• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسقاط حمل كى وجہ سے آنے والے خون كو نفاس سمجھتے ہوئے روزہ افطار كر ليا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسقاط حمل كى وجہ سے آنے والے خون كو نفاس سمجھتے ہوئے روزہ افطار كر ليا

سوال:
رمضان المبارك ميں ايك روز ميں تين ماہ سے بھى كم حمل ساقط كرانے ہاسپٹل گئى اور كچھ دوائیاں كھائيں، اور اسقاط حمل كے بعد ميں نے كھانا جائز سمجھتے ہوئے كچھ كھا بھى ليا، ليكن گھر واپس آنے كے بعد ميں نے انٹرنيٹ پر اس مسئلہ كو ديكھا تو مجھے علم ہوا كہ مجھ پر تو روزہ اور نماز كى ادائيگى واجب ہے، كيونكہ يہ خون نفاس كا نہيں، چنانچہ ميں نے رمضان كے بعد اس دن كا روزہ ركھا، كيا ميرا يہ عمل كافى ہے يا مجھے اور كچھ كرنا ہو گا ؟
جواب:
اول:
جان بوجھ كر اسقاط حمل كرانے كا حكم کیا ہے اس پر اس سوال كا مطالعہ كريں.
ابتدائي مہینوں میں اسقاط حمل کروانا

سوال:
ابتدائي ( ایک سے تین ماہ ) مہینوں اوربچے میں روح ڈالے جانے سے قبل اسقاط حمل کا حکم کیا ہے ؟
جواب:
کبارعلماء کمیٹی نے مندرجہ ذيل فیصلہ کیا :
نمبر1:
مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہيں لیکن کسی شرعی سبب اوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے ۔
نمبر2:
جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجوکہ چالیس یوم ہے اوراسقاط حمل میں کوئي شرعی مصلحت ہویا پھر کسی ضررکودورکرنا مقصود ہوتواسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جواولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں ۔
نمبر3:
جب مضغہ اورعلقہ ( یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ) ہوتواسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگي ماں کے لیے جان لیوا ہے اوراس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں
نمبر4:
حمل کے تیسرے مرحلے اورچارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراورماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے ، اوراس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں ، تواس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا ۔
ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئي ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے .دیکھیں : فتاوی الجامعۃ ( 3 / 1056 ) ۔
دوم:
اگر عورت اپنا حمل ساقط كرائے اور ابھى بچہ كى خلقت مثلا سر اور پاؤں وغيرہ ظاہر نہ ہوئے ہوں، تو اسقاط كى وجہ سے آنے والا خون فاسد ہے، نفاس شمار نہيں ہوگا يہ روزے اور نماز سے منع نہيں كرتا.
ليكن اگر اس ميں انسان كى خلقت ظاہر ہو چكى ہو تو يہ نفاس كا خون ہے، اسے نفاس شمار كرتے ہوئے نماز روزہ ادا نہيں كيا جائيگا، انسان كى خلقت ظاہر ہونے كى كم از كم مدت اكياسى يوم ( 81 ) بنتے ہے۔
سوم:
اگر آپ نے نفاس كا خون سمجھتے ہوئے روزہ افطار كر ليا اور بعد ميں علم ہوا كہ يہ خون فاسد تھا نفاس نہيں، اور آپ نے نماز اور روزہ كى قضاء بھى كر لى تو آپ كے ذمہ كچھ نہيں، ليكن اگر آپ نے قضاء نہيں كى تو جتنى جلدى ہو سكے اس كى قضاء كر ليں.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى رضا و خوشنودى اور اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى توفيق عطا فرمائے.
الاسلام سوال و جواب​
 
Top