• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات-9 محاسن اسلام کا بیان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 9
محاسِن اسلام کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔الحمد للہ الذی لاالہ الا ھوط عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمن الرحیم۔ ھواللہ الذی لاالہ الا ھوالملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیزالجبار المتکبر ط سبحان اللہ عما یشرکون۔ ھواللہ الخالق الباري المصورلہ الاسماء الحسنی ط یسبح لہ ما فی السموات والاض و ھوالعزیزالحکیم۔ اما بعد: فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیم ط اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدِ اللہِ الْاِسِلْاَمُ الآیة (آل عمران:۱۹)
(ترجمہ)سب تعریف اللہ کے لیے زیبا ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ پوشیدہ اور ظاہر سب چیزوں کو جاننے والا ہے، وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، وہی ایک اکیلا معبود ہے، وہی بادشاہ، پاک ذات ، ہر عیب سے سالم، امن دینے والا ، نگہبان، زبردست، خود مختار، عظمت والاہے، اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے بری ہے، اور وہی اللہ پیدا کرنے والا، ایجاد کرنے والا، صورت بنانے والا ہے،اسی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی پاکی بیان کرتی ہے، وہ زبردست حکمت والا ہے، میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں، کہ احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ اس کے بندے اور رسول ہیں، حمد و صلوۃ، بسم اللہ اور تعوذ کے بعد عرض یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ سب دینوں سے اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔
اسلام کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں، کیونکہ اسلام ''سلم'' سے مشتق ہے، جس کے معنی صلح، سلامتی اور ا من کے ہیں، یعنی اسلام قبول کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امن و سلامتی میں داخل ہوگیا، اور ایمان لانے والا دوسروں کو بھی اسی صلح اور امن کی طرف دعوت دیتاہے، حقیقت یہ ہے، کہ لفظ اسلام ایک ایسا لفظ ہے، جس کے اندر ہر قسم کی خوبیاں پائی جاتی ہیں، گویا یہ ایک سایہ دار اور پھلدار درخت ہے، جس کے امن کے سائے تلے تمام دنیا نہایت امن و عافیت کی زندگی بسر کر سکتی ہے، یہی اسلام صراط مستقیم ہے، انسانی نجات اور فلاح و بہبود کا اگر کوئی مذہب سچا ضامن ہے، تو یہی اسلام ہی ہے۔ اخلاق حسنہ اور راست بازی کے لحاظ سے اگر کوئی اکمل ترین مذہب ہے ، تو اسلام ہی ہے، تہذیب اور سیاست مدنیہ اور تدبیر منزل وغیرہ کی حقیقی برکات اگر کسی مذہب میں ہیں، تو صرف اسلام ہی میںہیں، لطافت و طہارت اور پاکیزگی صرف مذہب اسلام ہی میں ہے، دوسرے مذاہب اسلامی محاسن کا مقابلہ نہیں کر سکتے، کامل توحید اور خدا شناسی صرف اسی اسلام میں ہے۔​
غرض اسلام تمام محاسن کا مجموعہ ہے اسی لیے یہ مذہب خالق کائنات کو سب سے زیادہ پیارا ہے، اور سب سے برگزیدہ اور خدا اور رسول کی اطاعت تک پہنچانے والا صرف اسلام ہی ہے، اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
اُدْخُلُوافِی السِّلْمِ کَآفَّۃً o (البقرہ:۲۰۸)
تم خدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں پورے پورے داخل ہو جاو۔
یہی مذہب توحید الٰہی اور محاسن انسانی کی طرف دعوت دیتا ہے، اور یہی مذہب خدا کے تمام نبیوں اور رسولوں کا تھا، حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی تک سارے نبی اور رسول خدا کی اطاعت کی طرف بلاتے رہے ا ور امن و سلامتی و صلح کی طرف دعوت دیتے رہے، اسی سلسلہ میں قرآن مجید میں جو نبیوں کے تذکرہ میں آیات آئی ہیں، وہ چند آیات درج ذیل ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۔ (البقرہ:۳۸)
ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاو، جب تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے (تو اس کی تابعداری کرو) اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔
یعنی اسلام قبول کرنے والوں پر دنیا و آخرت میں کوئی خوف نہیں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مذہب یہی اسلام تھا، جس کی طرف وہ لوگوں کو بلاتے رہے، اور حضرت نوح علیہ السلام کا بھی یہی دستور تھا
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ارشاد ربانی ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (الشوری:۱۳)
مقرر کیا اس نے دین سے تمہارے لیے اس چیز کو کہ ا مر کیا تھا اس کے ساتھ نوح کو ا ور وہ چیز جو وحی کی ہم نے تیری طرف اور جس کے ساتھ ہم نے حکم دیا تھا، ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو کہ قائم کرو تم دین کو اور اس میں متفرق نہ جاؤ۔
اس آیت کریمہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے، کہ سب پیغمبروں کا دین ایک ہی تھا، وہ ہر گز دین میں ایک دوسرے سے الگ نہ تھے اور نہ آپس میں مخالف، رسول اللہ ایک حدیث میں فرماتے ہیں۔
الانبیاء اخوۃ من علات وامھاتھم شتی ودینھم واحد۔ الحدیث (بخاری، مسلم)
تمام انبیاء علیہم السلام آپس میں سوتیلے بھائی ہیں، مائیں ان کی مختلف ہیں، اور دین ان کا ایک ہی ہے۔
اس حدیث شریف سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے ، کہ تمام نبیوں اور رسولوں کا ایک ہی دین تھا، وہ دنیا میں الگ الگ دین لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ وہ آپس میں ایسے ہی تھے، جیسے سوتیلے بھائی ایک باپ اور کئی ماں کے ہوتے ہیں، یہاں باپ سے مراد دین ہے، یعنی ایک خدا کی عبادت کرنا ا ور ماؤں سے مراد شریعتیں ہیں، یعنی طریقے، دین تو ان کا ایک ہی تھا، لیکن دین کو قائم رکھنے کے لیے از منہ مختلف کے مطابق مختلف طریقے ٹھہرا دیئے تھے، اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی کی بعثت فرمائی، اور ان کو غیر فانی اور لازوال شریعت اسلام عنایت فرما کر ا پنے پاس آنے کے تمام راستے بند کر دئیے، پس جو کوئی آپ کو مبعوث ہونے کے بعد سوائے دین اسلام اور شریعت محمدیہ کے کسی اور دین پر کاربند اور عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ سے ملے گا، تو ہر گز وہ دین اس سے قبول نہ ہوگا، کیونکہ اس کے نزدیک کوئی دین سوائے ایک اسلام کے سچا اور مقبول نہیں۔
اسلام ایک سچا اور مقبول دین ہے:
اسلام چو نکہ ہمیشہ کے لیے ترمیم و تنسیخ سے پاک اور مبرا ٹھہرا، اور کسی طرح کی مدحت سرائی کا محتاج نہیں، بلکہ اپنی سچائی اور سنجیدگی کی وجہ سے ہر زمانہ میں، ہر قوم اور ہر ملک کے لیے یکساں مفید ہے، جو خدا کا مطیع و فرمانبردار ہوگیا ا ور اسلام کو قبول کر کے اس پر عامل ہوگیا وہی ا جر عظیم ا ور دخول جنت کا مستحق ہے، بلا اسلام اور بغیر عمل صالح کے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانا خیال باطل ہے، جیسا کہ فرمایا:
وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ۝۰ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۔ (البقرہ:۱۱۱۔۱۱۲)
یہ کہتے ہیں ، کہ جنت میں سوائے یہودونصاریٰ کے اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی امنگیں ہیں، ان سے کہو، کہ اگر تم سچے ہو، تو کوئی دلیل تو پیش کرو، سنو! جو بھی ا پنے تئیں خلوص کے ساتھ خدا کے سامنے سرجھکا دے بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم اور اداسی، یعنی سچے دل سے اسلام قبول کرلے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما اسلام کا بھی یہی دین تھا، اور اسی کی انہوں نے وصیت کی تھی، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ۝۰ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۳۱ وَوَصّٰى بِہَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْہِ وَيَعْقُوْبُ۝۰ۭ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۳۲ۭ (البقرہ:۱۳۱۔۱۳۲)
جب انہیں ان کے رب نے کہا تو میرا کہا مان لے انہوں نے کہا، میں نے رب العالمین کا کہا مان لیا، اسی کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی کہ اے ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمالیا ہے، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا۔
اور یہی دین اسلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی تھا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَيْہِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ۔ (یونس:۸۴)
اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم اگر تم لوگ اللہ پر ایمان لائے ہو، تو اسی پر بھروسہ رکھو، اگر تم مسلمان ہو۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اسلام پر مرنے کی درخواست کی ، جیسا کہ ارشاد ہے:
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ۝۰ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۣ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۔ (یوسف:۱۰۱)
اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت عطاکی ، اور باتوں کی سمجھ عطا کی (میرے مولا) آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے توہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے، مجھ کو مسلمان ماریو ا ور نیک لوگوں میں ملائیو۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے بھی مسلمان ہی تھے، جیسا کہ ارشاد ہے:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ قَالَ الْحَوَارِيُوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۝۰ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ۝۰ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران:۵۲)
جب عیسٰی نے ان سے انکار پایا تو کہا اللہ کی راہ میں میرا کون مددگار ہے، تو حواریوں نے کہاہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔
اور ایک موقع پر ارشاد ہے:
وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيِّيْنَ اَنْ ٰاٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ۝۰ۚ قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ۔
اور جب وحی (القا)کی میں نے حواریوں کو ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول (عیسٰیu) پر تو انہوں نے کہا ہم ا یمان لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں۔(المائدۃ:۱۱۱)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ میں بھی متعدد بار یہی لفظ مذکور ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ۝۲۹ اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۳۰ۙ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ (النمل:۲۹تا۳۱)
(ملکہ سبا بلقیس نے کہا) اے میرے درباریو! مجھ پر ایک معزز کتاب (خط) بھیجی گئی ہے، جو سلیمان کی طرف سے ہے، وہ ہے بسم اللہ الرحمن ا لرحیم (لکھا ہے) کہ مجھ پر سرکشی نہ کرو، اور میرے پاس تابع ہو کر چلے آؤ۔
یعنی خدا کے تابعدار اور مسلمان ہو کر، زمین و آسمان میں جتنی مخلوق ہے، سب خدا کی مطیع و فرمانبردار ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَ۔(آل عمران:۸۳)
کیا پس وہ خدا کے دین کے سوا اور دین کی تلاش میں ہیں؟ تمام آسمانوں والے اور سب زمین والے اللہ ہی کے فرمانبردار ہیں خوشی سے ہوں تو اور جبراً ہوں تو، ا ور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَالْاِسْلَامِ دِيْنًافَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۔ (آل عمران:۸۵)
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اسکا دین قبول نہ کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
قیامت کے روز سارے نافرمان بھی مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے، جیسا کہ فرمایا:
رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِـمِيْنَ۔ (الحجر:۲)
(مرنے کے بعد) بعض دفعہ کافر چاہیں گے، کاش ہم مسلمان (خدا کے فرمانبردار) ہوتے۔
وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۔ (الزمر:۵۴)
تم سب اپنے رب کی طرف جھک پڑو، اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ، اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۔ (حم سجدہ:۳۳)
اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے، جو خدا کی طرف بلائے، اور نیک کام کرے، اور کہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں۔
سورہ حج میں ارشاد فرمایا ہے:
فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۝۰ۭ (حج:۳۴)
تمہارا معبود ایک ہے اسی کی تابعداری کرو۔
کیونکہ یہی سچا اور کامل دین ہے، جیسا کہ فرمایا:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔ (المائدہ:۳)
آج کے دن میں نے تمہارے واسطے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ہے، اور پسند کیا میں نے اسلام کو تمہارا دین۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہی دین اسلام نجات کا ذریعہ ہے، جس نے سچے دل سے اسے قبول کر لیا، اور اس کے حکموں پر صحیح طرح سے عمل کیا، اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، چنانچہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
لماجعل اللہ الاسلام فی قلبی اتیت النبی ﷺ فقلت ابسط یمینک فلابایعک فبسط یمینہ قال فقبضت یدی قال مالک یا عمرو قال قلت اردت ان اشترط قال تشترط بماذاقلت ان یغفرلی قال اما علمت یا عمرو ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ و ان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا وان الحج یھد م ما کان قبلہ الحدیث (مسلم شریف)
جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچائی میرے دل میں ڈال دی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، کہ آپ داہنا ہاتھ بڑھائیے، میں آپ ﷺ سے بیعت کروں گا، یعنی آپﷺ کے ہاتھ پر مسلمان ہوں گا آپﷺ نے ہاتھ بڑھا دیا، (لیکن) میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا آپﷺ نے فرمایا: اے عمرو! یہ کیا بات ہے، میں نے عرض کیا، میں کچھ شرط کرنا چاہتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا کیا شرط لگاتے ہو، میں نے کہا اس شرط پر اسلام لاتا ہوں، کہ اسلام لانے سے میرے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں، آپﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا تمہیں یہ معلوم نہیں، کہ اسلام ان سب گناہوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے، جو اسلام سے پہلے سرزد ہوئے تھے، اور ہجرت بھی سب گناہوں کو ساقط کر دیتی ہے، جو ہجرت سے پہلے صادر ہوئے ہوں، اور حج ان خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے، جو حج سے پہلے ہوئے ہوں۔
یہ اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے ، کہ اسلام لانے سے سارے قصور معاف ہو جاتے ہیں اسلام لانے کے بعد انسان معصوم اور بے قصور ہو جاتا ہے، یہی حال ہجرت اور حج کا بھی ہے، یعنی اسلام لانے سے زندگی بھر کے گناہ دھل جاتے ہیں، گناہوں سے بالکل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ اس اعرابی کی حدیث میں آتا ہے کہ:
جآء رجل الی النبی ﷺ شیخ کبیر یدعم علی عصاہ فقال یارسول اللہ ان لی عذرات و فجرات فھل یغفرلی قال الست تشھدان لاالہ الااللہ قال بلی و اشھد انک رسول اللہ قال قدغفر لک عذراتک و فجراتک (احمد۔ طبرانی)
ایک بوڑھا لکڑی کا سہارا لگائے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا، کہ یارسول اللہﷺ میں کفر کے زمانے میں بے وفائیاں اور بیہودگیاں کر چکاہوں، تو کیا وہ سب معاف کر دی جائیں گی۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تو نے ایک اکیلے خدا ہونے کی گواہی نہیں دی، اس نے عرض کیا ہاں اور اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں ، کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں، فرمایا: تیری ساری خیانتیں اور بے ہودگیاں معاف کر دی گئی ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مذہب بدلنے والا ضرور اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے ، کہ پہلے مذہب میں رہ کر جو بدعنوانیاں سرزد ہوئی ہیں دوسرے مذہب میں داخل ہونے سے سب معاف ہوجائیں، اس چیز کی گارنٹی صرف اسلام میں ہے، کہ داخل ہوتے ہی ماقبل اسلام کے سب کوتاہیاں بخش دی جاتی ہیں، اور اسلام میں داخل ہونے والا ایسا ہو جاتاہے، کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں، دوسرے مذاہب میںیہ خوبی نہیں ہے، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذااسلم العبد فحسن اسلامہ یکفراللہ عنہ کل سیئۃ کان زلفھا وکان بعد ذلک القصاص الحسنۃ بعشر امثالھا الی سبع مائۃ ضعف والسیئۃ بمثلھا الا ان یتجاوز اللہ عنھا۔ (بخاری)
جب بندہ اسلام لے آتا ہے، اور اس کا اسلام اچھا ہوجاتا ہے تو جتنی برائیاں وہ پہلے کر چکا ہے، تو ان سب کو اللہ تعالیٰ درگزر فرما دیتا ہے، اس کے بعد یہ صورت ہوتی ہے، کہ اگر نیکی کرتا ہے تو ایک نیکی پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، یہاں تک کہ ایک نیکی کے بدلے میں سات سو نیکیاں ملتی ہیں اور برائی کے بدلے میں صرف ایک برائی مگر یہ کہ اللہ اس کو معاف فرما دے۔
اسلام کے اچھے ہونے سے یہ مراد ہے ، کہ اسلام میں داخل ہونے والا ظاہری ا ور باطنی حیثیت سے ا سلام میں پورا پورا داخل ہوجائے،جب وہ کوئی کام کرے تو یقین کرلے، کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے اور وہ اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے برائیوں سے اجتناب کرتا رہے، نیکیوں کے بجا لانے کی کو شش کرتا رہے، اسلام میں داخل ہونے کے بعد ظاہری اور باطنی حالت اس کی سدھر گئی، تو اس صورت میں اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
اتی النبی ﷺ رجل مقنع بالحدید فقال یارسول اللہ اقاتل اواسلم قال اسلم ثم قاتل فاسلم ثم قاتل فقتل فقال رسول اللہ ﷺ عمل قلیلا واجر کثیرا۔ (بخاری)
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص زرہ پوش سر سے پاؤں تک لوہے سے ڈھکا ہوا آیا، اور عرض کیا یارسول اللہ میں پہلے جہاد میں شریک ہوں یا پہلے اسلام لاؤں ا ور پھر جہاد میں شریک ہوں، تو آپﷺ نے فرمایا: پہلے تم اسلام لے آؤ، پھر بعد میں جہاد میں شریک ہونا، چنانچہ وہ پہلے اسلام لاتا ہے، اور پھر جہاد کرتا ہے، خدا کی شان وہ جہاد میں جاتے ہی شہید ہو جاتا ہے، آپﷺ نے فرمایا:کہ اس نے کام تھوڑا کیا، اور ثواب بہت دیا گیا۔
ایمان لانا بہت معمولی کام ہے، لیکن اس سے زندگی بھر کے گناہ معاف ہوئے، اور ہمیشہ کا جنتی ہوگیا۔ صحیح اسلام قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گا، اگر اسلام صحیح ہے، تو دیگر اعمال صالحہ کا بھی اعتبار ہوگا، اور اگر اسلام درست نہیں تو دوسری نیکیوں کا بھی اعتبار نہ ہوگا، ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تجیی الاعمال یوم القیامۃ فتجیی الصلوۃ فتقول یا رب انا الصلوۃ فیقول انک علی خیر فتجیی الصدقۃ۔ فیقول انک علی خیر ثم یجیی الصیام فیقول یارب انا الصیام فیقول انک علی خیر ثم تجیی الاعمال کل ذلک یقول اللہ انک علی خیر ثم یجیی الاسلام فیقول یا رب انت السلام وانا الاسلام فیقول اللہ انک علی خیر بک الیوم اٰخذ وبک اعطی۔ (احمد، مشکوۃ رقاق ص ۴۴۵)
انسان کے اعمال قیامت کے دن ظاہر ہو کر آئیں گے، پس نماز آئے گی، اور کہے گی، اے پروردگار میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تو بہت اچھا کام ہے، پھر صدقہ آئے گا اور کہے گا ، اے پروردگار میں صدقہ ہوں، فرمائے گا تو بہت اچھا کام ہے، پھر روزہ آئے گا، اور کہے گا، اے میرے پروردگار میں روزہ ہوں، فرمائے گا تو بہت اچھا کام ہے، پھر اسی طرح سب ا عمال آئیں گے، اور سب سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو خیر پر ہے، پھر اسلام آئے گا اور کہے گا اے میرے پروردگار تو سلام ہے(یعنی سب عیبوں سے پاک) اور میں اسلام ہوں، یعنی تیری فرمانبرداری کا مجموعہ۔ اللہ فرمائے گا تو بہت اچھا کام ہے، آج کے دن اپنے بندوں سے تیرے ہی ذریعہ لین دین کروں گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پھر راوی نے یہ آیت پڑھی:
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔
(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)جو طلب کرے سوائے اسلام کے اور کسی دین کو، وہ دین اس سے نہ قبول کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہے۔ (عن ابی ھریرہ، ابن کثیر، مشکوۃ)
یعنی بندوں کے نیک اعمال قیامت کے دن باری تعالیٰ کی جناب میں حاضر ہوں گے، تا کہ ان کے عاملوں کے واسطے دلیل ہوں، اور ان کی شفاعت کریں، یہاں تک کہ خود اسلام اس سے مخاطب ہو کر فرمائے گا، کہ آج کے دن جزا و سزا کا دارومدار تجھی پر ہوگا، جس کا اسلام درست ہے، اس کے اعمال قبول ہیں ، اور جس کا اسلام درست نہیں اس کے سب اعمال مردود ہیں، اسلام کی بنیاد پانچ اصولوں پر قائم ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بنی الاسلام علی خمس شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ واقام الصلوۃ وایتآء الزکوۃ والحج وصوم رمضان۔ (بخاری، مسلم)
اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر رکھی گئی ہے (۱)اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ہی سچا معبود ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں، اور یقینا محمد رسول اللہ ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں(۲)نمازقائم کرنا (۳)زکوۃ دینا(۴)حج کرنا(۵)رمضان کے روزے رکھنا۔
اس حدیث میں استعارہ کے طور پر اسلام کو ایک مکان سے تشبیہ دی گئی ہے، جو پانچ ستونوں پر قائم ہو لہٰذا ان ستونوں کی نگہداشت نہایت ہی ضروری ہے، ستونوں کے نہ رہنے سے مکان منہدم ہو جائے گا اسلام کے یہ پانچ ارکان پانچ ستون ہیں، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں ''خمس دعائم'' کا لفظ بھی آیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے، کہ اسلام کے ہر رکن اور ہر حکم میں بڑی بڑی خوبیاں مضمر ہیں، اسلام تمام خوبیوں کے مجموعہ کا نام ہے، رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا:
ای الاسلام خیرقال تطعم الطعام وتقرءالسلام علی من عرفت ومن لم تعرف(بخاری۔ مسلم)
اسلام کی کون سی خصلت اچھی ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: کہ کھانا کھلانا، اور آشنا اور بے گانہ کو السلام علیکم کرنا۔
منجملہ دیگر خوبیوں کے یہ بھی ایک خوبی ہے، کہ غریبوں، ناداروں کی خدمت و پرورش کی جائے، اور ہر چھوٹے بڑے، اجنبی اور غیر اجنبی کے ساتھ تواضع اور حسن خلق کے ساتھ پیش آیا جائے، قرآن مجید میں مسلمان کے ا وصاف کے سلسلہ میں یہ فرمایا ہے، لیس البر ان تولوا وجوھکم (تا ) واولئک ھم المتقون (البقرۃ ع ۲۲) یعنی نیکی یہی نہیں ہے، کہ نماز میں اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کرو، بلکہ اصل نیکی یہ ہے، جو خدا پر، قیامت پر، کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لایا، ا ور مال کی خواہشات کے باوجود(یا خدا کی محبت کے سبب سے) اپنا مال رشتہ داروں کو یتیموں کو، غریبوں کو، مسافر کو، مانگنے والوں کو اورغلاموں کے آزادکرنے میں دیا، اور نماز ادا کرتا رہا، اورزکوۃ دیتا رہا، اور جو وعدہ کرکے اپنے وعدہ کو پورا کرتے ہیں، اور جو مصیبت ، تکلیف اور لڑائی میں ثابت قدم رہتے ہیں، یہ وہی ہیں جو راستباز ہیں، اور یہی تقویٰ والے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسلمان کی پہچان:
مذکورہ بالا اوصاف اور ان کے علاوہ دیگر محاسن جس میں پائے جائیں گے وہی مسلمان کامل ہوگا اور یہی اوصاف اس کی شناخت اور پہچان کے اسباب ہوں گے، تو مسلمان وہ ہے، جس کا ظاہر و باطن پاک و صاف ہو، اور خدا پر اور رسول پر اور مبدا ومعاد پر ایمان رکھتا ہو، اور اسلامی فرامین و احکام پر کاربند ہو، اور حق العباد ادا کرنے والا ہو، بلا وجہ نہ جنگ و جدال کرتا ہو، نہ غیبت و چغلی کرتا ہو، اور نہ کینہ و بغض اور عناد رکھتا ہو، اور نہ کسی پر سب و شتم کرتا ہو، اور نہ ظلم و تعدی، ہر ایک کا ہمدرد و خیر خواہ ہو، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا، کہ کون سا مسلمان سب سے اچھا ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ بچے رہیں، یعنی مسلمان کی ایک پہچان یہ بھی ہے ، کہ وہ کسی کو بلا وجہ تکلیف نہیں پہنچاتا ہے۔ (بخاری شریف)۔
حقیقت یہ ہے ، کہ فتنہ و فساد کی جڑ عموماً زبان اور ہاتھ ہے، اور جو زبان و ہاتھ کی حفاظت کرلے دنیا کے ہر عیب اور شر و فساد سے محفوظ رہا۔
قرآن مجید میں مسلمانوں کی پہچان کے سلسلہ میں بہت سی آیتیںہیںجن میں سے چند ایک آیات درج ذیل ہیں۔ قد افلح المؤمنون الذین ھم (تا) الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خالدون،یعنی یقیناً ایمانداروں نے نجات حاصل کر لی ، جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں، جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو زکوۃ ادا کرتے ہیں، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں، اس کے سوا جواور ڈھونڈیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں، جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں، جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرنے والے ہیں ، یہی لوگ ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورہ مومنون پ ۱۸ ع ۱)۔
ان آیتوں میں ایک مومن و مسلم کی مثال بتائی گئی ہے، کہ مسلمان کی علامت اور پہچان یہ ہے، خشوع و خضوع اور اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنے ا ور لغویات سے ا عراض کرنے ا ور پاک دامنی و عفت اختیار کرنے اور قول و اقرار کے پورا کرنے اور فیاضی اور زکوۃ ا دا کرنے ا ور امانت ادا کرنے والے ہوتے ہیں ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳ وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۝۶۴ وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ۝۰ۤۖ اِنَّ عَذَابَہَا كَانَ غَرَامًا۝۶۵ۤۖ اِنَّہَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا۝۶۶ وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷ وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا۝۶۸ۙ يُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَيَخْلُدْ فِيْہٖ مُہَانًا۝۶۹ۤۖ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللہُ سَـيِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۷۰ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ يَتُوْبُ اِلَى اللہِ مَتَابًا۝۷۱ وَالَّذِيْنَ لَا يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ۝۰ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا۝۷۲ وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْہَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا۝۷۳ وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۝۷۴ اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْہَا تَحِيَّۃً وَّسَلٰمًا۝۷۵ۙ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ حَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا۝۷۶ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا۝۷۷ۧ (الفرقان:۶۳ تا ۷۷)
یعنی رحمان کے سچے بندے وہ ہیں، جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں، ا ور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں ، تو وہ کہہ دیتے ہیں، کہ سلام ہے، اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گذار دیتے ہیں اور جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں ، کہ اے پروردگار! ہم سے دوزخ کے عذاب کو پرے ہی پرے رکھ ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے، وہ جائے قرار و قیام دونوں کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے، اور جو خرچ کے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ دونوں کے درمیان معتدل راہ ہوتی ہے ا ور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیںپکارتے ، اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو، وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے، وہ اپنے اوپر سخت وبال لاوے گا اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا، اور ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا، سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں، اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے، اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ حقیقۃً خدا کی طرف سچا رجوع کرتا ہے، اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، اور جب کسی لغویت پر ان کا گذر ہوتا ہے، تو بزرگانہ طور پر گذر جاتے ہیں، اور جب انہیں ان کے رب کی آیتیں سنائی جاتی ہیں، تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر ا ن پر نہیں گرتے، اور یہ دعا کرتے ہیں، کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا، یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و بالا بالا خانے دیئے جائیں گے، جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا، اس میں یہ ہمیشہ رہیںگے وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔ کہہ دیجیے اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا، تم تو جھٹلا چکے، اب عن قریب اس کی سزا تم کو چمٹ جانے والی ہے۔
اس پورے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مسلمانوں کے اوصاف اور ان کی بڑی بڑی نشانیوں کو بیان فرمایا: جن کی مختصر فہرست یہ ہے (۱)زمین پر آہستگی سے چلنا، یعنی تواضع و انکساری سے رہنا (۲) جاہلوں کا مقابلہ سلام سے کرنا (۳)شب بیداری کرنا یعنی رات کو عبادت الٰہی میں مصروف رہنا (۴)خدا کے آگے دوزخ سے رہائی کی دعا مانگنا (۵)اسراف سے بچنا اور میانہ روی اختیار کرنا(۶) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہ پکارنا(۷)کسی کو نا حق قتل نہ کرنا(۸)زنا نہ کرنا (۹)اگر کوئی برا کام ہو جائے، تو توبہ کرنا(۱۰)جھوٹی گواہی نہ دینا (۱۱)بیہودہ مشغلوں سے بچتے رہنا (۱۲) خدا کی آیتوں کو سوچ سمجھ کر عقیدت مندانہ سننا (۱۳)اپنے اور اپنی بیوی اور بچوں کے واسطے دینداری اور امانت کی دعا کرنا۔
اور مسلمانوں کی نشانیاں بہت سی ہیں، جو قرآن و حدیث شریف میں بیان کی گئی ہیں، جن کو اس مختصر مضمون میں بیان کرنا مشکل ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامل مسلمان بنائے، اور اپنے سچے دین اسلام پر ہمیشہ قائم رکھے آمین۔
رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد نبیا ﷺ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی جمیع الانبیاء والمرسلین وعبادہ الصالحین۔
 
Top