تو اس حدیث مبارکہ کا کیا مطلب ہے؟واضح رہےکہ اسلام میں تصورجہاد اپنی نوعیت کےاعتبارسےاصل دفاعی ہے۔اقدامی نہیں ہے۔کیونکہ قرآن میں جہاد کی تعلیمات کے حوالے سے جوبنیادی احکام آئےہیں ان کا مفہوم یہی ہےکہ اگر تم پرظلم وزیادتی ہوتو اس کابدلہ لےسکتےہو۔
کیلانی برادر اگر دین اسلام دفاعی ہوتا تو اسلامی حکومت مدینہ سے آگے نہ ہوتی۔اور باطل ادیان کو چیلنج نہ کیا جاتا۔واضح رہےکہ اسلام میں تصورجہاد اپنی نوعیت کےاعتبارسےاصل دفاعی ہے۔اقدامی نہیں ہے۔کیونکہ قرآن میں جہاد کی تعلیمات کے حوالے سے جوبنیادی احکام آئےہیں ان کامفہوم یہی ہےکہ اگر تم پرظلم وزیادتی ہوتو اس کابدلہ لےسکتےہو۔
سمیربھائی اس سوال کا آپ کیاجواب مرہم فرمائیں گےکہکیلانی برادر اگر دین اسلام دفاعی ہوتا تو اسلامی حکومت مدینہ سے آگے نہ ہوتی۔اور باطل ادیان کو چیلنج نہ کیا جاتا۔
یہ اوراس طرح کی دیگراحادیث اورقرآنی آیات مشرکین مکہ کےحولےسےہیں۔اوریہ واضح حقیقت ہےکہ مشرکین مکہ آپﷺاور آپ کی جماعت پرپےدرپےکئی طرح کےمظالم کرچکے تھے۔اب خندق کےبعد ان کازورٹوٹ گیاتھاچناچہ آپ نےفرمایااب ہم ان پرحملہ کریں گےیعنی ان کےاندراب یہ سکت نہی رہی۔کہ وہ ہم پرحملہ آورہوں۔اورمشرکین جس قدرمسلمانوں پرظلم وستم ڈھاچکےتھےان پرحملہ کاجوازبھی تھا۔تو اس حدیث مبارکہ کا کیا مطلب ہے؟
سَمِعْتُ النبيَّ ﷺ يقولُ حينَ أَجْلَى الأحزابَ عنه: « الآن نَغْزُوهم ولا يَغْزُوننا ، نخن نسيرُ إليهم »
الراوي: سليمان بن صرد المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4110
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
جنگ خندق کے بعد نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اب ہم ان پر حملہ کریں گے نہ کہ وہ ہم پر حملہ کریں!
اور سیدنا ابو بکر وعمر اور دیگر خلفاء رضی اللہ عنہم اجمعین نے روم وفارس پر حملہ کیوں کیا اور دین اسلام کو دنیا کے اکثر حصوں تک کیسے پہنچایا؟
میرے بھائی میں آپ کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہوں کہ آپ قرآن وحدیث میں موجود دلائل کا مطالعہ کریں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کو کیا پڑی تھی کہ وہ سمندر میں گھوڑا ڈال کر کہتے کہ ۔ اے اللہ اگر اس سے بھی آگے زمین ہوتی تو میں تیری راہ میں جہاد کرتا چلا جاتا۔ اور طارق بن زیاد کو پھر اسپین پر حملہ کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔۔!!!!!!سمیربھائی اس سوال کا آپ کیاجواب مرہم فرمائیں گےکہ
اگرکوئی کفریہ ریاست اپنی حدود میں مسلمانوں کوتبلیغ دین کی اجازت بھی دےرہی ہےاوروہ کسی اسلامی ریاست کےبارےمیں جارحانہ عزائم بھی نہی رکھتی۔اور اپنےان شہریتوکیاہم اس پرحملہ کرسکتے ہیں ؟اگرکرسکتےہیں توآخر کس جواز کی بناپر؟
اورجہاں تک تعلق ہےاسلام یااسلامی حکومت کامدینےکےباہرپھیلنےکاتو اس میں بینادی طورپردووجوہ ہیں پہلی یہ کہ زمین کاجوحصہ جزیرۃ العرب وہاں سے بہرحال کفروشرک کو نکالناہی ہے۔ کیونکہ جزیرۃ العرب اسلام کامرکزہےاوراحادیث میں واضح طورپر آگیاہےکہ جزیرۃ العرب کوکفروشرک سےخالی کراؤ۔اس وجہ سےجوعلاقےجزیرۃ العرب میں آتےہیں ان میں اقدام بھی کرناجائزبلکہ ضروری ہے۔دوسری یہ ہےکہ صحابہ ءکرام نےجو روم وایران سے جنکیں لڑیں ہیں یاجزیرۃالعرب کی حدود سے باہرکاتعلق ہےتو اس میں مستندتاریخی شواہد موجود ہیں کہ ان سلطنتوں کےلوگوں نےمبلغین اسلام شہیدکیا۔اورجو لوگ ان کےاندر سےاسلام قبول کرلیتےانہیں طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھےمزیدبرآں یہ ہےکہ اسلامی ریاست مدینہ کےبارےمیں واضح طورپر ان کے جارحانہ عزائم تھے۔
اس کےعلاوہ ایک تیسری وجہ بھی علمانے بیان کی ہےکہ جن ریاستوں کےسربراہوں کو آپﷺنےخطوط لکھ دیےتھےان پرحجت قائم ہوچکی تھی چناچہ صجابہ نےانہی اتمام حجت کےپیش نظران پرحملہ کیا۔