• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حریز عبد اللہ بن الحسین الازدی قاضی سجستان

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔

اس راوی کو شیخ زبیر علی زئی نے ضعیف عند الجمہور قرار دیا ہے۔ لیکن جمہور کی رائے اس کے موافق نہیں لگتی۔

جارحین

1- امام احمد بن حنبل نے فرمایا: "منكر الحديث"
(العلل: 1/168)

نوٹ: امام احمد سے ثابت ہے کہ وہ اکثر راوی کے تفرد کو منکر قرار دیتے تھے۔

2- امام نسائی نے فرمایا: "ضعيف"
(الضعفاء والمتروکین: ت 328)

اور اپنی کتاب الکنی اور سنن الکبری میں امام نسائی نے فرمایا: "ليس بالقوي"
(الکنی بحوالہ تہذیب التہذیب: 5/188 و سنن الکبری للنسائی: 3/288 ح 2841)

نوٹ: لیس بالقوی بہت ہلقی جرح ہے۔

3- سعید بن ابی مریم نے کہا: "أبو حريز صاحب قياس ليس في الحديث بشيءٍ"
(الکامل لابن عدی: 5/261، وسندہ صحیح)

4- امام ابن عدی نے کہا: "عامة ما يرويه لا يتابعه عليه أحد"
(الکامل: 5/261)

5- ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی نے کہا: "غير محمود فِي الحديث"
(احوال الرجال: الترجمہ 146)

نوٹ: یہ اس کے حسن الحدیث ہونے کے منافی نہیں۔

6- حافظ ابو بکر البیہقی نے کہا: "ليس بالقوي"
(سنن الکبری للبیہقی: 5/579 ح 10953)

7- حافظ نور الدین الہیثمی نے کہا: "وضعفه جمھور الأئمة"
(مجمع الزوائد: 4/243)

نوٹ: ہیثمی کا یہ قول خود ان کی توثیق کے خلاف ہے۔

متعدلین

1- امام ابو زرعۃ الرازی نے کہا: "ثقة"
(الجرح والتعدیل: 5/35)

2- امام ابو حاتم الرازی نے کہا: "حسن الحديث، لَيْسَ بمنكر الحَدِيث، يكتب حَدِيثه."
(الجرح والتعدیل: 5/35)

نوٹ: لو جی ہلقی جرح کے مقابلے میں توثیق مفسر بھی آ گئی! اور امام احمد کی جرح کا جواب بھی آ گیا۔

3- امام ابن خزیمۃ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے
(ح 650، 2053 وغیرہ)

4- امام ابن حبان نے ابو حریز کو الثقات میں ذکر کیا اور کہا: "صدوق"
(7/24-25)
ابن حبان نے اپنی صحیح میں بھی ان سے روایات لی ہیں۔

5- امام الحاکم نے ان کی تصحیح کی اور کہا: "هذا الحديث صحيح الإسناد"
(مستدرک علی الصحیحین: 4/163 ح 7234، ووافقہ الذہبی)

6- حافظ المنذری نے ان کی حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا: "رَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ فِي الْكَبِير والأوسط وَإسْنَاد الْكَبِير حسن"
(الترغیب والترھیب: 3/117 ح 3304)

اور الکبیر کی سند میں ابو حریز الازدی موجود ہے (دیکھیں: معجم الکبیر: 11/337 ح 11932)

7- ابن خلفون نے انہیں اپنی "الثقات" میں ذکر کیا ہے
(بحوالہ اکمال تہذیب الکمال: 7/308)

8- امام الضیاء المقدسی نے المختارہ میں ان کے نام کا باب باندھ کر ان سے حدیثیں بیان کی ہیں
(ح 142، تحت ح 143، 144)

9- امام شمس الدین الذہبی فرماتے ہیں: "وَهُوَ صَالِحُ الْحَدِيثِ قَوَّاهُ بَعْضُهُمْ"
(تاریخ الاسلام: 3/676، بشار)

10- حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں: "صدوق يخطئ"
(تقریب: 3276)

11- حافظ الہیثمی نے اپنے قول کے برعکس، دوسری جگہ ایک حدیث پر حکم لگاتے ہوئے فرمایا: "رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَفِيهِ سَعْدُ أَبُو غِيلَانَ الشَّيْبَانِيُّ وَلَمْ أَعْرِفْهُ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ."
(مجمع الزوائد: 5/197)

نوٹ: اس سند میں ابو حریز بھی موجود تھا جس کی الہیثمی نے "وبقیہ رجالہ ثقات" کے تحت توثیق کر دی۔

اس کے علاوہ امام یحیی بن معین سے ابو حریز کے بارے میں دو متعارض اقوال مروی ہیں:
معاویۃ بن صالح کی روایت میں ابن معین فرماتے ہیں: "ضعيف"
(الضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/240، واسنادہ صحیح)

جبکہ ابن ابی خیثمہ فرماتے ہیں کہ: "سألت يحيى بْن مَعِين، فَقُلْتُ: أَبُو حريز، من أين هو؟ قال بصري ثقة."
(الجرح والتعدیل: 5/35، واسنادہ صحیح)

اسی طرح ابن تھمان سے بھی مروی ہے کہ ابن معین نے فرمایا: "ليس به بأس"
(الترجمہ: 320)

توثیق زیادہ راجح لگتی ہے کیونکہ بعض اوقات امام یحیی بن معین اوثق کے مقابلے میں بھی کسی راوی کو ضعیف کہہ دیتے تھے۔ اور پھر یہاں تو ان کے دو شاگرد توثیق بھی نقل کر رہے ہیں۔

یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شیخ زبیر نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ان سے اختلاف کرنے کے لیے پہلے شیخ کفایت اللہ کی رہنمائی چاہیے کہ کہیں میں غلطی پر تو نہیں!؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اور امام دارقطنی نے فرمایا: "يعتبر به"
(سوالات البرقانی: ترجمہ 268)
لیکن اس قول کے بارے میں میں نے علیحدہ سے ایک سوال پوچھا ہے اس لیے اس کو جارحین یا متعدلین میں سے کہیں نہیں رکھا۔

اس کے علاوہ امام بخاری نے اس راوی سے اپنی صحیح میں استشہاد کیا ہے۔
(تہذیب الکمال: 14/423)
 
Top