عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
﷽
نحمدہ ونصلی علیٰ ر سو لہ الکریم امابعد!
از: عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری
اسلامی لباس کیا ہے؟
ترجمہ: اور اللہ(کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۲۶ [٧:٢٦]
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
لباس کا شمار انسان کی بنیادی ضرورتوں میں ہوتا ہےجس کا مقصد انسان کی ستر پوشی اور اس کی شخصیت کو نمایاں کرنا ہے،جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اس وقت سے ہی انسان کا کوئی مخصوص لبا س نہیں رہا ،جیسے جیسے انسانی تہذیب و تمدن ترقی کرتی گئی انسان کا لباس بھی تبدیل ہوتا گیا ،ابتداءً انسان اپنی ستر پوشی درخت کے بڑے پتوں اور درخت کی چھالوں سے کرتا تھا،یا پھر جانوروں کی کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا۔غرض کہ جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی انسان کا طرز زندگی بھی بدلتا گیا ، لیکن ستر ڈھانپنا ہر دور میں رہا(واضح رہے کہ ہم یہاں صرف اسلامی نظریات پیش کررہے ہیں انگریزی یا ڈارون نظریات نہیں )اور ستر کا معیار بھی ہر دور میں جدا گانہ رہا۔
ابتداء میں اسلامی لباس کیا تھا عورتوں کا لباس کیا تھا اور مردوںکا کیا تھا اس بارے میں ہمارے پاس تین انبیاء ورسل علیہم السلام کے واقعات سے کچھ اس طرح اشارہ ملتا ہے۔ایک واقعہ تو حضرت سلیمان ؑاور ملکہ کا ہے کہ جب اس کی پندڈلی کھل گئی تھی اور دوسرا وقعہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت شعیب ؑ کی دختر نیک اطوار کا ہے ،کہ جب وہ موسیٰؑ کو رہنمائی کرر ہی تھی اور تیز ہوا کی وجہ سے ان کا ٹخنہ کھل کھل جارہا تھا تو اس قوت موسیٰؑ نے ان کو اپنےپیچھے آنے کو فرمایا تھا،اور تیسرا واقعہ ہے حضرت یوسفؑ کا واقعہ اس جس کی تفصیل سورہ یوسف میں ہے قرآن پاک میں تین جگہ قمیص کا ذکر ہے :
(۱) وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
(۲) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑڈالا
(۳) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اس طرح اگر سابقہ ملتوں کے لباس پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت ستر پوشی کا معیارعورتوں میں قمیص پہنا کرتی تھیں،اور زیریں جامہ میں شلوار،یا تہبند بھی ہوسکتا ہے اور
(جاری ہے)