ابراہیم حنیف
مبتدی
- شمولیت
- اگست 15، 2013
- پیغامات
- 56
- ری ایکشن اسکور
- 130
- پوائنٹ
- 21
احوال واقعی
(خانوادہ عروس العلماء کے نام)
میں نہیں کہتا فلاں ابنِ فلاں گستاخ ہے
اس قبیلے کا ہر اک پیر و جواں گستاخ ہے
شاتم اسلاف ہیں احمدؔ رضا کے جانشین
بدعت آباد بریلی کی زباں گستاخ ہے
ایک کوزہ پشت کی تصنیف باطل دیکھ کر
اچھرہ والے بھی پکار اٹھے کہ ہاں گستاخ ہے
کیا کہوں فیض الحسن کی شوخی گفتار پر
لوگ کہتے ہیں کہ وہ جانِ جہاں گستاخ ہے
حیف! بد انجام پٹواری محدث بن گیا
وائے! فتنہ گر کا اندازِ بیاں گستاخ ہے
چھیڑ کر ان گل رخانِ مجلس احناف کو
ایک شاعر کی زبانِ نکتہ داں گستاخ ہے
نشہ آور ہے بدایوں کی شرابِ خانہ ساز
مغبچوں کا ذکر کیا پیر مغاں گستاخ ہے
وہ جہاں چاہیں جسے چاہیں اُسے رُسوا کریں
ہم پہ یہ تہمت کہ طبع بیکراں گستاخ ہے
کچھ مقطع جھالروں کو مفتیانہ روپ میں
یہ شکایت ہے کہ دستِ ناتواں گستاخ ہے
باعث رسوائی جب دینِ حنیفہ ہو گیا
مفتی لاہور آوارہ لطیفہ ہو گیا۔
شاعر: شورش کاشمیری۔ کتاب : چہ قلندرانہ گفتم۔ صفحہ 70۔ مکتبہ چٹان لاہور۔ طبع 2005ء