• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احکام ومسائل از شیخ عبدالوکیل ناصر

عمیراشرف

مبتدی
شمولیت
جولائی 30، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
0
فتاویٰ الملۃالبیضاء
المعروف
احکام ومسائل



۱۱۔سافٹ ویئر بینک اور دیگر سودی اداروں کے لئے مخصوص ہے ۔اس کا کیا حکم ہے؟ (نعمان بھائی ، کراچی)
جواب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ولاتعا ونو علی الاثم والعدوان‘‘ گنا ہ اور سر کشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو ۔نیز نبی ﷺ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، سودی معاملات لکھنے والے اور اس معاملے پر گواہ بنانے والے تمام افراد پر لعنت کی ہے اور گناہ میں انہیں ہم پلہ قرار دیا ہے ۔(ابو داؤد ، ابن ماجہ وغیرہ)
ایسی صورت میں جبکہ سافٹ ویئر ہے ہی سودی اداروں کے لئے تو مذکو رہ دلائل کی روشنی میںیہ معاملہ (خرید و فروخت سافٹ ویئر ) مکمل طور سے ناجائز و حرام قرار پاتاہے۔واللہ اعلم۔

۱۲۔داڑھی نہ رکھنے والے کی نماز کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ (ایک سائل)
جواب: مسلمان عقائد و اعمال اور وضع قطع میں شریعت اسلامیہ کے حکم کا پابند ہے۔داڑھی اسلامی شعائر میں سے ہے ۔جبکہ اسے صاف کر دینا غیر مسلموں سے مشابہت ہے جو کہ حرام ہے۔بہت سے علما ء کے نزدیک داڑھی مونڈھنا اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا ہے۔ایک مسلمان کو ایسے فعل بد اور عمل قبیح سے باز آجاناچاہئے ۔واللہ ولی التو فیق۔
جہا ں تک نماز کا تعلق ہے تو ہمیں ایسی کوئی بھی دلیل نہیں ملی کہ جس میں داڑھی نہ ہو نے کی صورت میں نماز نہ ہو نے کا ذکر ہو ا ہو ۔البتہ یہ ایک گناہ کبیرہ ہے لہٰذا ممکن ہے کہ اس صورت میں نماز میں واضح طور پر خلل واقع ہوتا ہو اور اصل ثواب سے ایسا شخص محرو م رہ جاتا ہو۔واللہ اعلم۔

۱۳۔کیا نبیﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں؟ (ڈاکٹر امان، خیر پور)
جواب: موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے سبھی کو ہمکنار ہو نا ہے جن میں جلیل القدر انبیاء و رسل علیہم السلام بھی شامل ہیں ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ’’انک میت و انھم میتون‘‘ اس قانو ن کے تحت انبیاء علیہم السلام بھی اپنی اپنی زندگی گزار چکے ہیں بجز عیسٰی علیہ السلام کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ ہی اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور قیامت سے قبل وہ آسمان سے نازل ہو نگے اور پھر اپنی عمر پوری کرکے وفات پا جائیں گے۔
قبر کا تعلق چونکہ آخرت سے ہے اور اسے آخرت کی منزلوں میں سے ایک منزل کہا گیا ہے لہٰذا ہم مدفون انبیاء ، اولیا ء و شہداء وغیرہ کے بارے میں اسی قدر جان سکتے ہیں جس قدر قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کے بارے میں یہ کہا کہ انہیں مردہ نہ کہو تو ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ان کی زندگی کو تم سمجھ نہیں سکتے ۔
لہٰذا خود ساختہ عقائد بنانے کے بجائے قرآن و سنت میں وارد نصو ص پر ایمان لے آنا چاہئے کہ سلامتی کی راہ یہی ہے۔
روایا ت کے اندر جو کچھ وارد ہو ا ہے کہ ’’الانبیاء احیاء قبورھم یصلون‘‘ وغٖیرہ تو ان تما م روایتوں میں دنیوی زندگی کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ انکی زندگی
برزخی زندگی ہے جو حسب درجات و فضائل انبیاء و غیر انبیاء کو حاصل ہے۔
دنیوی حیا ت کے قائل حضرات نے بھی یہی لکھا ہے کہ قبر کی زندگی کلی نہیں بلکہ حیات کی ایک قسم ہے (دیکھئے راہ سنت از سرفراز صفدر) جبکہ دنیوی حیات کی صورت ایک ہی قسم ہوتی ہے جس میں روح جسم کا ہر وقت اتصال رہتا ہے۔
اور یہ بھی یا د رہے کہ جس قدر روایات حیات انبیاء کے سلسلے میں پیش کی جا تی ہیں وہ سب کی سب ہی متکلم فیہ اور مختلف فیہ ہیں۔واللہ اعلم۔
(تفصیل کے لئے سلسلہ صحیحہ و ضعیفہ از البانی ، الصارم المنکی ، حیات النبی ﷺ از مولانا اسمٰعیل سلفی ؒ ) ( قصیدہ نو نیہ از امام ابن قیم ؒ ، حیاۃ الانسان از بشیر سہسوانی)

۱۴۔صلاۃالکسوف میں رکوع کی تعداد ایک رکعت میں کتنی ہے؟ (معلمہ الھدیٰ، کراچی )
جواب:جمہور کے نزدیک صلاۃالکسوف سنت ؤو کدہ ہے ، نیز سو رج گرہن کے دوران نماز کے علاوہ تکبیرات کہنا، استغفا ر کرنا اور صدقہ وغیرہ کرنا بھی مشروع ہے ۔
جہا ں تک تعلق ہے ایک رکعت میں رکوع کی تعداد کا تو اس سلسلے میں اہل علم کے درمیان شدید اختلاف موجود ہے روایات کے اندر ایک رکوع سے لیکر پانچ رکوع تک کا ذکر مو جود ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ دو رکوع (ہر رکعت میں) کرنا ترجیح رکھتے ہیں کیونکہ ان کے طرق زیادہ اور اصح ہیں ۔ تفصیل جاننے کے لئے (زادالمعاد ، مرعاۃالمفاتیح ، ارواء الغلیل ، از البانی) ایک رکعت میں ایک رکوع یا پانچ رکو ع والی روایا ت کچھ علماء کے نزدیک ضعیف ہیں۔

۱۵۔صلاۃاستسقاء میں دعا کی کیفیت اور وقت دعا کیا ہوگا؟(معلمہ الھدیٰ، کراچی )
جواب:نماز استسقاء قحط سالی میں مشروع ہے یہ نماز دو رکعت ہے، اس نماز میں انتہا ئی عاجزی و انکسا ری مطلو ب ہے ، یہ نماز کھلے میدان میں پڑھنی چاہئے ، اس میں خطبہ بھی مشرو ع ہے خطبہ نماز سے قبل اور اس کے بعد دو نوں طرح درست ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس نماز کی مشرو عیت میں امام ابو حنیفہؒ کے سوا کسی نے اختلا ف نہیں کیا (نیل الاوطار ) جہاں تک دعا کی کیفیت کیا تعلق ہے تو اس سلسلے میں معلو م ہو نا چاہئے کہ دونوں ہاتھو ں کو ملا کر اٹھانا اور اس قدر اٹھانا کہ بغلو ں کی سفیدی نظر آجائے نیز ہا تھوں کی پشت کو آسمان کی طرف رکھنا اور ہتھیلی کے حصوں کو زمین کی طرف رکھنا (یعنی الٹے ہا تھ اٹھانا ) بھی مشرو ع ہے۔
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کسی دعا میں اپنے ہاتھ اتنے بلند نہ کرتے تھے جتنے کہ استسقا ء میں یہاں تک کہ آپ کی بغلو ں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔(صحیح ابو داؤ د حدیث نمبر 1170)
سیدنا انسؓ سے ہی روایت ہے کہ نبی ﷺ بارش کے لئے اس طرح دعا فرماتے تھے اور پھر انہوں نے ہاتھ لمبے کر کے دکھائے او ر ہتھیلیوں کو زمین کی طرف کیا (اور اتنے بلند کئے کہ ) میں نے انکے بغلو ں کی سفیدی دیکھی ۔ (ابو داؤ د 1171)
وقت دعا یہ ہے کہ نماز سے قبل اور بعد جس طرح خطبہ صحیح ہے دعا بھی نماز سے پہلے یا بعد میں صحیح ہے ، ابو داؤد شریف حدیث نمبر 1161اور 1162میں اس کی وضاحت مو جو د ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۶۔عیدین کی نما ز کس وقت ادا کرنی چاہئے ؟ (معلمہ الھدیٰ، کراچی )
جواب:نماز عید کا وقت سور ج کے نیزے کے برابر بلند ہو نے سے لیکر ڈھلنے تک ہے یعنی زوال سے پہلے پہلے ، سیدنا جندبؓ سے اس سلسلے میں ایک روایت اس طرح ہے کہ نبی ﷺ عید الفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سو رج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتااور عید الاضحی اس وقت پڑھتے جب سور ج ایک نیزے کے برابر بلند ہو جاتا، اس حدیث میں اگر چہ ضعف ہے مگرا مام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ نماز عیدین کے وقت کی تعیین میں سب سے اچھی واردشدہ حدیث جندبؓ ہے۔(نیل الاوطار)
امام شافعی ؒ نے ایک روایت ذکرکی ہے جس میں ہے کہ عید الاضحی جلدی پڑھا کرو اور عید الفطر کچھ تا خیر سے پڑ ھا کرو مگر یہ بھی مرسل ہے ۔(ارواء الغلیل)
یا د رہے ذکر کردہ روایا ت کے ضعف کے باوجو د ان سے ماخو ذ مسائل پر اتفاق ہے۔(فتح الباری )
نیز یہ کہ مسلمانوں کا عمل بھی اس کا أو ید ہے۔سیدنا عبداللہ بن بسرؓ سے مروی ہے کہ وہ لو گو ں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے تو امام کے تاخیر کر دینے پر انہیں نہا یت تعجب ہوا ، فرمانے لگے بے شک ہم تو اس وقت نماز پڑھ کر فارغ بھی ہو چکے ہو تے تھے۔(ابو داؤ د 1135)
لہٰذا یہ نماز یں جلد ہی ادا کرنی چاہئیں۔و اللہ اعلم۔

۱۷۔قنو ت وتر کا طریقہ کار مع الحکم بیان فرمادیجئے ؟ (معلمہ الھدیٰ)
جواب:صحیح بات یہ ہے کہ قنو ت وتر فقط مستحب ہے، واجب نہیں ۔شیخ البانی ؒ نے اپنی کتاب صفۃ الصلا ۃالنبی ؐ میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ کبھی کبھی قنو ت وتر کا اہتمام فرماتے اور قبل الرکوع اسے اختیا ر فرماتے، نیز یہ کہ وتر کے ناقل تمام صحابہؓ سے قنو ت وتر منقو ل نہیں ہے۔
شیخ امین اللہ پشاوری شیخ ابن بازؒ سے نقل کرتے ہیں کہ کبھی کبھی قنو ت وتر پڑھ لینا ہی بہتر ہے اور اس پر دوام و استمرار سنت نہیں ہے۔(الدین الخا لص جلد 5)
سیدنا ابی بن کعبؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ تین وتر پڑھتے اور دعائے قنو ت رکوع سے پہلے پڑھتے (نسائی قیام الیل حدیث 1700اور سنن ابن ماجہ حدیث1182) نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعو دؓ اور دیگر صحا بہ کرامؓ کا عمل مذکو ر ہے کہ وہ قنو ت وتر رکو ع سے پہلے پڑھتے تھے ۔واضح رہے کہ مسنو ن طریقہ تو یہی ہے کہ وتروں میں دعا ئے قنو ت قبل از رکو ع ہو البتہ قنو ت نازلہ بالخصوص رکو ع کے بعد ہی ثابت ہے ، تاہم بعض علماء دعا ئے قنو ت وتر پڑھنے کے قا ئل ہیں اور وہ بھی جا ئز ہے۔لیکن علمائے محققین حا فظ ابن حجر ؒ ، شیح البانی صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی ؒ اور حا فظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اور دیگر بہت سے علماء نے قنو ت وتر قبل از رکوع وا لی روایت کو زیادہ صحیح کہا ہے اور انہیں بعد از رکو ع والی روایات پر ترجیح دی ہے جس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ قنو ت وتر رکو ع سے قبل پڑھی جا ئے۔واللہ اعلم۔
دعا ئے قنو ت وتر میں ہاتھ اٹھا نے کے بارے میں کو ئی مرفو ع روایت نہیں ہے تاہم مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں جن میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر ملتا ہے ۔
بعض علماء کے نزدیک ہا تھ اٹھا کر یا ہاتھ اٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنو ت وتر پڑھنا صحیح ہے ، تاہم ہاتھ اٹھا کر دعا ئے قنو ت پڑھنا اس لئے راجح ہے کہ ایک تو قنو ت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے یعنی مرفو عاً ثابت ہے تو اس پر قیاس کرتے ہو ئے قنو ت وتر میں بھی ہاتھ اٹھاناصحیح ہو نگے ، دوسرے بعض صحابہؒ سے قنو ت وتر میں ہاتھ اٹھاناثابت شدہ ہے۔(فوائد سعیدی بر حاشیہ ابی داؤ دطبع دارالسلام)

۱۸۔عقیقہ ساتویں دن سے پہلے کرنا کیسا ہے؟ (شاہد فاروقی ، لیا قت آباد کراچی ) ۔۔۔عقیقہ میں 2سے زیادہ بکرے کاٹنا کیسا ہے؟ (آصف، بلدیہ ٹاؤن کراچی)
جواب:عقیقہ کرنا مسنو ن عمل ہے، رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بچے کے ساتھ عقیقہ لازم ہے تم اس کی طرف سے خون بہا ؤ (قربانی کرو) اور اس سے تکلیف دور کر و (یعنی اس کا سر منڈواؤ)‘‘ (صحیح بخاری)
عقیقہ ساتویں دن مشرو ع ہے اور اگر کسی وجہ سے نہ کیا جا سکے تو چو دھویں دن یا اکیسویں دن کر دینا چا ہیے، دیکھئے (الجامع الصغیر بحوالہ فقہ الحدیث)
لہٰذا ساتویں دن ہی یہ مسنو ن عمل سر انجام دینا چاہئے البتہ اگر کسی نے اس سے قبل یا بعد کبھی بھی عقیقہ کر لیا تو انشا ء اللہ بچہ گروی سے آزاد تو شمار ہوجائے گا لیکن یہ شخص سنت سے محرو م رہے گا ۔واللہ اعلم۔
عقیقہ میں سنت یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانو ر(بکرے وغیرہ ) اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور (بکرا وغیرہ) ذبح کیا جائے، دیکھئے (ابو داؤ د، ارواء الغلیل)
جانور کا نر یا مادہ ہو نا نقصان کا باعث نہیں ہے۔(ارواء الغلیل4/391) یا د رہے کہ عقیقہ میں بکری یا دنبہ وغیرہ ذبح کرنا ہی مسنون ہے کیو نکہ احادیث میں انہی کا ذکر ہوا ہے۔
نیز سیدہ عائشہؓ سے کسی نے کہا کہ عقیقہ میں اونٹ ذبح کر دیجئے تو آپؓ نے فرمایا معا ذ اللہ مگر وہی ذبح کرنا ہے جو رسو ل اللہﷺ نے فرمایا یعنی دو بکریاں مکمل ۔( ارواء الغلیل4/390)
لہٰذا جس طرح دوسری جنس (گائے اونٹ وغیرہ ) عقیقہ میں جائز نہیں ہے اسی طرح دو سے زیادہ جانور ذبح کرنا بھی خلاف سنت ہے البتہ چو نکہ آج کل پکا کر کھلا نے کا رواج ہے تو علیحدہ سے مزید گو شت ملا کر پکا یا جا سکتا ہے مگر وہ عقیقہ مسنو نہ میں شمار نہیں ہو گا۔واللہ اعلم۔

۱۹۔سونا ، چاندی قرض لینا کیسا ہے؟(ارشاد ، اور نگی کراچی)
جواب:قرض لینا دینا بوقت ضرو ر ت جائز ہے قر آن و سنت اور اجماع سے یہ مسئلہ ثابت شدہ ہے اور یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم آپس میں باہم متعاون ہوں اور قرض دینے میں یہ تعاون مو جو د ہے، البتہ قرض لینے والا یہ نیت کر کے لے کہ میں اسے ضرور لو ٹا دوں گا تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے لو ٹا نے کے اسباب بنا دیگا۔انشاء اللہ
قرض ہر اس چیز میں جائز ہے جو تو لی جا سکتی ہو ، وزن کی جا سکتی ہو اور اس کا ماپ ممکن ہو اور جس کی ملکیت انسان حاصل کر سکتا ہو۔(المحلیٰ)
عبداللہ بن ابی ربیعہ مخزو میؓ بیا ن فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار کا قرضہ لیا اور پھر جب مال آیا تو مجھے لو ٹا دیا۔ (نسائی ، ارواء الغلیل جلد۵)
اس حدیث سے سو نا یا چاندی کے قرض لینے دینے پر استدلال ہو سکتا ہے کہ اس وقت درہم و دینا ر تھے ہی چاندی اور سو نے کے۔واللہ اعلم
تفصیل کے لئے دیکھئے (قرض مسائل و فضائل از پرو فیسر فضل الہٰی)

۲۰۔تشہد اول میں درور پڑھنا کیسا ہے؟ (نعمان، کراچی)
جواب:تشہد میں نبی مکرم ﷺ پر درود پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور بہت سے علماء نے اسے واجب قرار دیا ہے۔جہا ں تک تشہد اول کا تعلق ہے تو نسائی شریف کی صحیح حدیث اور دیگر عمومی دلائل کی بنیا د پر اہل علم نے درود شریف پڑھنے کو جا ئز لکھا ہے اور لکھا ہے کہ دونوں تشہد میں اس طرح فرق کرنا کہ ایک میں درود پڑھا جائے اور ایک میں نہ پڑھا جا ئے تو اس فرق کی کوئی دلیل نہیں ۔واللہ اعلم ، شیخ البانی ؒ ، شیخ عبدالمنان نو ر پو ری ؒ وغٖیرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ (نیل الاوطار ، صفۃ الصلاۃ النبی ﷺ ، احکا م و مسائل ، حاشیہ صلاۃ الرسول)
 
Top