ذيل ميں ہم چند ايك ضوابط پيش كرتے ہيں جن سے آپ مشروع اور بدعتى ورد درود معلوم كر سكتے ہيں:
اول:
سب سے بہتر ورد وہ ہے جس كے الفاظ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے نبى كے ليے وہ كلمات اور الفاظ اختيار كرتا ہے جو اكمل اورافضل ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى اپنى امت كے ليے وہى اختيار كرتے ہيں جو افضل و اكمل ہيں.
دوم:
انسان كے ليے جائز ہے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر غير وارد شدہ كلمات ميں درود پڑھے، ليكن اس ميں كوئى ايسا لفظ نہيں ہونا چاہيے جو شرعا ممنوع ہو مثلا اس ميں غلو ہو يا وسيلہ اور غير اللہ سے مانگنا شامل ہو.
سوم:
ذكر كرنےوالے كے ليے ذكر كا وقت يا تعداد يا كيفيت كى تحديد كرنى جائز نہيں، صرف صحيح دليل كى بنا پر ہى كيا جا سكتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كى عبادت اس طريقہ پر ہى ہو سكتى ہے جو اللہ نے اپنى كتاب ميں مشروع كيا ہے، يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان مبارك سے مشروع كيا.
اور پھر عبادت ميں يہ بھى ضرورى ہے كہ وہ فى ذاتہ مشروع ہو اور اس كى كيفيت اور وقت اور مقدار بھى مشروع ہونى چاہيے، اور اگر كوئى شخص اپنے طور پر كوئى ورد اختيار كرے جس كے الفاظ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہ ہوں اور اس كى تعداد بھى محدود كرے يا اسے كسى معين وقت ميں كرنے كا التزام كرتا ہو تو يہ بدعت كا مرتكب ہو رہا ہے.
علماء اس بدعت كو اضافى بدعت كا نام ديتے ہيں كيونكہ اصل ميں عمل مشروع تھا، ليكن كيفيت يا مقدار اور وقت كى تحديد كے اعبتار سے اس ميں بدعت پيدا ہوئى ہے.
يہ علم ميں ركھيں كہ ہر قسم كى بھلائى اور خير صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كرنے ميں ہے، اور پھر جو شخص بھى ايجاد كردہ ورد كرنے والوں كى حالت پر غور كرے گا تو اكثر طور پر انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صبح و شام كے اذكار اور دعاؤں پر عمل كرنے ميں كوتاہى كرنے والا ہى پائيگا، سلف كہا كرتے تھے كہ انسان جب بھى كوئى بدعت ايجاد كرتا ہے تو اس كے بدلے اس طرح كى ايك سنت ترك كر ديتا ہے، درود تاج اور درود لكھى وغيرہ سے اس كى تائيد و تاكيد ہوتى ہے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب