• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث جمع کرنے کی تاریخ

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم

میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں اگر ان پر کسی تھریڈ میں پہلے سے بات ہوچکی ہے تو اس کا لنک دے دیں۔
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس دور میں جمع ہونا شروع ہوئیں ۔ان کو جمع کر نے کا طریقہ کار کیا تھا۔علم رجا ل کی ابتدا کب ہوئی ۔
میرے ذہن میں اس کی واضح تصویر نہیں بن پارہی ہے۔
مثلاً حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سےصحابی نے کسی تابعی کو بتائی پھر تابعی نے اس کو نوٹ کیا کسی کتا ب میں یا پھر انہوں نے اپنے بعد والوں کو بیان کی۔ مثلاً امام بخاری تک جب حدیث پہنچی تو اس کا ذریعہ کیا تھا۔ یعنی انہوں نے جس راوی سے سنیں اس سے لیکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سینہ بہ سینہ روایت آئی یا کسی کتاب کے ذریعے ۔اور کتاب کے ذریعے آئی تو ہم براہ راست اس کتا ب سے استفادہ کیوں نہیں کرتے۔
مستدرک حاکم میں امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر احادیث جمع کیں تو اس کا درجہ کم کیوں ہے۔ اور امام حاکم جب ایک محدث تھے اور ان کو راویوں کا علم تھا تو انہوں نے بہت سی ایسی روایات اپنی کتب میں کیسے درج کیں کہ جو بعد میں محدثین نے صحیح نہیں قرار دیں۔
میں اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو الفاظ کی مناسب شکل نہیں دے پارہاہوں ۔ امید ہے کہ اہل علم میرے ذہن میں سوالات سمجھ جائیں گے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
مستدرک حاکم میں امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر احادیث جمع کیں تو اس کا درجہ کم کیوں ہے۔ اور امام حاکم جب ایک محدث تھے اور ان کو راویوں کا علم تھا تو انہوں نے بہت سی ایسی روایات اپنی کتب میں کیسے درج کیں کہ جو بعد میں محدثین نے صحیح نہیں قرار دیں۔

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

نسیم بھائی یہ رومن اردو میں تھریڈ ہے یہ دیکھے
http://romanquranohadees.com/index.php?threads/imam-hakim-r-a-ka-tasahil.150/
Imam hakim r.a ka tasahil
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم عدیل بھائی
بہت شکریہ آپ نے اتنی جلدی رسپونس دیا۔ اب ایک اور سوال پیدا ہوگیا ہے جب وہ حکم لگانے میں متساہل تھے تو کیا صرف ان کی کسی راوی کے بارے میں رائے حجت ہوگی ۔ میں نے کافی تھریڈ میں ان کے حوالے سے مختلف حدیثوں کے رایوں پر جرح دیکھی ہے۔جب کہ وہ اپنی کتاب کے بارے میں دعوی کی گئی شرط بھی ہیں پوری کر رہے ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس دور میں جمع ہونا شروع ہوئیں ۔ان کو جمع کر نے کا طریقہ کار کیا تھا۔
تدوین حدیث اور اسکی تاریخ
عہد ِنبویؐ میں لکھی گئی احادیث اوران کے مجموعے
تدوين حديث (کی مختصر تاريخ)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مثلاً حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سےصحابی نے کسی تابعی کو بتائی پھر تابعی نے اس کو نوٹ کیا کسی کتا ب میں یا پھر انہوں نے اپنے بعد والوں کو بیان کی۔ مثلاً امام بخاری تک جب حدیث پہنچی تو اس کا ذریعہ کیا تھا۔ یعنی انہوں نے جس راوی سے سنیں اس سے لیکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سینہ بہ سینہ روایت آئی یا کسی کتاب کے ذریعے ۔اور کتاب کے ذریعے آئی تو ہم براہ راست اس کتا ب سے استفادہ کیوں نہیں کرتے
احادیث سینہ بہ سینہ بھی منتقل ہوئیں اور کتابی شکل میں بھی. اور اسمیں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مستدرک حاکم میں امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر احادیث جمع کیں تو اس کا درجہ کم کیوں ہے۔ اور امام حاکم جب ایک محدث تھے اور ان کو راویوں کا علم تھا تو انہوں نے بہت سی ایسی روایات اپنی کتب میں کیسے درج کیں کہ جو بعد میں محدثین نے صحیح نہیں قرار دیں۔
اکثر لوگ برجستہ کہ دیتے ہیں کہ یہ راوی بخاری کا ہے اس لۓ حدیث صحیح ہے. حالانکہ معاملہ الگ ہوتا ہے. کئی بار امام بخاری رحمہ اللہ کسی راوی سے روایت خاص حالات میں لیتے ہیں. اور لوگ اسکو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں. اور حکم لگاتے ہیں صحیح علی شرط البخاری.
تو یہ ضروری نہیں ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ امام بخاری یا امام مسلم کی شرط کو سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتے.
واللہ اعلم بالصواب
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
امام حاکم رحمتہ اللہ کا تساہل

توثیق راوی کے حوالے سے امام حاکم رحمتہ اللہ کا تساہل امام ابن حبان رحمتہ اللہ کی طرح ہیں .


امام حاکم رحمتہ اللہ تصیح احادیث میں متساہل ہیں لہذا انکی احادیث کی تحقیق کرنا ضروری ہے اور ان کے مناسب حال ان پر حکم لگانا چاہئے

اور امام ذہبی رحمتہ اللہ نے اس کتاب کی تلخیص کی ہےاور اکثر احادیث پر ان کے مناسب حال حکم لگائے ہیں اس کے باجود کتاب مزید تحقیق و تدقیق کی محتاج ہے

جناب ڈیروی حنفی صاحب لکھتے ہیں :
امام حاکم کثیر الغلط ہیں۔ مستدرک میں انہوں نے کافی غلطیاں کی ہیں۔ بعض دفعہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین کہہ دیتے ہیں۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اسی لیے تلخیص المستدرک لکھ کر ان اغلاط کو ظاہر کیا ہے۔ بعض دفعہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ اغلاط بیان کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور غصہ میں آ کر امام حاکم رحمہ اللہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ، تجھے اے مؤلف حیا نہیں آتی ایسی غلط باتیں کرتے ہو۔۔۔ میناء ایک راوی ہے جو کہ محدثین کے ہاں رافضی اور کذاب ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میناء نے حضور ﷺ کو پایا ہے اور آنحضرت ﷺ سے سنا بھی ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بات سوا حاکم کے اور کسی بشر نے نہیں کہی۔ حالانکہ یہ تابعی ہے جو ساقط العدالت ہے۔ اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ کذاب ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ اور ابن معین رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں۔ اے مؤلف تجھے حیاء نہیں آتی کہ ایسی جھوٹی باتوں کو ایسی سندوں سے مستدرک علی الشیخین میں لاتے ہو۔
(تلخیص ،ج۳،ص۱۶۰)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں لکھتے ہیں ،میناء متروک الحدیث ہے اور رفض کی تہمت سے متہم ہے اور ابو حاتم رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے اور حاکم رحمہ اللہ ایسے وہم میں پڑے کہ اس کی صحابیت ثابت کر ڈالی۔
(نور الصباح، ص۶۲،۶۴)

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ''فکان ھذا من عجائب ماوقع له من النساھا والغفلة واللہ أعلم بالصواب''
''ان سے اس قدر تساہل اور غفلت کا صدور عجیب بات ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔''


علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ (م : ۱۲۵۲ھ) اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں :
فقد علم بذلك أن في سنده روح بن صلاح المصري، وهو ضعيف ضعفه ابن عدي، وهو داخل في القسم المعتدل من أقسام من تكلم في الرجال، كما في فتح المغيث للسخاوي، ولا اعتداد بذكر ابن حبان له في الثقات، فإن قاعدته معروفة من الاحتجاج بمن لا يعرف كما في الميزان، وقد تقدم، وكذلك لا اعتداد بتوثيق الحاكم وتصحيحه، فإنه داخل في القسم المتسمح.
’’معلوم ہوا کہ اس کی سند میں رَوح بن صلاح مصری راوی ہے جو کہ ضعیف ہے۔ اس کو امام ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ سخاوی کی فتح المغیث کے مطابق یہ درمیانے درجے کا مجروح راوی ہے۔ امام ابن حبان کے اسے ثقات میں ذکر کرنے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ان کا غیر معروف راویوں کی توثیق کرنے کا قاعدہ معروف ہے جیسا کہ میزان الاعتدال کے حوالے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح امام حاکم کی (منفرد) توثیق و تصحیح بھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ ان کا شمار متساہلین میں ہوتا ہے۔ “
(صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص : 132)

امام حاکم کی ''المستدرک'' پر مختلف علماء نے اظہار خیال کیا ہے۔ جن میں ابن الصلاح اور ان کے بالتبع ابن دقیق العید اور امام ذہبی ہیں۔ ابن الصلاح لکھتے ہیں: امام حاکم شرط صحیح میں متساھل ہیں، اس لیے ان کے بارے میں توسط سے کام لیا جائے جس حدیث پر صحت کا حکم لگانے میں منفرد ہوں اگر وہ صحیح نہیں ہے تو من قبیل حسن ہے لہٰذا وہ قابل عمل و احتجاج ہے الا یہ کہ اس میں سبب ضعف ظاہر ہوجائے
(مقدمہ ابن الصلاح، ص 18)


علامہ مالینی کی رائے : اس کے برعکس علامہ مالینی لکھتے ہیں: ''طالعت المستدرك علی الشیخین الذي صنفه الحاکم من أوله إلی آخرہ فلم أرفیه حدیثا علی شرطھما''
''میں نے امام حاکم کی تصنیف ''مستدرک علی الشیخین'' کا شروع تا آخر مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی بھی حدیث شیخین کی شرط پر نہیں ملی
احمد بن محمد بن احمد الانصاری الھروی (412کھ)


علامہ ذہبی نے المالینی کے قول پر تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے:
''ھذا غلو و إسراف وإلا ففي المستدرك جملة و افرة علی شرطھما و جملة کثیرة علی شرط أحدھما وھو قدر النصف وفیه نحوالربع مما صح سندہ أوحسن وفیه بعض العلل وباقیه مناکیر وواھیات وفیه موضوعات أفردتها في جزء''
''امام مالینی کا یہ قول افراط و تفریط کا شکار ہے۔ وگرنہ مجھے مستدرک میں بے شمار احادیث دونوں یا کسی ایک کی شرط پر ملی ہیں اور ان کی تعداد تقریباً تمام کتاب کا نصف ہے جوکہ علی شرط شیخین ہیں اور تقریباً چوتھائی احادیث صحیح یا حسن درجے کی ہیں۔ کچھ احادیث معلول بھی ہیں، کچھ مناکیر اور موضوعات بھی ہیں جنہیں میں نے اپنی کتاب میں ذکر کردیا ہے۔''
(تذکرة الحفاظ:4؍1372 طبقات سبکی :4؍165)

امام نووی تقریب میں فرماتے ہیں
وَاِعْتَنَی الْحَاکِمُ بِضَبْطِ الزَّائِدِ عَلَیْہِمَا وَھُوَ مُتَسَاھِلٌ
یعنی امام حاکم نے مستدرک میں کوشش کی کہ وہ شرطِ شیخین پر زائد حدیثیں ضبط کریں اور وہ حدیث کی تصحیح میں متساہل ہیں

امام سیوطی نے اس کے تحت تدریب میں فرمایا:
قَالَ شَیْخُ الْاِسْلَامِ وَاِنَّمَا وَقَعَ لِلْحَاکِمِ التَّسَاہُلُ لِاَنَّہٗ سَوَّدَ الْکِتَابَ لِیُنَقِّحَہٗ فَاَعْجَلَتْہُ الْمَنِیَّۃُ۔
(تدریب مع التقریب ص ۵۲)
یعنی شیخ الاسلام (حافظ ابن حجر عسقلانی) نے کہا کہ حاکم کے تساہل کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب مستدرک کا مسوّدہ تیار کیا تاکہ اس کی تنقیح کریں لیکن اس سے پہلے ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔

علامہ ابن صلاحؒ علوم الحدیث میں حاکم کے استدراک پر لکھتے ہیں:
’’فِیْ ذِکْرِ الْمُسْتَدْرَکِ لِلْحَاکِمِ: وَھُوَ واسعُ الخَطْوِ فِی شَرْطِ الصَّحِیْحِ مُتَسَاھِلٌ فی القَضَاءِ بہ‘‘۔
حاکم رحمہ اللہ اپنی مستدرک میں صحیح کی شرط کو نافذ کرنے میں غلطی کی ہے نیز کسی حدیث پر صحت کا حکم لگانے میں بھی متساھل تھے

علامہ عبد الحی لکھنویؒ نے الاجوبۃالفاضلہ میں حاکم کے استدراک پر علامہ عینیؒ کا کلام نقل کیا ہے۔ ’’قَدْعُرِفَ تَسَاھَلُہٗ‘‘۔
(الاجوبۃالفاضلہ ،للعبدالحی،ص؛۸۷)

حافظ ابن کثیرؒ اختصار علوم الحدیث میں لکھتے ہیں:
’’اَلْحَاکِمُ یُلْزُ مُھْمَا باِخْرَاجِ اَحَادِیْثَ لَاتَلْزَمُھُمَالِضُعْفِ رُوَاتِھَاعِنْدَھُمَا،فَالْقَوْلُ بِاَنَّھَا عَلیٰ شَرْطِھِمَا اَوشَرطِ اَحَدِھِمَاغَیْرُصَحَیْحِ‘‘۔
’’حاکم ؒ شیخین پر ان احادیث کی تخریج لازم قرار دے رہے ہیں جو راویوں کے ضعف یا معلول ہونے کی وجہ سے ان پر لازم نہیں ہے۔لہٰذا حاکمؒ کا استدراک غیر معتبر اور غیر صحیح ہے‘‘
(ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص:۵۲)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
@عدیل سلفی
@عمر اثری
السلام علیکم
آپ دونوں بھائیوں کی طرف سے رہنمائی پر مشکور ہوں۔ اللہ آپ دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ علم نافع میں اضافہ فرمائے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
آمین
 
Top