محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۰ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۰ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْھُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ۰ۚ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ۱۵۲ اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓي اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ۰ۭ وَاللہُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۱۵۳
اورخدااپنا وعدہ تم سے سچا کرچکا۔ جب تم اس کے حکم سے کافروں کو کاٹتے تھے۔تاآنکہ تم نے نامردی کی اورحکم عدولی کر کے کام میں جھگڑا ڈالا۔ اس کے بعد کہ وہ تمھیں تمہاری محبوب شے (یعنی فتح کی صورت) دکھلاچکا تھا، تم میں کوئی دنیا چاہنے لگا اور کوئی آخرت چاہنے لگا۔ پھرخدا نے تم کو ان کافروں کی طرف سے پھیردیا، تاکہ تمھیں آزمائے اوروہ تو تم کو معاف کر چکا اور اللہ ایمان داروں پر فضل کرتا ہے۔ (۱۵۲) اورجب تم (شکست کھاکر پہاڑ پر) چڑھے جاتے تھے اور پیچھے مڑ کر کسی کو نہ دیکھتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم کو تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا۔پھرخدا نے تمھیں غم پرغم کا بدلہ دیا۔ یہ اس لیے ہوا کہ تم اس چیز کا جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس تکلیف کا جو تمھیں پہنچی، غم نہ کھاؤ اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔۱؎ (۱۵۳)
۱؎ اُحد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی توضعیف الایمان لوگ ڈگمگا گئے ۔انھیں شک نے آگھیرا کہ خدا نے جو نصرت و اعانت کا وعدہ کیا تھا، وہ پورا نہیں ہوا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا کا وعدہ سچا ہے ۔ اس میں کبھی تخلف نہیں ہوا۔ کیا تم نے جب تک پاس اطاعت کو ملحوظ رکھا، کامیاب نہیں رہے؟ اولاً توایسا ہوا کہ مسلمان مخالفین پر چھاگئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میدان حرب اب انھیں کا حصہ ہے۔ وہ لوگ جنھیں حضور ﷺ نے تیراندازی کے لیے درہ پرمتعین کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ آخر تک یہیں جمے رہنا۔ ان میں بعض لوگ غنیمت کے لالچ میں الگ ہوگئے اورلگے مال غنیمت لوٹنے۔ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے جو اس وقت کفار کے لشکر کے سردار تھے ،تاکا اور درہ کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نقشہ بالکل بدل گیا۔ اب مسلمان بھاگنے لگے اور یہ محض اس لیے ہوا کہ مسلمانوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت ترک کر دی اور دنیا طلبی کے جذبہ سے متاثر ہو کر مال و دولت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یہ درست ہے کہ نصرت کا وعدہ تھا، اور یہ بھی درست ہے کہ وعدہ کو ہرحال میں پورا ہونا چاہیے۔ مگر یہ توسوچیے۔وعدہ کن سے تھا ۔ کیا وعدے کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں تھے جو ہرحال میں فرمودہ رسول ﷺ کو قابل اتباع سمجھیں۔ اس صورت حال میں ظاہر ہے کہ منافقین کا اعتراض بالکل لغو ہوجاتا ہے ۔ ولقدعفاعنکم کے معنی یہ ہیں کہ آخر مسلمانوں کو اپنی اس نافرمانی کا احساس ہوا اور وہ بارگاہِ الٰہی میں توبہ کے لیے جھک گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا، اس لیے کہ اس کا شیوہ ہی عفوورحم ہے ۔ اس آیت کے بعد بھاگنے والوں پر کوئی الزام نہیں جب اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا تو ہم اعتراض کرنے والے کون؟یہ وہ لوگ ہیں جنھیں شرف صحبت حاصل ہے ۔جنھوں نے براہ راست انوار وتجلیات نبویﷺ کا مشاہدہ کیا ہے اورجمال یار کو بالمشافہ دیکھا ہے ، اس لغزش بشری پر انھیں مورد الزام ٹھہرانا محض الحاد ہے۔ وہ آنکھیں جو بعقیدت چہرہ اقدس کو دیکھتی رہیں، وہ کبھی محروم دیدار نہیں رہیں گی۔ اس کے بعد بھاگڑکا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح تم بھاگے چلے جاتے تھے۔ فرط بدحواسی میں تم نے رسولﷺ کی آواز کو بھی نہیں سنا۔ وہ تمھیں اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ کی پکار سے اپنی طرف متوجہ کررہا تھا اور تم تھے کہ بھاگے چلے جارہے تھے۔ تمہاری ان غلطیوں کا خمیازہ آلام وہموم تھے جن سے تمھیں دوچار ہونا پڑا۔ تم نے دیکھا کہ تمہارے سامنے کئی مسلمان جام شہادت پی گئے۔ حضورﷺ کے چہرہ اقدس کو لہولہان کر دیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ مشہور کر دیا گیا کہ حضورﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ تم جادہ اطاعت رسول ﷺ سے الگ ہوگئے اور تم نے پیغمبر خدا ﷺ کی ہدایات کی پروا نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ فتح و نصرت تو محض رہین اطاعت رسول ﷺ ہے۔
حل لغات
{تَحُسُّوْنَ} مادہ حس۔ جڑ سے کاٹنا۔ کلی استیصال ۔ بے دریغ قتل۔ {تُصْعِدُوْنَ} اصعاد فی الارض کے معنی ہیں اوپر کی طرف چڑھے چلے جانا۔
اورخدااپنا وعدہ تم سے سچا کرچکا۔ جب تم اس کے حکم سے کافروں کو کاٹتے تھے۔تاآنکہ تم نے نامردی کی اورحکم عدولی کر کے کام میں جھگڑا ڈالا۔ اس کے بعد کہ وہ تمھیں تمہاری محبوب شے (یعنی فتح کی صورت) دکھلاچکا تھا، تم میں کوئی دنیا چاہنے لگا اور کوئی آخرت چاہنے لگا۔ پھرخدا نے تم کو ان کافروں کی طرف سے پھیردیا، تاکہ تمھیں آزمائے اوروہ تو تم کو معاف کر چکا اور اللہ ایمان داروں پر فضل کرتا ہے۔ (۱۵۲) اورجب تم (شکست کھاکر پہاڑ پر) چڑھے جاتے تھے اور پیچھے مڑ کر کسی کو نہ دیکھتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم کو تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا۔پھرخدا نے تمھیں غم پرغم کا بدلہ دیا۔ یہ اس لیے ہوا کہ تم اس چیز کا جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس تکلیف کا جو تمھیں پہنچی، غم نہ کھاؤ اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔۱؎ (۱۵۳)
عصیان رسولﷺ کا نتیجہ
۱؎ اُحد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی توضعیف الایمان لوگ ڈگمگا گئے ۔انھیں شک نے آگھیرا کہ خدا نے جو نصرت و اعانت کا وعدہ کیا تھا، وہ پورا نہیں ہوا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا کا وعدہ سچا ہے ۔ اس میں کبھی تخلف نہیں ہوا۔ کیا تم نے جب تک پاس اطاعت کو ملحوظ رکھا، کامیاب نہیں رہے؟ اولاً توایسا ہوا کہ مسلمان مخالفین پر چھاگئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میدان حرب اب انھیں کا حصہ ہے۔ وہ لوگ جنھیں حضور ﷺ نے تیراندازی کے لیے درہ پرمتعین کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ آخر تک یہیں جمے رہنا۔ ان میں بعض لوگ غنیمت کے لالچ میں الگ ہوگئے اورلگے مال غنیمت لوٹنے۔ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے جو اس وقت کفار کے لشکر کے سردار تھے ،تاکا اور درہ کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نقشہ بالکل بدل گیا۔ اب مسلمان بھاگنے لگے اور یہ محض اس لیے ہوا کہ مسلمانوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت ترک کر دی اور دنیا طلبی کے جذبہ سے متاثر ہو کر مال و دولت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یہ درست ہے کہ نصرت کا وعدہ تھا، اور یہ بھی درست ہے کہ وعدہ کو ہرحال میں پورا ہونا چاہیے۔ مگر یہ توسوچیے۔وعدہ کن سے تھا ۔ کیا وعدے کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں تھے جو ہرحال میں فرمودہ رسول ﷺ کو قابل اتباع سمجھیں۔ اس صورت حال میں ظاہر ہے کہ منافقین کا اعتراض بالکل لغو ہوجاتا ہے ۔ ولقدعفاعنکم کے معنی یہ ہیں کہ آخر مسلمانوں کو اپنی اس نافرمانی کا احساس ہوا اور وہ بارگاہِ الٰہی میں توبہ کے لیے جھک گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا، اس لیے کہ اس کا شیوہ ہی عفوورحم ہے ۔ اس آیت کے بعد بھاگنے والوں پر کوئی الزام نہیں جب اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا تو ہم اعتراض کرنے والے کون؟یہ وہ لوگ ہیں جنھیں شرف صحبت حاصل ہے ۔جنھوں نے براہ راست انوار وتجلیات نبویﷺ کا مشاہدہ کیا ہے اورجمال یار کو بالمشافہ دیکھا ہے ، اس لغزش بشری پر انھیں مورد الزام ٹھہرانا محض الحاد ہے۔ وہ آنکھیں جو بعقیدت چہرہ اقدس کو دیکھتی رہیں، وہ کبھی محروم دیدار نہیں رہیں گی۔ اس کے بعد بھاگڑکا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح تم بھاگے چلے جاتے تھے۔ فرط بدحواسی میں تم نے رسولﷺ کی آواز کو بھی نہیں سنا۔ وہ تمھیں اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ کی پکار سے اپنی طرف متوجہ کررہا تھا اور تم تھے کہ بھاگے چلے جارہے تھے۔ تمہاری ان غلطیوں کا خمیازہ آلام وہموم تھے جن سے تمھیں دوچار ہونا پڑا۔ تم نے دیکھا کہ تمہارے سامنے کئی مسلمان جام شہادت پی گئے۔ حضورﷺ کے چہرہ اقدس کو لہولہان کر دیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ مشہور کر دیا گیا کہ حضورﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ تم جادہ اطاعت رسول ﷺ سے الگ ہوگئے اور تم نے پیغمبر خدا ﷺ کی ہدایات کی پروا نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ فتح و نصرت تو محض رہین اطاعت رسول ﷺ ہے۔
حل لغات
{تَحُسُّوْنَ} مادہ حس۔ جڑ سے کاٹنا۔ کلی استیصال ۔ بے دریغ قتل۔ {تُصْعِدُوْنَ} اصعاد فی الارض کے معنی ہیں اوپر کی طرف چڑھے چلے جانا۔