محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۰ۚ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا۰ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ۰ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْف۰ۭ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَيْھِمْ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ حَسِيْبًا۶ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ كَثُرَ۰ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۷
۲؎ نوع انسانی کے لیے اجتماعی زندگی میں ایسے روابط کی سخت ضرورت ہے جو باہمی تعاون وتوافق کے زیادہ سے زیادہ ترغیب کا باعث ہو سکیں اور جو یہ بتا سکیں کہ انسانی عائلہ کس طریق پر ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور ان کے آپس کے تعلقات کس درجہ فطری اورطبعی ہیں۔ اسلام جو اجتماعی فلاح وسعادت کا سب سے بڑا حامی ہے، کیوں کر ایسے اہم رشتے کو فراموش کرسکتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے باہمی انس وتعاون کی بنیاد ڈالی اورہرمسلمان کو ''وصیت'' پر آمادہ کیا۔ چنانچہ اوّل اوّل لوگ اپنے مال سے کچھ حصہ بطور ''وصیت'' کے بلا تخصیص قرابت وضع کرجاتے جو ان کے بعد ان لوگوں کو ملتا جن کے حق میں وصیت کی جاتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس جذبۂ تعاون وتوافق کی اہمیت کو محسوس کریں۔ بعدمیں میراث کی آیتیں نازل ہوئیں۔جن میں قرابت والوں کے حصے بیان کئے گئے اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب فتوحات اسلامی بہت وسیع ہوگئیں اور مسلمان خاصے مال دار ہوگئے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک عام انسانی تعلق زیادہ قابل اعتناء ہے ۔زمانۂ جاہلیت میں عورتیں حقوق میراث سے محروم قراردی جاتیں۔ عرب کہتے تھے ، میراث کا وہ حق دار ہے جو میدان جنگ میں قومی عزت کے لیے لڑے اور مال غنیمت جمع کرے ۔عورتیں ہرگز اس کی مستحق نہیں۔موجودہ کتب مذہبی بھی تقریباً تمام عورتوں کو حقوق میراث سے محروم رکھتی ہیں۔قرآن مجید نے بیان کیا کہ عورتیں بھی اسی طرح حق دار ہیں جس طرح مرد،اس لیے کہ فطرت نے سواجنسی عوارض ولوازم کے عورت اور مرد میں اورکوئی تقسیم جائز نہیں رکھی۔ تمام عورتیں نفس انسانیت میں مرد کے برابر ہیں، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انھیں اس انسانی حق سے محروم رکھا جائے۔وہ مذاہب جو عورت کے اس طبعی وفطری حق کے حامی نہیں، وہ کس منہ سے اس کے احترام کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے سوا اورکسی مذہب نے مرد اور عورت کے صحیح معنوں کو نہیں سمجھا۔
{ نَصِیْبٌ}حصہ {مَفْرُوْضًا} مقرر ومتعین۔غیرمشکوک۔
۱؎ ان آیات میں بھی یتامیٰ کے ساتھ بہتر سلوک کی تعلیم دی ہے اورہدایت کی ہے کہ ان کے مال کو حتی الامکان نقصان نہ پہنچایا جائے اورا س وقت تک انھیں ان کا مال واپس نہ دیاجائے جب تک کہ وہ خود اس سے استفادہ کے قابل نہ ہوجائیں اورصاحب حیثیت امراء اگربہت کم ضروریات پر ان کا مال صرف کریں اور خود اس میں سے کچھ نہ لیں توزیادہ بہتر ہے اورجب مال دیں تو گواہ مقرر کر لیں ، تاکہ آئندہ چل کر کوئی خرابی نہ نکلے۔اور یتیموں کو آزماؤ۔۱؎ یہاں تک کہ وہ نکاح کی حد کو پہنچیں۔ اگرتم ان میں ہوشیاری پاؤ تو ان کے مال ان کو دے دو اور اس خوف سے کہ کہیں وہ بڑے نہ ہوجائیں، ان(مالوں) کوضرورت سے زیادہ اور جلدی سے نہ کھاؤ اورجو کفیل غنی ہو، اس کو چاہیے کہ بچتا رہے اور جو محتاج ہو تو وہ موافق دستور کے کھائے۔ پھر جب تم یتیموں کا مال انھیں دو تو ان پر گواہ مقرر کرلو اور خدا کافی ہے حساب لینے والا۔(۶)جو کچھ والدین اورناتے والے چھوڑمریں،اس میں مردوں کا حصہ ہے اور جو کچھ والدین، اور ناتے والے چھوڑ مریں اس میں عورتوں کا حصہ ہے ۔ مال تھوڑا ہو یا بہت، یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔۲؎ (۷)
اسلام اورتقسیم میراث
۲؎ نوع انسانی کے لیے اجتماعی زندگی میں ایسے روابط کی سخت ضرورت ہے جو باہمی تعاون وتوافق کے زیادہ سے زیادہ ترغیب کا باعث ہو سکیں اور جو یہ بتا سکیں کہ انسانی عائلہ کس طریق پر ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور ان کے آپس کے تعلقات کس درجہ فطری اورطبعی ہیں۔ اسلام جو اجتماعی فلاح وسعادت کا سب سے بڑا حامی ہے، کیوں کر ایسے اہم رشتے کو فراموش کرسکتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے باہمی انس وتعاون کی بنیاد ڈالی اورہرمسلمان کو ''وصیت'' پر آمادہ کیا۔ چنانچہ اوّل اوّل لوگ اپنے مال سے کچھ حصہ بطور ''وصیت'' کے بلا تخصیص قرابت وضع کرجاتے جو ان کے بعد ان لوگوں کو ملتا جن کے حق میں وصیت کی جاتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس جذبۂ تعاون وتوافق کی اہمیت کو محسوس کریں۔ بعدمیں میراث کی آیتیں نازل ہوئیں۔جن میں قرابت والوں کے حصے بیان کئے گئے اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب فتوحات اسلامی بہت وسیع ہوگئیں اور مسلمان خاصے مال دار ہوگئے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک عام انسانی تعلق زیادہ قابل اعتناء ہے ۔زمانۂ جاہلیت میں عورتیں حقوق میراث سے محروم قراردی جاتیں۔ عرب کہتے تھے ، میراث کا وہ حق دار ہے جو میدان جنگ میں قومی عزت کے لیے لڑے اور مال غنیمت جمع کرے ۔عورتیں ہرگز اس کی مستحق نہیں۔موجودہ کتب مذہبی بھی تقریباً تمام عورتوں کو حقوق میراث سے محروم رکھتی ہیں۔قرآن مجید نے بیان کیا کہ عورتیں بھی اسی طرح حق دار ہیں جس طرح مرد،اس لیے کہ فطرت نے سواجنسی عوارض ولوازم کے عورت اور مرد میں اورکوئی تقسیم جائز نہیں رکھی۔ تمام عورتیں نفس انسانیت میں مرد کے برابر ہیں، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انھیں اس انسانی حق سے محروم رکھا جائے۔وہ مذاہب جو عورت کے اس طبعی وفطری حق کے حامی نہیں، وہ کس منہ سے اس کے احترام کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے سوا اورکسی مذہب نے مرد اور عورت کے صحیح معنوں کو نہیں سمجھا۔
حل لغات
{ نَصِیْبٌ}حصہ {مَفْرُوْضًا} مقرر ومتعین۔غیرمشکوک۔