ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
اجمل نیازی کی بے نیازیاں
محمد عطاء اللہ صدیقی
۲۰ ؍جون۱۹۹۹ء کے ’’دن‘‘ میں ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کا کالم نگاہ سے گزرا۔ موصوف نے ایک مسلمان بچی کی طرف سے ’’انٹرنیٹ‘‘ پر توہین رسالت ؐپر مبنی مواد کا شافی جواب نہ ملنے کاذکر کیا ہے۔ اپنے کالم میں حسب ِمعمول نیازی صاحب نے علماء پر تنقید کافریضہ بھی انجام دیا ہے ۔انہوں نے علماء کی طرف سے کمپیوٹر کے متعلق مطلق لا علمی اورجہالت کی نشان دہی فرمائی ہے ۔حالانکہ ان کی یہ تنقیدبذات ِخود ایک جہالت اور لاعلمی کاشاخسانہ ہے ۔
تو جوکچھ انہوں نے کالم میں لکھا ہے، اسے لکھتے ہوئے انہیں اپنی لا علمی پر خود ہی شرمندہ ہونا پڑتا۔موصوف فکری اعتبار سے سیکولر ہیں۔ ا نہو ں نے کبھی علماء سے بالمشافہ ملاقات کا تردّد تو نہیں کیا، البتہ ان کی تحقیر اور تضحیک کا شغل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ علماء سے ربط وتعلق بڑھانے میں اتنا ہی تردّدکرتے جتنا کہ وہ اپنے گھر میں لیلیٰ جیس فلمی بدکار عورتوں کو دعوت دے کر کرتے رہے ہیں ،
ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے اپریل اورمئی کے شماروں میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مفصل مضامین شائع ہوئے ہیں ۔یہ مضامین ایک عالم دین حافظ حسن مدنی نے تحریر کیے ہیں ۔دینی صحافت کے تمام قابل ذکر رسالہ جات کمپیوٹر کے ذریعے کمپوز ہوتے ہیں۔ حضور نیازی صاحب !یہ تو محض آپ کی بے نیازیاں ہیں جو آپ کی آنکھ یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتی ۔آپ روشن خیالی کے خود ساختہ بھنور سے باہر نکلیں اور کم از کم ان اداروں کا مطالعاتی دورہ ضرور فرمائیں جن کامیں نے ذکر کیا ہے ۔آخر میں گذارش ہے کہ آپ اس بچی کو یہ ہدایت کیوں نہیں کرتے کہ وہ اس موضوع پر تحریر ی مواد کا مطالعہ کرے تو اس کے اِشکالات رفع ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب پیشہ کے اعتبار سے پروفیسر ہیں ۔ میں انہیں نہایت اعتماد سے بتا سکتا ہوں کہ اس وقت سینکڑوں علماء اور دینی مدارس کے طلبا کمپیوٹر کی تعلیم نہ صرف حاصل کر چکے ہیں بلکہ اس کا استعمال بھی کر رہے ہیں ۔ روزنامہ ’’دن‘‘ سے بمشکل ایک فرلانگ فاصلے پر۹۹۔جے ماڈل ٹاؤن میں لاہور انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنسز کام کر رہا ہے ۔ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے دار القرآن میں کمپیوٹر پڑھایا جارہاہے ۔پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے منہاج القرآن میں کمپیوٹر کابہت بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے ۔ گوجرانوالہ میں جامع مسجد کے امام مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بے حد مؤثر کمپیوٹر سسٹم کو متعارف کرایا ہے ۔ ان کے پاس انٹرنیٹ اور ای ۔میل کی سہولت بھی موجود ہے ۔اس میں جامعہ رحمانیہ کے سینکڑوں طلباء کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ اسی ماڈل ٹاؤن میں اے بلاک میں جامعہ اشرفیہ کاذیلی ادارہ دار الفیصل کام کر رہا ہے جس کے نصاب میں کمپیوٹر او رانٹرنیٹ کی تعلیم شامل ہے ۔جماعت اسلامی کے زیر نگرانی چلنے والے تمام اداروں میں کمپیوٹر کی تعلیم دی جارہی ہے ۔
ایسا سوال صریحاً جہالت بلکہ توہین رسالت پر مبنی ہے ۔ پھر گذشتہ سال ڈاکٹر بشپ جان جوزف کی خود کشی کے واقعہ کے پس منظر میں جو نیازی صاحب نے ’’دن‘‘ میں کالم لکھا تھأ ، وہ بھی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا۔ پھر حال ہی میں اداکارہ انجمن اور مولانا اکرم اعوان کے حوالے سے جو نیازی صاحب نے سخن سازیاں فرمائی ہیں ۔انجمن کے جمال اور جعلی صوفی اعوان صاحب کے جلال کے ملاپ کاجو مبالغہ آمیز نقشہ کھینچا گیا وہ نیازی صاحب کسی جنس پرستی کاایک لغو نمونہ تھا۔ ہم ان کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہڈاکٹر نیازی صاحب اسلام ،مذہب اورعلماء پر اپنے کالموں میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔ ہم نے کئی دفعہ محسوس کیا ہے کہ وہ احتیاط کا دامن ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔آج سے دو سال قبل انہوں نے علامہ جاویدالغامدی صاحب کا انٹرویو کیا تھا جو بعد میں ’’زندگی‘‘میں شائع ہوا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران نیازی صاحب نے غامدی صاحب سے یہ سوال بھی کر ڈالا تھا:’’کیا نبی اکرم ﷺ سیکولر(نعوذ باللہ) نہیں تھے ؟ ‘‘
کیونکہ علماء کی صحبتوں سے مستفید ہونے کا مشورہ کی روشن خیال، ترقی پسند اور سیکولرازم کے پجاری دانشور کو دینا سعیٔ لاحاصل ہے ۔وہ ’’ادب ‘‘ او ر’’مذہب‘‘ کی حدود اور تقاضوں او ران سے متعلق موضوعات کی مخصوص ضرورتوں کو نظر ا نداز نہ کیاکریں۔ ویسے ’’مذہب ‘‘ پر کچھ لکھنے کی بجائے وہ اپنے مرغوب موضوعات یعنی فلمی صنعت سے وابستہ افراد کے ’’اوصاف‘‘ کے مرقعے کھینچتے رہیں ، تو شاید وہ ان پری جمالوں کی قربتوں کے حصول میں کامیاب ہوسکیں