• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا
آدمی اپنے ہوش و حواس اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہو جاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں"آٹا ماٹی ہونا" بھی کہتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اٹھکھیلیاں کرنا
آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ مثلاً، آٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔ "آٹھوں گانٹھ کمینت" ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہو جاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی"آٹھ کھیل" جو باتوں سے متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ"بارہ سولہ سنگھار" یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت
اُس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً، "اُجلی" کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ اُس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن کہنا بُرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو"اُجلی" کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں شامل ہے اور اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔
"اُجلی سمجھ" اور "اُجلی طبیعت" دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی سُوجھ بُوجھ اور عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا آ جالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور یہیں سے انسان کا فطرت اور تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ"اُجلی گزران" بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال اور خوش باش زندگی۔
"اُجلا منھ ہونا" بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و آبرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں"منھ کالا کرنا" بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اچھا نِکا
مغربی یو۔ پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ "نِکا" در اصل"نِکو" ہے جو فارسی میں نیک کے معنی میں آتا ہے اور مُراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔
محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں آتے۔ اُن کے کچھ مُرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ استعارہ اور تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر، فن اور طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور اُس کی علامتیں بھی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُچاپت اُٹھانا
یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کسان، مزدُور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ اُس کی قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل آنے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر فصل آنے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے اُچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق اُس کا اُدھار لینے سے ہی ہے لیکن ایک خاص سسِٹم کے ساتھ یہی بات آگے بڑھ کر دیوانی اور ساہوکاری میں بدلی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آدھا تیتر آدھا بٹیر
جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور اُس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں بھانپ لی جاتی ہے تو اُسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے کا بھی رواج تھا اور لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔ اِس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا اور رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص رجحانات کا ترجمان بن گیا۔ اُن میں موزونیت اور ہم آہنگی بطورِ خاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطورِ خاص اشارہ کرتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آدمیوں کا بَن یا جنگل
جنگل آدمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔ دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، "برگے" ہوں، شہتیر ہوں یا چھپّر ہو، اُسارہ ہو، جس کے سہارے چھپّر کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر آباد ہو گئے۔ گاؤں اور ضلعے بس گئے تو آدمی کا اور جنگل کا ساتھ چھُوٹ گیا۔ آدمی نے جنگل کاٹ بھی دیے اور اپنے شہری تصوّرات کے تحت غیر مہذب آبادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان کے نزدیک آدمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت آئی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر گھنی آبادی ہو گئی، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔
اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔
میر انیس کا مصرعہ ہے:
صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور
جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہا ہے اور صحرا کو تصورِ عشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل کیا گیا ہے۔ فراق کا مصرعہ ہے:
صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آدمیت پکڑنا
انسان آدم زاد ہے اور اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔ انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر
رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوں کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی رات، اندھیری رات، اندھیرا گھُپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب ہاتھ کو ہاتھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے، چاند رات بھی ہوتی ہے اور چاندنی رات بھی۔ اسی کے ساتھ "چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے"، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔
"آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر" نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آ جاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے حِساب سے راتیں دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں داستانوں اور کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ "الف لیلیٰ" کا نام ہی"الف لیلیٰ و لیلیٰ" ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ اردو کی مشہور معشوقہ لیلیٰ بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آدھوں آدھ کرنا
آدھا ایک کا نصف ہے اور تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی آدھے کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے۔ اَدّھی، اَدَھنّا، اَدھ پکا، اَدھ رانا، اَدھ بانکا، اَدھ مرا، اَدھ موا، ادھ کچرا، ادھ بُنا، اُن سب میں"آدھ" شامل ہے اور ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے"آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، آدھی رہے نہ ساری پاوے"۔ یعنی آدمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ آدھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی اِس کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی سماج کے رو یہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور خود غرضی اختیار نہ کرو۔
 
Top