• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ارکان نماز بھول جانا

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
کیا ارکان نماز بھول جانے پر رکعت دوبارہ دہرائی جائے گی یا صرف سجدہ سھو کافی ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا ارکان نماز بھول جانے پر رکعت دوبارہ دہرائی جائے گی یا صرف سجدہ سھو کافی ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
درج فتاویٰ دیکھئے :

أركان الصلاة وواجباتها وسننها
سؤال :ما هي سنن الصلاة ؟.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله

سنن الصلاة كثيرة ، منها القولية ، ومنها الفعلية . والمقصود بالسنن : ما عدا الأركان والواجبات .

وقد أوصل بعض الفقهاء السنن القولية إلى سبع عشرة سنة ، والسنن الفعلية إلى خمس وخمسين سنة . ولا تبطل الصلاة بترك شئ من السنن ، ولو عمدا . بخلاف الأركان والواجبات .

والفرق بين الركن والواجب : أن الركن لا يسقط عمدا ولا سهوا ، بل لابد من الإتيان به .

أما الواجب : فيسقط بالنسيان ، ويجبر بسجود السهو .

ولعل من المناسب هنا أن نذكر أركان الصلاة وواجباتها ، ثم شيئاً من سننها ، معتمدين في ذلك على ما في متن "دليل الطالب" وهو مختصر مشهور عند فقهاء الحنابلة :



أولا : أركان الصلاة ، وهي أربعة عشر ركناً ، كما يلي :

1- أحدها القيام في الفرض على القادر .

2- تكبيرة الإحرام وهي الله أكبر .

3- قراءة الفاتحة .

4- الركوع ، وأقله أن ينحني بحيث يمكنه مس ركبتيه بكفيه ، وأكمله أن يمد ظهره مستويا ويجعل رأسه حياله .

5- الرفع منه .

6- الاعتدال قائما .

7- السجود ، وأكمله تمكين جبهته وأنفه وكفيه وركبتيه وأطراف أصابع قدميه من محل سجوده . وأقله وضع جزء من كل عضو .

8- الرفع من السجود .

9- الجلوس بين السجدتين . وكيف جلس كفى ، والسنة أن يجلس مفترشا على رجله اليسرى وينصب اليمنى ويوجهها إلى القبلة .

10- الطمأنينة وهي السكون في كل ركن فعلي .

11- التشهد الأخير .

12- الجلوس له وللتسليمتين .

13- التسليمتان ، وهو أن يقول مرتين : السلام عليكم ورحمة الله ، ويكفي في النفل تسليمة واحدة ، وكذا في الجنازة .

14- ترتيب الأركان كما ذكرنا ، فلو سجد مثلا قبل ركوعه عمدا بطلت ، وسهواً لزمه الرجوع ليركع ثم يسجد .



ثانيا : واجبات الصلاة ، وهي ثمانية ، كما يلي :

1- التكبير لغير الإحرام .

2- قول : سمع الله لمن حمده للإمام وللمنفرد .

3- قول : ربنا ولك الحمد .

4- قول : سبحان ربي العظيم مرة في الركوع .

5- قول : سبحان ربي الأعلى مرة في السجود .

6- قول : رب اغفر لي بين السجدتين .

7- التشهد الأول .

8- الجلوس للتشهد الأول .



ثالثا : سنن الصلاة القولية ، وهي إحدى عشرة سنة ، كما يلي :

1- قوله بعد تكبيرة الإحرام : " سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك ، وتعالى جدك ، ولا إله غيرك " ويسمى دعاء الاستفتاح .

2- التعوذ .

3- البسملة .

4- قول : آمين .

5- قراءة السورة بعد الفاتحة .

6- الجهر بالقراءة للإمام .

7- قول غير المأموم بعد التحميد : ملء السماوات ، وملء الأرض ، وملء ما شئت من شيء بعد . (والصحيح أنه سنة للمأموم أيضاً) .

8- ما زاد على المرة في تسبيح الركوع . أي التسبيحة الثانية والثالثة وما زاد على ذلك .

9- ما زاد على المرة في تسبيح السجود .

10- ما زاد على المرة في قوله بين السجدتين : رب اغفر لي .

11- الصلاة في التشهد الأخير على آله عليهم السلام ، والبركة عليه وعليهم ، والدعاء بعده .



رابعا : سنن الأفعال ، وتسمى الهيئات :

1- رفع اليدين مع تكبيرة الإحرام .

2- وعند الركوع .

3- وعند الرفع منه .

4- وحطهما عقب ذلك .

5- وضع اليمين على الشمال .

6- نظره إلى موضع سجوده .

7- تفرقته بين قدميه قائما .

8- قبض ركبتيه بيديه مفرجتي الأصابع في ركوعه ، ومد ظهره فيه ، وجعل رأسه حياله .

9- تمكين أعضاء السجود من الأرض ومباشرتها لمحل السجود سوى الركبتين فيكره .

10- مجافاة عضديه عن جنبيه ، وبطنه عن فخذيه ، وفخذيه عن ساقيه ، وتفريقه بين ركبتيه ، وإقامة قدميه ، وجعل بطون أصابعهما على الأرض مفرقةً ، ووضع يديه حذو منكبيه مبسوطةً مضمومةَ الأصابع .

11- الافتراش في الجلوس بين السجدتين ، وفي التشهد الأول ، والتورك في الثاني .

12- وضع اليدين على الفخذين مبسوطتين مضمومتي الأصابع بين السجدتين ، وكذا في التشهد إلا أنه يقبض من اليمنى الخنصر والبنصر ويحلق إبهامها مع الوسطى ويشير بسبابتها عند ذكر الله .

13- التفاته يمينا وشمالا في تسليمه .

وفي بعض هذه الأمور خلاف بين الفقهاء ، فقد يكون الفعل الواجب عند أحدهم مسنونا عند الآخر ، وهذا مبسوط في كتب الفقه .

والله أعلم .

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
الإسلام سؤال وجواب
نماز کے ارکان، واجبات، اور سنتیں
سوال: نماز کی سنتیں کون کونسی ہیں؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

نماز کی متعدد سنتیں ہیں، جن میں سے کچھ قولی [زبانی]ہیں، اور کچھ فعلی ہیں۔

نماز میں سنتوں سے مراد: ہر وہ کام ہے جو رکن یا واجب نہیں ہے۔

چنانچہ کچھ فقہائے کرام نے نماز کی قولی سنتوں کی تعداد سترہ (17) اور فعلی سنتوں کی تعداد پچپن (55) بتلائی ہے۔

نماز کسی بھی سنت کے ترک کرنے سے باطل نہیں ہوتی، چاہے جان بوجھ کر ترک کرے، جبکہ ارکان اور واجبات کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔

*رکن اور واجب میں فرق یہ ہے کہ : رکن عمداً یا بھول جانے سے بھی ساقط نہیں ہوگا، بلکہ اسے ادا کرنا ضروری ہے۔

*جبکہ واجب بھول جانے سے ساقط ہوجاتا ہے، اور سجدہ سہو کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی مناسب ہے کہ ہم نماز کے ارکان، اور واجبات ذکر کریں، اور اسکے بعد کچھ سنتیں بیان کریں، جس کیلئے ہم "دلیل الطالب" کتاب پر اعتماد رکرینگے، یہ کتاب فقہائے حنابلہ کی مختصر اور مشہور کتاب ہے:

اول: نماز کے ارکان، چودہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- فرض نماز کے دوران قیام کی استطاعت رکھنے والے پر قیام کرنا۔

2- تکبیرِ تحریمہ یعنی "اللہ اکبر "کہنا۔

3- سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنا۔

4- رکوع کرنا، رکوع کی کم از کم حالت یہ ہے کہ جھک کر اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے، اور کامل رکوع یہ ہے کہ جھکتے ہوئے کمر کو سر کے برابر سیدھی کرے۔

5- رکوع سے اٹھنا۔

6- رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہونا۔

7- سجدہ کرنا، کامل ترین سجدہ یہ ہے کہ پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، اور دونوں قدموں کی انگلیوں کے کنارے سجدہ کی جگہ پر اچھی طرح رکھے جائیں، اور کم از کم سجدہ یہ ہے کہ ہر عضو کا کچھ نہ کچھ حصہ زمین پر ضرور رکھا جائے۔

8- سجدہ اٹھنا۔

9- دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا، جیسے بھی بیٹھے کفایت تو کر جائے گا، لیکن اس کیلئے سنت یہ ہے کہ اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اسکے اوپر بیٹھے، اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرکے قبلہ رخ کرے۔

10- پوری نماز میں اطمینان ، یعنی ہر فعلی رکن کو سکون کیساتھ ادا کرنا۔

11- آخری تشہد پڑھنا۔

12- تشہد اور دونوں طرف سلام کیلئے بیٹھنا۔

13- دونوں طرف سلام پھیرنا، سلام سے مراد یہ ہے کہ دو بار "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہنا، نفل اور نمازِ جنازہ میں ایک سلام بھی کفایت کرجائے گا۔

14- مذکورہ بالا ارکان میں ترتیب کا خیال کرنا، جیسے کہ اوپر بیان ہوئی ہیں، چنانچہ اگر کوئی رکوع سے قبل جان بوجھ کر سجدہ کر لے تو نماز باطل ہوجائے گی، اور اگر بھول کر سجدہ کر لے تو واپس جا کر پہلے رکوع کرے، اور بعد میں سجدہ کریگا۔

دوم:

نماز کے آٹھ واجبات ہیں، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات۔

2- امام اور منفرد کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کہنا۔

3- " رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " کہنا۔

4- رکوع میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم " کہنا۔

5- سجدہ میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" کہنا۔

6- دو سجدوں کے درمیان " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ" کہنا۔

7- پہلا تشہد پڑھنا ۔

8- پہلا تشہد بیٹھنا ۔

سوم:

نماز کی زبان سے ادا ہونے والی سنتیں گیارہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- تکبیرِ تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا: " سُبْحَانَكَ الَّلهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ ، وَتَعَالَى جَدُّكَ ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ "

2- تعوذ پڑھنا۔

3- بسم اللہ پڑھنا۔

4- آمین کہنا۔

5- سورہ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت پڑھنا۔

6- امام کا جہری نمازوں میں بلند آواز سے قراءت کرنا۔

7- مقتدی کے علاوہ دیگر [یعنی :امام اور منفرد]نمازیوں کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کے بعد: " مِلْءَ السَّمَاوَاتِ ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ " کہنا، (ان الفاظ کے کہنے کے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ مقتدی کیلئے بھی سنت ہے)

8- رکوع کی ایک سے زائد تسبیحات، یعنی دوسری ، تیسری اور اسکے بعد والی تسبیحات سنت ہیں۔

9- سجدے کی ایک سے زائد تسبیحات۔

10- دو سجدوں کے درمیان ایک سے زائد بار " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ"پڑھنا۔

11- آخری تشہد میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ، اور برکت کی دعا کرنا، اور اسکے بعد دعا مانگنا۔

چہارم:

فعلی سنتیں، جنہیں کیفیات بھی کہا جاتا ہے۔

1- تکبیرِ تحریمہ کیساتھ رفع الیدین کرنا۔

2- رکوع میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا۔

3- رکوع سے اٹھنے وقت رفع الیدین کرنا۔

4- رفع الیدین کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو چھوڑنا۔

5- دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنا۔

6- اپنی نظریں سجدہ کی جگہ رکھنا۔

7- قیام کی حالت میں دونوں قدموں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا۔

8- رکوع کی حالت میں ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر گھٹنے کو پکڑنا، اور کمر کو سیدھا کرتے ہوئے سر کو کمر کے برابر رکھنا۔

9- اعضائے سجدہ کو براہِ راست زمین پر لگانا، اور سجدہ کی جگہ کو چھونا، گھٹنوں کو براہِ راست زمین پر لگانا مکروہ ہے۔ [براہِ راست لگانے سے مراد یہ ہے کہ درمیان میں کپڑا بھی حائل نہ ہو، اسی لئے گھٹنے کو ننگا کرنا مکروہ کہا گیا ہے۔ مترجم]

10- [سجدہ کی حالت میں] بازؤوں کو پہلؤوں سے ، پیٹ کو ران سے، ران کو پنڈلیوں سے، اور دونوں گھٹنوں میں فاصلہ رکھنا، دونوں قدموں کو کھڑا رکھنا، دونوں قدموں کی انگلیوں کے اندرونی حصہ کو زمین پر لگانا، دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر انگلیاں ملا کر رکھنا۔

11- دونوں سجدوں کے درمیان ، اور پہلے تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھنا، اور دوسرے تشہد میں تورّک [بایاں پاؤں دائیں پاؤں کے نیچے سے آگے نکال کر بیٹھنا] ۔

12- دوسجدوں کے درمیاں بیٹھتے ہوئے اپنی ہتھیلیوں کو ران پر انگلیاں ملا کر رکھنا، اسی طرح تشہد میں بھی، جبکہ تشہد میں دائیں ہاتھ کی چھنگلی، اور چوتھی انگلی کو بند کرکے، درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ذریعے حلقہ بنائے، اور شہادت والی انگلی سے ذکرِ الہی کے وقت اشارہ کرے۔

13- سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں منہ پھیرنا۔

بعض اشیاء میں فقہائے کرام کے ہاں اختلاف بھی پایا جاسکتا ہے، چنانچہ بسا اوقات کسی کے ہاں کوئی عمل واجب ہے تو دیگر فقہائے کرام کے ہاں وہ عمل مسنون بھی ہوسکتا ہے، ان باتوں کی مکمل تفصیلات فقہی کتب میں موجود ہیں۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب
___________________________
فتوی (2)
إذا شك في ترك ركن أو نسيه فماذا يفعل؟
السؤال : 1- إذا شك الإنسان في نقص ركن كالسجود أو الركوع ليس متأكداً بل شاك ماذا يفعل؟ 2- وأرجو التوضيح إذا الإنسان نسي ركن ماذا يفعل بالضبط قبل سجود السهو؟ أنا قرأت كثيرا ولكن لم أفهم حتى الموجود في هذا الموقع لم تتوضح لي الصورة بشكل جيد .
تم النشر بتاريخ: 2009-07-28
الجواب :
الحمد لله

من نسي ركنا من أركان الصلاة فلابد أن يأتي به لتصح صلاته ، ولا يكفيه سجود السجود ، ومن شك في ترك ركن لزمه أن يأتي به أيضا .

وفي كيفية الإتيان بالركن الفائت تفصيل :

1- فإن ذكره قبل الوصول إلى موضعه من الركعة التالية ، عاد فأتى به وأكمل صلاته ، وسجد للسهو . وذلك كأن ينسى الركوع ، ثم يتذكره في السجود من نفس الركعة ، أو يتذكره في قراءة الركعة التالية ، فيترك السجود أو القراءة ويركع ، ثم يتم ركعته .

وبعض الفقهاء يقولون : إذا نسي ركناً وشرع في الركعة التي تليها بطلت الركعة التي نسي منها الركن ، لكن الراجح ما سبق .

2- وإن ذكر الركن المنسي بعد الوصول إلى موضعه من الركعة التالية ، ألغى الركعة الناقصة ، وجعل هذه محلها ، وأتم صلاته . وذلك كأن ينسى الركوع من الأولى ، ثم يتذكره عند ركوع الثانية ، فتلغى الركعة الأولى ، وتكون الثانية هي الأولى بالنسبة له .

3- وإن لم يذكر الركن إلا بعد السلام من صلاته ، أتى بركعة كاملة .

قال في "زاد المستقنع" : " ومن ترك ركنا فذكره بعد شروعه في قراءة ركعة أخرى، بطلت التي تركه منها ، وقبله يعود وجوبا، فيأتي به وبما بعده ، وإن علم بعد السلام فكترك ركعة كاملة".

قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله في شرحه : " قوله : «فذكره بعد شروعه في قراءة ركعة أخرى بطلت التي تركه منها» بطلت : يعني صارت لغوا ، وليس البطلان الذي هو ضد الصحة، لأنه لو كان البطلان الذي هو ضد الصحة ؛ لوجب أن يخرج من الصلاة ، ولكن المراد بالبطلان هنا : اللغو ، فمعنى «بطلت» أي صارت لغوا ، وتقوم التي بعدها مقامها ، هذا إذا ذكره بعد شروعه في قراءة الركعة الأخرى .
مثال ذلك : رجل يصلي فلما سجد السجود الأول في الركعة الأولى ، قام إلى الركعة الثانية ، وشرع في قراءة الفاتحة ، ثم ذكر أنه لم يسجد إلا سجدة واحدة ؛ فترك جلوسا وسجدة ، أي : ترك ركنين ، فنقول له : يحرم عليك أن ترجع ؛ لأنك شرعت في ركن مقصود من الركعة التي تليها ، فلا يمكن أن تتراجع عنها ، لكن تلغي الركعة السابقة ، وتكون الركعة التي بعدها بدلا عنها .
مثال آخر : قام إلى الرابعة في الظهر ، ثم ذكر أنه نسي السجدة الثانية من الركعة الثالثة ، بعد أن شرع في القراءة فتلغى الثالثة ، وتكون الرابعة هي الثالثة ، لأنه شرع في قراءتها . وهذا ما قرره المؤلف .
والقول الثاني : أنها لا تبطل الركعة التي تركه منها ، إلا إذا وصل إلى محله في الركعة الثانية ، وبناء على ذلك يجب عليه الرجوع ما لم يَصِلْ إلى موضعه من الركعة الثانية .
ففي المثال الذي ذكرنا ، لما قام إلى الثانية؛ وشرع في قراءة الفاتحة ؛ ذكر أنه لم يسجد في الركعة الأولى ، فنقول له : ارجع واجلس بين السجدتين ، واسجد ، ثم أكمل .
وهذا القول هو الصحيح ، وذلك لأن ما بعد الركن المتروك يقع في غير محله لاشتراط الترتيب ، فكل ركن وقع بعد الركن المتروك فإنه في غير محله لاشتراط الترتيب بين الأركان ، وإذا كان في غير محله فإنه لا يجوز الاستمرار فيه، بل يرجع إلى الركن الذي تركه كما لو نسي أن يغسل وجهه في الوضوء ، ثم لما شرع في مسح رأسه ذكر أنه لم يغسل الوجه ، فيجب عليه أن يرجع ويغسل الوجه وما بعده .

فإن وصل إلى محله من الركعة الثانية ، فإنه لا يرجع ؛ لأن رجوعه ليس له فائدة ، لأنه إذا رجع فسيرجع إلى نفس المحل ، وعلى هذا ؛ فتكون الركعة الثانية هي الأولى ، ويكون له ركعة ملفقة من الأولى ومن الثانية .
مثاله : لما قام من السجدة الأولى في الركعة الثانية وجلس ؛ ذكر أنه لم يسجد في الركعة الأولى إلا سجدة واحدة ، فلا يرجع إلى الركعة الأولى ، ولو رجع فسيرجع إلى المكان نفسه الذي هو فيه ، وهذا القول هو القول الراجح : أنه يجب الرجوع إلى الركن المتروك ما لم يصل إلى موضعه من الركعة الثانية ، فإن وصل إلى موضعه من الركعة الثانية صارت الثانية هي الأولى" انتهى من "الشرح الممتع" (3371) .

وقال الشيخ رحمه الله : "القسم الثاني: الشك في ترك الأركان ، وأشار إليه بقوله : «وإن شك في ترك ركن فكتركه» أي : لو شك هل فعل الركن أو تركه ، كان حكمه حكم من تركه .
مثاله : قام إلى الركعة الثانية ؛ فشك هل سجد مرتين أم مرة واحدة؟ فإن شرع في القراءة فلا يرجع ، وقبل الشروع يرجع .
وعلى القول الراجح : يرجع مطلقا ، ما لم يصل إلى موضعه من الركعة التالية ، فيرجع ويجلس ، ثم يسجد ، ثم يقوم ، لأن الشك في ترك الركن كالترك .
وكان الشك في ترك الركن كالترك ؛ لأن الأصل عدم فعله ، فإذا شك هل فعله ، لكن إذا غلب على ظنه أنه فعله ؛ فعلى القول الراجح وهو العمل بغلبة الظن يكون فاعلا له حكما ولا يرجع ؛ لأننا ذكرنا إذا شك في عدد الركعات يبني على غالب ظنه ، ولكن عليه سجود السهو بعد السلام " انتهى من "الشرح الممتع" (3/ 384) .



والله أعلم .


الإسلام سؤال وجواب

_________________________
ترجمہ فتوی (2)
سجدوں کی تعداد میں شک گزرا، اور پھر سجدہ سہو لاعلمی کی وجہ سے نہیں کیا تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
سوال: ایک نمازی کو اپنے سجدوں کی تعداد پر شک گزرا اور پھر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے فتوی پر عمل کرتے ہوئے یقین کو بنیاد بنایا اور ایک سجدہ زیادہ کیا، پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اس لئے سلام کے بعد سجدہ سہو بھی نہیں کیا، تو کیا اس کی نماز صحیح ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

اول:

جس شخص کو نماز کے سجدوں کے بارے میں شک گزرے کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے یا دو سجدے؟ تو پھر وہ یقینی بات پر اعتماد کریگا اور وہ کم تعداد ہے، چنانچہ ایک سجدہ شمار کر کے دوسرا سجدہ کرے، اور پھر افضل پر عمل کرتے ہوئے سلام سے قبل سجدہ سہو کرے، یہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ کو نماز میں شک گزرے تو وہ سجدہ کرے اور یقین کو بنیاد بنائے، چنانچہ اگر اسے شک ہو کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے یا دو ؟ تو وہ دوسرا سجدہ کرے چاہے یہ شک پہلی، دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت میں واقع ہو، اور پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لے، اور اگر سلام کے بعد بھی سجدہ سہو کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن سلام سے پہلے افضل ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " (30/11)

کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر رکن چھوٹ جانے کے بارے میں شک ہو جیسے کہ نماز کی رکعات ہیں تو پھر کم یا زیادہ کسی بھی تعداد پر احتمال یقین کی حد تک نہ پہنچے تو پھر کم ترین تعداد کو یقینی مانیں گے، چنانچہ اس صورت میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا جائے گا۔

اور اگر کم یا زیادہ کسی بھی تعداد کے بارے میں یقین حاصل ہو جائے تو اسی کو بنیاد بنایا جائے گا اور سجدہ سہو سلام کے بعد ہو گا۔

مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مصنف کی بات: "رکن رہ جانے کے بارے میں شک کا حکم چھوٹ جانے والا ہی ہے" یہی [حنبلی] مذہب ہے، اور اکثر [حنبلی فقہائے کرام] اسی کے قائل ہیں، بلکہ بہت سے فقہا نے اسی کا قطعی فیصلہ دیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: قیاس کی وجہ سے رکن کی ادائیگی میں شک رکعت کی ادائیگی میں شک کی طرح ہے، اس لیے یقینی بات تلاش کرے اور پھر ظن غالب کے مطابق عمل کرے" انتہی
" الانصاف " (2/150)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مصنف کی بات: "رکن رہ جانے کے بارے میں شک کا حکم چھوٹ جانے والا ہی ہے" یعنی اگر کسی شخص کو یہ شک لاحق ہوا کہ اس نے رکن ادا کیا ہے یا نہیں؟ تو پھر اس کا حکم چھوڑنے والا ہی ہوگا۔
اس کی مثال یہ ہے کہ: ایک شخص دوسری رکعت میں کھڑا ہو گیا؛ اور شک میں پڑ گیا کہ کیا اس نے ایک سجدہ کیا تھا یا دو؟۔۔۔
تو ایسی صورت میں شک کا حکم رکن چھوٹ جانے کا حکم ہی ہوگا؛ کیونکہ "عدم الفعل" اصل ہے۔
جب یہ شک پیدا ہو کہ اس نے رکن ادا کیا ہے یا نہیں؟ لیکن غالب گمان یہی رہے کہ اس نے ادا کیا ہے ؛ تو راجح موقف کے مطابق غالب گمان کے مطابق ہی حکم لگے گا، یعنی اسے حکماً رکن کی ادائیگی کرنے والا سمجھا جائے گا، چنانچہ وہ دوبارہ رکن ادا نہ کرے؛ کیونکہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص رکعات کی تعداد میں شک کرے تو وہ ظن غالب کو بنیاد بنائے گا، تاہم اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا" انتہی
" الشرح الممتع " (3/384)

دوم:

اہل علم نے صراحت کیساتھ بیان کیا ہے کہ جس شخص نے بھول کر سجدہ سہو بھی ترک کر دیا تو فاصلہ زیادہ نہ ہونے کی صورت میں سجدہ سہو کر لے، اور اگر فاصلہ زیادہ ہو گیا تو پھر سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا، اور اس کی نماز صحیح ہوگی۔

بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر سلام کرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنا بھول جائے تو وجوبی طور پر سجدہ سہو کی قضا دے اگر سجدہ واجب ہے[کسی واجب عمل کے ترک کرنے پر لازم ہوا ہو] اگر اس کے بعد کی نماز شروع کر لی تو پھر یہ نماز مکمل کر کے سجدہ سہو کرے؛ بشرطیکہ وقفہ کم ہو، وضو باقی ہو، اور مسجد سے باہر نہ نکلا ہو، لیکن اگر عرف کے مطابق وقفہ زیادہ ہو، یا وضو ٹوٹ جائے، یا مسجد سے باہر نکل جائے تو پھر سجدہ سہو کی قضا نہیں دے گا؛ کیونکہ سجدہ سہو فوت ہو گیا ہے، تاہم اس کی نماز صحیح ہوگی؛ جیسے کہ دیگر واجبات بھول جانے پر نماز صحیح ہوتی ہے" انتہی
"شرح منتهى الإرادات " (1/235)

اور جاہل کا حکم بھی بھول جانے والے کی طرح ہوتا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی -دوسرا ایڈیشن- (6/10) میں ہے کہ:

"اگر سجدہ سہو عمداً ترک کرے تو پھر نماز باطل ہو جائے گی اور اسے نماز دوبارہ ادا کرنی ہوگی، تاہم اگر سجدہ سہو بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے نہ کرے تو وہ دوبارہ نماز نہیں پڑھے گا، اس کی نماز صحیح ہے" انتہی

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
"اگر نماز میں کوئی رکعت کم یا زیادہ ہو جائے اور سجدہ سہو بھی نہ کرے تو کیا اس طرح نماز باطل ہو جائے گی؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس بارے میں قدرے تفصیل ہے:
اگر اس شخص نے جان بوجھ کر سجدہ سہو ترک کیا اور اسے شرعی حکم کا علم بھی تھا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔

تاہم اگر شرعی حکم کے بارے میں جاہل تھا یا بھول گیا تو پھر اس کی نماز باطل نہیں ہو گی بلکہ اس کی نماز درست ہے۔۔۔" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " از: ابن باز
دیکھیں:

http://www.binbaz.org.sa/mat/15296

اس بارے میں مزید کیلیے سوال نمبر: (95410) اور (134518) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
ترجمہ:
شك في عدد السجدات ، كما أنه ترك سجود السهو جاهلاً ، فما حكم صلاته ؟
السؤال:
شك في عدد السجدات فبنى على اليقين وزاد سجدة عملا بفتوى الشيخ ابن باز ، ثم لم يسجد للسهو بعد السلام ظنا منه أنّ لا سجود عليه ، فهل صلاته صحيحة ؟

تم النشر بتاريخ: 2015-05-21
الجواب :
الحمد لله
أولاً :
من شك في عدد السجدات ، بأن شك هل سجد سجدة واحدة أو سجدتين ؟ فإنه يبني على اليقين ، وهو الأقل ، فيجعلها سجدة واحدة ويأتي بالسجدة الثانية ، ثم يسجد للسهو قبل السلام على سبيل الأفضلية ، وهذا القول هو اختيار الشيخ ابن باز رحمه الله .
قال الشيخ ابن باز رحمه الله :
" أما إذا كان الشك في الصلاة ، فإنه يأتي بالسجدة ويبني على اليقين ، إذا شك هل سجد سجدة أو سجدتين يأتي بالسجدة الثانية سواء في الركعة الأولى أو الثانية أو الثالثة أو الرابعة ، ويسجد للسهو قبل السلام ، وإن سجد بعد السلام فلا بأس ، ولكن الأفضل قبل السلام " .
انتهى من " مجموع فتاوى ابن باز " (30/11) .
وذهب بعض أهل العلم إلى أن الشك في ترك الأركان كالشك في عدد الركعات ، فيبني على اليقين الذي هو الأقل إذا لم يترجح عنده أحد الاحتمالين ، ويسجد للسهو في هذه الحال قبل السلام .
وأما إذا ترجح عنده أحد الاحتمالين : فإنه يعمل به ، ويبني عليه ، ويكون السجود للسهو بعد السلام .
قال المرداوي رحمه الله :
" قَوْلُهُ ( وَمَنْ شَكَّ فِي تَرْكِ رُكْنٍ : فَهُوَ كَتَرْكِهِ ) هَذَا الْمَذْهَبُ , وَعَلَيْهِ أَكْثَرُ الْأَصْحَابِ وَقَطَعَ بِهِ كَثِيرٌ مِنْهُمْ , وَقِيلَ : هُوَ كَتَرْكِ رَكْعَةٍ قِيَاسًا , فَيَتَحَرَّى ، وَيَعْمَلُ بِغَلَبَةِ الظَّنِّ " انتهى من " الانصاف " (2/150) .
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
" « وإن شكَّ في تَرْكِ رُكن فكتركه » أي : لو شَكَّ هل فَعَلَ الرُّكن أو تَرَكَه ، كان حكمه حكم مَنْ تركه .
مثاله : قام إلى الرَّكعة الثانية ؛ فَشَكَّ هل سَجَدَ مرَّتين أم مرَّة واحدة ؟ ... .
وكان الشَّكُّ في تَرْكِ الرُّكن كالتَّرك ؛ لأن الأصل عدمُ فِعْله ، فإذا شَكَّ هل فَعَلَه ، لكن إذا غلب على ظَنِّه أنه فَعَلَه ؛ فعلى القول الرَّاجح وهو العمل بغلبة الظَّنِّ يكون فاعلاً له حكماً ، ولا يرجع ؛ لأننا ذكرنا إذا شَكَّ في عدد الركعات يبني على غالب ظَنِّهِ ، ولكن عليه سجود السَّهو بعد السلام " انتهى من " الشرح الممتع " (3/384) .
ثانياً :
نص أهل العلم رحمهم الله : على أن من ترك سجود السهو ناسياً ، فإنه يقضيه إذا لم يطل الفصل ، فإن طال الفصل سقط السجود السهو عن المصلي ، وصلاته صحيحة .
قال البهوتي رحمه الله :
( وَإِنْ نَسِيَهُ ) أَيْ : السُّجُودَ وَقَدْ نُدِبَ ( قَبْلَهُ ) أَيْ : السَّلَامُ ( قَضَاهُ ) وُجُوبًا إنْ وَجَبَ ( وَلَوْ ) كَانَ ( شُرِعَ فِي ) صَلَاةٍ ( أُخْرَى فَ ) يَقْضِيهِ ( إذَا سَلَّمَ ) مِنْهَا إنْ قَرُبَ الْفَصْلُ , وَلَمْ يُحْدِثْ , وَلَمْ يَخْرُجْ مِنْ الْمَسْجِدِ لِبَقَاءِ مَحَلِّهِ ( وَإِنْ طَالَ فَصْلٌ عُرْفًا , أَوْ أَحْدَثَ , أَوْ خَرَجَ مِنْ الْمَسْجِدِ لَمْ يَقْضِهِ ) أَيْ : السُّجُودَ لِفَوَاتِ مَحَلِّهِ ( وَصَحَّتْ ) صَلَاتُهُ , كَسَائِرِ الْوَاجِبَاتِ إذَا تَرَكَهَا سَهْوًا " انتهى من " شرح منتهى الإرادات " (1/235) .
والجاهل في هذا كالناسي .
جاء في " فتاوى اللجنة الدائمة - المجموعة الثانية " (6/10) :
" إذا كان تركه سجود السهو عمداً ، فصلاته باطلة وعليه إعادتها ، وإن كان تركه سهواً ، أو جهلاً ، فلا إعادة عليه وصلاته صحيحة " انتهى .

وقد سئل الشيخ ابن باز رحمه الله :
إذا زاد عدد الركعات في الصلاة أو نقص شيء من ذلك ولم يسجد سجود السهو ، هل الصلاة تكون باطلة ؟
فأجاب بقوله :
هذا فيه تفصيل : إذا كان عزم على ترك السجود وهو في الصلاة ، فهذا إذا تعمد ذلك ، وهو يعلم الحكم الشرعي : تبطل صلاته .
أما إذا كان جاهلا أو ناسيا : ما تبطل ، وصلاته صحيحة ..." .
انتهى مختصراً من " فتاوى نور على الدرب " لابن باز .
ينظر :
http://www.binbaz.org.sa/mat/15296


وينظر للفائدة إلى جواب السؤال رقم : (95410) ، ورقم (134518) .
والله أعلم .
موقع الإسلام سؤال وجواب
 
Top