمَ البدعةُ هذهِ،
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2010
یہ اچھی بدعت ہے
جبکہ سلفی عقیدے کے مطابق
" ہر بدعت گمراہی ہے اچھی بدعت ہو یا بدعت سیئہ ان میں کوئی فرق نہیں "
جب مقصد ہی مخالفت اور تنقید برائے تنقید ہو تو انسان کو سیدھی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔
یہاں بدعت لغوی معنیٰ میں ہے، اصطلاحی معنیٰ میں نہیں۔
بدعت کا لغوی معنیٰ نئی چیز ہے اور نئی چیز اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بُری بھی۔ مثلاً نائٹ کلب لغوی بدعت ہے اور بری چیز ہے، لیکن آج کل کار، ریل گاڑی اور جہاز وغیرہ لغوی بدعت ہے اور یہ کوئی بری چیز نہیں۔ لغوی طور پر تو آپ (بہرام صاحب اور ہم سب) بھی بدعت ہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں نہیں تھے۔ لیکن ہماری اچھائی برائی ہمارے اعمال پر منحصر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کیلئے بھی لغوی معنیٰ میں 'بدیع السماوات والارض' استعمال ہوا ہے (جو ظاہر ہے برے معنیٰ میں نہیں ہو سکتا)
اصلاحی بدعت سے مراد دین میں نیا اضافہ ہوتا ہے، یہ ہر حال میں گمراہی ہے اور یہی اصطلاحی بدعت حدیث مبارکہ: كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار میں مراد ہے۔
سوال یہ ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے یہاں بدعت کا لفظ لغوی معنیٰ میں استعمال کیا ہے یا اصطلاحی معنیٰ میں؟ تو واضح سی بات ہے کہ یہاں یہ اصطلاحی معنیٰ میں ہرگز نہیں ہے کیونکہ باجماعت تراویح دین میں اضافہ نہیں بلکہ عین سنت تھی جو نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود صحابہ کرام﷢ کو پڑھائی تھی لیکن امت پر شفقت کرتے ہوئے مسلسل نہیں پڑھائی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے کہ دین میں کمی بیشی جاری تھی۔ سیدنا عمر﷜ کے زمانے میں یہ خدشہ نہیں تھا کہ دین مکمل ہو چکا تھا، لہٰذا انہوں نے نبی کریمﷺ کی اسی سنت کو جاری فرما دیا تھا اور جب انہوں نے دیکھا اب لوگ مسجد میں انفرادی الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں تراویح پڑھنے کی بجائے اجتماعی طور پر خوبصورت قراءت کرنے والے امام کے پیچھے تراویح پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے اسے لغوی بدعت سے تعبیر کیا اور اسے اچھا کہا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جب مقصد ہی مخالفت اور تنقید برائے تنقید ہو تو انسان کو سیدھی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔
یہاں بدعت لغوی معنیٰ میں ہے، اصطلاحی معنیٰ میں نہیں۔
بدعت کا لغوی معنیٰ نئی چیز ہے اور نئی چیز اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بُری بھی۔ مثلاً نائٹ کلب لغوی بدعت ہے اور بری چیز ہے، لیکن آج کل کار، ریل گاڑی اور جہاز وغیرہ لغوی بدعت ہے اور یہ کوئی بری چیز نہیں۔ لغوی طور پر تو آپ (بہرام صاحب اور ہم سب) بھی بدعت ہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں نہیں تھے۔ لیکن ہماری اچھائی برائی ہمارے اعمال پر منحصر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کیلئے بھی لغوی معنیٰ میں 'بدیع السماوات والارض' استعمال ہوا ہے (جو ظاہر ہے برے معنیٰ میں نہیں ہو سکتا)
اصلاحی بدعت سے مراد دین میں نیا اضافہ ہوتا ہے، یہ ہر حال میں گمراہی ہے اور یہی اصطلاحی بدعت حدیث مبارکہ: كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار میں مراد ہے۔
سوال یہ ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے یہاں بدعت کا لفظ لغوی معنیٰ میں استعمال کیا ہے یا اصطلاحی معنیٰ میں؟ تو واضح سی بات ہے کہ یہاں یہ اصطلاحی معنیٰ میں ہرگز نہیں ہے کیونکہ باجماعت تراویح دین میں اضافہ نہیں بلکہ عین سنت تھی جو نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود صحابہ کرام﷢ کو پڑھائی تھی لیکن امت پر شفقت کرتے ہوئے مسلسل نہیں پڑھائی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے کہ دین میں کمی بیشی جاری تھی۔ سیدنا عمر﷜ کے زمانے میں یہ خدشہ نہیں تھا کہ دین مکمل ہو چکا تھا، لہٰذا انہوں نے نبی کریمﷺ کی اسی سنت کو جاری فرما دیا تھا اور جب انہوں نے دیکھا اب لوگ مسجد میں انفرادی الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں تراویح پڑھنے کی بجائے اجتماعی طور پر خوبصورت قراءت کرنے والے امام کے پیچھے تراویح پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے اسے لغوی بدعت سے تعبیر کیا اور اسے اچھا کہا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں!
جب آپ بدعت کی تقسیم بدعت حسنہ اور سیئہ کے قائل نہیں تو پھر بدعت لغوی اور اصطلاحی کی تقسیم کس بنیاد پر کرتے ہیں آپ کی رائے سے مجھے ایسا لگا کہ دین حضرت عمر کے دور میں مکمل ہوا کیونکہ اس پہلے تک دین میں کمی بیشی جاری تھی خلیفہ اول کے زمانے میں بھی دین مکمل نہیں ہوا تھا کیونکہ انھوں نے بھی نماز تراویح میں لوگوں کو ایک امام پر جمع نہیں کیا تھا اگر غلط ہوں تو تصحیح فرمادیجئے گا !

اس جواب میں صحیح بخاری کی جس حدیث سے آپ نے استدلال کیا ہے آئیں اس حدیث پر غور کرتے ہیں

حدثنا إسحاق،‏‏‏‏ أخبرنا عفان،‏‏‏‏ حدثنا وهيب،‏‏‏‏ حدثنا موسى بن عقبة،‏‏‏‏ سمعت أبا النضر،‏‏‏‏ يحدث عن بسر بن سعيد،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير،‏‏‏‏ فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي،‏‏‏‏ حتى اجتمع إليه ناس،‏‏‏‏ ثم فقدوا صوته ليلة فظنوا أنه قد نام،‏‏‏‏ فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال ‏"‏ ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ حتى خشيت أن يكتب عليكم،‏‏‏‏ ولو كتب عليكم ما قمتم به فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ فإن أفضل صلاة المرء في بيته،‏‏‏‏ إلا الصلاة المكتوبة ‏"‏‏.
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ' انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ' انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ' کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا ' کہا میں نے ابو النضر سے سنا ' انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا ' ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ' پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ' یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان کی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں چٹائی کا حجرہ بناکر نماز پڑھا کرتے تھے پھر اور لوگ بھی جمع ہوکر ان کے پیچھے نماز پڑھنے لگے جب کہ ایسا کرنے کا ان لوگوں کو حکم بھی نہیں دیا تھا اور یہ حجرہ بنانا بالکل ایسی طرح تھا جس طرح اعتکاف میں بیٹھنے والے مسجد میں حجرہ بناتے ہیں لیکن فی زمانہ جو نماز تراویح رائج ہے اس کی جماعت ٹھیک ایسی طرح ہوتی ہے جس طرح فرض نماز کی جماعت ہوتی ہے جب کہ اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرز پر نماز نہیں پڑھی بلکہ ان کے حجرے میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے لوگوں کو اس بات سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ " اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے "

اس مضمون کی تائید صحیح بخاری کی ان احادیث سے بھی ہوتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"دیکھو تم نفل نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو۔ کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔:
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 6113

"تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز (مسجد میں پڑھنی ضروری ہے)"
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 731
ترجمہ از داؤد راز

ان قرائن سے معلوم ہوتا ہے با جماعت نماز تراویح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں کیا اور حکم دیا کہ فرض نماز کے علاوہ باقی نمازیں اپنے گھروں میں ادا کرو
بدعت کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ دین میں ایسی نئی چیز جو سنت کی مخالف ہو بدعت کہلائے گی فرض نمازوں کے علاوہ باقی نمازوں کے لئے سنت یہ ہے کہ فردا فردا اپنے گھروں میں پڑھی جائے نہ کہ باجماعت مسجد میں ایسی لئے حضرت عمر نے باجماعت تراویح کو بدعت کہا ہے اور یہ بدعت اصطلاحی ہے
میں تو ان احادیث صحیحہ سے یہ سمجھ پایا ہوں ۔ (غلط جملہ حذف ... انتظامیہ)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جب آپ بدعت کی تقسیم بدعت حسنہ اور سیئہ کے قائل نہیں تو پھر بدعت لغوی اور اصطلاحی کی تقسیم کس بنیاد پر کرتے ہیں
فضول اعتراض!

آپ کی رائے سے مجھے ایسا لگا کہ دین حضرت عمر کے دور میں مکمل ہوا کیونکہ اس پہلے تک دین میں کمی بیشی جاری تھی خلیفہ اول کے زمانے میں بھی دین مکمل نہیں ہوا تھا کیونکہ انھوں نے بھی نماز تراویح میں لوگوں کو ایک امام پر جمع نہیں کیا تھا اگر غلط ہوں تو تصحیح فرمادیجئے گا !
میرے کس جملے میں آپ کو یہ مغالطہ ہوا؟؟؟ دین نبی کریمﷺ کی وفات کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا تھا۔
سیدنا ابوبکر﷜ کا دورِ خلافت بہت مختصر اور شورش واختلاف سے بھرپور تھا۔ انہیں سکون سے اس قسم کے معاملات کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ ویسے بھی ایک بات اگر سیدنا عمر﷜ کے ذہن میں آگئی تو اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ سیدنا ابو بکر﷜ اس کے مخالف تھے یا ان کے دور میں دین میں کمی بیشی جاری تھی؟؟؟ عجیب منطق ہے آپ کی؟!
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پہلا بحری بیڑہ سیدنا امیر معاویہ نے تیار کرایا تھا کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے خلفاء اس کے قائل نہ تھے یا ان کے دور میں دین میں کمی وبیشی جاری تھی؟؟؟

اس جواب میں صحیح بخاری کی جس حدیث سے آپ نے استدلال کیا ہے آئیں اس حدیث پر غور کرتے ہیں

حدثنا إسحاق،‏‏‏‏ أخبرنا عفان،‏‏‏‏ حدثنا وهيب،‏‏‏‏ حدثنا موسى بن عقبة،‏‏‏‏ سمعت أبا النضر،‏‏‏‏ يحدث عن بسر بن سعيد،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير،‏‏‏‏ فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي،‏‏‏‏ حتى اجتمع إليه ناس،‏‏‏‏ ثم فقدوا صوته ليلة فظنوا أنه قد نام،‏‏‏‏ فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال ‏"‏ ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ حتى خشيت أن يكتب عليكم،‏‏‏‏ ولو كتب عليكم ما قمتم به فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ فإن أفضل صلاة المرء في بيته،‏‏‏‏ إلا الصلاة المكتوبة ‏"‏‏.
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ' انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ' انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ' کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا ' کہا میں نے ابو النضر سے سنا ' انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا ' ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ' پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ' یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان کی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں چٹائی کا حجرہ بناکر نماز پڑھا کرتے تھے پھر اور لوگ بھی جمع ہوکر ان کے پیچھے نماز پڑھنے لگے جب کہ ایسا کرنے کا ان لوگوں کو حکم بھی نہیں دیا تھا اور یہ حجرہ بنانا بالکل ایسی طرح تھا جس طرح اعتکاف میں بیٹھنے والے مسجد میں حجرہ بناتے ہیں لیکن فی زمانہ جو نماز تراویح رائج ہے اس کی جماعت ٹھیک ایسی طرح ہوتی ہے جس طرح فرض نماز کی جماعت ہوتی ہے جب کہ اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرز پر نماز نہیں پڑھی بلکہ ان کے حجرے میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے لوگوں کو اس بات سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ " اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے "

اس مضمون کی تائید صحیح بخاری کی ان احادیث سے بھی ہوتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"دیکھو تم نفل نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو۔ کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔:
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 6113

"تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز (مسجد میں پڑھنی ضروری ہے)"
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 731
ترجمہ از داؤد راز

ان قرائن سے معلوم ہوتا ہے با جماعت نماز تراویح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں کیا اور حکم دیا کہ فرض نماز کے علاوہ باقی نمازیں اپنے گھروں میں ادا کرو
بدعت کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ دین میں ایسی نئی چیز جو سنت کی مخالف ہو بدعت کہلائے گی فرض نمازوں کے علاوہ باقی نمازوں کے لئے سنت یہ ہے کہ فردا فردا اپنے گھروں میں پڑھی جائے نہ کہ باجماعت مسجد میں ایسی لئے حضرت عمر نے باجماعت تراویح کو بدعت کہا ہے اور یہ بدعت اصطلاحی ہے
میں تو ان احادیث صحیحہ سے یہ سمجھ پایا ہوں ۔ (غلط جملہ حذف ... انتظامیہ)
سوال یہ ہے کہ اجتماعی تراویح بدعت ہے یا سنت؟؟؟
آپ نے اوپر صحیح بخاری کی جو حدیث مبارکہ ذکر کی ہے، اس سے بھی اجتماعی تراویح کا سنّت ہونا ثابت ہے، دیکھئے:
حدثنا عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير،‏‏‏‏ فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي،‏‏‏‏ حتى اجتمع إليه ناس،‏‏‏‏ ثم فقدوا صوته ليلة فظنوا أنه قد نام،‏‏‏‏ فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال ‏"‏ ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ حتى خشيت أن يكتب عليكم،‏‏‏‏ ولو كتب عليكم ما قمتم به فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ فإن أفضل صلاة المرء في بيته،‏‏‏‏ إلا الصلاة المكتوبة ‏"‏‏.

دیگر روایات میں اس کی مزید صراحت ہے:
أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرج ليلة من جوف الليل، فصلَّى في المسجد، وصلَّى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فصلَّى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد، ثم قال : ( أما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم، ولكني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها ) . فتوفي رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والأمر على ذلك ... صحيح البخاري

رسول اللہ ﷺ نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے ۔ صبح کو ان صحابہ ﷢ نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ ( دوسرے دن ) اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو صحابہ ﷢ نے آپﷺ کے پیچھے نماز شروع کر دی ۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی ۔ لیکن آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا ، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا ۔ «امابعد» ! تمہاری موجودگی مجھ سے مخفی نہیں تھی لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے ، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔

کیا آپ کو اجتماعی تراویح کی سنیت سے انکار ہے؟؟؟
 

زبیر علی

مبتدی
شمولیت
جون 20، 2013
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
9
Anas Nazar Bhai, aap k fazool aeteraaz kehne se aeteraaz fazool nahi ho jata. Ye to aap apni jaan churane k liye aisa kar rah ho, warna Behraam Bhai ka Question ekdam sahi hai. Aur usooli taur pe aap ko uska jawab dena chahiye.
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فضول اعتراض!
ویسے آپس کی بات ہے آپ بتاہی دیں کہ بدعت لغوی اور بدعت اصطلاحی کو کس پیمانے پر جانچا جاتا
اور بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ کو ناپنے والاآلہ اب تک آپ کے ہاتھ کیوں نہیں لگا ؟
میرے کس جملے میں آپ کو یہ مغالطہ ہوا؟؟؟ دین نبی کریمﷺ کی وفات کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا تھا۔
سیدنا ابوبکر﷜ کا دورِ خلافت بہت مختصر اور شورش واختلاف سے بھرپور تھا۔ انہیں سکون سے اس قسم کے معاملات کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ ویسے بھی ایک بات اگر سیدنا عمر﷜ کے ذہن میں آگئی تو اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ سیدنا ابو بکر﷜ اس کے مخالف تھے یا ان کے دور میں دین میں کمی بیشی جاری تھی؟؟؟ عجیب منطق ہے آپ کی؟!
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پہلا بحری بیڑہ سیدنا امیر معاویہ نے تیار کرایا تھا کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے خلفاء اس کے قائل نہ تھے یا ان کے دور میں دین میں کمی وبیشی جاری تھی؟؟؟
آپ یہ مانتے ہیں کہ" دین نبی کریمﷺ کی وصال کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا تھا" لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دین سورہ مائدہ کی ایک آیت کے نازل ہونے کے بعد مکمل ہوگیا تھا بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت حجۃ الودع میں عرفہ کے روز نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں حجۃ الودع سے واپس مدینہ المنورہ آتے ہوئے غدیر خم میں نازل ہوئی ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خلیفہ اول کے ذہین میں باجماعت تراویح کا خیال اس لئے نہ آیا ہو کہ ان کے علم میں یہ بات ہو کہ نبی کریمﷺ نے نماز تراویح مسجد میں پڑھنے سے منع کیا ہے اور اس نماز کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے
جو کہ میں پہلے بیان کرچکا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ " اے لوگو! اپنے گھروں میں تراویح کی نماز پڑھو "
جہان تک بات ہے پہلے بحری بیڑے کی تو کتب تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے اس کا مشورہ خلیفہ دوم کو بھی دیا تھا آپ بحری بیڑا بنانے کی اجازت دیں لیکن انھوں نے سختی سے منع کیا پھر یہی مشورہ خلیفہ سوم کو بھی دیا مگر انھوں نے بھی اس پر اپنی رضامندی نہیں ظاہر کی
سوال یہ ہے کہ اجتماعی تراویح بدعت ہے یا سنت؟؟؟
آپ نے اوپر صحیح بخاری کی جو حدیث مبارکہ ذکر کی ہے، اس سے بھی اجتماعی تراویح کا سنّت ہونا ثابت ہے، دیکھئے:
حدثنا عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير،‏‏‏‏ فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي،‏‏‏‏ حتى اجتمع إليه ناس،‏‏‏‏ ثم فقدوا صوته ليلة فظنوا أنه قد نام،‏‏‏‏ فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال ‏"‏ ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ حتى خشيت أن يكتب عليكم،‏‏‏‏ ولو كتب عليكم ما قمتم به فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ فإن أفضل صلاة المرء في بيته،‏‏‏‏ إلا الصلاة المكتوبة ‏"‏‏.

دیگر روایات میں اس کی مزید صراحت ہے:
أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرج ليلة من جوف الليل، فصلَّى في المسجد، وصلَّى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فصلَّى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد، ثم قال : ( أما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم، ولكني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها ) . فتوفي رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والأمر على ذلك ... صحيح البخاري

رسول اللہ ﷺ نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے ۔ صبح کو ان صحابہ ﷢ نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ ( دوسرے دن ) اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو صحابہ ﷢ نے آپﷺ کے پیچھے نماز شروع کر دی ۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی ۔ لیکن آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا ، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا ۔ «امابعد» ! تمہاری موجودگی مجھ سے مخفی نہیں تھی لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے ، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔
کیا اس حدیث یا کسی اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز تراویح باجماعت پڑھنے کا کسی کو حکم دیا ہو جب کہ اس حدیث سے تو باجماعت نماز تراویح کی نہی ہوتی ہے
اگر آپ کے اس طرز استدلال پر چلا جائے تو پھر صوم وصال بھی سنت ٹہرتے ہیں !!!!!!!!
اور صوم وصال کا رکھنا بھی نماز تراویح کی طرح ضروری ہے؟؟؟!!!!!!
کیا آپ کو اجتماعی تراویح کی سنیت سے انکار ہے؟؟؟
ثابت کریں !!!! کیونکہ حضرت عمر نے اس نماز کے پہلے ہی دن ایسے بدعت کہا ہے ۔
 
Top