• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتباع کسے کہتے ہیں؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم بھائی السلام علیکم !
آپ نے فرمایا :

آپ کی تعریف میں ہمیں ایک عامی ،مولاناخضرحیات،مولانا اسماعیل سلفی مرحوم،حضرت ابن تیمیہ ،امام احمد بن حنبل میں کوئی فرق نظرنہیں آرہاہے۔اسی لئے ہم اس کو اتباع کی تعریف ماننے سے قاصر ہیں۔ تعریف میں اگرحدود وقیود نہ ہوں اورغیرمتعلقہ لوگوں کواس سے الگ نہ کیاجائے تو پھر اس کا فائدہ ہی کیارہ جاتاہے۔
آپ نے مذکورہ عبارت میں اتباع کی تعریف پر تیں طرح سے اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے ۔
پہلا اعتراض آپ نے یہ کیا کہ اس تعریف میں متبعین کے درمیان فرق نہیں ہے حالانکہ ان میں فرق ہے مثلا اسماعیل سلفی صاحب اور ابن تیمیہ اور امام احمد بن حنبل وغیرہ رحم اللہ الجمیع علم و فضل کے اعتبار سے ایک جیسا درجہ نہیں رکھتے ۔
اس کا جواب میرے خیال سے بالکل واضح ہے ۔ کہ قرآن کےحکم اتبعوا ما أنزل إلیکم میں چاہے کوئی عامی ہو اور چاہے کوئی علم و فضل کی معراج پر ہو سارے مسلمان ہی اتباع کے مکلف ہیں اور قرآن کی آیت سب کے سب کو مخاطب ہے ۔
میرے خیال سے آپ کا یہ اعتراض اتباع کی تعریف پر بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔ کیونکہ تعریف کا جامع و مانع ہونا ایک الگ بات ہے جبکہ اس کے تحت آنے والے افراد کا تفاوت درجات ایک الگ بحث ہے ۔ تعریف کی یہ شرط کس نے لگائی ہے کہ وہ اپنے تحت آنے والے تمام افراد میں پائےجانے والے فرق کی وضاحت پر بھی مشتمل ہو ۔
بلکہ تعریف میں اس طرح کی باتیں تو تعریف کے اصول و ضوابط کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ تعریف میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ تعریف جامع و مانع ہونے کے ساتھ ساتھ ممکن حد تک مختصر بھی ہو ۔ اگر تقلید کی تعریف میں آپ امام ابو یوسف ، طحاوی ، کرخی ، مرغینانی رحم اللہ الجمیع کے درجات بیان کرنا شروع کردیں گے تو کوئی بھی اس امر کو مستحسن قرار نہیں دے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین کی طرف سے تقلید کی جو تعریف کی جاتی ہے اس میں درجات تقلید کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اگر آپ اتباع پر ایسا اعتراض کرتے ہیں تو یہی اعتراض تو تقلید پر بھی وارد ہوتا ہے ۔
خلاصہ : اگر آپ ابن تیمیہ ، ابن حنبل یا اسماعیل سلفی وغیرہم علماء کےدرمیان حکم اتباع کے مکلف ہونے کے اعتبار سے فرق مراد لیتے ہیں تو ان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
اور اگر آپ مطلقا ان کے علم و فضل اور زہد و ورع کے اعتبار سے فرق مراد لیتےہیں تو ہم آپ سے متفق ہیں ۔ لیکن اس بات کا اتباع کی تعریف سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

دوسری بات آپ نےوہی پرانی ہی دہرادی ہے کہ تعریف میں حدودو قیود نہیں ہے ۔ تو اس کا ہم بارہا جواب دے چکے ہیں کہ اس کی حد یہ ہے کہ تمام متبعین اس میں شامل ہیں جب کے مقلدین اس میں شامل نہیں ہیں ۔ اس طرح قرآن وسنت اس میں شامل ہے او رقرآن وسنت کےعلاوہ باقی ہر بات اس سے خارج ہے ۔ اور یہ تفصیل ہم شروع سے باربار بیان کرچکےہیں ۔ پتہ نہیں آپ اس طرز عمل سے کیا نکالنا چاہ رہے ہیں ۔

ایک اور بات آپ نے عجیب سے کردی ہے کہ اتباع کی تعریف سے غیر متعلقہ لوگ الگ نہیں ہیں ۔ پتہ نہیں آپ کن لوگوں کو اتباع سے مستثنی سمجھ رہےہیں اور حکم اتباع سے چھٹی دے رہےہیں ۔ آپ نے پہلے بھی اتباع کے مکلف کون لوگ ہیں ؟اس سوال کے جواب پر اعتراض کیا تھا تب ہم نے آپ سےگزارش کی تھی کہ :

اس سوال کا جواب تین صورتوں میں محصور ہے
(١) تمام لوگ اتباع کے مکلف ہیں ۔
(٢ ) کوئی بھی اتباع کا مکلف نہیں ہے ۔
(٣) بعض لوگ مکلف ہیں
قرآن کی آیت اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم
کی رو سے پہلی صورت صحیح ہے ۔ جبکہ باقی دو صورتیں غلط ہیں اگر آپ کے نزدیک ہمارا جواب درست نہیں ہے تو پھر درست کیا ہے دلیل کےساتھ واضح کریں ۔
لیکن آپ نےاس پر کوئی رد نہیں کیا تھا ۔

اس طرح آپ نے مزید فرمایا :

جوسمجھنے کی بات ہے اسے آنجناب سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ کیاجہاں اجتہاد کی تعریف کی گئی ہے اس میں مقلدین کسی طورپر شامل ہوتے ہیں؟نہیں ہوتے
جہاں تقلید کی تعریف کی گئی ہے کیااس میں مجہتدین کی شمولیت کا کوئی امکان ہوتاہے ۔
یہ آپ نے خود ہی نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ مجتہد متبع نہیں ہوتا ۔ حالانکہ اس حوالے سےہم آپ کے ایک سوال کےجواب میں وضاحت کرچکےہیں ۔ اجتہاد اتباع کے مخالف نہیں ہے ۔ البتہ تقلید کے مخالف ہے کیونکہ مقلد کا مطمع نظر اپنے امام کا قول ہوتا ہے نہ کہ شرعی نصوص کی اتباع کے لیے اجتہاد ۔ یہ تو ہے اس کا صحیح جواب ۔
لیکن خود آپ بھی جب بعض علماء کو مجتہد فی المذہب وغیرہ کا درجہ دیتے ہیں تو آپ کی مذکورہ بات کی مخالفت ہوتی ہے اور اجتہاد اور تقلید اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ وہ عالم مقلد بھی ہوتا ہے اور مجتہد بھی ہوتا ہے ۔

آپ نے کہا کہ :

۔یہ پوری دنیا سے نرالاصرف آپ کا مزعومہ اتباع ہی ٹھہراجس میں ہرایک شامل ہوجائے۔
یہ ہمارا نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت کا حکم ہے ۔

آپ نے کہا :

کتب اصول فقہ میں اتباع کی تعریف الگ سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے بداہتایہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ صرف دوکٹیگری کے قائل تھے ۔یاتوآدمی مجتہد ہوگا یامقلد ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اتباع کی تعریف بھی نہیں کی ہے۔جیساکہ میں نے اہل الرائے کی بحث میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ کی کتابوں سے نقل کیاہے کہ لوگوں کی دوقسمیں ہیں یاتومجتہد یامقلد ۔
یہأں آپ نے تمام لوگوں کو دو انواع میں محصور کردیا ہے کہ یا تو مجتہد ہے یا مقلد ہے تیسری کوئ چیز نہیں ہے ۔ حالانکہ آپ کے یہ حصر بھی صحیح نہیں ہے ۔ مثلا ً
ایک آدمی کسی عالم سے دلیل پوچھ لیتا ہے اور اس دلیل کے مطابق عمل کرلیتا ہے نہ تو وہ مجتہد ہے اور نہ ہی وہ مقلد ہے ۔ مجتہد اس وجہ سےنہیں ہے کہ اس نے اجتہاد نہیں کیا اور تقلید اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس نے قرآن و سنت کی بات کی پیروی کی ہے نہ کہ کسی آدمی کی رائے کی ۔

بھائی آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ بات کو لمبا کرنے کی بجائے سمیٹنے کی کوشش کریں اور آخر میں وہی باتیں نقل کرتا ہوں جو اس سے پہلے والی مشارکت میں عرض کی تھیں کہ

(١)آپ کہتے ہیں کہ کسی نے اتباع کی تعریف نہیں کی تو کیا علماء اتباع کا انکار کرتے تھے ؟
(٢) آئمہء مقلَدین( مثلا آئمہ اربعہ ) تقلید کرتے تھے یا اتباع کرتے تھے ؟ اگر اتباع کرتے تھے تو کیا انہوں نے اس اتباع کی تعریف کی ہے ؟
(٣) کیا ہر چیز کی ایک خاص تعریف ہونا ضروری ہے ؟

اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ایک ہی بات بار بار گھوم پھر سامنے آئے توکوفت ہوتی ہے۔
میں ماقبل میں عرض کرچکاہوں کہ اتباع کی دوحیثیتیں ہیں۔
ایک حیثیت توعمومی ہے کہ ہرمسلمان اتباع کا مکلف ہے۔
دوسری حیثیت اتباع کی خصوصی ہے۔
یعنی مجتہد کیلئے اتباع کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اجتہاد کرے گا اس لحاظ سے اجتہاد کی الگ تعریف ہمیں کتب فقہ میں ملتی ہے جس میں صرف مجتہدین شامل ہوتے ہیں۔
اب جس طرح مجتہدین کی ہمیں تعریف ملتی ہے تواسی طرح اتباع کی کوئی ایسی بھی تعریف توہمیں ملنی چاہئے نا جس میں صرف عامی شامل ہوں۔ اور اس کا دائرہ مجتہدین تک وسیع نہ ہو۔
اگرآپ کا دعویٰ یہ ہے کہ عامی تقلید نہیں کرے گا بلکہ اتباع کرے گا۔ہم تو تقلید کوبھی اتباع میں ہی شامل سمجھتے ہیں لہذا عامیوں کیلئے تقلید کی کیاتعریف ہوگی وہ بھی کتب اصول فقہ میں موجود ہے۔
اب عامیوں کیلئے اتباع کی کیاتعریف ہے وہ آنجناب بیان کریں۔
یہ عجیب طرفہ تماشاہے دعویٰ تویہ ہے کہ عامی اتباع کریں گے اورجب اتباع کی تعریف کرنے کوکہاجاتاہے تو ایک عمومی چیز پیش کردی جاتی ہے۔جس میں مجتہد اورغیرمجتہد میں کوئی فرق نہیں ہوتاہے۔
یہأں آپ نے تمام لوگوں کو دو انواع میں محصور کردیا ہے کہ یا تو مجتہد ہے یا مقلد ہے تیسری کوئ چیز نہیں ہے ۔ حالانکہ آپ کے یہ حصر بھی صحیح نہیں ہے ۔ مثلا ً
ایک آدمی کسی عالم سے دلیل پوچھ لیتا ہے اور اس دلیل کے مطابق عمل کرلیتا ہے نہ تو وہ مجتہد ہے اور نہ ہی وہ مقلد ہے ۔ مجتہد اس وجہ سےنہیں ہے کہ اس نے اجتہاد نہیں کیا اور تقلید اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس نے قرآن و سنت کی بات کی پیروی کی ہے نہ کہ کسی آدمی کی رائے کی ۔
یہ صرف ہماری بات نہیں ہے دیگر علماء اصول فقہ کی بھی یہی بات ہے۔ آپ کو بارہاتوجہ دلائی گئی ہے کہ اہل الرائے کے مراسلہ میں ہم نے اس پر فقہائے شافعیہ،مالکیہ اورحنابلہ کی کتب اصول فقہ سے نصوص پیش کئے ہیں۔
آپ کا پوچھاگیاسوال بے معنی ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکاہوں کہ دلیل سننے اوردلیل سمجھنے میں بہت فرق ہے۔
پھر دوسری بات ماقبل میں میں نے پوچھی تھی کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام کے کے وہ فتاوی جات جوبغیر دلیل کے کتب حدیث میں مذکور ہیں اورسائلین نے بغیر دلیل کے ان پر عمل کیاہے تویہ اتباع ہوگی یاتقلید ہوگی ۔وہاں پرآنجناب نے توفورایہ بحث شروع کردی ہے
اگر مسئلہ قرآن وسنت کےمطابق بتائے گا تو اتباع ہے اور اگر اپنی رائے یا کسی دوسرے کی رائے جو قرآن وسنت کے مخالف ہے بتاے گا تو اس پر عمل کرنے والا تقلید کا ارتکا ب کرے گا ۔
قرآن وسنت کےمطابق ہونے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن سائل کا دلیل طلب کرنا یا نہ کرنا یہ دلیل کےوجود یا عدم کو لازم نہیں ہے ۔
اب اس کا فیصلہ کون کرے گاکہ مفتی نے جو مسئلہ بتایاہے وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یااس کے خلاف ہے؟صحابہ کرام اورتابعین عظام سے مختلف مسائل جومروی ہیں ظاہر سی بات ہے کہ صحیح ان مین سے قران وسنت کے مطابق ایک ہی ہوگا بقیہ پر جوسائلین نے عمل کیاہے تو وہ اتباع ہوئی یاتقلید ہوئی۔
کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو نباہنے کیلئے سوجھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔یہاں ایک لایعنی بات کہ عامی اتباع کریں جس کی کتب اصول فقہ سے قطعاتائید نہیں ہوتی۔بار بار بات کو اس ڈگر سے اس ڈگر اوراُس ڈگر اِس ڈگر پر کیاجارہاہے۔خیر دیکھتے ہیں کہ کیانتیجہ نکلتاہے اس بحث کا۔
ہم پھر سے وہی مطالبہ دوہراناچاہتے ہیں کہ عامی تقلید نہیں کریں گے اتباع کریں گے اس کی کیا دلیل ہے اورکتب اصول فقہ سے اس کی کتنی تائید ہوتی ہے۔
عامی کیلئے تقلید کے مقابل میں جو اتباع آپ اورآپ کے قبیل کے لوگ پیش کرتے ہین اس کی کیاتعریف ہے؟کیونکہ بات تو تبھی بڑھے گی جب کہ اتباع کی تعریف ہوگی ۔
آپ پھر عمومی تعریف کرکے بات کو گھمانے کی کوشش نہ کیجئے گا۔
عبادت کی ایک عمومی تعریف ہے پھر ہرعبادت نماز روزہ زکوٰۃ حج کی اپنی تعریفات ہیں۔
اسی طرح اتباع کی عمومی تعریف کو چھوڑ کر اتباع بمقابل تقلید کی تعریف کیجئے تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔اورایسی تعریف کیجئے جو کتب اصول فقہ میں بھی مذکورہو خانہ زاد تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

ایک ہی بات بار بار گھوم پھر سامنے آئے توکوفت ہوتی ہے۔
لہذا بار بار ایک ہی راگ نہ الاپیں اگر کوئی نئی بات ہے تو فرمائیں تاکہ آپ کوفت سے بچ جائیں ۔

میں ماقبل میں عرض کرچکاہوں کہ اتباع کی دوحیثیتیں ہیں۔
ایک حیثیت توعمومی ہے کہ ہرمسلمان اتباع کا مکلف ہے۔
دوسری حیثیت اتباع کی خصوصی ہے۔
ایک طرف تو آپ کو اتباع کی تعریف ہی سمجھ نہیں آتی ہے اور دوسری طرف آپ اتباع کی مختلف حیثیتیں بھی سمجھ رہے ہیں ۔ آپ کو اصول فقہ کی کتابوں سے تعریف تو مل نہیں سکی یہ حیثیتیں کیسے ڈھونڈ نکالی ہیں حوالہ دیں ۔
یہ وضاحت کریں کہ قرآن کی آیت اتبعوا ماأنزل إلیکم من ربکم سے ان دونون حیثیتوں میں کون سی حیثیت مراد ہے ؟ اور اس تخصیص کی دلیل بھی ساتھ واضح کریں ؟

آپ نے لکھا :

یعنی مجتہد کیلئے اتباع کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اجتہاد کرے گا اس لحاظ سے اجتہاد کی الگ تعریف ہمیں کتب فقہ میں ملتی ہے جس میں صرف مجتہدین شامل ہوتے ہیں۔
اب جس طرح مجتہدین کی ہمیں تعریف ملتی ہے تواسی طرح اتباع کی کوئی ایسی بھی تعریف توہمیں ملنی چاہئے نا جس میں صرف عامی شامل ہوں۔ اور اس کا دائرہ مجتہدین تک وسیع نہ ہو۔
یہاں پھر آپ نے مجتہد اور عامی کے درمیان عدم فرق کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ اس کی ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں کہ :
میرے خیال سے آپ کا یہ اعتراض اتباع کی تعریف پر بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔ کیونکہ تعریف کا جامع و مانع ہونا ایک الگ بات ہے جبکہ اس کے تحت آنے والے افراد کا تفاوت درجات ایک الگ بحث ہے ۔ تعریف کی یہ شرط کس نے لگائی ہے کہ وہ اپنے تحت آنے والے تمام افراد میں پائےجانے والے فرق کی وضاحت پر بھی مشتمل ہو ۔
بلکہ تعریف میں اس طرح کی باتیں تو تعریف کے اصول و ضوابط کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ تعریف میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ تعریف جامع و مانع ہونے کے ساتھ ساتھ ممکن حد تک مختصر بھی ہو ۔ اگر تقلید کی تعریف میں آپ امام ابو یوسف ، طحاوی ، کرخی ، مرغینانی رحم اللہ الجمیع کے درجات بیان کرنا شروع کردیں گے تو کوئی بھی اس امر کو مستحسن قرار نہیں دے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین کی طرف سے تقلید کی جو تعریف کی جاتی ہے اس میں درجات تقلید کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اگر آپ اتباع پر ایسا اعتراض کرتے ہیں تو یہی اعتراض تو تقلید پر بھی وارد ہوتا ہے ۔
آپ کو چاہیے تھا اپنا مطالبہ دوہرانے کی بجائے ہماری طرف سے جو وضاحت رکھی گئی تھی اس پر تنقید کرتے یا اس کی تصدیق کر لیتے ۔ جب آپ بار بار ایسا کریں گے تو ہمارے جواب دوہرانے سے آپ کو کوفت ہو گی ۔
ہماری آپ سے گزارش ہے کہ ہم عامی اور مجتہد میں فرق کرتےہیں لیکن فرق کا ہمارے نزدیک یہ مطلب نہیں کہ ایک متبع اور دوسرا مقلد بن جائے ـ ۔ فافہم وفقک اللہ ۔

آگے لکھتے ہیں :

اگرآپ کا دعویٰ یہ ہے کہ عامی تقلید نہیں کرے گا بلکہ اتباع کرے گا۔ہم تو تقلید کوبھی اتباع میں ہی شامل سمجھتے ہیں لہذا عامیوں کیلئے تقلید کی کیاتعریف ہوگی وہ بھی کتب اصول فقہ میں موجود ہے۔
سبحان اللہ ۔۔۔ الآن حصحص الحق ۔ قطع نظر اس بات سے کہ آپ کی اس بات میں کتنی سچائی ہے ۔ یہأں آپ نے جو دعو ی کردیا ہے کہ ہم بھی اتباع کرتے ہیں اس سے اتباع کی تعریف آپ کے نقطہ نظر سے آپ پر بھی واجب ہو جاتی ہے ۔ لہذا صرف ہمیں سے کیوں اتباع کی تعریف کا مطالبہ کیاجارہا ہے ۔ بسم اللہ کریں اور اتباع کی تعریف فرمائیں ۔
ویسے آپ کی مذکورہ عبارت او ر اس عنوان میں شروع شروع میں لکھی گئی ایک عبارت میں کافی فرق نظر آرہا ہے اگر بھول گئے ہیں تو ذرا ملاحظہ فر مائیں :

اتباع کی تعریف اورحدود وقیود کے بیان کرنے میں اس قدر سوال وجواب !اندازہ نہیں تھاکہ جولوگ اتباع کرتے ہیں انہیں اتباع کی تعریف کرنے میں اس قدر مشکل پیش آئے گی۔
آپ سے گزارش ہے کہ ان ’’ جو لوگوں ‘‘ میں اب آپ بھی شامل ہو گئے ہیں اب تو کوئی کوشش کریں ۔

آپ نے لکھا :
یہ عجیب طرفہ تماشاہے دعویٰ تویہ ہے کہ عامی اتباع کریں گے اورجب اتباع کی تعریف کرنے کوکہاجاتاہے تو ایک عمومی چیز پیش کردی جاتی ہے۔جس میں مجتہد اورغیرمجتہد میں کوئی فرق نہیں ہوتاہے۔
یہاں بھی وہی بیچارے فرق کا آپ نے رونا رویا ہے جس کا تعریف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔

یہ صرف ہماری بات نہیں ہے دیگر علماء اصول فقہ کی بھی یہی بات ہے۔ آپ کو بارہاتوجہ دلائی گئی ہے کہ اہل الرائے کے مراسلہ میں ہم نے اس پر فقہائے شافعیہ،مالکیہ اورحنابلہ کی کتب اصول فقہ سے نصوص پیش کئے ہیں۔
آپ نے عقلی انداز میں حصر کرنے کی کوشش کی تھی ہم نے اس کو توڑ کر دکھادیا ۔ اب بھی کوئی کسر باقی ہے ۔؟ باقی آپ کے باربار اہل الرائے والا مراسلہ پڑھنےکی تلقین کا شکریہ ۔ آپ بات کو آگے چلنے تو دیں سب کچھ اپنے مقام پر آتا رہے گا ۔
آپ نے فرمایا :
آپ کا پوچھاگیاسوال بے معنی ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکاہوں کہ دلیل سننے اوردلیل سمجھنے میں بہت فرق ہے۔
پتہ نہیں آپ کس سوال پر بے معنی ہونے کا فتوی صادر کر رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ دلیل سننے اور سمجھنے میں بہت فرق ہے ۔ ہم نے یہ سوال کیے تھے جن کو آپ نے چھوا تک نہیں کہ :
(١)آپ کہتے ہیں کہ کسی نے اتباع کی تعریف نہیں کی تو کیا علماء اتباع کا انکار کرتے تھے ؟
(٢) آئمہء مقلَدین( مثلا آئمہ اربعہ ) تقلید کرتے تھے یا اتباع کرتے تھے ؟ اگر اتباع کرتے تھے تو کیا انہوں نے اس اتباع کی تعریف کی ہے ؟
(٣) کیا ہر چیز کی ایک خاص تعریف ہونا ضروری ہے ؟
آپ نے لکھا :
اب اس کا فیصلہ کون کرے گاکہ مفتی نے جو مسئلہ بتایاہے وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یااس کے خلاف ہے؟صحابہ کرام اورتابعین عظام سے مختلف مسائل جومروی ہیں ظاہر سی بات ہے کہ صحیح ان مین سے قران وسنت کے مطابق ایک ہی ہوگا بقیہ پر جوسائلین نے عمل کیاہے تو وہ اتباع ہوئی یاتقلید ہوئی۔
اس عبارت میں آپ کے ملتے جلتے دو سوال ہیں ۔
(١) یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ مفتی کا فتوی قرآن وسنت کے مطابق ہے یا خلاف ؟
اس سوال کا اتباع کی تعریف سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بہر صورت پھر بھی عرض کرتے ہیں کہ مطابق یا خلاف ہونے کا معیار تو قرآن وسنت ہی ہیں۔ اور اس کا فیصلہ علماء کریں گے ۔ اور عامی کو اگر اس طرح کی صورت حال پیش آئی کہ وہ صحیح غلط میں فرق نہیں کرسکے گا تو علماء سے رجوع کرے جو بات دلیل کے ساتھ ہو اس پر عمل کر لے ۔ باقی اگر پھر بھی اس سے غلطی ہوگئی ہے تو اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ۔ لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا
لیکن یہاں سے عامی کے لیے تقلید تو کسی صورت ثابت نہیں ہوتی کہ وہ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی بات کی تقلید اپنے اوپر لازم کر لے ۔ یہی مسئلہ تو مجتہد کو بھی پیش آسکتا ہےکہ وہ کسی مسئلہ میں اجتہاد کرے لیکن اس سے غلطی ہوجائے تو کیا وہ بھی تقلید کرے گا ؟
اور ویسے ہم نے پہلے بھی آپ سے عرض کی تھی کہ کسی مسئلہ میں مقلَد کا قول تلاش کرنے کے لیے جتنی مشقت یا علم کی ضرورت ہوتی ہے قرآن وسنت سے حکم تلاش کرنا اس سے زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔ بلکہ قرآن وسنت کے مطابق حکم تلاش کرنا مقلَد کا قول تلاش کرنے سے کئی گنا آسان ہے ۔
اگر آپ اس سے واقف نہیں ہیں تو تجربہ کرکے دیکھ لیں کسی عام آدمی کو قرآن یا حدیث کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لیے دیے دیں اور اس کی رہنمائی کردیں ۔ پھر کچھ دیر کیلیے اس کو قدوری ، ہدایہ وغیرہ کا ترجمہ بھی سامنےرکھ دیں آپ کو پتہ چل جائے گا حقیقت کیا ہے ۔بلکہ اگر عوام کو پتہ چل جائے کہ آپ کی فقہ کی کتب کیسی ہیں تو ضرور تقلید سے توبہ کرلیں ۔
اسی طرح قرآن وسنت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی ہر ہر مسئلہ میں گفتگو کی ہے ؟ یقینا نہیں ۔ جن مسائل کا حکم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے نہیں ملتا اس کے لیے آپ کیا کرتے ہیں ۔ آپ کہیں گے کہ ان کے اقوال میں اجتہاد کرکے حکم تلاش کرتے ہیں ۔ تو یہی اجتہاد قرآن وسنت کی نصوص میں کرنا ممکن کیوں نہیں ہے ؟
ایک اور سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کے نزدیک تقلید واجب ہے ۔ کیا امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے یا آج کے کسی عالم کی ؟
اوپر جو بات کی گئی ہےیہ اس صورت میں ہے جب آپ امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب قرار دیتےہیں ۔ اگر کسی آج کے عالم کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں تو پھر امام ابو حنیفہ کی تقلید کا کیا معنی ہے ؟
(٢) صحابہ کرام و تابعین عظام سے ایک ایک مسئلے میں مختلف اقوال ہیں آپ نے کہا کہ ظاہر ہے قرآن وسنت کے مطابق تو ایک ہی ہوگا ۔ باقی دیگر فتاوی پر عمل کرنا تو تقلید ہی ہوگا ؟
یہ ہی اعتراض اگر یوں کہا جائے کہ جن صحابہ کرام کے ایک مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں تو کیا ایک صحابی کے علاوہ جس کا قول قرآن وسنت کے مطابق ہے باقی سب نے قرآن وسنت کی مخالفت کی تھی ؟ توشاید اگلے اعتراض کی ضرورت نہیں پیش آئے گی ۔
اور یہأں سے تقلید ثابت ہونےکا کوئی امکان نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر کسی نے حسب استطاعت قرآن وسنت کا حکم تلاش کرنےکی کوشش کی ہے ۔ یہاں نہ تو مفتیان کی نیت قرآن وسنت کے علاوہ کسی کے قول پر فتوی مقصود تھا اور نہ سائلین کا مطمع نظر قرآن و سنت سے ہٹ کر کسی کی رائے تھی ۔ اس میں اور تقلید میں بعد المشرقین ہے ۔ کیوں کہ یہاں کسی نے نہیں کہاتھا نحن مقلدون یجب علینا تقلید فلان اور اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو یہ تقلید ہے جو کہ منہی عنہ ہے ۔ بینہما برزخ لا یبغیان

لکھتےہیں :
کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو نباہنے کیلئے سوجھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔یہاں ایک لایعنی بات کہ عامی اتباع کریں جس کی کتب اصول فقہ سے قطعاتائید نہیں ہوتی۔بار بار بات کو اس ڈگر سے اس ڈگر اوراُس ڈگر اِس ڈگر پر کیاجارہاہے۔خیر دیکھتے ہیں کہ کیانتیجہ نکلتاہے اس بحث کا۔
بھائی آپ سے گزارش ہے کہ ذرا حوصلے سے بات کیا کریں جوش کی بجائے ہوش میں آ کر لکھیں تاکہ کوئ فائدہ مند گفتگو ہو سکے ۔ آپ کی مذکورہ عبارت اخلاقی حوالے سے کیسی ہے اس سے غض النظر کرتے ہوئے دیگر کئی اعتبار سے محل نظر ہے مثلا :
(١) آ پ نے یہأں عامی کی اتباع کو لا یعنی بات قرار دیا ہے ۔ اس اتباع کا حکم ہم قرآن سے ثابت کرچکےہیں گویا کہ آپ نے قرآن کی آیت سے ثابت حکم کی اتباع و پیروی کو لا یعنی قراردیا ہے ۔ یا تو آپ کہیں کہ عامی کی اتباع قرآن کی آیت اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم سے نہیں نکلتی یا پھر اپنے الفاظ پر غور کریں ۔
(٢ ) یہاں آپ نے عامی کو خاص کیوں کیا ہے ہم نے تو اس میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ ہم تو کہتے ہیں تمام لوگ اتباع کے مکلف ہیں ۔ چاہےکوئ مجتہد ہو یا عامی ۔ یہاں سے لگتا ہے کہ مجتہد کے بارے میں آپ کا نظریہ ہےکہ وہ اتباع کر سکتا ہے ۔ ذرا مجتہد کی اتباع کا حکم کیا فتوی صادر فرمائیں ۔
(٣) آپ نے کہا کہ عامی کی اتباع کی اصول فقہ کی کتب سے قطعا تائید نہیں ہوتی ۔ تو کیا مجتہدین کی اتباع کی تائید ہوتی ہے ؟ اور کیا آپ کے نزدیک کوئی ایسا مجتہد ہے جو امام ابوحنیفہ کی تقلید سے نکل کر اجتہاد کر سکتا ہے ؟

پھر پرانی بات دوہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

ہم پھر سے وہی مطالبہ دوہراناچاہتے ہیں کہ عامی تقلید نہیں کریں گے اتباع کریں گے اس کی کیا دلیل ہے اورکتب اصول فقہ سے اس کی کتنی تائید ہوتی ہے۔
عامی کیلئے تقلید کے مقابل میں جو اتباع آپ اورآپ کے قبیل کے لوگ پیش کرتے ہین اس کی کیاتعریف ہے؟کیونکہ بات تو تبھی بڑھے گی جب کہ اتباع کی تعریف ہوگی ۔
آپ پھر عمومی تعریف کرکے بات کو گھمانے کی کوشش نہ کیجئے گا۔
گزارش ہےکہ اب تو آپ نے بھی ماشاء اللہ اتباع کا دعوی کردیا ہے ۔ آپ بھی تو اس کی تعریف کرنےکے اتنےہی ذمہ دار ہیں جتنا ہمیں ٹھہرا رہےہیں ۔ یا پھر آپ کی اتباع کا تقلید کے ساتھ بھائی چارہ ہے اس لیے تعریف کی محتاج نہیں ہے ؟
رہی یہ بات کہ ہم اتباع کی تعریف کریں تو وہ ہم پہلے کر چکے ہیں اسے چاہے آپ عمومی سمجھیں یا خصوصی ہمارے نزدیک یہی اتباع ہے ۔ اور اس سے اتنا خوف نہ کھائیں یہی قرآن کا حکم ہے اور یہ ہی نجات کا راستہ ہے ۔
اور جتنا وقت آپ ہم سے تعریف کا مطالبہ کرنے میں صرف کررہے ہیں اتنا وقت مذکورہ تین سوالات کا جواب تلاش کرنے میں لگائیں کوئی بعید نہیں کہ اللہ آپ کا ذہن کھول دے اور آپ کو بات سمجھ آجائے ۔

اسی طرح اتباع کی عمومی تعریف کو چھوڑ کر اتباع بمقابل تقلید کی تعریف کیجئے تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔اورایسی تعریف کیجئے جو کتب اصول فقہ میں بھی مذکورہو خانہ زاد تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ نے اپنی سابقہ رٹ کو ابھی تک برقرار رکھا ہوا ہے حالانکہ میں اعتراف کر چکا ہوں کہ :
اب اتنی وضاحت کے باوجود اگر آپ مجھ سےتحریری طور پر لکھوانا چاہتےہیں کہ میں کسی اصولی کی کتاب سے آپ کی مطلوبہ تعریف اتباع کے سلسلے میں نہیں دکھا سکا تو میں حاضر ہوں ۔
اب اگر آپ اس سے کوئی نتیجہ نکالنا چاہتےہیں تو ضرور نکالیں ۔ تاکہ بات جلدی ختم ہو ۔ لیکن اس پر کیے گئے ہمارے سوالات کا جواب دینا نہ بھولیے گا ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس فورم پر تقلید اور اتباع میں بحث میں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ یہاں فرق صرف الفاظ کا ہے ۔ اگر کوئی عامی کسی مسئلہ میں ایک متقی و پرہیزگار عالم سے بغیر دلیل کے مسئلہ پوچھے تو میرے خیال میں کسی فریق کو اعتراض نہیں ہو گا ۔ نام اس کو اتباع کا دیں یا تقلید کا۔اصل میں ہر شخص کو یہ فکر ہونی چاھئیے کہ اس کا عمل قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اگر کسی شخص میں اجتھاد کی اھلیت ہے تو خود اجتھاد کر کے معلوم کرے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا حکم ہے ۔ اگر اس میں اجتھاد کی اہلیت نہیں بلکہ وہ ایک عام مسلمان ہے تو کسی مجتھہد کی بات پر عمل کرے ۔ مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ہونی چاہئیے بھلے اس کو تقلید کا نام دیں یا اتباع کا ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اس فورم پر تقلید اور اتباع میں بحث میں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ یہاں فرق صرف الفاظ کا ہے ۔ اگر کوئی عامی کسی مسئلہ میں ایک متقی و پرہیزگار عالم سے بغیر دلیل کے مسئلہ پوچھے تو میرے خیال میں کسی فریق کو اعتراض نہیں ہو گا ۔ نام اس کو اتباع کا دیں یا تقلید کا۔اصل میں ہر شخص کو یہ فکر ہونی چاھئیے کہ اس کا عمل قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اگر کسی شخص میں اجتھاد کی اھلیت ہے تو خود اجتھاد کر کے معلوم کرے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا حکم ہے ۔ اگر اس میں اجتھاد کی اہلیت نہیں بلکہ وہ ایک عام مسلمان ہے تو کسی مجتھہد کی بات پر عمل کرے ۔ مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ہونی چاہئیے بھلے اس کو تقلید کا نام دیں یا اتباع کا ۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/نماز-5/سجدہ-سہوكے-أحکام-1066/index2.html#post6161
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
لہذا بار بار ایک ہی راگ نہ الاپیں اگر کوئی نئی بات ہے تو فرمائیں تاکہ آپ کوفت سے بچ جائیں ۔
کوفت اس لئے ہورہی ہے کہ آپ سے پوچھاجاتاہے کہ زیدکون ہے توجواب ملتاہے کہ عمر کا بھائی اورپھر پوچھاجاتاہے کہ عمر کابھائی کون ہے توجواب ملتاہے کہ زید ہے ۔اس طرح تعریف المجہول بالمجہول سے کنفیوژن توضرور پیداہوتاہے لیکن بات سلجھتی نہیں ہے۔
ایک طرف تو آپ کو اتباع کی تعریف ہی سمجھ نہیں آتی ہے اور دوسری طرف آپ اتباع کی مختلف حیثیتیں بھی سمجھ رہے ہیں ۔ آپ کو اصول فقہ کی کتابوں سے تعریف تو مل نہیں سکی یہ حیثیتیں کیسے ڈھونڈ نکالی ہیں حوالہ دیں ۔ یہ وضاحت کریں کہ قرآن کی آیت اتبعوا ماأنزل إلیکم من ربکم سے ان دونون حیثیتوں میں کون سی حیثیت مراد ہے ؟ اور اس تخصیص کی دلیل بھی ساتھ واضح کریں ؟
اتباع کی تعریف اس لئے سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اولاتویہ تعریف خانہ زاد اورطبع زاد ہے۔کتب اصول فقہ میں اس کاکہیں کوئی وجود نہیں ۔اصول فقہ کی تعریف سے اگرآپ کو ہی مذکورہ تعریف مل گئی ہوتی توپھر آپ نے ہی بیان کردیناتھا ۔لیکن چونکہ آنجناب کوکوشش میں ناکامی ہوئی ہے اورسوائے قاضی شوکانی کی کتاب کے کہیں بھی نہیں ملی۔اتباع کی یہ دوحیثیتیں توجگ ظاہر ہیں۔ میں نے ماقبل میں مثال بھی دی کہ عبادت ایک عام لفظ ہے جس کا اطلاق تمام عبادتوں پر ہوتاہے لیکن جب شکل بدلتی ہے تونام بھی بدل جاتاہے کبھی اس کانام نماز ہوتاہے کبھی روزہ ،کبھی زکوٰۃ اورکبھی حج اورکبھی کچھ دوسرا۔بعینہ یہی شکل اتباع کی بھی ہے ۔اگرآدمی صاحب علم ونظرہے تواس کیلئے اتباع یہ ہے کہ وہ خود سے اجتہاد کرے۔اگراجتہاد کی صلاحیت سے متصف نہیں ہے۔لیکن دلائل مین غوروفکر کرسکتاہے تواس کوجودلائل سے راجح معلوم ہواس پر عمل کرے اس کیلئے یہی اتباع ہے ۔(نوٹ:حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں تقلید کی نفی کرنے کے بعد کہ آدمی اتباع کرے گا۔ اوراس پر دلائل دینے کے بعد آخر میں عوام کیلئے تقلید کی ضرورت کومحسوس کیاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ ان کے نزدیک اتباع اہل علم کاکام ہے۔ عامیوں کاکام نہیں ہے)اوراگراس کی بھی صلاحیت سے محروم ہے تو وہ تقلید کرے ۔یہی اس کے حق میں اتباع ہے۔یہ توہماراموقف ہے جو میں کئی مواقع پر ظاہر کرچکاہوں۔اجتہاد اورتقلید کی واضح تعریف کتب اصول فقہ میں مذکورہ ہے۔
آپ کا موقف یہ ہے کہ عامی بھی اتباع کرے۔اس لحاظ سے جب اتباع کی تعریف پوچھی جاتی ہے توآپ اتباع کی عمومی تعریف بیان کرنے لگتے ہیں۔اورجب اس پر اعتراض کیاجاتاہے توآنجناب چیں بجبیں ہوتے ہیں۔

یہاں پھر آپ نے مجتہد اور عامی کے درمیان عدم فرق کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ اس کی ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں کہ :
میرے خیال سے آپ کا یہ اعتراض اتباع کی تعریف پر بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔ کیونکہ تعریف کا جامع و مانع ہونا ایک الگ بات ہے جبکہ اس کے تحت آنے والے افراد کا تفاوت درجات ایک الگ بحث ہے ۔ تعریف کی یہ شرط کس نے لگائی ہے کہ وہ اپنے تحت آنے والے تمام افراد میں پائےجانے والے فرق کی وضاحت پر بھی مشتمل ہو ۔
بلکہ تعریف میں اس طرح کی باتیں تو تعریف کے اصول و ضوابط کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ تعریف میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ تعریف جامع و مانع ہونے کے ساتھ ساتھ ممکن حد تک مختصر بھی ہو ۔ اگر تقلید کی تعریف میں آپ امام ابو یوسف ، طحاوی ، کرخی ، مرغینانی رحم اللہ الجمیع کے درجات بیان کرنا شروع کردیں گے تو کوئی بھی اس امر کو مستحسن قرار نہیں دے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین کی طرف سے تقلید کی جو تعریف کی جاتی ہے اس میں درجات تقلید کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اگر آپ اتباع پر ایسا اعتراض کرتے ہیں تو یہی اعتراض تو تقلید پر بھی وارد ہوتا ہے ۔
آپ کوچند ناموں کی مثال دی گئی تھی اوراس کو آنجناب پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ میں نے یہ کب کہاہے کہ تمام افراد کی شمولیت ہونی چاہئے ۔زید عمر بکر اورفلاں فلاں ۔ہ
میراتوکہنایہ تھاکہ آپ کہتے ہیں کہ عامی تقلید نہیں کرے گااتباع کرے گا۔پھراتباع کی تعریف ایسی کرتے ہیں جس میں مجتہد اورغیرمجتہد سبھی شامل ہوگئے تو تعریف کا فائدہ کیاہوا۔دوسرے لفظوں میں اتباع کی تعریف کے باوجود اگر مسائل کااستنباط واستخراج کرنے والوں کیلئے کتب فقہ میں اجتہاد اورمجتہد کی تعریف الگ سے موجود ہے تو جو مسائل کا استخراج واستنباط نہیں کرسکتے اورآپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تقلید نہیں کریں گے بلکہ اتباع کریں گے تو پھراس اتباع کی تعریف بھی توکتب اصول فقہ میں مذکور ہونی چاہئے ۔ہم اسی اتباع کی تعریف کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہمیں توکتب اصول فقہ میں عامیوں کیلئے اتباع کی تعریف نظرنہیں آئی ہے۔ ہوسکتاہے کہ ہمیری تلاش اورجستجو میں کمی رہ گئی ہو۔آپ خود تلاش کریں ۔ ماشاء اللہ جہاں آپ موجود ہیں وہاں وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ہوسکتاہے کہ کچھ مل جائے۔

ہماری آپ سے گزارش ہے کہ ہم عامی اور مجتہد میں فرق کرتےہیں لیکن فرق کا ہمارے نزدیک یہ مطلب نہیں کہ ایک متبع اور دوسرا مقلد بن جائے ـ ۔ فافہم وفقک اللہ ۔
ہم نے آپ کی گزارش سمجھ لی۔ ہمارے نزدیک تقلید کرنے والابھی غیرمتبع نہیں ہیں اورنہ ہی اجتہاد کرنے والا۔ بلکہ دونوں اتباع ہی کررہے ہیں۔ایک استنباط کے ذریعہ اوردوسرااہل علم سے سوال کے ذریعہ۔جیساکہ ابن عبدالبر خطیب بغدادی اوردیگر اصول فقہ کے مصنفین نے واضح کیاہے۔تقلید اوراجتہاد کی واضح تعریف موجود ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ عامی تقلید نہیں کرے گااتباع کرے گا۔ہم اسی حیثیت سے اتباع کی تعریف کا مطالبہ کررہے ہیں۔

سبحان اللہ ۔۔۔ الآن حصحص الحق ۔ قطع نظر اس بات سے کہ آپ کی اس بات میں کتنی سچائی ہے ۔ یہأں آپ نے جو دعو ی کردیا ہے کہ ہم بھی اتباع کرتے ہیں اس سے اتباع کی تعریف آپ کے نقطہ نظر سے آپ پر بھی واجب ہو جاتی ہے ۔ لہذا صرف ہمیں سے کیوں اتباع کی تعریف کا مطالبہ کیاجارہا ہے ۔ بسم اللہ کریں اور اتباع کی تعریف فرمائیں ۔
سخن فہمی شاید اب اسی کانام رہ گیاہے۔
ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اتباع کا لفظ عمومی ہے۔مجتہد اپنے اجتہاد کے ذریعہ اتباع کررہاہے۔ عامی تقلید کے ذریعہ اتباع کررہاہے۔ہمارے پاس مجتہد کی بھی واضح تعریف ہے۔تقلید کی بھی واضح تعریف ہے۔ نہ اجتہاد تقلید سے گڈمڈ ہوتاہے اورنہ ہی تقلیدکے ڈانڈے اجتہاد سے جاملتے ہیں۔آپ کا دعویٰ ہے کہ مجتہد بھی اتباع کرے گا۔عامی بھی اتباع کرے گا۔اس کے بعد اتباع کی تعریف ایسی نقل کی جاتی ہے جس میں پتہ ہی نہیں چلتاکہ کون مجتہد ہے اورکون عامی ہے۔ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ تعریف میں زید بکر عمر کا نام شامل ہوناچاہئے جیساکہ آپ میری ایک ذکرکردہ مثال سے سمجھ لی ہے۔لیکن طبقہ کی تقسیم توہونی چاہئے کہ مجتہد کاخانہ الگ رہے اورعامی کا خانہ الگ رہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مخلوط نہ ہوں۔ اگریہ بھی نہ ہوتوپھر توہ تعریف کاہے کی ہو۔ نہ وہ تعریف جامع ہوئی اورنہ مانع ہوئی۔

ویسے آپ کی مذکورہ عبارت او ر اس عنوان میں شروع شروع میں لکھی گئی ایک عبارت میں کافی فرق نظر آرہا ہے اگر بھول گئے ہیں تو ذرا ملاحظہ فر مائیں :
مجھے توکچھ بھی فرق نظرنہیں آرہاہے آپ کو جوکچھ آرہاہے بیان کردیں شاید آنجناب نے سمجھنے میں غلطی کی ہو۔ غلطی درست کردی جائے گی۔ان شاء اللہ

آپ سے گزارش ہے کہ ان ’’ جو لوگوں ‘‘ میں اب آپ بھی شامل ہو گئے ہیں اب تو کوئی کوشش کریں ۔
یہ وضاحت توکی جائے کہ ہم کس طرح ان لوگوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہم شروع سے اجتہاد اورتقلید کی تقسیم کے قائل ہیں اوردونوں کی تعریف بھی الگ کرتے ہیں جس میں دونوں کی حدود قائم رہتی ہیں۔یہ توآپ کا ’’لامحدود‘‘اتباع ہے جس میں عامی اورمجتہد دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اورصف بصف نظرآتے ہیں۔

یہاں بھی وہی بیچارے فرق کا آپ نے رونا رویا ہے جس کا تعریف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
جب آپ ایک طبقہ کی تعریف کی تعریف کررہے ہیں یعنی عامی شرعی مسائل سے کیسے رہنمائی حاصل کرے۔توآپ اس کی ایسی غیرمتعین تعریف کردیتے ہیں جس میں دوسراطبقہ مجتہدین کا شامل ہوجاتاہے۔اس کو اگرآپ سمجھ لیں توشاید بات آگے بڑھے۔
آپ نے عقلی انداز میں حصر کرنے کی کوشش کی تھی ہم نے اس کو توڑ کر دکھادیا ۔ اب بھی کوئی کسر باقی ہے ۔؟ باقی آپ کے باربار اہل الرائے والا مراسلہ پڑھنےکی تلقین کا شکریہ ۔ آپ بات کو آگے چلنے تو دیں سب کچھ اپنے مقام پر آتا رہے گا ۔
آپ نے فرمایا :

پتہ نہیں آپ کس سوال پر بے معنی ہونے کا فتوی صادر کر رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ دلیل سننے اور سمجھنے میں بہت فرق ہے ۔ ہم نے یہ سوال کیے تھے جن کو آپ نے چھوا تک نہیں کہ :
(١)آپ کہتے ہیں کہ کسی نے اتباع کی تعریف نہیں کی تو کیا علماء اتباع کا انکار کرتے تھے ؟
(٢) آئمہء مقلَدین( مثلا آئمہ اربعہ ) تقلید کرتے تھے یا اتباع کرتے تھے ؟ اگر اتباع کرتے تھے تو کیا انہوں نے اس اتباع کی تعریف کی ہے ؟
(٣) کیا ہر چیز کی ایک خاص تعریف ہونا ضروری ہے ؟
اب میں کتنی مرتبہ وضاحت کروں کہ اہل علم کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد کی ہے ۔اس اجتہاد کی تعریف کتب اصول فقہ میں مذکور ہے۔
پھراجتہاد کے جتنے مراتب ہیں ان سب کی بھی تعریف موجود ہے۔
عامیوں کیلئے اتباع جو شکل ہے وہ تقلید ہے اس کی بھی تعریف کتب اصول فقہ میں موجود ہے۔آپ اہل علم کیلئے اجتہاد کی تعریف سے تومتفق ہیں لیکن عامیوں کیلئے اتباع کی عام تعریف کو ہی دوہرادیتے ہیں جس کی وجہ سے اسے ماننا مشکل ہے۔
اس عبارت میں آپ کے ملتے جلتے دو سوال ہیں ۔
(١) یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ مفتی کا فتوی قرآن وسنت کے مطابق ہے یا خلاف ؟
اس سوال کا اتباع کی تعریف سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بہر صورت پھر بھی عرض کرتے ہیں کہ مطابق یا خلاف ہونے کا معیار تو قرآن وسنت ہی ہیں۔ اور اس کا فیصلہ علماء کریں گے ۔ اور عامی کو اگر اس طرح کی صورت حال پیش آئی کہ وہ صحیح غلط میں فرق نہیں کرسکے گا تو علماء سے رجوع کرے جو بات دلیل کے ساتھ ہو اس پر عمل کر لے ۔ باقی اگر پھر بھی اس سے غلطی ہوگئی ہے تو اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ۔ لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا
لیکن یہاں سے عامی کے لیے تقلید تو کسی صورت ثابت نہیں ہوتی کہ وہ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی بات کی تقلید اپنے اوپر لازم کر لے ۔ یہی مسئلہ تو مجتہد کو بھی پیش آسکتا ہےکہ وہ کسی مسئلہ میں اجتہاد کرے لیکن اس سے غلطی ہوجائے تو کیا وہ بھی تقلید کرے گا ؟
اور ویسے ہم نے پہلے بھی آپ سے عرض کی تھی کہ کسی مسئلہ میں مقلَد کا قول تلاش کرنے کے لیے جتنی مشقت یا علم کی ضرورت ہوتی ہے قرآن وسنت سے حکم تلاش کرنا اس سے زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔ بلکہ قرآن وسنت کے مطابق حکم تلاش کرنا مقلَد کا قول تلاش کرنے سے کئی گنا آسان ہے ۔
اگر آپ اس سے واقف نہیں ہیں تو تجربہ کرکے دیکھ لیں کسی عام آدمی کو قرآن یا حدیث کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لیے دیے دیں اور اس کی رہنمائی کردیں ۔ پھر کچھ دیر کیلیے اس کو قدوری ، ہدایہ وغیرہ کا ترجمہ بھی سامنےرکھ دیں آپ کو پتہ چل جائے گا حقیقت کیا ہے ۔بلکہ اگر عوام کو پتہ چل جائے کہ آپ کی فقہ کی کتب کیسی ہیں تو ضرور تقلید سے توبہ کرلیں ۔
صحیح فرمایاآپ نے ۔سخن فہمی اب اسی کانام رہ گیاہے۔ہم توعامی کیلئے براہ راست کتب فقہ سے استفادہ کوبھی درست نہیں سمجھتے پتہ نہیں وہ کیاسے کیاسمجھ لے بلکہ وہ کسی مفتی اورعالم سے اس بارے میں سوال کرے۔
کسی عامی کو ہم حدیث ربادکھادیں ۔وہ اس کو صرف انہی چیزوں میں رباکا حصر مان لے اوراس کے بعد کرنسی کے ذریعہ خوب رباکاکاروبار کرےکیونکہ حدیث میں توموجودہ کرنسی کا کوئی ذکر نہیں ۔
اسی طرح عامی کے سامنے کوئی منسوخ حدیث آئے وہ اس پربے دغدغہ عمل کرتاچلاجائے ۔کیونکہ وہ بھی توحدیث میں ہی مذکور ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ آپ کی یہ دلنشیں توجیہہ تک پرانے علماء اورفقہاء کیوں نہیں پہنچے۔ ان کا ذہن آپ کے اس بلند خیال کی طرف کیوں نہیں گیا۔
خطیب ،خطابی ،ابن جوزی اوردیگر علماء نے خواہ مخواہ ہی محدثین کو یہ نصیحت کرڈالی کہ وہ فقہ کی بھی تحصیل کیاکریں۔ حدیث کے ضمن میں فقہ تو خود بخود حاصل ہورہی تھی۔ اب اس موضوع پر زیادہ کیاعرض کروں۔ اسی فورم پر اس تعلق سے کچھ لکھاہے۔ بارخاطرنہ ہو تومطالعہ کرلیجئے گا۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/شرح-وفوائد-44/ہرمحدث-فقیہہ-نہیں-ہوتا-2714/
اگرعامیوں کیلئے براہ راست کتاب وسنت سے استفادہ درست ہوتا توفقہ کی تحصیل کی ضرورت کیاباقی رہ جاتی ہے۔ شاید اس گوشہ پر آپ کی نظردوررس نہیں پہنچی۔ویسے مجتہد اجتہاد کرے ۔صحیح ہونے کی صورت میں دوہرااجر،صحیح نہ ہونے کی صورت میں اکہرااجر،عامی اجتہاد کرے تو درست ہونے کی صورت میں کیاہوگا اورغلط ہونے کی صورت میں کیاہوگا۔ اس پر بھی ذراتفصیلی روشنی ڈالیں اوراپنا"غبارخاطر" پیش نہ کریں۔ علماء کے اقوال پیش کریں۔

اسی طرح قرآن وسنت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی ہر ہر مسئلہ میں گفتگو کی ہے ؟ یقینا نہیں ۔ جن مسائل کا حکم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے نہیں ملتا اس کے لیے آپ کیا کرتے ہیں ۔ آپ کہیں گے کہ ان کے اقوال میں اجتہاد کرکے حکم تلاش کرتے ہیں ۔ تو یہی اجتہاد قرآن وسنت کی نصوص میں کرنا ممکن کیوں نہیں ہے ؟
قرآن وسنت میں ہرمسئلہ کا حل موجود ہے لیکن کیابالصراحت موجود ہے؟کیااس حکم کے حصول کیلئے علم اورلیاقت کی کوئی شرط اورضرورت بھی باقی نہیں ہے۔ یاپھر ہربوالہوس کو اجازت ہے کہ وہ حسن پرستی شعار کرے اوراجتہاد کا نعرہ لگاکر دین کا حلیہ بگاڑے۔ہمارے خیال سے آپ کے موقف کو دیکھتے ہوئے پھر آپ کے قبیل کے لوگ جوجاوید احمد غامدی وغیرہ پر برستے ہیں وہ نہایت بے معنی رہ جاتاہے کیونکہ جاوید غامدی بہرحال ایک عامی سے توبہتر ہے۔پھر جیساوہ قرآن وحدیث (بقول غامدی)سے سمجھ رہاہے۔ اس کو مان رہاہے۔اس پر تیروتفنگ چلانے کی ضرورت کیاہے؟۔کیاآپ کا موقف نہایت متضاد نہیں ہے اور دوہرے رویہ کی نشاندہی نہیں کرتاہے۔یاپھر مخالفت کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے گروپ میں شامل نہیں ہے؟جس کو اجتہاد کرناہو وہ آپ کے گروپ میں شامل ہوکر اجتہاد کرے ۔
ایک اور سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کے نزدیک تقلید واجب ہے ۔ کیا امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے یا آج کے کسی عالم کی ؟اوپر جو بات کی گئی ہےیہ اس صورت میں ہے جب آپ امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب قرار دیتےہیں ۔ اگر کسی آج کے عالم کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں تو پھر امام ابو حنیفہ کی تقلید کا کیا معنی ہے ؟
یہ سوال ناچیز کی سمجھ میں قطعانہیں آیا۔کہ اس کا شان نزول کیاہے۔ویسے تقلید پربات کیلئے ہم تیار ہیں لیکن بس ذرایہ اتباع کامعنی ومفہوم صاف ہوجائے کیاپتہ اتباع کا معنی ومفہوم صاف ہونے کے بعد جوچیز نکلے وہ تقلید ہی ہو۔پھر تقلید پرابھی سے بات کرنے سے خدشہ ہے کہ بحث کا رخ دوسری سمت مڑجائے گا اورپھر معاملہ ہنوزروز اول والاہوگا۔
(٢) صحابہ کرام و تابعین عظام سے ایک ایک مسئلے میں مختلف اقوال ہیں آپ نے کہا کہ ظاہر ہے قرآن وسنت کے مطابق تو ایک ہی ہوگا ۔ باقی دیگر فتاوی پر عمل کرنا تو تقلید ہی ہوگا ؟یہ ہی اعتراض اگر یوں کہا جائے کہ جن صحابہ کرام کے ایک مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں تو کیا ایک صحابی کے علاوہ جس کا قول قرآن وسنت کے مطابق ہے باقی سب نے قرآن وسنت کی مخالفت کی تھی ؟ توشاید اگلے اعتراض کی ضرورت نہیں پیش آئے گی ۔
غالب کا ایک شعر ہے جس کا پہلامصرعہ طبع نازک پر ناگوار گزرے ۔دوسرامصرعہ عرض کرتاہوں۔ کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی۔آپ نے سابق میں میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایاتھا۔
تو اس میں جو مسائل قرآن وسنت کےمطابق ہیں ان میں صحابہ کرام کی پیروی کرنا دراصل قرآن وسنت کی ہی پیروی کرنا ہے لہذا یہ اتباع ہے نہ کہ تقلید ۔
اور جن مسائل میں قرآن وسنت کے موافق نہیں ہیں ان میں ان کی بات ماننا اتباع نہیں ہے ۔ بلکہ ایسی صورت میں ان کی بات کو چھوڑ دیا جائے گا ۔
سوال یہ ہے کہ جن مسائل میں صحابہ کرام کی رائے قرآن وسنت کے مطابق نہیں تھی اس میں ان کی بات ماننا اتباع نہیں ہے توپھر تقلید ہے یاپھر آپ کے نزدیک اتباع اورتقلید کے درمیان منزلۃ بین المنزلتین کی کوئی کٹیگری ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ اتباع وہ ہے جس پر دلیل ہونی چاہئے۔
جب کہاجاتاہے کہ صحابہ کرام کے بہت سارے فتاوی ایسے ہیں کہ نہ انہوں نے دلیل ذکر کی اورنہ سائلین نے دلیل کامطالبہ کیا۔
اس پر آنجناب نے جوکچھ "فرمایا"تھاوہ یہ ہے
تو اگر مسئلہ قرآن وسنت کےمطابق بتائے گا تو اتباع ہے اور اگر اپنی رائے یا کسی دوسرے کی رائے جو قرآن وسنت کے مخالف ہے بتاے گا تو اس پر عمل کرنے والا تقلید کا ارتکا ب کرے گا ۔
قرآن وسنت کےمطابق ہونے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن سائل کا دلیل طلب کرنا یا نہ کرنا یہ دلیل کےوجود یا عدم کو لازم نہیں ہے ۔
لیکن ضروری ہےکہ مسئلہ اسی سے پوچھا جائے جو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو ۔ ایسے آدمی سے مسئلہ نہیں پوچھا جائے گا جو قرآن وسنت کےخلاف فتوی دیتا ہو ۔
اگر کسی ایسے آدمی سے مسئلہ پوچھاجائے جو ویسے تو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو لیکن اس مسئلہ میں اس کاجواب قرآن وسنت کےخلاف ہو تو پیروی اسی کی کی جائے گی جودلیل بیان کرے گا ۔
میراخیال ہے کہ آپ کا ذہن خود اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ اتباع کیاہے۔ اسی لئے آپ مذکورہ الجھاؤ اورکنفیوژن کاشکار ہورہے ہیں۔اورپڑھنے والوں کوبھی اسی الجھن میں مبتلاکررہے ہیں۔جب کوئی بات قائل کے ذہن میں واضح نہ ہو تواس کا اظہار تحریر اورتقریر کی بھی شکل میں ہواکرتاہے۔ گزارش ہے کہ پہلے اپنے ذہن کو اتباع کے تعلق سے صاف کرلیں۔ اس کی حدود متعین کرلیں ۔ورنہ ہم پوچھیں گے کہ زیدکون ہے۔آپ کہیں گے کہ عمر کا بھائی ہے ہم عمر کے بھائی کے بارے میں پوچھیں گے توآنجناب دوبارہ زید کا نام لے لیں گے اورتعریف المجہول بالمجہول لازم آئے گی۔
ہم جب عامی کا لفظ بولتے ہیں تواس سے مرادلیتے ہیں ایساشخص جسے علوم دینیہ سے واقفیت نہیں ہے ۔ایک عامی کیلئے یہ معلوم کرناکہ مفتی نے میرے جس سوال کا جواب دیاہے وہ دلیل کے مطابق ہے یادلیل کے خلاف ہے۔اورقرآن وسنت کے مطابق کے مطابق ہے یاقرآن وسنت کے خلاف ہے۔نہایت دشوار امر ہے۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اتباع کیلئے اگردلیل ضروری ہے تو صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اپنے کثیرفتاوی جات میں دلائل کے ذکر کااہتمام نہیں کیاہے۔اگرخضرحیات فرماتے ہیں کہ نفس الامر میں قول پر دلیل کاہوناضروری ہے۔سائل کے جواب میں دلیل کا ذکر کرناضروری نہیں ۔توانہوں نے یہ کہاں سے فرض کرلیاہے کہ امام ابوحنیفہ،امام شافعی یابقیہ دو کے اقوال پر عمل کرنے والوں کے پاس دلیل نہیں ہوتی ہے۔

اور یہأں سے تقلید ثابت ہونےکا کوئی امکان نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر کسی نے حسب استطاعت قرآن وسنت کا حکم تلاش کرنےکی کوشش کی ہے ۔ یہاں نہ تو مفتیان کی نیت قرآن وسنت کے علاوہ کسی کے قول پر فتوی مقصود تھا اور نہ سائلین کا مطمع نظر قرآن و سنت سے ہٹ کر کسی کی رائے تھی ۔ اس میں اور تقلید میں بعد المشرقین ہے ۔ کیوں کہ یہاں کسی نے نہیں کہاتھا نحن مقلدون یجب علینا تقلید فلان اور اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو یہ تقلید ہے جو کہ منہی عنہ ہے ۔ بینہما برزخ لا یبغیان
کیاامام ابوحنیفہ اوردیگر مجتہدین نے شرعی مسائل قرآن وحدیث سے مستنبط کئے ہیں۔ انکی نیت قرآن وسنت کی مخالفت کی تھی سبحان اللہ اورکوئی اسی نیت سے امام ابوحنیفہ کے اقوال پر عمل کرتاہے کہ انہوں نے جوشرعی مسائل مستبط کئے ہیں وہ قرآن وسنت سے ہی ماخوذ ہیں تویہ تقلید کیسے ہوگئی اوردوسراکسی اہل حدیث عالم سے فتوی پوچھتاہے تو وہ اتباع کیسے ہوگیا۔آپ نے نیت کی بات کی ہے۔ نیت ایک مخفی امر ہے۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گاکہ کس نے اتباع کی نیت سے ایساکیاہے اورکس نے تقلید کی نیت سے ایساکیاہے۔اس لئے نیت کو چھوڑ کر ایسی بات عرض کریں جو ہمیں واضح طورپر نظرآئے۔

بھائی آپ سے گزارش ہے کہ ذرا حوصلے سے بات کیا کریں جوش کی بجائے ہوش میں آ کر لکھیں تاکہ کوئ فائدہ مند گفتگو ہو سکے ۔ آپ کی مذکورہ عبارت اخلاقی حوالے سے کیسی ہے اس سے غض النظر کرتے ہوئے دیگر کئی اعتبار سے محل نظر ہے مثلا :
(١) آ پ نے یہأں عامی کی اتباع کو لا یعنی بات قرار دیا ہے ۔ اس اتباع کا حکم ہم قرآن سے ثابت کرچکےہیں گویا کہ آپ نے قرآن کی آیت سے ثابت حکم کی اتباع و پیروی کو لا یعنی قراردیا ہے ۔ یا تو آپ کہیں کہ عامی کی اتباع قرآن کی آیت اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم سے نہیں نکلتی یا پھر اپنے الفاظ پر غور کریں ۔
(٢ ) یہاں آپ نے عامی کو خاص کیوں کیا ہے ہم نے تو اس میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ ہم تو کہتے ہیں تمام لوگ اتباع کے مکلف ہیں ۔ چاہےکوئ مجتہد ہو یا عامی ۔ یہاں سے لگتا ہے کہ مجتہد کے بارے میں آپ کا نظریہ ہےکہ وہ اتباع کر سکتا ہے ۔ ذرا مجتہد کی اتباع کا حکم کیا فتوی صادر فرمائیں ۔
(٣) آپ نے کہا کہ عامی کی اتباع کی اصول فقہ کی کتب سے قطعا تائید نہیں ہوتی ۔ تو کیا مجتہدین کی اتباع کی تائید ہوتی ہے ؟ اور کیا آپ کے نزدیک کوئی ایسا مجتہد ہے جو امام ابوحنیفہ کی تقلید سے نکل کر اجتہاد کر سکتا ہے ؟

عامی کی اتباع کی بات کوہم نے اسی لئے لایعنی قراردیاہے کہ اگربات دلیل کی ہے تو وہ دلیل میں غوروفکر کی صلاحیت نہیں رکھتا۔کسی چیز کا سن لینااور چیز ہے اورکسی چیز کا سمجھنااورچیز ہے۔ سائنس کے اصطلاحات ہم آپ سن سکتے ہیں لیکن اسکو سمجھنے کیلئے سائنس سے آشنائی ضروری ہے۔آئن اسٹائن کے اصول انگلش میں لکھے ہوئے ہیں لیکن ان کا سمجھنا ایک دوسری چیز ہے۔ منطق کی کتاب کوئی بھی شخص پڑھ سکتاہے لیکن اس کا سمجھنا منطق سے آشنائی کے بغیر مشکل ہوگا۔
یہ صرف ہماری بات نہیں ہے بلکہ امام شاطبی نے جو مقاصدشریعت کے گہرے رازداں ہیں۔ انہوں نے بھی یہی بات کہی ہے۔ دیکھئے۔
فَتَاوَى الْمُجْتَهِدِينَ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْعَوَامِّ كالأدلة1 الشرعية بالنسبة إلىالْمُجْتَهِدِينَ.وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّ وُجُودَ الْأَدِلَّةِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمُقَلِّدِينَ وَعَدَمَهَا سَوَاءٌ؛ إِذْ كَانُوا لَا يَسْتَفِيدُونَ مِنْهَا شَيْئًا؛ فَلَيْسَ النَّظَرُ فِي الْأَدِلَّةِ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ لَهُمْ أَلْبَتَّةَ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: 43] .
وَالْمُقَلِّدُ غَيْرُ عَالِمٍ؛ فَلَا يَصِحُّ لَهُ إِلَّا سُؤَالُ أَهْلِ الذِّكْرِ، وَإِلَيْهِمْ مَرْجِعُهُ فِي أَحْكَامِ الدِّينِ عَلَى الإطلاق، فهم إذن الْقَائِمُونَ لَهُ مَقَامَ الشَّارِعِ، وَأَقْوَالُهُمْ قَائِمَةٌ مَقَامَ [أَقْوَالِ] الشَّارِعِ.الموافقات5/337
ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام شاطبی واضح طورپر کہتے ہیں کہ دلیل کا وجود اورعدم مقلدین کیلئے برابر ہے کیونکہ وہ اس سے مستفید ہونی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔وہ توکہتے یہں کہ دلائل مین غوروفکر نہ مقلدین کاکام ہے اورنہ ان کیلئے جائز ہے اوران کیلئے مجتہدین کے فتاوی ادلہ شرعیہ کی طرح ہیں۔
اہل علم کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد ہے ۔اجتہاد کی تعریف اورحدودوقیود متعین ہیں۔ عامی کیلئے ہمارے نزدیک اتباع کی شکل تقلید ہے اس کی بھی حدود قیود متعین ہیں۔ آپ اجتہاد میں توہمارے ہم زبان ہیں۔ عامی کے بارے میں اتباع کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن تعریف ایسی کرتے ہیں جس کا دائرہ مجہتدین تک وسیع ہو۔ اسی لئے گزارش ہے کہ اتباع کی وہی تعریف کریں جو صرف عامیوں پر فٹ بیٹھے کیونکہ بات یہاں پر عامیوں کے حوالہ سے چل رہی ہے۔

گزارش ہےکہ اب تو آپ نے بھی ماشاء اللہ اتباع کا دعوی کردیا ہے ۔ آپ بھی تو اس کی تعریف کرنےکے اتنےہی ذمہ دار ہیں جتنا ہمیں ٹھہرا رہےہیں ۔ یا پھر آپ کی اتباع کا تقلید کے ساتھ بھائی چارہ ہے اس لیے تعریف کی محتاج نہیں ہے ؟
رہی یہ بات کہ ہم اتباع کی تعریف کریں تو وہ ہم پہلے کر چکے ہیں اسے چاہے آپ عمومی سمجھیں یا خصوصی ہمارے نزدیک یہی اتباع ہے ۔ اور اس سے اتنا خوف نہ کھائیں یہی قرآن کا حکم ہے اور یہ ہی نجات کا راستہ ہے ۔
ہم اورکتنی مرتبہ دوہرائیں۔ کہ اہل علم کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد ہے اس کی تعریف واضح ہے۔ عامیوں کیلئے اتباع کی شکل تقلید ہے اس کی بھی تعریف واضح ہے۔ آپ اہل علم کیلئے اجتہاد میں توہمارے ہمز بان ہیں لیکن عامیوں کیلئے کہتے ہیں کہ وہ اتباع کریں گے ۔اس حثیت سے اتباع کی تعریف متعین کردیجئے۔ عمومی تعریف کردینے سے بات نہیں بننے والی ہے۔ جیسے عبادت کی عمومی تعریف الگ چیز ہے اورنماز روزہ حج زکوۃ سبھی کی الگ سے دوسری تعریفات موجود ہیں۔
جہاں تک خوف کھانے کی بات ہے تو خوف اس وجہ سے کھاتے ہیں کہ آپ کی جماعت کا طریقہ اوروطیرہ یہ ہے کہ اپنی ہربات کو قول رسول اورقول خدا بناکرپیش کرتی ہے۔ جیساکہ اتباع کی ایک تعریف آنجناب کی سمجھ میں آئی اوراس کو قول خدابنانے سے لمحہ بھر کیلئے بھی آنجناب نے گریز نہیں کیا۔ذرااس کی بھی زحمت نہیں گوارہ کی کہ ایک مرتبہ اس پر نظرثانی کرلیں شاید غلط سمجھاہو۔
ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ توواضح ہوتاہے کہ اتباع کس چیز کی کی جائے گی یعنی اتباع کے مشمولات کیاہیں لیکن نفس اتباع کیاہے ا سکی تعریف اس آیت سے واضح نہیں ہوتی ہے۔

اور جتنا وقت آپ ہم سے تعریف کا مطالبہ کرنے میں صرف کررہے ہیں اتنا وقت مذکورہ تین سوالات کا جواب تلاش کرنے میں لگائیں کوئی بعید نہیں کہ اللہ آپ کا ذہن کھول دے اور آپ کو بات سمجھ آجائے ۔
آپ کے بقیہ دوسوال کا جواب تو اوپر دیاجاچکاہے ۔تیسراسوال کوذراواضح کریں ۔امام ابوحنیفہ کی بہت سی آراء سے صاحبین اوربعد کے دیگر حنفی فقہاء نے اختلاف کیاہے۔ اہل علم کیلئے اس کی گنجائش ہے۔عامیوں کو ہم اجتہاد کا حق تودینے سے رہے کہ اجتہاد جیسی اعلیٰ وارفع چیز کوریوڑی کی طرح بانٹ دیاجائے۔
اب اتنی وضاحت کے باوجود اگر آپ مجھ سےتحریری طور پر لکھوانا چاہتےہیں کہ میں کسی اصولی کی کتاب سے آپ کی مطلوبہ تعریف اتباع کے سلسلے میں نہیں دکھا سکا تو میں حاضر ہوں ۔
توکیااس سے ہم یہ نتیجہ نکال لیں کہ عامیوں کیلئے جس اتباع کے آپ کے دعویدار ہین اس کاوجود اصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ہے۔تاکہ اس کے بعد بات آگے بڑھ سکے۔
ویسے یہ تھریڈ بھی دیکھ لیں کہ
http://www.kitabosunnat.com/forum/اصول-حدیث-47/کس-کے-لیے-تقلید-کرنا-جائز-ہے-اور-کس-کےلیے-نہیں؟-اصول-3599/#post31072
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
محترم بھائی اللہ مجھے او رآپ کو حق بات کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
بات لمبی سے لمبی ہوتی جارہی ہے ۔ اس طوالت کا سبب کیا ہے ؟ اس کو تلاش کرنا شاید مزید طوالت کا سبب بنے لہذا صرف اتنی گزارش ہے کہ اب میں ما سبق بار بار نہیں دہراؤں گا ۔ البتہ آپ کی طرف سے کوئی نئی قابل توجہ بات ہوئی تو اس پر ملاحظات رکھنے کی کوشش کروں گا ۔
(١)​
میں نے اتباع کی تعریف یا تعارف میں جو بات رکھی وہ قرآن اور سنت کے دلائل کے ساتھ آپ کے سامنےرکھی لیکن آپ نے پھر بھی اس کو خانہ زاد یا طبع زاد جیسے کلمات سے متصف کیا ہے ۔
جبکہ اتباع کی دو حثیتیں بیان کرتے ہوئے آپ نے نہ تو قرآن و سنت سے کوئی نص پیش کی اور نہ ہی کسی امام کی طرف اس کا انتساب کیا بلکہ یوں کہنا کافی سمجھا کہ یہ’’ جگ ظاہر ‘‘ ہے ۔
(٢)​
ایک اور بات جو آپ کی گزشتہ چند مشارکات سےسامنے آرہی ہےکہ آپ نے اس بات کا اقرار ( یا اظہار ) کر لیا ہے کہ مجتہد اتباع کرے گا لیکن عامی تقلید کرے گا ۔
آپ کا یہ رویہ چند اعتبارات سے قابل غور ہے :
� کسی آیت یا حدیث سے یہ تفریق ثابت ہے کہ مجتہد اتباع اور عامی تقلید کرے گا ۔ کوئی دلیل پیش کریں ۔
� مجتہد اتبا ع کرے گا تو اتباع کی بیان کردہ دو حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت سے اتباع کرے گا ۔ اور اس کی دلیل کیا ہے؟
� کیا امام صاحب کے بعد کو ئی مجتہد آیا ہے جس کے لیے اتباع کرنا جائز ہے ؟ یعنی آپ کے نزدیک آج کے زمانے میں کوئی مجتہد ہو سکتا بھی ہے کہ نہیں ؟ یا پھر ایسے ہی نظری باتیں کر رہے ہیں ؟
(٣)​
ایک اور بات جو آپ کی طرف سے سامنے آئی ہے کہ عامی کا تقلید کرنا ہی اس کے لیے اتباع ہے ۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :
ہمارے نزدیک تقلید کرنے والابھی غیرمتبع نہیں ہیں اورنہ ہی اجتہاد کرنے والا۔ بلکہ دونوں اتباع ہی کررہے ہیں۔ایک استنباط کے ذریعہ اوردوسرااہل علم سے سوال کے ذریعہ۔
یہاں آپ نے اتباع اور تقلید کو ملا دیا ہے حالانکہ اتباع اللہ اور اس کے رسول کی بات کو ماننا ہے جبکہ تقلید اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات کو ماننا ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکےہیں ۔ اگر آپ کے نزدیک اتباع کی کوئی ایسی تعریف ہے جس میں تقلید بھی شامل ہے یا تقلید کی کوئی ایسی تعبیر ہے جو اتباع ہی ہے تو اس حوالے سے کوئی تعریف بیان کریں ۔
(٤)​
اسی طرح آپ کی ایک غلط فہمی یہ ہے کہ شاید ہم عامی کو جب اتباع کی تلقین کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ براہ راست قرآن وسنت کو بغیر کسی رہنمائی کے سیکھے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ چاہے عوام ہوں یا علماء ہر ایک ما سبق علماء سے رہنمائی لیتے ہیں البتہ ہر ایک کا استفادہ کرنے کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے ۔ اور یہ تقلید نہیں ہے بلکہ اس میں اور آپ کی ’’ تقلید ‘‘ میں بڑا واضح فرق ہے ۔ اگر آپ بات آگے چلنے دیں تو ان شاء اللہ مثالوں کے ساتھ واضح کیا جا سکتا ہے ۔

(٥)​
آپ نے جو بعض گمراہ لوگوں کی صراحتا یا اشارتا مثال دے کر یہ الزام دینے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح تم اتباع کا دعوی کرتے ہو وہ بھی ا تباع کا دعوی کرتے ہیں لیکن خود کو متبع اور ان کو گمراہ قرار دیتے ہو ۔
تو یہ اعتراض بھی آپ کا بالکل بے معنی ہے کیونکہ ہم تقلید کا رد کرتے ہیں لیکن قرآن وسنت کو سلف صالحین کے فہم صحیح کے مطابق سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں اور ایسے لوگ جو قرآن وسنت سے غلط معنی مراد لیتے ہیں ہم ان کی بھی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ مقلدین اور اس طرح کے مجتہدین میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے قرآن وسنت کی مخالفت فرق یہ ہے کہ پہلا گروہ کسی اور کے قول کا بہانہ کرکے شعوری یا لا شعوری طور پر مخالفت کرتے ہیں جبکہ دوسرا گروہ خود اپنی غلط تأویلات کی وجہ سے قرآن وسنت کے صحیح فہم سے محروم ہے ۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ہم سلف صالحین کے فہم کے مطابق قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں تو ہم ان دونوں گروہوں سے بری ہیں مقلدین سے اس لیے کہ وہ قرآن وسنت پر عمل نہیں کرتے بلکہ سلف میں سے چند لوگوں کو خاص کرلیتے ہیں اور ان کے نزدیک یہی قرآن وسنت ہے کیونکہ ان کے نزدیک مقلد کی دلیل قرآن وسنت نہیں بلکہ بعض آئمہ کے اقوال یا بعض مجتہدین کے اجتہادات ہیں ( جبکہ باقی سب کو چھوڑ دیتے ہیں )اور متجددین سے اس لیے کیونکہ وہ سرے سے سلف صالحین کے فہم کے قائل ہی نہیں ہوتے ۔
(٦)​
آپ نے پہلے بھی بار بار یہی بات کی کہ عامی چونکہ علوم دینیہ سے واقف نہیں ہوتا اس لیے وہ دلیل کے صحیح یا غلط ہونے کی کس طرح پہچان کرے گا نتیجتا اس کو کسی کی تقلید کر لینی چاہیے ۔
آپ کی اس بات کا جوا ب بھی ایک سے زیادہ مرتبہ دے دیاگیا ہے دوبارہ پھر ملاحظہ فرمائیں اور سمجھنے کی کوشش کریں ۔
جب آپ کہتے ہیں کہ عامی دلیل نہیں سمجھ سکتا لہذا وہ اتباع بھی نہیں کر سکتا چنانچہ اس کا حل یہ ہے کہ وہ تقلید کر لے ۔آپ کی یہ بات کئی اعتبار سے قابل غور ہے مثلا
جب آپ اس کو تقلید کا پابند کرتے ہیں تو دو صورتیں ہیں
اولا :یا تو آپ اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا پابند کریں گے ۔ اس صورت میں چند باتیں قابل ملاحظہ ہیں :
� امام صاحب نے ہر مسئلے میں کلام تو کیا نہیں جن مسائل میں امام صاحب نے کلام نہیں کیا ان مسائل میں وہ کس طرف جائے گا ؟
� مان لیں کہ جو مسئلہ اس کو پیش آیا ہے اس مسئلہ میں امام صاحب کا قول موجود ہے لیکن جو شخص قرآن و سنت کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا کیا کتب فقہ کے انداز سے وہ واقف ہو گا ؟
� اگر آپ کہیں گہ کہ وہ کسی عالم کی طرف رجوع کرے جو اس کو امام صاحب کے اقوال سمجھائے ۔ تو ہم عرض کریں گے کہ یہی رجوع قرآن وسنت کو سمجھنےکے لیےکیوں نہیں کیاجاتا ؟
ثانیا :یا پھر آپ کہیں گے کہ نہیں ہم اس پر امام صاحب کی نہیں بلکہ آج کے کسی عالم کی تقلید واجب کرتے ہیں جو وہ کہے اسی بات پر وہ بغیر کسی دلیل کے عمل کرے گا ۔ تو ایسی صورت میں آپ جو کہتے ہیں کہہ ہم پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلیدواجب ہے یہ بات مستقیم نہیں رہتی اور اسی طرح ایسے شخص کو پھر حنفی نہیں بلکہ اس کو اسی شخص کی طرف منسوب کرنا چاہیے جس کی تقلید آپ نے اس پر واجب کی ہے مثلا ’’ انوری ‘‘ ، صفدری وغیرہ وغیرہ ۔
اور یہ دو صورتیں بھی احتمالا پیش کی ہیں حالانکہ اصلاتو یہ ہےکہ اتباع کا قرآن میں حکم ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ شریعت ایسے امر کا حکم دے دے جس کا انجام دینا ہی محال ہو ۔ فتدبر واللہ یتولاک ۔

آئینہ ان کو دکھایاتو برا مان گئے

ذرا ملاحظہ فرمائیں آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
اگرآدمی صاحب علم ونظرہے تواس کیلئے اتباع یہ ہے کہ وہ خود سے اجتہاد کرے۔ اگراجتہاد کی صلاحیت سے متصف نہیں ہے۔لیکن دلائل مین غوروفکر کرسکتاہے تواس کوجودلائل سے راجح معلوم ہواس پر عمل کرے اس کیلئے یہی اتباع ہے ۔(نوٹ:حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں تقلید کی نفی کرنے کے بعد کہ آدمی اتباع کرے گا۔ اوراس پر دلائل دینے کے بعد آخر میں عوام کیلئے تقلید کی ضرورت کومحسوس کیاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ ان کے نزدیک اتباع اہل علم کاکام ہے۔ عامیوں کاکام نہیں ہے)اوراگراس کی بھی صلاحیت سے محروم ہے تو وہ تقلید کرے ۔یہی اس کے حق میں اتباع ہے۔یہ توہماراموقف ہے جو میں کئی مواقع پر ظاہر کرچکاہوں
یہاں آپ نے لوگوں کی تیں اقسام بیان کی ہیں پہلی قسم کے لوگ آپ کے نزدیک مجتہدین تیسری قسم کے لوگ مقلدین اور اس کے درمیان میں ایک اور قسم آپ نے بیان کی ہے جو نہ مقلدین ہیں اور نہ ہی مجتہدین ۔ لگتا ہے آپ اس کو متبعین کہنا چاہتے تھے لیکن احتیاطا صرف نظر کر گئے ہیں ۔ ( ابتسامہ )
قطع نظر اس کے کہ آپ کی یہ تقسیم کیسی ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں اپنی ایک اور عبارت :
کتب اصول فقہ میں اتباع کی تعریف الگ سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے بداہتایہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ صرف دوکٹیگری کے قائل تھے ۔یاتوآدمی مجتہد ہوگا یامقلد ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اتباع کی تعریف بھی نہیں کی ہے۔جیساکہ میں نے اہل الرائے کی بحث میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ کی کتابوں سے نقل کیاہے کہ لوگوں کی دوقسمیں ہیں یاتومجتہد یامقلد ۔
یہأں آپ بڑے دعوی سے نقل کرآئے ہیں کہ لوگوں کی صرف دو ہی قسمیں ہیں ۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے ؟ وہذا غیض من فیض ۔۔۔ فلینبغی للإنسان أں یتنبہ ۔
ہم نےآپ کی تحریر سے دلیل پیش کردی ہے اور دعوی آپ خود سمجھ جائیں گے ۔ لیکن آپ نے دعوی پیش کردیا ہے کہ :
میراخیال ہے کہ آپ کا ذہن خود اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ اتباع کیاہے۔ اسی لئے آپ مذکورہ الجھاؤ اورکنفیوژن کاشکار ہورہے ہیں۔اورپڑھنے والوں کوبھی اسی الجھن میں مبتلاکررہے ہیں۔جب کوئی بات قائل کے ذہن میں واضح نہ ہو تواس کا اظہار تحریر اورتقریر کی بھی شکل میں ہواکرتاہے۔ گزارش ہے کہ پہلے اپنے ذہن کو اتباع کے تعلق سے صاف کرلیں۔
جبکہ اس کی دلیل کوئی نہیں پیش کی ۔

گزارش : جواب جلدی لکھنا چاہتأ تھا لیکن تسجیل الدخول میں کسی مسئلہ کی وجہ سے بروقت نہ لکھ سکا حالات کچھ ایسے تھے کہ میل کے ذریعے رابطہ کرنا بھی مشکل تھا لہذا مجبورا فیس بک کے ذریعے کلیم حیدر بھائی سے رابطہ کیا اور کچھ دن کی تأخیر سے انہوں نےآج اللہ کی توفیق سے تعاون کیا اور الحمد للہ بندہ گزارشات کے لیے حاضر ہوگیا ۔ والعذر عند کرام الناس مقبول
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ کی بقیہ تمام باتوں کا تفصیلی جواب تو وقت کی قلت کے پیش نظر لکھنے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ جان ایک ہے اورغم کئی ہے۔ بنیادی بات عرض کردیتاہوں۔

بنیادی بات جس سے آپ صرف نظر کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ اتباع کی تعریف کیاہے۔

آپ کاکہناہے کہ اتباع اتبعوا ماانزل الیکم ہے۔ یہ شاید آپ کی اپنی رائے ہے۔ اگراس کے حق میں علماء کی شہادتیں ہوں توفراہم کریں۔تاکہ بات باحوالہ آگے بڑھ سکے۔

میرااعتراض آپ کی اس تعریف پر یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں یہ توکہاگیاہے کہ ماانزل الیکم کی اتباع کی جائے لیکن نفس اتباع کیاہے اس کی وضاحت ہمیں اس آیت میں نہیں ملتی۔


جیسے قرآن کریم کا حکم ہے۔ اقیمواالصلوٰة نماز قائم کرو
آیت کے اس ٹکرے سے ہمیں یہ تومعلوم ہوتاہے کہ نماز قائم کیاجائے لیکن نفس نماز کیاہے وہ اس آیت سے نہیں معلوم ہوتا۔

قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے۔وآتوالزکوة زکوة اداکرو
اس سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ زکوٰة اداکرنے کا حکم ہے لیکن نفس زکوٰة کیاہے وہ تواس آیت سے نہیں معلوم ہوتا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔واتموا الحج والعمرة ۔حج اورعمرہ کو پوراکیاکرو
اس سے یہ تومعلوم ہواکہ حج اورعمرہ مکمل کرناچاہئے لیکن نفس حج اورعمرہ کیاہے وہ اس آیت سے نہیں معلوم ہوتا۔

ان مثالوں کی طرح آپ کی اتباع پر پیش کردہ آیت سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ اتباع ماانزل الیکم کی ہوگی کسی دوسری شے کی نہیں ہوگی لیکن نفس اتباع کیاہے وہ معلوم نہیں ہوتا۔

اس لئے بار بار گزارش کی جاتی ہے کہ اتباع کی تعریف پیش کریں اور آپ اپنی دوہرائی ہوئی بات کو مزید دوہرادیتے ہیں۔ اس سے بحث کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے اس سے آگے بڑھیں تو کچھ بات بنے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم بھائی جمشید سلمک اللہ
اللہ مجھے اور آپ کو حق بات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
بجائے اس کہ بات سمٹنے کی طرف آتی آپ نے پھر گنتی ایک سے شروع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
آپ کی بقیہ تمام باتوں کا تفصیلی جواب تو وقت کی قلت کے پیش نظر لکھنے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ جان ایک ہے اورغم کئی ہے۔ بنیادی بات عرض کردیتاہوں۔
بنیادی بات جس سے آپ صرف نظر کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ اتباع کی تعریف کیاہے۔
ماشاء اللہ آپ بنیادی بات کانام لے کر پھر موضوع کی بنیاد(شروع) کی طرف چل پڑے ہیں ۔ اب اس میں حکمت (؟) کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے ۔
باقی تمام باتوں سے صرف نظر کرنے کی آپ نے ایک مناسب وجہ بتائی ہے ۔لہذا بہتر یہی ہے کہ آپ پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے تاکہ پہلی باتوں کا اچھی طرح تصفیہ ہو سکے ۔
البتہ آپ نے جو یہ فرمایا :
بنیادی بات جس سے آپ صرف نظر کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ اتباع کی تعریف کیاہے۔
اس حوالے سے کچھ گزشتہ اقتباسات نقل کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے اب تک اتباع کی تعریف پر جو کچھ بھی بطور اعتراض کے پیش کیا ہے اس کو دو طرح تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔
(١)
اتباع کی تعریف کتب اصول میں موجود نہیں ہے ۔​
اس حوالے سے ہم پہلے عرض عرض عرض کرچکے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
آپ نے اپنی سابقہ رٹ کو ابھی تک برقرار رکھا ہوا ہے حالانکہ میں اعتراف کر چکا ہوں کہ :
اب اتنی وضاحت کے باوجود اگر آپ مجھ سےتحریری طور پر لکھوانا چاہتےہیں کہ میں کسی اصولی کی کتاب سے آپ کی مطلوبہ تعریف اتباع کے سلسلے میں نہیں دکھا سکا تو میں حاضر ہوں ۔
اب اگر آپ اس سے کوئی نتیجہ نکالنا چاہتےہیں تو ضرور نکالیں ۔ تاکہ بات جلدی ختم ہو ۔ لیکن اس پر کیے گئے ہمارے سوالات کا جواب دینا نہ بھولیے گا ۔
اب میں یہاں یہ اعتراض نہیں کروں گا کہ آب نے نتیجہ نہیں نکالا کیونکہ اس میں آپ قلم آزما چکے ہیں ۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ نتیجہ نکالنے کی صورت میں آپ کو سوالات جو پیش کیے گئے تھے ان کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ آخر کیوں ؟
(٢)
اتباع کی تعریف میں حدود و قیود واضح نہیں ہیں ۔​
حالانکہ یہ بات بھی ہم الحمد للہ واضح کرچکےہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں :
محترم بھائی کسی بھی چیز کی تعریف کا مقصد ہوتا ہے کہ اس کی پہچان کرنا اور اس کا تصور ذہن میں بٹھانا تاکہ اس کو غیر سے جدا کیا جا سکے ۔
اور یہ فوائد ہماری بیان کردہ وضاحت سے یقینا حاصل ہو رہے ہیں ہم نے کہا اتباع یہ کہ
دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول کی بات کی پیروی کرنا ۔
اور بطور دلیل کے قرآن وسنت سے دلائل بھی پیش کرچکے ہیں ۔ مثلاً قرآن کی آیت :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم
اب یہاں سے اتباع کی پہچان اور اس کا تصور واضح ہو رہا ہے کہ نہیں اور کیا اتباع دوسری کسی چیز کے ساتھ خلط ہو رہی ہے ؟
یہاں دو چیزیں ہیں :
اتباع کی لغوی تعریف : پیروی کرنا ۔ اگر ہم صرف اتنی بات پر اکتفا کرتے تو آپ کو یقینا اعتراض کرنے کا حق تھا کہ اس میں تو قرآن وسنت کے علاوہ دوسری چیزیں بھی مثلا شیاطین وغیرہ بھی شامل ہورہے ہیں ۔
اتباع کی شرعی تعریف : لہذا اس اعتراض کو ختم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی قید کا اضافہ کیا ۔ اور یہ ہم نے کوئی اپنی طرف سے تھوڑا ہی کیا بلکہ قرآن کی آیت مذکورہ اور اس کے علاوہ کئی دلائل اس پر شاہد ہیں ۔
اور اسی طرح میں نے احتیاطا اپنی پہلی مشارکت میں عرض کیا تھا :
سوال : اتباع کی حدود کیا ہیں ؟
جواب : مذکورہ سوال تیں احتمالات رکھتا ہے
اول : بذات خود اتباع کی حدود کیا ہیں ؟ یعنی اتباع کب تک کی جائے گی ؟ یا کن حالات میں اتباع کی جائے گی ؟ وغیرہ
ثانی : پیروی کرنے والوں کی حدود ؟ یعنی کون کون اتباع کا مکلف ہے ؟
ثالث : جس چیز کی اتباع کرنی ہے یعنی متبوع کی حدود کیا ہیں ؟ کون کون سی چیزیں ہیں جن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ؟
پہلے احتمال کےمطابق جواب : اس حوالے سے اتباع کی کوئی حدود نہیں ہیں ہر حال میں اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔
دوسرے احتمال کےمطابق جواب : تمام مسلمان اتباع کے مکلف ہیں (عوارض اهليت وغيره كو مد نظر ركھا جائے ) جو احکام شر عیہ کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے وہ ان سے پوچھ کر عمل کریں گے جو جانتے ہیں ۔ اور یہ بھی اتباع میں داخل ہے کیونکہ سائل ان کی بات پر اس وجہ سے عمل نہیں کرے گا کہ وہ ان کی بات ہے بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے قرآن و سنت سے بیان کی ہے ۔
تیسرے احتمال کےمطابق جواب : اتباع صرف اللہ اور اس کے رسول کی کی جائے گی ۔ یعنی قرآن و سنت میں جو کچھ لکھا ہے دین وہی ہے اس کے علاوہ کسی کی بات دین نہیں ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا : اتبعو ا ما أنزل إلیکم من ربکم و لا تتبعو ا من دونہ أولیا ۔ اور ما أنزل میں قرآن او رسنت دونوں شامل ہیں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فهو رد ( رواه مسلم برقم 1718 )
اب اس وضاحت کے سلسلے میں آپ کارد عمل یہ ہوناچاہیے کہ یا تو اس میں جہاں سقم ہے اس کی نشاندہی کریں یا پھر اس کو قبول فرمائیں اور بات آگے بڑھائیں کیونکہ بقول آپ کے :
کسی چیز کی تعریف اس لئے کی جاتی ہے کہ اس سے اس کی حدو نہایت اورحدود قیود واضح ہوجائیں اوریہی تعریف کا مقصد بھی ہواکرتاہے۔
مقصد آپ کا حدود و قیود ہے لیکن آپ تعریف کابہانہ کرکے پتہ نہیں کس چیز کے پیچھے پڑے ہوئےہیں ۔
پہلے سے ملتا جلتا آپ کا اعتراض یہ ہے کہ آیت اتباع میں متبوع کا ذکر ہے لیکن یہ ذکر نہیں کہ اتباع کیا ہے ؟
حالانکہ اتباع کا سادہ سا معنی ہے کہ’’ پیروی کرنا ‘‘ اب یہ بھی آپ کو سمجھ نہیں آ رہا تو یہاں اتنی لمبی چوڑی بحث کرنے کی بجائے لغت کی کسی کتاب کا رخ کرنا چاہیےتھا ۔ اب قرآن تو عربی میں ہے ظاہر عربی لفظ ہی استعمال ہوں گے اردو یا پنچابی تھوڑا ہی لکھ دی جائے گی ۔

ویسے اب تک ہونے والی تمام مشارکات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ آنکھ مچولی کھیلتے رہے ہیں اور اپنے مذکورہ تین یا دو اعتراضات کو تطویل مبحث کے لیے بطور سہارا کے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ لہذا بات اگر تعریف کے حوالےسےواضح ہوئی تو آپ حدودو قیود کی طرف آ گئے اگر وہاں کوئی بات نہ بن سکی تو پھر تعریف کی طرف ۔ اسی طرح تعریف سے حدود اور حدود سے تعریف ۔۔
اس طرح کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بات کو سلجھانے کی بجائے لٹکانا چاہتے ہیں ۔

کسی بھی بات کو ثابت کرنے کے لیے دو طرح کے دلائل ہو سکتے ہیں ایجابی دلائل الزامی دلائل ۔ اگر آپ کو پہلے طریقے سے سمجھ نہیں آ رہی تو دوسری طرح سے ہی غور کرلیں ۔ شاید کوئی بات حل ہو جائے اگر آپ واقعتا ہی حل چاہتے ہیں ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
اس طويل بحث سے مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ہمارے ممدوح ‘ محدث العصر ، فقیہ ملت ، طحاوی دوراں ، غزالی زماں ، محترم جناب جمشید طحاوی صاحب کو :
تقلید
اجتہاد
فقہ
فقیہ
کی تو سمجھ آگئی ہے کہ یہ کیا چیزیں ہیں
البتہ
وہ صرف اور صرف
اتباع
کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اتباع کس بلا کا نام ہے ؟
اور ہمارے پیارے بھائی ابن داود وغیرہ اتباع سمجھانا چاہتے ہیں اپنے انداز سے لیکن یوں طحاوی دوراں کو سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ وہ فقیہ ملت ہیں لہذا غیر فقہی باتیں کرنا اور سمجھنا انکی شان فقاہت کے خلاف ہے ۔ لہذا بہتر ہوگا کہ ہم ان سے پہلے یہ سیکھ لیں کہ وہ
تقلید ‘ اجتہاد ‘ فقہ ‘ اور فقیہ کا کیا معنى سمجھے ہیں ۔
ان الفاظ کے معانی سیکھنے اور سمجھنے کے لیے جب ہم طحاوی دوراں کے آگے زانوئے تلمذ طے کریں گے تو ان شاء اللہ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنا مدعا فقیہانہ انداز میں انہیں سمجھا سکیں ۔ اور تقلید اور اتباع کے مابین فرق واضح کر سکیں ۔ کیونکہ امید ہے کہ غزالی زماں و طحاوی دوراں ہمیں تقلید کا معنى سمجھاتے ہوئے اپنی فقاہت کے بھی کچھ جوہر گراں مایہ عطاء فرمائیں گے ۔
تو محترم جناب طحاوی دوراں و غزالی زماں و فقیہ ملت ودیں ، علامہ وفہامہ وبحرقمقامہ محترم ومکرم جمشید صاحب
ہم عاجزانہ و پر تقصیرانہ انداز میں عرض گداز ہوتے ہیں کہ ہمیں تقلید کا معنى ومفہوم سمجھایا جائے جو آپ کے نہاں خانہ دماغ شریف میں مستور ہے ۔
تاکہ ہم پر بھی عقدہ وا ہو جائے اور تقلید کی چاشنی سے ہم بھی لطف اندوز ہو سکیں اور سمجھ سکیں کہ تقلید اور اتباع ایک ہی شے ہے یا پھر تقلید اور اتباع میں نقطہء اختلاف کو محسوس کرکے اپنا مافی الضمیر سمجھانے کے قابل ہو جائیں ۔
 
Top