کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اجماعِ اُمت حجت ہے
شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
الحمد للّٰه ربّ العالمین والصّلٰوۃ والسّلام علٰی خاتم الأ نبیاء والمرسلین ورضی اللہ عن أزواجہ وذریتہ وأصحابہ وآلہ أجمعین ورحمۃ اللہ علٰی من تبعھم باحسان الٰی یوم الدین: من ثقات التابعین وأتباع التابعین والمحدّثین وھم السلف الصالحین۔ ونعوذ باللّٰہ من شرور المبتدعین الضالّین المضلّین ۔أما بعد:اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کا یہ بنیادی ایمان، عقیدہ اور عمل ہے کہ قرآن مجید اور حدیثِ رسول کے بعد اجماعِ امت ( صحیح العقیدہ سُنی مسلمانوں کا اجماع ) حجت اور شرعی دلیل ہے، لہٰذا اس کی حجیت کے بعض دلائل و آثار ِ سلف صالحین پیشِ خدمت ہیں ، نیز شروع میں اجماع کی تعریف و مفہوم بھی صراحتاً بیان کر دیا گیا ہے۔
اجماع کی تعریف و مفہوم:
کسی مسئلے ( یا عقیدے) پر اتفاقِ رائے کو لغت میں اجماع کہا جاتا ہے۔ مثلاً دیکھیئے القاموس المحیط (ص۹۱۷ب ) المعجم الوسیط (۱؍۱۳۵) اور القاموس الوحید (ص۲۸۰)
محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی نے لکھا ہے :
اسی طرح اَجمع کا مطلب : اتفاق کرنا، اکھٹا کرنا اور پختہ ارادہ کرنا ہے۔ دیکھیئے سورۃ یوسف (۱۵) مصباح اللغات (ص۱۲۲) اور عام کتبِ لغت ۔’’ والاجماع أی اجماع لأمة: الا تفاق.....‘‘ اور اجماع یعنی امت کا اجماع :اتفاق (تاج العروس ج۱۱ص ۷۵)
شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
اُمت سے مراد اُمتِ مسلمہ کے صحیح العقیدہ اہلِسنت علماء و عوام ہیں اور عوام اپنے علماء کے مقتدی و متبع ہوتے ہیں ، لہٰذا علماء کے اتفاق میں عوام کا اتفاق بھی شامل ہے۔’’الحمد للّٰه ، معنی الاجماع : أن تجتمع علماء المسلمین علٰی حکم من الأحکام۔واذا ثبت اجماع الأمة علٰی حکم من الأحکم لم یکن لأحدأن یخرج عن اجماعھم فاِن الأمة لا تجتمع علٰی ضلالة ولکن کثیر من المسائل یظن بعض الناس فیھا اجماعاً ولا یکون الأمر کذٰلک ، بل یکون القول الآخر ارجع فی الکتاب والسنۃ‘‘(الفتاوی ٰالکبریٰ ج۱ص ۴۸۴، مجموع فتاویٰ ج ۲۰ ص۱۰)
حمدوثنا اللہ ہی کے لیے ہے۔اجماع کا معنی یہ ہے کہ احکام میں سے کسی حکم پر مسلمانوں کے علماء جمع ہو جائیں اور جب کسی حکم پر اُمت کا اجماع ثابت ہو جائے تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ علماء کے اجماع سے باہر نکل جائے، کیونکہ اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی ، لیکن بہت سے مسائل میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجماع ہے، حالانکہ ان میں اجماع نہیں ہوتا بلکہ (اس کے مخالف) دوسرا قول کتاب و سنت میں زیادہ راجح ہوتا ہے۔