• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی معاشروں میں دعوتِ دین کا منہج اور ترتیب

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسلامی معاشروں میں دعوتِ دین کا منہج اور ترتیب



زیر نظر خطاب میں محدث العصر شیخ البانی ﷫نے اس اہم سوال کا جواب دیا ہے کہ وہ کیا طریقۂ دعوت ہے جو مسلمانوں کو عروج کی طرف گامزن کردے اور وہ کیا راستہ ہے کہ جسے اختیار کرنے پر اﷲ تعالیٰ اُنہیں زمین پر غلبہ عطا کرے گا اور دیگر اُمّتوں کے درمیان جو اُن کا شایانِ شان مقام ہے، اس پر فائز کرے گا؟...اس کے جواب میں اُنہوں نے دعوتی موضوعات کی ترتیب کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعیانِ اسلام کو ایسے اصل الاصول سے اپنی دعوت کا آغاز کرنا چاہئے جو انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ رہا ہے اور ہر مسلمان پر اوّلین فرض ہے یعنی توحید اور اس پر ایمان کے تقاضے ۔ نیز ہر مسلمان کو اسلامی عقائد کو واضح طور پر سمجھ اور جان لینے کے بعد، حکمرانوں سے پہلےاسلام کی اس حکومت کو اپنی ذات اور خاندان پر قائم کرنا چاہئے۔ اپنی دعوتی ترجیحات کو سیاست و حاکمیت اور غلبہ دین پر قائم کرنا اُسوہ رسل کے خلاف، دینی ترجیحات کے منافی ہے اور یہ مسلمانوں پر تکلیف مالا یطاق بھی ہے۔اُنہوں نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ پورا دین اسلام ایک اکائی ہے اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جاسکتا اور دین کے تمام پہلو اہم ہیں اور وہ اُن کی اہمیت کم نہیں کرنا چاہتے لیکن داعیان کی ترجیحات اور مدعوین کا اوّلین فرض، اُسوۂ نبوی اور دعوتی حکمتِ عملی کے حوالے سے واضح رہنا چاہئے۔ عرب ممالک میں میسّر آزادی اور درپیش حالات کے تناظر میں اُن کا یہ موقف قابل مطالعہ واستفادہ ہے۔ ح م

توحید سب سے پہلے؛ اے داعیانِ اسلام! ... توحیدِ کامل کی دعوت
سوال : فضیلۃ الشیخ!آپ جانتے ہیں کہ اُمّتِ مسلمہ کی دینی حالت،عقیدہ اور اعتقادی مسائل سے لاعلمی اور اپنے مناہج میں اختلاف وافتراق کے اعتبار سے نہایت ابتر ہے اور دنیا بھر میں دعوتِ اسلا م پہنچانے میں اُس عقیدۂ اوّل اور منہج اول سے اکثر غفلت برتی جاتی ہے جس کے ذریعہ اُمّت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ یہ الم ناک حالت یقیناً مخلص مسلمانوں کے اندر ایمانی غیرت وحمیّت کو اُبھارتی ہے اور اس کو بدل دینے اور اس خلل کی اصلاح کرنے کی جانب اُنہیں متوجہ کرتی ہے، مگر جیسا کہ فضیلۃ الشیخ آپ جانتے ہیں کہ اپنے میلاناتِ عقیدۂ ومنہج میں اختلاف کی وجہ سے وہ اس اصلاح کے لئے بروے کار لائے جانے والے طریقۂ کار میں اختلاف کا شکار ہیں۔ پھر ان مختلف تحریکوں اور اسلامی گروہی جماعتوں کو بھی آپ جانتے ہیں جو برسوں، دہائیوں سے اُمّت کی اصلاح کا ڈنڈھورا پیٹ تو رہی ہیں، مگر اس کے پیروی کرکے اُن کے لئے آج تک کوئی نجات یا فلاح رقم نہیں ہوسکی، بلکہ اس کے برعکس ان تحریکوں کی وجہ سے فتنے اُبھرے، آفتوں کا نزول ہوا اور عظیم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے عقیدہ ومنہج میں رسول اﷲﷺ کے حکم اور جو کچھ آپ ﷺ لے کر آئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔اس بات نے مسلمانوں خصوصاً نوجوانانِ اُمت میں اس صور تحال کے علاج کی کیفیت کے بارے میں ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ سب حیران وپریشان ہیں۔ اندریں حالات ایک مسلمان داعی جو منہجِ نبوت کی پابندی اور سبیل المومنین کی اتباع کرتا ہے، فہم صحابہ اور جنہوں نے بطریقۂ احسن اُن کی پیروی کی، اُن کی بجا آوری کرتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس صورتحال کی اصلاح یا اس کے علاج میں شریک ہونے کا عزم کرکے اُس نے ایک عظیم امانت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔
آپ کی کیا نصیحت ہے ایسی تحریکوں یا جماعتوں کی پیروکاروں کے لئے؟
اور اس صورتحال کے علاج کے کون سے نفع بخش اور مفید طریقے ہیں؟
اور ایک مسلمان کس طرح بروزِ قیامت اﷲ تعالیٰ کے سامنے بریٔ الذمہ ہوگا؟



جواب ازمحدثِ زماں علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ
انبیاء و رسل ﷩ کے منہج کے مطابق سب سے پہلے توحیدِ ربانی کی خصوصیت سے دعوت دینا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔مسلمانوں کی جوز بوں حالی ابھی سوال میں بیان ہوئی، ہم اس پر مزید بیان کریں گے، وہ یہ کہ یہ الم ناک صورتحال اس سے بدتر نہیں جو صورتحال جاہلیت میں عرب کی ہوا کرتی تھی کہ جب اُن میں ہمارے نبی محمد رسول ﷺ مبعوث ہوئے۔کیونکہ ہمارے پاس تو رسالت موجود ہے، اور اس کی تکمیل بھی ، اور ایسا گروہ بھی جو حق پر قائم ہے ، جن کے ذریعے ہدایت ملتی ہے، اور یہ طائفہ منصورہ لوگوں کو عقیدہ وعبادت اورسلوک و منہج کے اعتبار سے صحیح اسلام کی طرف بلاتے ہیں ۔

بلاشبہ مسلمانوں کے بہت سے گروہوں کی جو حالت ہے، وہ دورِ جاہلیت کے عرب کی مانند ہے۔اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اُن کا علاج بھی وہی علاج ہے، اور ان کی دوا بھی وہی دواہے۔ چنانچہ جیسے نبی اکرم ﷺ نے اس جاہلیتِ اوّل کا علاج کیا تھا،اسی طرح تمام موجود ہ داعیانِ اسلام کو کلمۂ توحید لا إله إلا اﷲ (اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودنہیں) کے سوےفہم کا علاج کرنا ہوگا، اور اُنہیں چاہئے کہ اپنی اس الم نا ک حالت کا اسی دوا سے علاج کریں۔اس کا معنیٰ بالکل واضح ہے، اگر ہم اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور تدبر کریں:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
''یقیناتمہارے لئے رسول اﷲﷺمیں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ تعالیٰ اورقیامت کے دن پر یقین رکھتا اوربکثرت اﷲکو یاد کرتا ہے۔''
سومسلمانوں کی موجود ہ صورتحال کی اصلاح اور ہر زمانے کے لئے بھی رسول اﷲﷺ ہی بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسی چیز سے ابتدا کریں جس سے ہمارے نبیﷺ نے ابتدا کی تھی یعنی سب سے پہلے مسلمانوں کے فاسد عقائد کی اصلاح کرنا، پھر اِس کے بعد اُن کی عبادتوں کی ، اور پھر اُن کے رویوں میں پائے جانی والی خرابیوں کی۔

میری اس ترتیب سے کہ سب سے پہلے اہم ترین چیز سے شروع کرنا چاہئے پھر اس کے بعد جو اہم ہو، پھر جو اس کے بعد، سے مراد یہ نہیں کہ میں ان میں تفریق کرنا چاہتا ہوں ۔ بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ مسلمان اِس کا خصوصی اہتمام کریں۔ یہاں مسلمانوں سے میری مراد بلاشبہ داعیانِ اسلام ہیں۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہوگا کہ میں کہوں کہ مسلمانوں کے علما ، کیونکہ صد افسوس آج 'داعیان' کے اندر ہر مسلمان داخل ہوچکا ہے خواہ وہ علمی طور پر بالکل کنگال ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے آپ کو داعیانِ اسلام میں شمار کرنے لگتا ہے۔

اگر ہم اس معروف اصول کویاد رکھیں جو صرف علماے کرام ہی نہیں بلکہ ہر عقل مند جانتا ہے :"فاقد الشيء لا یعطیه" (جو کسی چیز کا خود حامل نہیں وہ دوسروں کو نہیں دے سکتا )۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں پر مشتمل ایک بہت بڑا گروہ ہے، جب دعا ۃ (داعیوں ) کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہےتواُن کی طرف لوگوں کی نظریں اُٹھتی ہیں۔ میری اس سے مراد 'تبلیغی جماعت' ہے، باوجود اس کے کہ 'اکثر لوگوں' پر اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:

﴿ وَلـكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿١٨٧﴾... سورة الاعراف
''اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔''
اُن کے طریقۂ دعوت کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ جن اُمور کا میں نے ابھی ذکر کیا یعنی عقیدہ ، عبادت اور سلوک ،اُن میں سے پہلی یا اہم ترین بات کے اہتمام سے وہ مکمل طور پر اِعراض برتتے ہیں ۔ اس اصلاح سے جس سے نہ صرف رسول اﷲﷺ نے بلکہ تمام انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے آغاز فرمایا، جسے اﷲ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا:

﴿وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَ‌سولًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطّـغوتَ...٣٦﴾... سورة النحل
''ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول بھیجا جس نے یہی دعوت دی کہ ایک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔''
پس یہ لوگ اس بنیادی دعوت اور ارکانِ اسلام كے اس رکنِ اوّل کی قطعاً پروا نہیں کرتے جیسا کہ اہل علم مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ توحید ہی وہ بنیادی اساس ہے جس کی دعوت تمام رسولوں میں سے پہلے رسول حضرت نوح تقریباً ہزار سال دیتے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلی شریعتوں میں ان احکام ِ عبادات ومعاملات کی تفصیل موجود نہ تھی جو ہمارے دین میں معروف ہیں، کیونکہ یہ دین تمام سابقہ شریعتوں اور ادیان کو ختم کرنے والا ہے، اس کے باوجودحضرت نوح اپنی قوم میں پچاس کم ہزار سا ل رہے اور اپنا تمام تروقت اور اہتمام اسی دعوتِ توحید پر صرف فرمایا،لیکن اُن کی قوم نے اُن کی دعوت سے اِعراض برتا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں بیان فرمایا:

﴿وَقالوا لا تَذَرُ‌نَّ ءالِهَتَكُم وَلا تَذَرُ‌نَّ وَدًّا وَلا سُواعًا وَلا يَغوثَ وَيَعوقَ وَنَسرً‌ا ﴿٢٣﴾... سورة نوح
''اور اُنہوں نے کہا: ہر گز نہ چھوڑنا اپنے معبودات کو ، نہ چھوڑنا وَدّ، سواع ، یغوث، یعوق اور نسرکو۔''
پس یہ دلائل اس بات پر قطعی دلالت کرتے ہیں کہ وہ داعیان کو جو 'صحیح وبرحق اسلام' کی جانب دعوت دینا چاہتے ہیں، اُن کے نزدیک سب سے اہم چیز اور جس کی دعوت کا ہمیشہ اہتمامِ خاص کرنا چاہئے وہ دعوتِ توحید ہے اور یہی معنیٰ ہے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کا:

﴿ فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلـهَ إِلَّا اللَّهُ...١٩﴾... سورةمحمد
''جان لو، اس بات کا علم حاصل کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔''
اور یہی تھی سنتِ نبوی ﷺ عملاً و تعلیماً...!!
جہاں تک اُن کے فعل کا تعلق ہے تو اس پر زیادہ ڈھونڈنے یا ریسرچ کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺکے مکی دور میں آپ ﷺ کے افعال اور دعوت کا غالب حصہ اپنی قوم کو اس بات کی دعوت دینے پر منحصر تھا کہ ایک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں۔
جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے تو انس بن مالکؓ کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں وارد ہے کہ رسول اﷲﷺنے جب معاذ کو یمن روانہ فرمایا تو حکم ارشاد فرمایا :

«فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ الله، فَإِذَا عَرَفُوا الله، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الله قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ، فَإِذَا فَعَلُوا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الله فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا، فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ»
'' سب سے پہلے اُنہیں اللّٰہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کو پہچان لیں (یعنی اسلام قبول کر لیں) تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اسے بھی ادا کریں تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی (جو صاحب نصاب ہوں گے) اور اُنہیں کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر۔ البتہ ان کی عمدہ چیزیں (زکوٰۃ کے طور پر لینے سے) پرہیز کرنا۔''
یہ حدیث لوگوں کو معلوم ہے اور بہت مشہور ہے ۔

چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کو اسی چیز سے ابتدا کرنے کا حکم فرمایا جس سے خود آپ ﷺ نے ابتدا فرمائی تھی اور وہ توحید کی جانب دعوت تھی۔ بلاشبہ وہ مشرکین عرب جو اس بات کو خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے جو اُن کی زبان میں کہا جاتا تھا، اُن میں اور مسلمانوں کی آج کل ایک غالب اکثریت میں بہت فرق ہے جنہیں اس بات کی آج دعوت نہیں دینی پڑتی کہ وہ زبان سے "لا إله إلا اﷲ" کہیں کیونکہ یہ سب تو پہلے ہی اپنے مذاہب ، طریقوں اور عقائد کے اختلافات کے باوجود اس کے قائل ہیں۔ یہ سب کہتے ہیں کہ لا إله إلا اﷲ، لیکن درحقیقت یہ اس بات کے زیادہ ضرورت مند ہیں کہ وہ اس کلمۂ طیبہ کا فہم حاصل کریں۔ یہ ایک بنیادی فرق ہے ان اوّلین عرب میں جنہیں رسول اﷲﷺ نے جب اس بات کی دعوت دی کہ وہ لا إله إلا اﷲ کہیں تو وہ تکبر کرتے تھے جیسا کہ قرآنِ کریم میں صریحاًبیان ہوا۔

وہ کیوں تکبر کرتے تھے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کلمے کامعنیٰ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو برابری والا نہ بناؤ اور نہ ہی اس کے سوا کسی کی عبادت کرو، جبکہ وہ اس کے سوا اوروں کی بھی عبادت کرتے تھے۔پس وہ غیر اﷲ کی نذرونیاز، غیر اﷲ سے توسل ، غیر اﷲ کے لئے ذبح اور اﷲ تعالیٰ کے حکم کے سو ا دوسرے احکام پر چلتے یہاں تک کہ وہ غیر اﷲ سے استغاثہ (فریاد) تک کرتے تھے۔

یہ وہ مشہور شرکیہ اور وثنیہ (بت پرستی، قبر پرستی وغیرہ) وسائل ہیں جن میں وہ مبتلا تھے ، اس کے باوجود وہ اس کلمۂ طیبہ لا إله إلا اﷲ کے لوازم کو عربی لغت کے اعتبار سے جانتے تھے کہ ان تمام اُمور کو چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ یہ لا إلٰه إلا اﷲ کے معنیٰ کے منافی اُمور ہیں۔

نوٹ:
مکمل مضمون مع حوالہ جات مطالعہ کرنے کےلیے کلک کریں۔۔۔ محدث میگزین
 
Top