• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اخلاق و کردار کی اصلاح

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بچوں کےاخلاق و کردار کی اصلاح

بچوں کےاخلاق و کردار کی اصلاح

اخلاق وکردار کے اعتبار سے بچے کی تربیت نہایت ضروری ہے ۔ رسو لﷺ کی شان میں قرآن کریم کے الفاظ ہیں:
((وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ))(سورۃ القلم:4) ’’اور آپ بڑے عمدہ اخلاق پر ہیں۔‘‘
والدین کے ذمے داری ہے کہ اولاد کے عادات و اطوار اوران کی مصروفیات کی نگرانی کریں۔اچھے اخلاق کے حصول کےلیے ان کے دلوں میں ایمان اوراللہ اوراس کے رسولﷺ کی محبت کا بیج بوئیں۔ بالخصوص ان کے فارغ اوقات کی نگرانی کریں اور ان اوقات کو مفید طریقے استعمال میں لانے کے لیے مفید مصروفیات کا اہتمام کریں ۔ انہیں اچھا لٹریچر فراہم کریں تاکہ وہ گندے اور اخلاق سوز لٹریچر سے محفوظ رہ سکیں ، انہیں قرآن کریم کے حفظ کرنے کی ترغیب دیں،قرآن کریم کا حفظ اور اس کے مفہوم و مطلب کا سمجھنا نفسوں کی پاکیزگی اور اوقات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علم و حکمت کے چشمے ان کے دلوں میں جاری کرنے کا سبب بنتا ہے۔
جس طرح بھلائی کی باتیں سکھلانا والدین کی ذمے داری ہے اسی طرح برے کاموں اور برے لوگوں سےمتنبہ کرنا بھی والدین اور بڑوں کی ذمے داری ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا:
((ائذَنُوا لِهُ ؛ بِئْسَ أَخُوالْعَشِيْرَةِ ؛أَوِ ابْنُ الْعَشِيْرَةِ)) فَلَمَّا دَخَلَ أَلاَنَ لَهُ الْكلَاَمَ ؛ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! قُلْتَ الَّذِي قُلْتَ: ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْكَلَامَ ؟ قَالَ(( أَيْ عَائِشَةُ! إِنَّ شَرَّالنَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ؛ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ))(صحیح بخاری،حدیث:6054)
’’اسے اجازت دے دو، فلاں قبیلے کا یہ برا آدمی ہے ۔‘‘جب و ہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگوکی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں(اس کے چلے جانے کے بعد) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کے متعلق اس اس طرح کہا تھا، اور پھر اس کے ساتھ نرم گفتگوکی؟ آپ نے فرمایا:عائشہ! وہ آدمی بدترین ہے جسے اس کی بدکلامی کے ڈرسے لوگ چھوڑدیں۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھا،آپ نے مجھ سے فرمایا:
((يَاغُلاَمُ! اِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ؛ احفَظِ اللهَ تَجِدُهُ تُجَاهَكَ؛ اِذَا سَأَلْتَ فَاسْألِ اللهَ؛ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ؛ وَاعْلَمْ اَنَّ الْاُمَّةَ لَوِاجْتَمَعَتْ عَلَي اَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْئ ٍلَمْ يَنْفَعُوكَ اِلَّا بِشَيْئ ٍقَدْكَتَبَهُ اللهُ لَكَ ؛ وَاِنْ اجْتَمَعُوا عَلَي اَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْئٍ لَمْ يَضُرُّوكَ اِلَّا بِشَيْئٍ قَدْكَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ ؛ رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ))(جامع ترمذی،حدیث:2516)
’’اے صاحب زادے!میں تمہیں چندباتیں بتاتا ہوں، تم اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ (کے حقوق) کا خیال رکھو ، اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے، اور جب مانگو تواللہ ہی سے مانگو، اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو، اور اس بات کو جان لوکہ اگر تمام مخلوق بھی تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سب مل کر بھی تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں اتنا ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں جتنا اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیاہے ۔قلم اٹھالیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔‘‘
والدین پر یہ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کو خیر سکھائیں ، اخلاق کی بنیادی باتیں ان کے دل و دماغ میں راسخ کریں، بچپن ہی سے انہیں سچائی ، امانت، استقامت، ایثار،پریشانیوں میں گھرے لوگوں کی مدد، بڑوں کا احترام، مہمانوں کا احترام، پڑوسیوں کے ساتھ احسان اور دوسروں کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنے کا عادی بنائیں۔ تربیت دینے والے حضرات اس بات کے بھی ذمہ دار ہیں کہ بچوں کی زبان کو گالی گلوچ ، براکہنے، گندے کلمات اداکرنے اور اس طرح کی تمام چیزوں سے دوررکھیں ، کیونکہ یہ چیزیں اخلاق کی خرابی کا سبب بنتی ہیں۔ یہ حضرات اس بات کے بھی ذمے دار ہیں کہ بچوں میں انسانی احساسات کا شعور بیدار کریں، مثلاً یتیموں کے ساتھ احسان کرنا، فقراء کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، بیواؤں اور مسکینوں پر شفقت کرنا ، ان سے ہمدردی کرنا وغیرہ۔
وہ چار بری عادات جو عام طور پر بچوں میں پائی جاتی ہیں۔
1۔جھوٹ کی عادت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((وَاِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ،فَاِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي اِلَي الْفُجُورِ ،وِاِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي اِلَي النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّي الْكَذِبَ حَتَّي يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّاباً))(صحیح مسلم،حدیث:2607)
’’جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتاہے اور برائیاں جہنم کی طرف لے جاتی ہیں ، اور انسان جھوٹ بولتا رہتاہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا رہتاہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالی کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتاہے۔‘‘
لہذاوالدین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جھوٹ سے نفرت دلائیں اور اس سے انہیں روکیں،اور انہیں اس کے برے انجام سے ڈرائیں۔
2۔چوری کی عادت
جھوٹ کے علاوہ بچوں کو عام طور پر چوری کی عادت ہوجاتی ہے ۔ یہ عادت بھی جھوٹ سےکچھ کم خطرناک نہیں۔اس سلسلے میں اگر بچہ بچپن ہی سے اپنے دل میں اللہ کا خوف اور اس کا وجودبٹھا لے تو بلاشبہ وہ چوری ، جھوٹ ، دھوکا بازی وغیرہ جیسے جرائم سے محفوظ رہ سکتاہے۔اس لیے والدین اور تربیت کرنے والے پر فرض ہے کہ وہ بچوں کے دلوں میں اللہ تعالی کے وجود کا یقین پیدا کریں اور اس طرح ان میں اللہ کا خوف پیدا ہوگا۔چوری کے برے اور خوفناک نتائج سے انہیں آگاہ کریں۔
عبداللہ بن دینارؒ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک چرواہا پہاڑی سے اترکر ہماری طرف آیا ۔سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما نے اس کا امتحان لینے کےلیے فرمایا: اے چرواہے ! ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمارے ہاتھ بیچ دو۔اس نے کہا: میں تو غلام ہوں،بکریاں میرے آقا کی ہیں۔آپ نے اس سے کہا : تم اپنے آقاسے کہہ دینا کہ ایک بکری بھیڑیا کھاگیا۔ چرواہا بولا:پھر اپنے اللہ کو کیا جواب دوں گا! وہ تو دیکھ رہا ہے ۔ یہ سن کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ رونے لگے ۔پھر اس غلام کے ساتھ اس کے آقاکے پاس گئے اور اسے خرید کر آزاد کردیااور فرمایا: تمہاری اس با ت نے تمہیں دنیا میں آزاد کردیا، مجھے امید ہے کہ یہ بات تمہیں آخرت میں بھی نجات دلائے گی۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی:2۔188)
3۔گالی گلوچ کی عادت
بچے کو گالی گلوچ سے روکنا نہایت ضروری ہے اور اس کے لیے ضرور ی ہے کہ گھر کے افراد مطلقاً کسی کو گالی نہ دیں۔ تربیت کرنے والے حضرات بچے کو گلی کوچے میں آزاد نہ چھوڑیں، ورنہ وہ برے ساتھیوں کے ساتھ رہے گا اور گالیاں ہی نہیں اور بھی بہت سی بری باتیں سیکھ لے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ الْمُومِنَ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا البَذِيِّ))(جامع ترمذی،حدیث:1977)
’’مومن طعنہ دینے والا ہوتاہے ، نہ لعن طعن کرنے والا ، فحش گوہوتا ہے اور نہ گندی بے ہودہ باتیں کرنے والا۔‘‘
4۔بے راہ روی اور آزادی کی عادت
ہمارے معاشرے میں بے راہ روی اور آزادی نے بہت بگاڑ پیدا کیا ہے ۔ بچوں کو آزاد چھوڑ دینا، انہیں کچھ نہ کہنا، نہ کسی چیز سے ان کو روکنا ، ہمارے اس رویے نے اولاد کو شتر بے مہار بھی بنا دیا ہے اور ہماری اسلامی اقدار وروایات سے بیگانہ اور متنفر بھی۔ہمارا یہی رویہ بچیوں کے ساتھ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بچیوں نے پردے کو خیرباد کہہ دیا ہے،حالانکہ بے پردگی نہایت خطرناک ہے ۔ اسلام نامحرموں کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔اللہ تعالی سورہ احزاب میں فرماتا ہے:
’’اے نبی! آپ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔اس سے وہ جلد پہچان لی جایا کریں گی، پھر انہیں ستایا نہ جائے گا اور اللہ توبڑی مغفرت والا ، بڑی رحمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب:59)
عورت کا چہرہ بھی پردہ ہے اور اس کا چھپانا بھی واجب ہے ۔اس کا کھولنا حرام ہے۔مطلب یہ کہ بے راہ روی سے بچنے کے لیے پردہ انتہائی اہم ہے۔ اس کے بغیر بے راہ روی سے بچنا ممکن نہیں، لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کو پردے کا پابند بنائیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ۔ نہایت ہی اہم موضوع ہے۔ آج کے دور میں واقعی والدین اپنی ان ذمّہ داریوں سے ازحد غافل ہیں۔ بچوں کے اخلاق و کردار کی تعمیر سے بڑھ کر اہم کام بھلا کیا ہو سکتا ہے، اور جس اندھیر نگری میں ہم زندہ ہیں، شاید اس سے نکلنے کی واحد صورت ہی یہی ہے کہ آنے والی نسل میں اخلاق و کردار اور کتاب و سنت کی روشنی بھر دی جائے، تاکہ ہماری آئندہ نسل ہم سے بہتر ہو۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ و احسن الجزاء
 
Top