• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلافِ رائے كى بنیاد پر تعصب ؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
اختلافِ رائے كى بنیاد پر تعصب ؟

ابوبکر
نظریاتى جہت پرمبنى یہ سوال دینى جماعتوں كے لئے لمحہ فكریہ ہے- اہل اسلام كے مابین باہمى افتراق و انتشاركى بیخ كنى اور اجتماعیت كے قیام كى آرزو ہر دل دردمند اورچشم پرنم كا دیرینہ خواب ہے جو صدیوں كى دشوار گزار اور كٹھن مسافت كے باوجود ہنوز شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسكا تاہم اُمورِ فقہی اور مسائل شرعیہ كے بارے میں دقت ِنظر سے دیكہا جائے تو واضح ہوگا كہ اختلافِ رائے اگر مہرو وفا اور صدق و صفا كے جذبات كے ساتھ ہو تو كوئى ایسى مذموم شے نہیں كیونكہ مختلف اذہان كے حامل افراد كے مابین مكمل اشتراكِ رائے ایك ناممكن الحصول خواہش ہے- اصل مسئلہ باہمى نفرت و عداوت اوربغض و عناد كا ہے- فقہى اُمور میں اختلافِ رائے تو صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اور فقہائے عظام كے مابین بھی موجود تھا لیكن ان كے نزدیك یہ مسائل اتنى شدت كے حامل نہیں تھے كہ ایك دوسرے كو دائرہٴ اسلام ہى سے نكال دیا جائے بلكہ ان كى نظر میں یہ مسائل علمى نوعیت پر مبنى عمومى مباحث ہوا كرتے تھے جو ایك بیدار مغز قوم كا خاصہ ہوا كرتے ہیں- مندرجہ ذیل چند ایك مثالوں سے اس حقیقت كى مزید وضاحت ہوتى ہے-
حضرت عبداللہ بن عمر بیان كرتے ہیں كہ نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منىٰ میں (دورانِ حج) نمازِ قصر پڑھى، آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے بعد حضرت ابوبكر صدیق نے بھی نمازِ قصر ادا كى ، پھر حضرت عمر فاروق  نے بھی نمازِ قصر ادا كى پھر حضرت عثمان نے ابتداے خلافت میں تو نماز قصر ہى كى لیكن بعد میں مكمل ادا كرنى شروع كردى- چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر جب امام (حضرت عثمان) كے پیچھے نماز ادا كرتے تو پورى ہى پڑہتے تھے لیكن جب علیحدہ ادا كرتے تو قصر كیا كرتے تھے (كیونكہ وہ سفر میں قصر كرنے كے قائل تھے)- (صحیح مسلم مع شرح النووى، جلد٣ ص٢١٢٣)
اسى سے ملتا جلتا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے بھی مروى ہے كہ انہوں نے بھی حضرت عثمان كے پیچھے پورى نماز ادا كى حالانكہ وہ سفر میں نمازِ قصر كے قائل تھے پھر جب ان سے كہا گیا كہ آپ (نماز كى مكمل ادائیگى پر) حضرت عثمان كو عیب بھی لگاتے ہیں اور ان كے پیچہے نماز ادا بھی كرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا كہ الخلاف شر یعنى اختلاف كرنا شر (برائى) ہے- (عون المعبود شرح سنن ابى داؤد ،جلد٢ ص١٤٥)
عباس بن عبدالعزیز بیان كرتے ہیں كہ میں ایك روز امام احمد بن حنبل كى خدمت میں بیٹھا ہوا تھا كہ على بن مدینى بھی آپہنچے اور ایك مسئلے پر بحث چھڑ گئى،بحث اتنى بڑہى كہ آوازیں بلند ہوگئى، میں ڈرا كہ جھگڑا ہوجائے گا لیكن جب على ابن مدینى رخصت ہونے لگے تو امام احمد بن حنبل نے آگے بڑھ كر ان كى سوارى كى ركاب تھام لى اور بڑى عزت سے انہیں سوار ہونے میں مدد دى- (جامع بیان العلم و فضلہ، ص٢٥٩)
بہرحال یہ ذكر تو برسبیل تذكرہ نوكِ قلم سے صفحہٴ قرطاس پر منتقل ہوگیا وگرنہ ہمارا مطلوب تواس مقصد كا حصول ہے جو ملتوں كى تاریخ كو تابناك بناتا اور اس كے افراد كى فكر كو جلا بخشتا ہے كہ حالات كے مطابق طرزِ زندگى اختیاركرنا ہى دانشمند اقوام اور فہمیدہ عوام كا شعار ہے، كیفیاتِ زمانہ كے رعایت كئے بغیر ہر دور میں پورى تندہى و جانفشانى كے ساتہ ایك جیسے مسائل ہى پر بحث كرتے رہنا اور چہوٹى چہوٹى باتوں كو ہوا بنا كر ہمیشہ معاندانہ رویہ اپنائے ركہنا اہل دانش وبینش كا شیوہ نہیں- ملت ِاسلامیہ آج جن دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے كیا وہ ہمیں اس بات كى اجازت دیتے ہیں كہ ہم اب بھی انہى مباحث میں اُلجھے رہیں جو بتدریج ہمارے علمى اَوزان كو زنگ آلود، فكرى وسعتوں كو زوال پذیر، قوت كو كمزور اور ہمت كو پست كردیں-
واضح ہو كہ ہمارے قابل صد احترام ائمہ عظام اور فقہاے كرام جس زمانے میں فروعى مسائل پربحث فرمایاكرتے تھے، وہ اسلام كے بھرپور غلبے اور اقتدار كا دور تھا جبكہ آج اس كى مثال تو دركنار، عشرعشیر بھی نہیں ہے- اہل بصیرت كى دقیقہ رس اور رمز شناس نگاہوں میں ابھی وہ منظر محفوظ ہوگا كہ جب امریكہ نے حكومت ِپاكستان كے اشتراك و تعاون كے ساتہ افغانستان پر حملہ كیا تھا توتقریباً تمام ’باحمیت اور حساس‘ دینى جماعتوں نے متحد ہوكر حكومت كے اس مذموم اقدام كے خلاف پُرزور صداے احتجاج بلندكى تھى لیكن جب چند ماہ بعد ہى بھارت نے اپنى افواج كو پاكستان سے ملحقہ سرحدوں پر جمع كرنا شروع كردیا تو انھى تنظیموں نے صدرِ پاكستان كو پاك فوج كے دوش بدوش اپنے مكمل تعاون كى یقین دہائى كروائى تھى حالانكہ مسئلہ افغانستان پر حكومت سے ان كى چپقلش اور ناچاقى كوئى ڈہكى چھپى بات نہیں تھى لیكن یہ حالات كى سنگینى اور كیفیات كا تفاوت تھا كہ جس نے احوال كے پیش نظر انہیں اپنا طرزِعمل بدلنے پر مجبور كیا- ہوبہو یہى كیفیت فروعى مسائل كى ہے- ان كے سلسلے میں بھی ہمیں اپنے رویے پر نظرثانى كرنے كى ضرورت ہے-ہم معاذ اللہ اس بات كے دعویدار نہیں كہ ان مسائل كا اسلامى مباحث سے كوئى تعلق اور واسطہ ہى نہیں- بلا شك و شبہ ان اُمور كا شماربھی اسلام كى خدمت میں ہوتا ہے اور ان پر بحث و تحقیق كى ذمہ دارى بھی علماء امت كى ہى ہے لیكن جن اُمور و معاملات نے دورِ حاضر میں عالم اسلام كو نت نئى آزمائشوں سے دوچار كرركہا ہے، ان كا ترجیحى بنیادوں پر قلع قمع كرنا زیادہ ضرورى ہے-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
حالات كى تلاطم خیز اورناسازگار اَمواج كے بے رحم تھپیڑوں كى زد میں آئى ہوئى اُمت ِمسلمہ كى شكستہ حال و درماندہ ناؤ تباہى كے قریب آن لگى ہے- ہم علماے كرام كى خدمت میں بصدادب و احترام مكمل درد دل كے ساتہ درخواست كرتے ہیں كہ خدارا عالم اسلام كى موجودہ بے كسى و ناچارى پر رحم كریں اور ان مسائل كو اتنے جوش و جذبے كے ساتھ ہوا نہ دیں جو عصرحاضر میں ضمنى حیثیت كے حامل ہیں-
قلم آمادہ، تقریر مستعد اور قلب بیدار ہو تو كتنے چیلنج ہیں جو عرصہٴ دراز سے علماء كرام كى كماحقہ‘ توجہ كے منتظر ہیں- شرك و بدعت، فتنہٴ انكار حدیث، نصوصِ نقلی پھر اُمور عقلی كى فوقیت عریانى و فحاشى اور سُود وغیرہ جیسے كتنے اُمور ہیں جن پر قرآن و سنت كى روشنى میں كام كرنے كى اشد ضرورت ہے- اہل علم و قلم ان موزوں موضوعات پر اپنى تحریروں كوترتیب دیں اور استعداد كواُبہاریں كہ حالات ِحاضرہ اسى سعى مشكور كے متقاضى ہیں
اُٹھو وگرنہ حشر ہوگا نہ پھر كبھی دوڑو زمانہ چال قیامت كى چل گیا !!
تفصیل اس اجمال كى یہ ہے كہ علم الكلام كى پیچیدگیوں میں اُلجھے ہوئے بعض افراد پر ابلیس نے تلبیس كى تو انہوں نے شرعى احكام كے اخذو استنباط اور ان پر تدبر وتفكر كے لئے مجرد عقل ہى كو اختیار كرلیا اور نقلى علوم (قرآن و حدیث) سے بے پرواہ ہوگئے چنانچہ قرآن حكیم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم كى صریح نصوص سے انحراف كرنے اور اپنى عقل ہى كو برہان واضح اور حجت ِقاطعہ سمجھنے كے نتیجے میں وہ كئى ایسے عقائد كو اختیار كربیٹھے كہ جو ملحدانہ ذہنیت كے عكاس اور زندیقانہ فكر كے غماز ہیں- جیسے فلاسفہ كے الٰہیاتى اور غیبى امور كے متعلق عقلى استدلال پر مبنى عقائد ہیں جن كى رو سے آخرت میں حشر الاجساد نہیں ہوگا بلكہ غیر مجسم ارواح ہوں گى جنہیں اعمال كے اعتبار سے عذاب و ثواب ہوگا- اس عقیدے كے مطابق فلاسفہ جنت اور دوزخ كے ادراكى (حقیقى) ہونے كے بجائے حسى (مثالى) ہونے كے قائل ہیں- مزید برآں ذات بارى تعالىٰ كے علم كے متعلق ان كا نظریہ كہ وہ صرف كلیات كا علم ركہتا ہے، صریحاًكفر ہے- ان تمام غیر شرعى عقائد كا باعث ان كا یہ نظریہ ہے كہ ایمان كى بنیادوں كى صداقت كى توثیق نقل كے بجائے عقل سے ہوتى ہے-مزید تفصیل كے لئے دیكھیے :
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ١٥، ص٤٥٢ تا ٤٥٩، تلبیس ابلیس ص ٦٠)
معلوم ہونا چاہئے كہ دین اسلام كا خاصہ ہے كہ وہ انسانیت كى علومِ نقلیہ (قرآن و حدیث) ہى كے ذریعے رہنمائى نہیں كرتا بلكہ عقلى دلائل كے ساتھ بھی انھیں قوانین شرعیہ كى حكمت و منطق سے آگاہ كرتا ہے- چنانچہ یہى وجہ ہے كہ قرآن حكیم نے كئى مقامات پرعقل و فكر كى اہمیت پر زور دیا ہے اور جو لوگ عقل سے كام نہیں لیتے انہیں چوپائے بلكہ ان سے بھی بدتر شے كے ساتہ تشبیہ دى ہے لیكن اس كا یہ مطلب نہیں كہ دین كے احكام و مسائل پربحث و تحقیق كے لئے نقلى نصوص كو بالكلیہ ترك كردیا جائے اور مجرد عقلى موشگافیوں ہى كو امام و راہنما بنا دیا جائے- اسلام كى اصل قرآن و حدیث ہیں جن سے كسى صورت میں بھی اعراض نہیں كیا جاسكتا جبكہ عقل ان كے تابع ہے، بالاتر نہیں- ایك دفعہ سرسید احمدخان نے مولانا قاسم نوناتوى كو لكھا:
”حضرت دین كى كوئى بات عقل كے خلاف نہیں ہونى چاہئے-“ مولانا نے جواب میں لكھا: ”آپ نے اُلٹا كردیا، اصل یہ ہے كہ عقل كى كوئى بات دین كے خلاف نہیں ہونى چاہئے-“ (مسلمانوں كا عروج وزوال از مولانا سعید احمد اكبرآبادى، ص٩٨)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
امام شافعی نے اپنے مد مقابل صدفی علیہما الرحمۃ سے کہا تھا :
ألا یستقیم أن نکون إخوانا و إن لم نتفق فی المسئلۃ
کہ ایسے نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم بھائی بن کر رہیں اگرچہ مسئلہ میں اتفاق نہ بھی ہوسکے ۔ ؟
کیا یہ بہتر نہیں کہ اختلاف رائے کے باوجود ہمارے درمیان بھائی چارہ قائم رہے ۔ ؟
کیا ہی خوب ہے کہ مسائل میں اختلاف ہماری اخوت میں اختلاف کا سبب نہ بنے ۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
خضر بھائی کیوں نہ ہم یہ اعلان کریں کہ باوجود اختلاف کہ ہم اہلحدیث اور حناف دونوں مسالک کو مسلمان سمجھتے اور ان کے ذبیحہ کو حلال اور انکے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
خضر بھائی کیوں نہ ہم یہ اعلان کریں کہ باوجود اختلاف کہ ہم اہلحدیث اور حناف دونوں مسالک کو مسلمان سمجھتے اور ان کے ذبیحہ کو حلال اور انکے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ہم تو یہ اعلان کر چکے اور وقتاً فوقتاً کرتے ہی رہتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:

مقلدین کے پیچھے نماز پڑھنا اور ان کی منکوحہ سے نکاح کرنا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عاصم کمال بھائی آپ نے اچھی بات کی ہے ۔
شاکر بھائی نے آپ کی طرف توجہ بھی فرمائی ہے ۔
بس میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی مسلمان کو ہم اپنا بھائی سمجھتے ہیں ۔
اور بہت بڑے بڑے اور رئیسی قسم کے اختلافات ہونے کے باوجود ہم اس کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے اسی طرح تیار ہیں جس طرح ایک گھر میں دو بھائی اختلاف رائے کو حل کرتے ہیں ۔ اور اگر یہ اختلافات حل نہیں ہوتے تو ہم پھر بھی ان شاء اللہ بھائی بھائی ہیں ۔ لیکن اس طرح کی اخوت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے درمیان اختلاف نہیں ۔
مطلب جس طرح اختلاف رائے بھائی چارے میں آڑ نہیں ہونی چاہیے ۔
اسی طرح بھائی چارہ اختلاف رائے کو ختم کرنے کا سبب نہ ہو ۔ (بل الحق أحق أن یتبع )
ہمارے ہاں ہر دو طرف میں غلطی کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں اگرچہ مؤخر الذکر کم ہوتے ہیں ۔
 
Top