• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بچپن

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بچپن
از محمد زبیر شیخ
محترم حاضرین فورم! آج ہم ایک ایسی ہستی کا بچپن بیان کرنے جارہے ہیں جو ان پاک لوگوں میں شامل ہے جنہیں اس کائنات میں انبیا علیہم السلام کے بعد سب سے زیادہ اللہ کا پیارا ہونے کا شرف حاصل ہے۔
جی ہاں!وہ ہستیاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہیں۔ جنہیں اللہ رب العزت نے دنیا میں رہتے ہوئے بھی جنت کے سرٹیفیکیٹ عطا فرمائے۔ ان کی شان بیان کی جائے تو بہت وقت چاہیے لیکن صرف ایک آیت پیش کرنا میں اپنا حق اور فرض سمجھتا ہوں کہ یہ وہ گروہ تھا جس کے ایمان کو اللہ سبحانہ وتعالی نے دیگر لوگوں کے لیے ایک معیار بنا کر پیش کیا۔ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں: (فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا ) اگر یہ غیر مسلم تم (صحابہ)جیسا ایمان لے آئیں تو ہدایت پا جائیں۔[البقر: 137]
یہاں ہم ان مقدس ہستیوں میں سے ایک ہستی کا تذکرہ کرنے لگے ہیں جو اتباع سنت میں ان سب سے آگے تھے۔ جو عابد بھی تھے اور زاہد بھی تھے۔ جو مفتی بھی تھے اور مفسر بھی تھے۔ جو سب سے زیادہ احادیث رسول کو بیان کرنے والے صحابہ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے 2630 احادیث روایت کیں۔ (تیسیر مصطلح الحدیث عربی، ص: 173، طبع: مکتبہ بشری، کراچی)
جو تقریباً ہر سال حج کرتے تھے۔ حتی کہ حجاج بن یوسف جیسے سفاک کے عہد حکومت میں، جب خطرات بہت زیادہ تھے، گھر والوں نے روکا کہ اس دفعہ حج چھوڑ دیں۔ فرمایا: اللہ کے رسول کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ میں ضرور جاؤں گا اور ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہﷺ نے کیا تھا۔(صحیح البخاری: 1640)
جی ہاں جناب!یہ تھے سیدنا فاروق اعظم عمر بن خطاب ﷜کے بیٹے عبداللہ بن عمر ﷜ جو ابن عمر کے نام سے مشہور ہیں۔
ان کا نام ونسب کچھ یوں ہے : عبداللہ نام، ابوعبدالرحمن کنیت، والد کا نام: عمر بن خطاب، والدہ کا نام: زینب بنت مظعون الجمحیۃ۔
ان کا سلسلہ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن رباح بن عبد اللہ بن قرظ بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب۔ (تاریخ بغداد، ج: 1، ص: 182، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بعثت نبوی کے دوسرے سال پیدا ہوئے۔ یہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں بچپن میں ہی اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ازحافظ ابن حجررحمہ اللہ، ج: 4، ص: 156، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ان کے والد محترم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے اور لوگ ان کو مارنے کے لیے ان کے گھر کے پاس جمع ہوئے تو اس وقت عبداللہ بن عمر چھت پر موجود تھے۔ (صحیح البخاری: 3865)
قبول اسلام کے وقت ان کی عمر تقریبا 5سال تھی کیونکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ 6 نبوی میں مسلمان ہوئے تھے۔(الرحیق المختوم اردو، ص: 145)
پھر اپنے والد محترم سے پہلے انہوں نے ہجرت کی اور مدینہ تشریف لے آئے۔(اسد الغابۃ از ابن اثیر رحمہ اللہ، ج: 3، ص: 336، طبع: دار الکتب العلمیۃ۔بیروت)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی بڑے عبادت گزار اور نیک تھے۔ آج کل کے لڑکوں کی طرح وہ کھیل کود، فضول سرگرمیوں اور آوارہ گردی میں اپنا وقت نہیں گزارا کرتے تھے۔ بلکہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں جب کنوارہ نوجوان تھا تو مسجد میں رہا کرتا تھا۔ (صحیح البخاری: 440)
اور آج کل کے لڑکے نہ تو خود مسجد میں آتے ہیں اور نہ ہی ان کے والدین انہیں مسجد کی طرف لے کر جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ عمر ہے کہ جس کی عبادت اللہ رب العالمین کو بہت محبوب ہے۔ قیامت کے دن ان سات خوش نصیبوں میں ، جنہیں عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا، ایک وہ بھی ہے کہ جس کا دل مسجد سے لگا رہتا ہے۔ (صحیح البخاری: 660)
ان کی خوش بختی اور نیکو کاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود اللہ کے خلیل، ہمارے محبوب جناب محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''عبداللہ بہت اچھا آدمی ہے۔ اگر رات کا قیام بھی شروع کردے تو بہت ہی اچھا ہو۔'' جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺ کی اس تعریف کا پتہ چلا اور معلوم ہوا کہ آپﷺ نے قیام اللیل کی ترغیب دی ہے تو پھر راتوں کو سونا چھوڑ دیا۔ بہت کم سوتے تھے۔ (صحیح البخاری: 1121)
اور ہمارے آج کل کے نوجوان!!کتنی ہی رغبت دلائیے، کتنا ہی ثواب سنائیے، کتنی ہی فرضیت یاد دلائیے، فرض نماز پڑھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
اسی طرح ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ گویا ان کے پاس ریشم کا ایک قالین ہے اور وہ اس پر بیٹھ کر جنت میں جس طرف بھی جانا چاہتے ہیں، وہ قالین انہیں وہاں لے جاتا ہے۔ انہوں نے یہ خواب اپنی بہن سیدہ حفصہ ﷞ ، جو رسول اللہﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں، سے بیان کیا تو انہوں نے اسے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔آپﷺ نے یہ خواب سن کر فرمایا: ''تمہارا بھائی عبداللہ نیک آدمی ہے۔ ''(صحیح البخاری: 7015)
ہم بیان یہ کررہے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜ بچپن سے ہی نیک ، صالح اور عبادت گزار تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں ہمارے نوجوانوں کی طرح جہاد سے کوئی رغبت نہیں تھی ۔ جی نہیں، بلکہ ان کے جذبہ جہاد کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ ہوا جسے غزوہ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں شرکت کے لیے تیرہ سالہ سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜ نے اپنے آپ کو نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ لیکن نبیﷺ نے انہیں چھوٹا سمجھ کر واپس کردیا۔ (اسد الغابۃ از ابن اثیر رحمہ اللہ، ج: 3، ص: 336، طبع: دار الکتب العلمیۃ۔بیروت)
لیکن سیدنا ابن عمر﷜ اس سے مایوس نہیں ہوئے اور جذبہ جہاد کو سرد نہیں کیا جیسے ہم لوگ کرتے ہیں کہ اگر ذرا سا کوئی ہماری بات نہ مانے، ہماری خدمات سے فائدہ نہ اٹھائے تو ہم دین کے کام سے ہی بیزار ہوجاتے ہیں۔ بلکہ اگلے سال جب غزوہ احد ہوا تو اس موقع پر پھر چودہ سالہ عبداللہ بن عمر ﷜نے اپنے آپ کو پیش کیا، لیکن اس دفعہ بھی رسول اللہﷺ نے انہیں واپس کردیا اور جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی۔ رحمۃ للعالمین ﷺکے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜واپس ہولیے ۔ (صحیح البخاری: 4097)
غزوہ خندق جسے غزوہ احزاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، میں شرکت کے لیے پھر پندرہ سالہ ابن عمر﷜ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اجازت طلب کرتے ہیں تو رسول اللہﷺ انہیں اجازت دے دیتے ہیں۔ (صحیح البخاری: 4097)
یہ ہے چھوٹے صحابہ کرام کا جذبہ جہاد اور اس کے لیے خود کو پیش کرنا۔ اور دوسری طرف ہم لوگ ہیں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کام میں بہت پیچھے ہیں اور پیچھے رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜صرف عبادت گزار، زاہد اور مجاہد ہی نہیں تھے بلکہ بہت ذہین اور فطین بھی تھے۔ اس کا اندازہ ان کے بچپن کے اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو صحیح بخاری میں تقریباً دس مقامات پر ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے دربار عالیشان میں صحابہ کرام جمع تھے۔ باتیں ہورہی تھیں۔ یکایک نبی مکرم، رحمت عالم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کی آزمائش کے لیے ان سے ایک سوال پوچھا۔ سوال یہ تھا کہ بتاؤ وہ کون سا درخت جو مسلمان اورمؤمن جیسا ہے کہ اس کی برکتیں مسلمان کی برکتوں جیسی ہیں،اس کے پتے نہیں گرتے اور سارا سال پھل دیتا ہے۔ صحابہ کرام سوچنے لگے کہ وہ کون سا درخت ہوسکتا ہے؟ کسی نے کچھ سوچا، کسی نے کچھ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜ فرماتے ہیں کہ میں بھی اس محفل میں موجود تھا۔میں ابھی بچہ تھا اور سب سے چھوٹا تھا۔ میرے ذہن میں آگیا کہ ہونہ ہو، یہ کھجور کا درخت ہی ہے۔ لیکن چونکہ سب مجھ سے بڑے تھے اور پھر میرے والد محترم بھی وہاں تھے، اس لیے میں خاموش رہا۔ میں نے نہ بتایا کہ مجھے معلوم ہے۔ آخر کار جب کسی طرف سے آواز نہ آئی تو رسول اللہﷺ نے خود بتایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔بعد میں جب میں نے اپنے والد محترم کو بتایا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے پوچھے ہوئے سوال کا جواب معلوم تھا تو والد محترم فرمانے لگے: ’’پیارے بیٹے!اگر تم اس محفل میں جواب دے دیتے تو میں اتنی خوشی ہوتی کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ سرخ اونٹ (ہمارے دور کے حساب سے قیمتی گاڑی)بھی مل جاتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس بات سے ہوتی کہ نبی کریمﷺ کے پوچھے ہوئے سوال کا جواب میرے بیٹے نے دیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاری: 61، 62، 72، 131، 2209، 4698، 5444، 5448، 6122، 6144 ، سب روایات کو ملا کر خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے۔)
معلوم ہوا کہ باپ کے لیے سب سے بڑی خوشی اپنے بیٹے کی کامیابی ہوتی ہے۔اور اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر بیٹے کو کسی حق بات کا علم ہو اور بڑے اس سے لاعلم ہوں تو بیٹے کو چاہیے کہ بڑوں کی موجودگی میں بھی وہ بات کردے ، اس سے بڑے ناراض ہونے کی بجائے خوش ہوں گے۔ ان شاء اللہ
یہ تھیں سیدنا عبداللہ بن عمر ﷜کے بچپن سے متعلق چند باتیں، جو ہمارے علم میں تھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام﷢ کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
 
Top