• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی لباس کیا ہے

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
نحمدہ ونصلی علیٰ ر سو لہ الکریم امابعد!​
از: عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری​
اسلامی لباس کیا ہے؟
وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۝۰ۭ ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۰مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَ ءَ عَلَي النَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الآیہ[٢٢:٧٨] (الحج:۷۸)
ترجمہ: اور اللہ(کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۲۶ [٧:٢٦]
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
لباس کا شمار انسان کی بنیادی ضرورتوں میں ہوتا ہےجس کا مقصد انسان کی ستر پوشی اور اس کی شخصیت کو نمایاں کرنا ہے،جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اس وقت سے ہی انسان کا کوئی مخصوص لبا س نہیں رہا ،جیسے جیسے انسانی تہذیب و تمدن ترقی کرتی گئی انسان کا لباس بھی تبدیل ہوتا گیا ،ابتداءً انسان اپنی ستر پوشی درخت کے بڑے پتوں اور درخت کی چھالوں سے کرتا تھا،یا پھر جانوروں کی کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا۔غرض کہ جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی انسان کا طرز زندگی بھی بدلتا گیا ، لیکن ستر ڈھانپنا ہر دور میں رہا(واضح رہے کہ ہم یہاں صرف اسلامی نظریات پیش کررہے ہیں انگریزی یا ڈارون نظریات نہیں )اور ستر کا معیار بھی ہر دور میں جدا گانہ رہا۔
ابتداء میں اسلامی لباس کیا تھا عورتوں کا لباس کیا تھا اور مردوںکا کیا تھا اس بارے میں ہمارے پاس تین انبیاء ورسل علیہم السلام کے واقعات سے کچھ اس طرح اشارہ ملتا ہے۔ایک واقعہ تو حضرت سلیمان ؑاور ملکہ کا ہے کہ جب اس کی پندڈلی کھل گئی تھی اور دوسرا وقعہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت شعیب ؑ کی دختر نیک اطوار کا ہے ،کہ جب وہ موسیٰؑ کو رہنمائی کرر ہی تھی اور تیز ہوا کی وجہ سے ان کا ٹخنہ کھل کھل جارہا تھا تو اس قوت موسیٰؑ نے ان کو اپنےپیچھے آنے کو فرمایا تھا،اور تیسرا واقعہ ہے حضرت یوسفؑ کا واقعہ اس جس کی تفصیل سورہ یوسف میں ہے قرآن پاک میں تین جگہ قمیص کا ذکر ہے :
(۱) وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
(۲) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑڈالا
(۳) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اس طرح اگر سابقہ ملتوں کے لباس پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت ستر پوشی کا معیارعورتوں میں قمیص پہنا کرتی تھیں،اور زیریں جامہ میں شلوار،یا تہبند بھی ہوسکتا ہے اور
(جاری ہے)
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
اور شلوار بھی مگر اتنا طے ہے کہ اس وقت بھی عورتوںکاٹخنہ ستر میں داخل تھامرد قمیص اور تہبند استعمال فرماتے تھے۔ ان تمام وضاحت سے میرا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ امم سابقہ سے لیکر حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ تک اور زمانہ رسالت سے کافی بعد تک تمام انسان ڈھیلا ڈھالا ہی لباس پہنتے تھے یہ تو اب آکر تقریبا دوسو سال سے انگریزوں نے اپنی تہذیب وتمدن سے متاثر کرنا شروع کیا جو اس کے خفیہ ایجنڈے میں شامل تھا ، جن کے سامنے صلاح الدین ایوبی کی تاریخ ہوگی اور جنہوں نے انگریزوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوگا ان پر یہ بات عیاں ہے۔
اب رہی اسلامی تعلیمات کا معاملہ تو سب سے پہلے یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کوئی اگر یہ کہے کہ اسلام کی آمد کے بعد سابقہ شریعت منسوخ تو یہ کہنا مناسب نہیںہوگا کیوں کہ اسلام نے سابقہ شریعت کو کلیۃً منسوخ نہیں کیا بلکہ اس میں تجدید کی اسلام کوئی نیا دین نہیں یا یہ تو وہی دین ہے جس کو قرآن پاک نےفرمایا:
ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۝۰ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ ہُوَمَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝۷۸ۧ [٢٢:٧٨]
اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے
یہان تین باتیں دھیان دینے کے قابل ہیں
قُلْ صَدَقَ اللہُ۝۰ۣ فَاتَّبِعُوْا مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ (آل عمران 95 )
کہہ دو کہ اللہ نے سچ فرمایا دیا پس دین ابراہیم کی پیروی کرو
’’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘‘(النحل ۔ ۱۲۳)
ترجمہ :پھر ہم نے وحی کی تمہاری طرف کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو
(۱) (تمہارے لیے) تمہارے باپ ابراہیم( علیہ السلام) کا دین پسند کیا گیا۔
(۲) ملت ابراہیم کی پیروی کر
(۳ ) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے)
اب یہ کہدینا تعجب خیز ہے کہ امم سابقہ سے کوئی مطلب نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ’’ لباس التقویٰ‘‘ کیا ہے ’
،لباس تقویٰ سے مراد ایسا لباس جس میں خشیت الٰہی موجود ہو لباس کے بارے میں جوشرعی ہدایات ہیں ان کی پاسداری کرنا، اگر کوئی بہ ظاہر عالم ِدین شخص بھی اسلامی لباس کی حدود پر کاربند نہیں ہے تو اس کی اس معاملے میں پیروی نہیں کی جائے گی۔ نیز انسان جس قوم کا لباس پہنتا ہے۔ اسی سے اس کی مشابہت ہوتی ہے۔ متقیوں یا اہل ِعلم کا سا لباس پہننے سے انسان متقی نظر آتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ جس طبقے کا لباس پہنتا ہے، اس جیسے کام بھی کرے۔ غیر مسلموں، فاسقوں اور آبرو باختہ عورتوں جیسا لباس پہن کر ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان جیسی عادات پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا: ’’المرء مع من احب۔‘‘’’انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس کو وہ پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) اسلامی حدود کے مطابق لباس پہننے سے اسلامی حدود کے مطابق لباس پہننے والوںمیں (صحاکرام ؓبہ، امہات المومنینؓ، متقین ومومنینؒ) وغیرہ شامل ہیں ان کی محبت اور معیت دنیا میں بھی نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی۔ اِنْ شَاءَ اللہ
اب شرعی لباس کیا ہے اور اس بارے میں اکابر دین علماء عظام کی چند آراء اور چند فتووں کا ذکر کیا جاتاہے۔
اول : لباس ستر چھپانے والا ہو۔ مرد کے لیے ستر ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصۂ جسم ہے اور عورت کے لیے اس کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ مکمل جسم ستر ہے۔
(جاری ہے)
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ لباس اتنا باریک اور چست نہ ہو کہ اعضاء جسم نمایاں ہوں۔
دوم: مردوں کے لیے عورتوں کے لباس پہننا اور عورتوں کے لیے مردوں کے لباس پہننا ممنوع ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے‘‘۔ (بخاری:۵۸۸۵) احادیث میں مردوں کے لیے ریشم اور سرخ رنگ کا لباس، اسی طرح سونے کا زیور، زنجیر، انگوٹھی وغیرہ پہننے کی ممانعت آئی ہے۔
سوم: احادیث میں مردوں کا زیریں لباس ٹخنوں سے نیچے نہ ہو نا چاہئے۔ اس سلسلے میں سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الاِزَارِ فِی النَّارِ (بخاری: )
’’تہبند کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ آگ میں ہوگا‘‘۔
ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَایَنْظُرُاللّٰہُ اِلٰی مَنْ جَرَّ اِزَارَہ بَطْراً (بخاری: ۵۷۸۸، مسلم: ۲۰۸۷)
’’اللہ اس شخص کی جانب نگاہ نہیں اٹھائے گا جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند گھسیٹ کر چلے گا‘‘۔
چہارم:ا یسا لباس پہننے کی بھی ممانعت ہے، جو کسی غیر مسلم قوم کا شعار ہو، یا اسے پہن کر آدمی غیر مسلم قوم کا فرد معلوم ہو
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمِِ فَھُوَمِنْہُمْ (ابوداؤد: ۴۰۳۱)
’’جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انھی میں سے ہے‘‘۔
دراصل جب کوئی شخص جب کسی دوسری قوم کا وہ لباس اختیار کرتاہے جو اس قوم کی شناخت اور امتیاز ہے تو وہ درحقیقت اپنی عظمت ،عزت اور برتری کو اس قوم کے لباس اختیار کرنے میں ہی محسوس کرتاہے اور اپنے لباس میں رہنا ،اپنے متعلق حقارت اور کمتری وسبکی محسوس کرتاہے ۔گویایہ شخص شدید قسم کے احساس کمتری اور شکست خوردگی میں مبتلا ہے ۔ اسلئے یہ اصول مقرر کیا گیا کہ دوسری کسی بھی قوم کا وہ لباس جسے پہن کر مسلمان اُسی قوم کا فرد محسوس ہونے لگے ،اسلام کی رو سے غیر اسلامی لباس ہے اسلئے اس سے اجتناب کا حکم ہے ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اہتمام سے ان تمام امور سے بچنے کا حکم فرماتے تھے جس سے مسلم تہذیب مٹ جائے اور دوسری قوموں کی تہذیب کے مسلمان متوالے بن جائیں ۔ تہذیب کا آغاز لباس اور جسمانی وضع قطع سے ہی ہوتاہے ۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان عورت ساڑھی باندھے تو ہر دیکھنے والا شخص ضرور اس کا یقین کرے گا کہ یہ غیر مسلم عورت ہے ۔ یا اسی طرح سے غیر مسلم عید کے دنوں میں خاص کرتا پائجامہ پہن کر بھیک مانگتے ہیں اور مسلمان اس کو مسلمان سمجھ کر ہی صدقہ دیتے ہیں اسی طرح اگر ایک مسلمان کی کلائی پر کڑاپہنتا ہو تو یہ وہم گذرنے لگے گا کہ یہ شخص شاید غیر مسلم ہےکیونکہ کڑا استعمال کرنا انہی کا مخصوص فعل ہے ایسے ہی اگر کوئی آدمی داڑھی والا جیسا کہ سکھ لوگ رکھتے ہیں جب وہ برصغیر سے باہر گلف وغیرہ ملازمت کے لیے جاتے ہیں عرب لوگ اس کو مسلمان ہی سمجھ تے ہیں اور ایسے واقعات بھی سننے کو ملے ہیں کہ سعودی عرب میں وہاں ’’متووں‘‘نے ان سے زبرستی نماز پڑھوائی ہےیہ بیچارے بہت کہتے تھے ’’یااللہ سیکھ سیکھ ‘‘ وہ متوے کہتے’’ مافی شیخ شیخ، اول صلوٰہ بعدہ شیخ‘‘ غرض کہ ان سکھوں کو نماز پڑھنی پڑتی تھی ۔اس اصول کا خلاصہ یہ نکلے گا مسلمان نہ یہود ونصاری کا لباس پہن سکتے ہیں نہ کسی اور قوم اور مذہب کے لباس کی نقالی کریں اور اگر ایسا لباس اختیار کیاگیا تو وہ غیرشرعی لباس ہوگا ۔
شیطان کا یہ اولین مقصد ہے کہ وہ انسان کو برہنہ اور بے حیا بنادے ۔ شیطان ازل سے لے کر اب تک اسی کوشش میں مصروف ہے اور وہ مختلف طریقوں سے ابن آدم پر حملے کرتا چلا آرہا ہے۔
اس نے انسان سے حیا کی صفت چھیننے کے لیے ایک خفیہ اور پرفریب چال چلی۔ اس نے انسان کا لباس اتروانے کی بجائے اسے ایسے فیشنوں سے متعارف کروایا جو اس کے مقاصد میں شامل تھا ۔ ان فیشنوں کی وجہ سے لباس ستر پوشی کے بجائے برہنگی،زیب وزینت کی بجائے اوچھا پن،اور تقویٰ کی بجائے بے ہودگی کی علامت بن گیا۔
(جاری ہے)
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
’’تشبہ بقوم‘‘ : میں آج یہ بات بھی شامل ہوگئی کہ مسلمانوں کے سر سے ’’ٹوپی ‘ ‘ یا’’ پگڑی‘‘ بھی غائب ہوگئی اب اس کی جگہ فیشن والی کیپ نے لے لی ہے اور اب تو نماز بھی سر کھلے ہی ہونے لگی ہے۔
منقش کپڑے بھی تشبہ بقومٍ میں شمار ہیں:
جن کپڑوں پر کسی غیر مسلم کے مذہبی شعار کی تصویر ہو یا کسی جانور کی تصویر ہو وہ لباس اور ایسی ہر چیز کا استعمال کرنا درست نہیں البتہ اگران سے نقوش مٹادئے جائیں تو پھر استعمال کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے:
’’جس چیز پر صلیب ہوتی آپ اسے توڑے بغیر نہ چھوڑتے۔‘‘ [بخاری، کتاب اللباس:۴۱۵۱، باب نقض الصور، سنن ابی داؤد]
اسی طرح سےجس لباس پر انگلش حروف نمایاںطور پر اور نمایاں حصوں پر لکھے ہوں، ان کو بھی پہننے سے گریز کرنا بہتر ہے کیوں کہ اس سےانگلش تہذیب سےمشابہت لازم آتی ہے۔اور ان کی زبان سےاظہار انسیت اوران کی زبان کی تبلیغ واشاعت بھی ہوتی ہے۔ اور ان کی تہذیب کو تقویت پہونچتی ہے ،اس لیے ایسے لباس سے یہ حروف مٹادینے چاہئے۔
اس طرح سے ٹی شرٹ پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں غیر مسلموں کی مشابہت ہےاور جسم بھی نمایاں ہوتا ہے۔
کیا پینٹ شرٹ اسلامی لباس ہے؟: پینٹ شرٹ اسلامی لباس نہیں ہے ۔اس پر تما م علماء عرب کے ہوں یا عجم کے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اسلامی لباس نہیں ہے ۔البتہ یہ فرماتے ہیں اب چونکہ اس لباس کو تقریبا تمام عالم کے مسلمانوں نے اپنا لیا ہے اس لیے یہ لباس عرف میں داخل ہوگیا ہے، گلف کے بعض علماء نے اس کو مجبوری کی حالت میں پہننے کی اجازت دی ہے،(جیسا کہ آگے آتا ہے) ،
لہٰذا پینٹ شرٹ کے بارے تمام علماء متفقہ طور پر یہ کہا ہے کہ اگر یہ ڈھیلی ہیں اور جسم انسانی کو اس طور پر ڈھانپ لیتی ہیں کہ جس اعضاء نمایاں نہ ہوں اور نماز پڑھنے میں کوئی پریشانی نہ ہوتو ان شرطوں کے ساتھ اس لباس کا پہنناجائز ہے ،البتہ کسی نے بھی اس کو اسلامی لباس نہیں کہا ہے۔
دیوبند کافتویٰ:
’’عورت کے لباس کے سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ وہ لباس غیر قوم کا شعار نہ ہو، فیشن کے طور پر نہ پہنا جاتا ہو، اس سے ستر پوشی بدرجہ اتم ہوجاتی ہو، اگر کسی لباس میں مذکورہ بالا باتوں میں کوئی بات نہ پائی جائے تو پھر اس کا پہننا درست نہ ہوگا۔ ساڑھی اگر وہاں غیر قوم کا شعار نہ ہو اور سترپوشی کامل طریقے پر ہوجاتی ہو تو اس کے پہنے کی اجازت ہوگی، لہنگا کے بارے میں جہاں تک میرا خیال ہے چونکہ وہ فیشن پرست عورتیں پہنتی ہیں، اس لیے اس کا پہننا جائز نہیں۔ جہاں تک مردوں کے پینٹ شرٹ پہنے کا مسئلہ ہے تو چونکہ اب یہ لباس کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا اس لیے اس کی وجہ سے اس کا پہننا ممنوع نہیں البتہ وہ فساق وفجار کا لباس اب بھی ہے اس وجہ سے اس کا پہننا مکروہ ہوگا، واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ اس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو اور اگر پینٹ اتنی چست ہو کہ اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کا پہننا حرام ہوگا۔‘‘(برقی فتویٰ نمبر:فتوی: 1177=1026/ ل)
سعودی عرب کے چند ممتاز علماء کے فتاویٰ کا خلاصہ:
ان حضرات نے یہ اعترف کیا ہے کہ یہ لباس کبھی غیر مسلموں کا ہوا کرتا تھا لیکن چونکہ اب مسلمانوں کی اکثریت نے اس کواپنا لیا ہے تو چند شرطوں کے ساتھ ان کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں کہ کپڑے ڈھیلے ڈھالے ہوجن سے جسم ڈھک جائے اور جسم کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو۔ البتہ عورتوں کے لیے منع فرمایا ہے۔ اور یہ بھی واضح فرمایا کہ اگر کوئی معاملہ مجبوری کا تنگی کا آجائے تو اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے ۔لیکن آخر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ اس کو نہ پہنیں جب تک اس کا محرک نہ ہو یعنی اس کو مجبورآ پہننے کی اجازت ہے۔
-’’أما لبس البنطلون فلست أراه من التشبه لأنه زي غلب على ديار المسلمين وكما في القاعدة الفقهية إذا ضاق الأمر اتسع ومع ذلك ففيه حرج من جهة الصلاة فيه ولذلك أرى ألا يلبسه المسلم اذا لم يكن هناك داع اليه‘‘
علماء کے اسماء گرامی:
الشيخ الدكتور سليمان بن سليم الله الرحيلي - حفظه الله
(جاری ہے)
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
الشیخ صالح فوزان
الشیخ محمد بن صالح العثیمین (وغیرھم)

اسلامی لباس کیا ہے:
احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپ ﷺ کو قمیص زیادہ پسند تھی اور جبہ بھی استعمال فرمایا کرتے تھے،ایک مرتبہ پائجامہ بھی خریدا تھا اور اس کو پسند بھی فرمایا تھا ،صحابہ کرام بھی قمیص اور تہبند زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ذیل میں ’’ سیرت خیر العباد ، ترجمہ زادلمعاد ‘‘ مترجم مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری،سے حضورﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے لباس خلاصہ پیش کرتا ہوں،آپﷺ نے عمامہ بھی باندھا ہے ،اور ٹوپی بغیر عمامہ کے بھی پہنی ہے،آپ ﷺ قمیص بھی پہنی اور یہ آپ کو بہت پسند تھی،اس کی آستین پہونچوں تک ہوتی تھی،جبہ اور فروج بھی استعمال فرمایایہ قبا کے زیادہ مشابہ تھا،تہبند اور چادر بھی استعمال فرمائی،اور یہ بھی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے پائجامہ بھی خریدا تھا ،اور صحابہ کرام ؓ تو آپ ﷺ کی اجازت سے پائجامہ ہی پہنا کرتے تھے،،اور یہی لباس صحابہ کرامؓ کا ہوا کرتا تھا۔ آپ ﷺ کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تویہ دعاء پڑ ھتے تھے:
اللہم انت کسوتنی ھذا القمیص اولرداء اوالعمامۃ اسئلک خیرہ وخیر ما صنع لہ واعوذبک شرہ وشر ما صنع لہ
اے اللہ آپ ہی نے مجھے یہ قمیص یا چادر یا عمامہ پہنایا ہے اس کی بھلائی اور جس کے لیے بنی اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس برائی کے لیے یہ ہو اس کی پناہ چاہتا ہوں(ص:۱۰۸تاص:۱۱۶)
عرف اور سنن زوائد اور سنن ہدیٰ:
پینٹ شرٹ کے حامی حضرات یہ دلیل؛ دیتے ہیں کہ اب پینٹ شرٹ عرف میں داخل ہوگئی ہے اور اسلام نے کسی خاص طرز کے لباس کا تعارف نہیں کرایا ہے اور یہ ایسی سنت ہے جس سنن زوائد کہا جاتا ہے یعنی کرلیا تو اچھا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں،بیشک ان کی یہ دونوں باتیں سر آنکھوں پر لیکن اگر عرف کو عام کردیا جائے تو آج کل بیشمار بدعتیں رائج ہیں جو عرف میں داخل ہوگئی ہیں ’’ٹائی باندھنا، سلام کی بجائے ہیلو ، کہنا اللہ حافظ کی جگہ بائے بائے کہنا،کھڑے ہوکر پیشاب کرنا، ہاتھ میں ڈورا باندھنا،کھڑے ہوکر کھانا کھانا،بائیں ہاتھ سے کھانا پینا،آم کی فصل بور پرہی(پھل آنے سے پہلے)خرید لینا۔
آج کل یہ بھی عرف میں داخل ہوگیا ہے کہ بچوں کا نام اسلامی نام نہ ہوکرغیر مسلموں والے انداز میں ہونا،یا اگر اسلامی نام بھی ہوںگے فلمی ہیروز کے نام پر رکھے جائیں گے
اس سے بڑھ کر یہ بھی عرف میں داخل ہوگیا ہے کہ والدین کے نام’’ابا‘‘’’ابو‘‘ ابی‘‘ کی جگہ دیڈ ،ڈیڈی، پاپا، وغیرہ نے لے لی ہےاسی طرح ’’امی‘‘’’اماں‘‘ کی جگہ ۔ مم،ممی وغیرہ ناموں نے لے لی ہے۔
یاد رہے عرف کا معیار علماء، صلحاء،یا اتقیاء ہوتے ہیں ان کاعمل ہی اسلام کا نمونہ اور معیار ہوتا ہے ،جہلاء یا عوام نہیں ہوا کرتے ،یہی ہر جگہ کا عرف کہلائے گا ۔ واضح رہے ہر قوم کا شعار ہوتا ہے اس سے قوموں کے تمدن و تہذیب کا پتہ چلتا ہےاور لباس ہی شخصیت کو نمایاں کرتا ہےجس طرح سے کہ پولس والا فوجی کی ڈریس نہیں پہن سکتا ایک وکیل جج کی ڈریس نہیں پہن سکتا،یہ بھی منع ہے کہ عام آدمی عالموں جیسا حلیہ بنائے کہ لوگوں کو اس کا عالم ہونے کا گمان ہو اور وہ کوئی غلطی کرے تو لوگ اس کو عالم سمجھ کر علماء سے بدظن ہوجائیں، کسی بڑے عالم نے کہا ہے ’’جو قوم اپنے تہذیب وتمدن کی حفاظت نہیں کرپاتی وہ قوم فنا ہوجاتی ہے اگررہتی بھی ہے تو اس کی حیثیت غلاموں کی سی ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام:
پینٹ شرٹ کی جو موجودہ شکل ہے اس کا استعمال کرنا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں کیوں کہ اس میں جسم پر کپڑہ ہونے کے باوجود بھی جسم کے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں
ہاں اگر کسی کی پینٹ شرٹ ڈھیلی ڈھالی ہو جسم نمایاں نہ ہوں اور پینٹ ٹخنوں سے نیچی نہ ہو اور شرٹ سرین کو ڈھانپ رہی ہو،یا کوئی عذر در پیش ہے اورمنقش بھی نہ ہو (تصویر ،اور اشتہار وغیرہ نہ ہوں) تو جائز ہے فقط واللہ اعلم بالصواب
 
Top